واقعہ معراج : مختصرترین وقت کا طویل ترین سفر


تحریر مولانا اعجاز حسین غریبی


سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَیْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأقْصَى الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ

ترجمہ پاک منزہ ہے وہ اللہ کہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا کہ جس کا ماحول با برکت ہے؛تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاںدکھائیں۔یقینا وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

رجب المرجب کا مہینہ اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ کریم نے اس ماہ مقدس میں اپنے پیارے حبیب ﷺ کو معراج جسمانی عطافرمائی۔ یہ وہ خارق العادات واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفل دروازوں کو کھولا اور انسان کو خلاء کے راستوں کی جستجو ڈالی۔ اس واقعہ کی منزل لامکاں و لاقیود تھی، لہذا قید و مکاں کی اس دنیا میں اس کی مثل اور ادراکِ کامل ممکن نہیں۔

واقعہ معراج کے تین مراحل :

سب سے پہلا مرحلہ مسجد الحرام سے مسجد الاقصی (قبلہ اول بیت المقدس شریف) تک ہے۔ اس مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں زندہ اور حالت صلاۃ میں دیکھا۔ صحیح مسلم شریف کے باب فضائل موسی علیہ السلام کے تحت حدیث نمبر 2375 میں ہے کہ آقا کریم ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات جب میں موسی علیہ السلام کی قبر سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں کھڑے صلاۃ پڑھ رہے تھے، اسی مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس شریف میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی۔

دوسرا مرحلہ بیت المقدس شریف سے سدرۃ المنتہی تک سفر اور جنت و دوزح کو دیکھنے کا ہے، اس مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ نے تمام آسمانوں پر مختلف انبیاء کرام سے ملاقاتیں کیں اور ہر آسمان پر آپ کا شایانِ شان استقبال ہوا۔

رسول اللہ ﷺ کی معراج کا سب سے اہم مرحلہ تیسرا مرحلہ ہے، اور درحقیقت معراج مصطفی ﷺ وہ تیسرا مرحلہ ہی ہے۔ یہ سدرۃ المنتہی سے لے کر وصال ربوبیت کا مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ کو اپنی حیثیت اور علم کے مطابق بیان کرنے سے قبل ا ایک اہم نکتہ پیش ہے کہ اللہ کریم نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا: ”وما ارسلناک الا رحمۃ اللعالمین“ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ قرآن کریم کے الفاظ پر غور کریں کہ فرمایا تمام جہانوں کے لیے رحمت۔ لہذا رسول اللہﷺ اس جہاں دنیا کے لیے، آسمانوں کے لیے، اور جہاں جہاں جہان آباد ہے، چاہے وہ یہ زمین ہو یا کوئی اور سیارہ، ہماری کہکشاں میں یہ ہمارا سولر سسٹم ہو یا کائنات میں کہیں دور لاکھوں نوری سال کی دوری پر موجود کسی اور کہکشاں میں کوئی اور سولر سسٹم، سدرۃ المنتہی ہو یا جنت الفردوس کے محلات، جہاں کہیں بھی کوئی جہان ہے، وہاں رسول اللہ ﷺ کی رسالت ورحمت موجود گویا تمام مخلوق اور تمام جہان رسول اللہ ﷺ کی رحمت کے تحت ہیں۔ لہذا جو جگہ، شے، مکاں اور جہان خود رحمتِ نبی ﷺ کے تحت ہوں وہاں اس نبی ﷺ کی معراج کا کمال کیسے ممکن ہے؟ معراج کا کمال ہی تب ہوگا جب نبی ﷺ اپنی حدودِ رسالت و رحمت سے نکل کر خاص وصال ربوبیت کے انوار و تجلیات میں جائے گا۔

اللہ کریم نے سورۃ النجم میں ارشاد فرمایا کہ:

ما ضل صاحبکم وما غوی

اور تمہارے صاحب (حضور نبی مکرم ﷺ اپنے سفر معراج میں) میں بھٹکے نہ بہکے۔

اس آیت کریمہ کا اطلاق بھی معراج کے تیسرے مرحلہ میں ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے تو لاکھوں فرشتے ساتھ تھے، براق کی سواری تھی، لے جانے والے جبرئیل تھے تو اس پوری سیر میں بھٹکنے اور بہکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس آیت کا اطلاق ہی تب ہوا جب جبرئیل نے کہا؛

یا رسول اللہ ﷺ لو دنوت انملۃ لاحترقت

یا رسول اللہ ﷺ اگر میں انگلی کے ایک پورے کے مانند بھی اس سے آگے بڑھا تو ضرور جل جاؤں گا۔ بحوالہ تفسیر روح البیان، جلد اول، تفسیر نیسابوری، جلد اول، تفسیر القشیری، تفسیر رازی۔

قرآن و حدیث میں پہلے دو مراحل کے کئی واقعات موجود ہیں لیکن تیسرے مرحلے کا بغیر وضاحت و تفصیل فقط اشارۃً بیان ہے کیونکہ انسانی عقل جہاں تک بھی ترقی کر لے تیسرے مرحلہ کے ادراک کی ابتداء کو بھی نہیں پہنچ سکتی، اس لئے اللہ کریم نے اس مرحلہ کے بارے میں فقط اتنا فرمایا کہ

ثم دنی فتدلیo فکان قاب قوسین او ادنیo فاوحی الی عبدہ ما اوحیo

ترجمہ: پھر وہ (رب کریم اپنے محبوب سے) اور قریب ہوا اور پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پس پھر (رب کریم اور نبی کریم ﷺ) کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا (وصال خداوندی میں وہ فاصلہ) اس سے بھی کم ہو گیا۔ پھر اس (اللہ کریم) نے جو چاہا اپنے بندہِ خاص (رسول مکرم ﷺ) پر وحی فرمائی۔

واقعہ معراج شاہ سید محمد نوربخشؒ کی نظر میں

یہ بات تو مسلم ہے کہ رسول اکرام ؐ جس وقت مکہ میں تھے ایک ہی رات میں آپؐ قدرت الٰہی سے مسجد الحرام سے مسجداقصیٰ
(بیت المقدس) پہنچے،وہاں سے آپؐ آسمانوں کی طرف لئے گئے آسمانی رستوں میں عظمت الہی کے آثار مشاہدہ کئے اسی رات مکہ واپس آگئے۔مگر اس سفر کےباب اس بات پر اختلاف ہے کہ اس سیر میں جسم معہ روح کے ساتھ تھا یا صرف روح تھی۔بعض مفسرین نے کہا ہے جسم معہ روح اس سفر میں شامل تھے دوسرے بعضوں کا کہنا ہے چونکہ یہ سفر عجیب وغریب اور بنظیر تھی لہذا انہوں نے توجہ کر کے اسے معراج روحانی قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک طرح کا خواب تھا یا کاشفہ روحی تھا ،معراج النبی اسلام میں مسلم ہے مگر اسکی کیفیت کے بارے میں علماء اسلام میں اختلاف ہے۔
آپٖ علیہ الرحمہ مسئلہ معراج کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛

و یجب ان تعتقد ان نبینا تر قی علی المعراج وعبر علی السموات بجسد یلیق بالعروج وھو جسد مکتسب لطیف خفیف وبولوجہ مع فتح ابواب السموات لایلزم الخرق والالتیام ـ

اس بات پر رکھنا واجب ہے کہ ہمارے پیارے نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اور آپ ایسے جسم ہونیکسیاتھ آسمانوں میں بلندہوئے جو اس معراج کے لئے موزوںہو یہ جسم اکتسابی ہے جو ہلکا اور لطیف ہے اور آسمانی دروازں کے کھلنے کی صورت میں اس جسم کے داخل کے باعث کوئی خرق والتیام یعنی جوڑوتوڑ لازم نہیں آیا۔

قرآن حکیم کی دو سورتوں میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،پہلی سورت یہی سورۃ بنی اسرائل ہے،اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ہے ،یعنی مکہ مسجد احرام سے بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ تک کا سفر،اس سلسلے کی دوسری سورت ؛سور نجم ہے
اسکی آیت ۱۳تا۱۸میں معراج کا دوسرا حصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ آسمانی سیر کے متعلق ہے ۔

ہمارے لئے وہی حجت ہے جو خود پیغمبرؐ اور ان کے جانشین ائمہ طاہرین ؑنے فرمایاہو ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مقصد معراج سے متعلق پوچھاگیا تو آپؑ نے فرمایا ،

انّ اللہ لایوصف بمکان،ولا یجری علیہ زمان ،الکنہ عزوجل اراد ان کشرف بہ ملائکتہ وسکان سماواتہ ،ویکرمھم بمشاھدتہ ،ویریہ من عجائب عظمتہ مایخبربہ بعدھبوطہ)تفسیر برھان ج ۲ ص۴۰۰؛<

ترجمہ ؛خدا ہرگز مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتا ہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسما ن کے باسیوں کو اپنے پیغمبرؐ کی تشیریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپکی زیارت کا شرف عطاکرے نیز آپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکر آپ انہیں لوگوں سے بیان کریں ۔

غور فرمائیں کہ اللہ کریم نے قرب و وصال کی کوئی حد ہی بیان نہیں کی بلکہ فقط اتنا کہہ دیا کہ دو کمانوں سے بھی زیادہ قریب ہو گئے اور پھر جو چاہا وہ اللہ نے وحی فرمایا۔ گویا اللہ کریم نے یہ بھی راز میں رکھا کہ کیا وحی فرمایا؟ کسی کو کیا غرض کہ وہ کیا وحی ہوئی۔ ایک وحی تو قرآن ہے جو ہمارے سامنے ہے اور ایک وحی واقعہ معراج کی بھی ہے جو اللہ و رسول کاآپس کا راز ہے۔ میری گفتگو کا دوسرا مرحلہ واقعہ معراج اور البرٹ آئن سٹائن کی تھیوری پر مشتمل ہے۔ اگرچہ واقعہ معراج کے ادنی ادراک کو بھی جدید سے جدید سائنس نہیں پہنچ سکتی کیونکہ واقعہ معراج فقط قدرت رب تعالی اور رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے۔لیکن جدید سائنس کی روشنی میں ہم کسی حد تک اس واقعہ کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ضمناً ایک نکتہ عرض ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے مسلمان بھائی یہ کہتے ہیں کہ زمین کے مدار سے باہر کوئی نہیں جاسکتا، کوئی جائے گا تو وہ تباہ ہو جائے گا۔

اس مسئلہ میں عرض ہے کہ؛ یہ بات سراسر غلط ہے۔ اللہ کریم نے قرآن کریم میں بیان فرمایا؛

والقمر اذا اتسقo لترکبن طبقا عن طبقo فما لھم لا یومنونo (سورۃ الانشقاق)

ترجمہ: قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے۔ تم ضرور طبق در طبق سواری کرو گے۔ پس کیا ہے انہیں کہ (وہ اللہ کی بیان کی ہوئی پیشن گوئیوں پر) ایمان نہیں لاتے۔

آیت کریمہ میں واضح ہے کہ انسان پہلے ایک طبق پر جائے گا اور پھر اس سے دوسرے طبق پر جائے گا۔ اللہ کریم نے یہ راستہ و طریقہ بیان فرمایا ہے نہ کہ خلائی سفر و سیاروں کی تسخیر کی حد، اب جدید سائنس نجانے کتنے طبقات تک سفر کرے گی۔ عند اللہ طبق سے مراد کیا ہے؟ یہ بات مزید تحقیق طلب ہے کہ طبق سے مراد ایک سیارہ ہے یا خلائی سٹیشن یا ایک پورا سولر سسٹم۔ لہذا انسان کا خلاء میں جانا اور دیگر سیاروں کو تسخیر کرنا ناممکن نہیں۔

معراج کے دن حضور ﷺ نے کیا دیکھا

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرایا گیا میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔میں نے جبرائیل ؑسے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
آپ ﷺنے فرمایا کہ میرا گزر ایسے لوگوں پر بھی ہوا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں۔ ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سود کھانے والے ہیں۔
آپ ﷺ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے۔کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہوجاتے تھے جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہورہا تھا۔ آپﷺ نے پوچھا :یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ فرض نماز میں سستی کرنے والے ہیں۔
آپ ﷺکا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور اونٹ وبیل کی طرح چرتے ہیں اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھارہے ہیں۔آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔
آپﷺکا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے۔یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ۔ آپﷺ نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل ؑ نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کیساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کیساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔
آپﷺ نے اس سفر میں ایک لکڑی دیکھی جو گزرنے والوں کے کپڑوں کو پھاڑ ڈالتی ہے۔ اس کے بارے میں جبرائیل امین نے بتایا کہ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو راستوں میں چھپ کر بیٹھتے ہیں اور ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
ایک ایسے شخص پر بھی آپﷺ کا گزر ہوا جس نے لکڑیوں کا بھاری گٹھہ جمع کر رکھا اور اس میں اٹھانے کی ہمت نہیں، پھر بھی لکڑیاں جمع کر کر کے گٹھے کو بڑھا رہا ہے۔ پوچھنے پر جبرائیل امین نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جو صحیح طور پر امانت ادا نہیں کرتا۔
آپﷺ کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور باچھیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں۔ جبرائیل ؑ نے بتایا کہ یہ آپﷺ کی امت کے بے عمل عالم ہیں۔ اس طرح آپﷺ کا گزر خوشبو والی جگہ سے ہوا ۔جبرائیل ؑ نے بتایا کہ یہ جنت ہے اور بدبو والی جگہ جہنم سے بھی گزر ہوا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے جس میں ہے کہ آپﷺ نے دجال اور داروغہ جہنم(جس کا نام مالک ہے) کو بھی دیکھا ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ اس سفر میں آپﷺ کا گزر ایک بڑھیا پر ہوا۔ اس نے آپﷺ کو آواز دی۔ حضرت جبرائیل ؑ نے آپﷺ سے عرض کیا کہ آگے چلئے۔ پھر آپﷺ کا گزر ایک بوڑھے شخص پر ہوا ۔اس نے بھی آپﷺ کو آواز دی ۔حضرت جبرائیل ؑ نے کہا آگے چلئے۔ اس کے بعد آپﷺ کا گزر ایک جماعت پر ہوا جنہوں نے آپﷺ کو سلام کیا۔ جبرائیل امین نے کہا کہ ان کے سلام کا جواب دیجیے۔ پھر عرض کیا کہ بوڑھی عورت دنیا ہے۔ بوڑھا مرد شیطان ہے، دونوں کا مقصد آپﷺ کو اپنی طرف مائل کرنا تھا اور جس جماعت نے آپﷺ کو سلام کیا وہ حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ہیں۔
امام احمد نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کو شب معراج کے موقع پر خوشبو آئی تو آپﷺ نے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے ؟ تو جبرائیل امین نے کہا کہ یہ کنگھی کرنے والی(ماشاطہ)اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ پھر اس کامکمل واقعہ آپﷺ کو سنایا کہ ماشاطہ فرعون اور اس کی اولاد کو کنگھی کیا کرتی تھی۔ ایک بارجب وہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھی اچانک اسکے ہاتھ سے کنگھی گر گئی تو اس نے کہا : بسم اللہ۔ فرعون کی بیٹی نے دریافت کیا میرے باپ کے بارے میں کہہ رہی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ جو میرا اور تیرے باپ کا رب ہے یعنی اللہ رب العزت۔ فرعون کی بیٹی نے معاملہ اپنے باپ کے دربار تک پہنچا دیا ۔ فرعون نے ماشاطہ سے پوچھاکہ کیا تو میرے علاوہ کسی کو رب مانتی ہے؟ اس عورت نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ ہاں جو میرا اور تیرا رب ہے، چنانچہ فرعون نے طیش میں آ کر ایک تانبے کے بڑے برتن میں پانی گرم کرایا اورحکم دیا کہ اس ماشاطہ اور اس کی اولاد کو اس کھولتے ہوئے پانی میں پھینک دیا جائے۔ پھر فرعون نے ما شاطہ سے پوچھا کہ تیری کوئی خواہش ہے تو بتا۔ اس نے کہا کہ ہاں میری اور میری اولاد کی ہڈیاں اکٹھی کر کے ایک جگہ دفنا دینا،چنانچہ اس کی اولاد کو ایک ایک کر کے ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا گیا جب اس کے شیر خوار بچے کی باری آئی تو خاتون کی ممتا نے جوش مارا اور وہ ذرا پیچھے ہٹی تو اس شیر خوار بچے نے کہا: اماں جان !بے خوف و خطر اس میں کود جا۔ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے چنانچہ وہ ماشاطہ اس کھولتے ہوئے پانی میں کود گئی۔
اسی طرح آپﷺ نے چند اہل جنت کے احوال بھی مشاہدہ فرمائے۔ چنانچہ آپ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو ایک ہی دن میں بیج بوتی اور فصل کاشت کر رہی تھی۔ ان کے بارے میں جبرائیل ؑنے بتایا کہ یہ آپﷺ کی امت کے مجاہدین ہیں۔ ان کی ایک نیکی700 نیکیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے۔اسی طرح بعض صحابہ کرام کے محلات بھی آپﷺ نے اس سفر میں دیکھے۔
نبی ﷺ بیت المقدس پہنچے جہاں پہلے سے انبیائے کرام علیہم السلام اور ملائکہ آپﷺ کی انتظار میں تھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا اور مصلیٰ امامت پر کھڑا کردیا ۔آپﷺ نے ان سب کو 2 رکعات نماز پڑھائی ۔سارے انبیائے کرام علیہم السلام امام الانبیاء ﷺسے مشرف ہوئے۔پھر بعض انبیائے کرام علیہم السلام کی ارواح سے اللہ کی حمد سنی اور آخر میں خود آپﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ امام زرقانی نے اس واقعے کو مفصل ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد جب آپ ﷺمسجد سے باہر تشریف لائے تو آپﷺ کے سامنے پانی، شراب اور دودھ کا ایک ایک پیالہ پیش کیا گیا ۔ آپ ﷺنے دودھ کا پیالہ لیا جس پر جبرائیل امین نے کہا کہ آپﷺ نے دین فطرت کو لیا ہے۔ اگر آپﷺ شراب کا پیالہ لیتے تو آپﷺ کی امت گمراہ ہو جاتی اور اگر پانی کا پیالہ لیتے تو آپﷺ کی امت غرق ہو جاتی۔
پھربیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر شروع ہوا،چنانچہ بالترتیب پہلے تا ساتویں آسمان پر آپﷺ نے حضرت آدم ، حضرت عیسیٰ،حضرت یوسف ،حضرت ادریس ، حضرت ہارون ، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات فرمائی۔ پہلے آسمان پر ملاقات حضرت آدم ؑ سے ہوئی۔ ان کا حق پہلے بنتا تھا کیونکہ آپ ؑ ابو الانبیاء ہیں، پھر حضرت عیسیٰ ؑسے ہوئی، حضرت عیسیٰ ؑ وہ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھالیا ہے، پھر دوبارہ اللہ تعالیٰ نے اتارنا ہے،اسکے بعد حضرت یوسف ؑ سے ملاقات کرائی ۔ حضور ﷺ کو یہ بتانے کیلئے کہ جیسے آپﷺ نے مکہ میں اپنوں سے سختیاں جھیلی ہیں ، یوسف ؑ کے ساتھ بھی اپنوں نے یہ حشر کیا تھا لیکن ایک وقت آیا تھا کہ یہ فاتح بنے تھے۔ انہوں نے اپنوں کو معاف کیا تھا۔حضور!ایک وقت آنا ہے کہ آپﷺ نے بھی فاتح بننا ہے تو یوسف کی طرح آپ ﷺنے بھی معاف کردینا ہے،پھر حضرت ادریس ؑسے ملاقات ہوئی ۔حضور ﷺ نے مکہ سے مدینہ جانا تھا اور بادشاہوں کوخطوط لکھنے تھے تو فرمایا: ادریس سے ملیں ۔انہوں نے خطوط ایجاد کیے ہیں۔پھر حضرت ہارون ؑسے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ جب تورات لینے کیلئے کوہ طور پر گئے تھے تو پیچھے حضرت ہارون تھے۔انکی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی ہے،تو انہیں قتل کر دیا گیا۔ حضرت ہارون ؑ کے دور میں شرک ہوا تو انکی قوم قتل ہوئی ۔ اے نبیﷺ! اگر آپﷺ کی قوم شرک کریگی تو ان کو میدانِ بدر میں قتل کیا جائیگا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقا ت کرائی ۔
حضور ﷺ اوپر گئے ہیں ۔اوپر سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ ’’سدرہ‘‘ بیری کا نام ہے اور منتہیٰ کہتے ہیں اختتام کو ۔یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں نیچے والے اعمال پہنچتے ہیں تو اوپر والے فرشتے یہاں سے اوپر لے جاتے ہیں اور اوپر والے احکام وہاں آتے ہیں تو نیچے والے فرشتے وہاں سے نیچے لاتے ہیں، اس کے بعد آپﷺ مزید اوپر’’صریف الاقلام‘‘ تک پہنچے ہیں، ’’صریف الاقلام ‘‘ جہاں تقدیر لکھنے والے قلموں کی آواز آ رہی تھی ۔اس کے بعد آپﷺ کے لیے ایک اور سواری’’ رفرف‘‘ آئی وہاں سے اوپر گئے ہیں۔ اب مکان ختم ہوگیا اور لا مکان آگیا ہے، میرے نبیﷺ عرش معلیٰ تک پہنچے ہیں۔
اسی موقع پر 5 نمازوں کی فرضیت کا حکم بھی ہوا۔ پہلے پہل تو50 نمازوں کا حکم تھا ۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ البقرہ کی آخری چند آیات بھی اسی سفر معراج میں بطور تحفہ آپﷺ کو عنایت کی گئیں۔
آپﷺ رات کے مختصر وقت میں تاریخِ انسانی کا سب سے طویل سفر طے کیا جس میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیائے کرام و ملائکہ کی امامت،پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیائے کرام سے ملاقات اور سدرۃ المنتہیٰ ، صریف الاقلام قاب قوسین تک رسائی۔ جنت ودوزخ کا مشاہدہ کر کے واپس تشریف لائے۔
صبح اٹھ کر آپﷺ نے اپنے رات والے واقعے کو بیان کیا تو قریشی جھٹلانے لگے ۔قریش مکہ حضور اکرم ﷺ سے بیت المقدس کے احوال دریافت کرنے لگے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم ﷺکے سامنے ظاہر فرمادیا۔ آپﷺ حطیم کعبہ میں تشریف فرما تھے۔ قریشی لوگ سوال کرتے آپ ﷺان کے سوالوں کا جواب دیتے گئے۔

واقعہ معراج اور

Theory of Relativity

جدید دور میں انسان نے چاند تک سفر کرنے کے بعد دیگر سیاروں کو تسخیر کرنے کے لئے بھی کمر کس رکھی ہے لیکن جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود انسان روشنی کی رفتار (186000 میل، یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ) کے مطابق سفر نہیں کر سکتا۔ روشنی کی رفتار کو حاصل کرنے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ 1905ء میں جدید دنیا کے سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے Theory of Relativity پیش کی۔ اس تھیوری میں آئن سٹائن نے واضح کیا کہ Time and Space کی تمام مشکلات اس نظریے کے مکمل ادراک کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے۔آئن سٹائن برسوں سوچ بچار اور تحقیق کے بعد اس نکتہ پر پہنچا کہ روشنی کی 90% رفتار سے سفر کرنے والے جسم کا حجم نصف رہ جاتا ہے اور اس کے ساتھ وقت کی رفتار بھی نصف رہ جاتی ہے۔ اس کو سادہ مثال سے لیں کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے خلائی جہاز میں جو روشنی کی 90% فیصد رفتار سے دس سال سفر کرے تو اس شخص پر زمین کے مقابلے میں فقط 5سال گزریں گے۔ اس کی وجہ یہ کہ انسانی جسم کے اس قدر تیز سفر کرنے سے انسان کا مکمل نظام تنفس آہستہ ہو جائے گا اور اس پر وقت کم گزرے گا۔ اس نظریے کو سائنس جاننے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں، مکمل تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں۔ اس نظریے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ”اگر کوئی شخص روشنی کی رفتار سے سفر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس پر وقت بالکل رک جائے گا“۔ اگرچہ اس رفتار سے سفر کرنا انسان کے اختیار میں نہیں لیکن اللہ کریم جو وقت، رفتار، روشنی اور مکاں کا خالق ہے وہ اگراپنی قدرت خاص سے کسی کو اس رفتار سے سفر کروا دے تو اس شخص پر وقت تھم جائے گا۔

اب اس نکتے کو ذہن میں رکھیں اور آیات و احادیث کا مطالعہ کریں تو ہمیں واقعہ معراج کچھ اس طرح سے ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ براق (برق کی جمع اور برق عربی زبان میں بجلی، روشنی کو کہتے ہیں) پر سواری فرمائی۔ معراج کی رات بیت الحرام سے بیت المقدس۔ بیت المقدس میں امامت۔بیت المقدس سے ہر آسمان سے ہوتے ہوئے سدرۃ المنتہی۔ جنت و دوزخ کا معائنہ۔ پھر وصل الہی کا سفر۔ واپس تشریف آوری ہوئی تو وضو کا پانی ابھی بہہ رہا تھا اور بستر بھی گرم تھا۔ اتنے کم وقت چند سیکنڈ یا منٹ میں لاکھوں کروڑوں میل بلکہ نوری فاصلوں کا سفر کیسے ممکن ہو گیا۔ آئن سٹائن کا نظریہ ہمیں یہ معجزہ سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ اگر انسان نوری رفتار سے سفر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس پر وقت تھم جائے گا۔ اور یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ معراج کے لیے برّاق کو بھیجا گیا۔ عربی میں برّاق برق کی جمع ہے اور عربی جمع کا کم از کم اطلاق تین کے عدد پر ہوتا ہے۔ لہذا اگر زیادہ نہ سہی برّاق کو تین برق ہی مان لیا جائے اور برق کا مطلب روشنی Light ہے۔ اور روشنی یا نور Light کی رفتار 186000میل فی سیکنڈ بنتی ہے۔ اور اس کو برّاق پر قیاس کرتے ہوئے 3 سے ضرب دے دیں تو یہ رفتار 558000 میل فی سیکنڈ بنے گی۔ گویا سیاحِ لامکاں ﷺ کی سواری کی کم از کم رفتار 558000 میل فی سیکنڈ تھی۔ البرٹ آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی اس تھیوری کو سامنے رکھیں اور احادیث و واقعاتِ معراج کاسائنسی مطالعہ کریں تو اس جدید نظریہ کی بنیاد پر بھی اسلام اور واقعاتِ معراج کی سچائی واضح ہوتی ہے، خاص کر معراج کے اتنے بڑے واقعے میں صرف چند سیکنڈ یا منٹ کیسے لگے، رسول اللہ ﷺ کے لئے وقت کیسے تھم گیا تھا۔

اگرچہ یہ معجزہء نبوی ﷺ ہے اور معجزہ عقل سے محال شے کو کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی حد تک سمجھنے میں آئن سٹائن کی تھیوری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اللہ کریم کی قدرت یا رسول اللہ ﷺ کا معجزہ کسی قسم کی تھیوری کے پابند و محتاج قطعاً نہیں ہو سکتے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں مقام مصطفی ﷺ کی معرفت نصیب فرمائے۔ آمین