واقعہ کربلا میں خواتین کی قربانیاں


تحریر


تحریر:سید بشارت حسین تھگسوی

thagasvi1992@gmail.com

مقدمہ

قرآن مجید کلام الہٰی ہے اور اس پاک اور منزہ کتاب میں ہر انسان کے مقامات اور مرتبت کا قانون کلیہ موجود ہے۔اسی لیے قرآن نے خواتین کو بھی بہت بلند مقام سے نوازا ہے، اس نے حوا کی بیٹی کو وہ عزت بخشی ہے جو اس سے پہلے کبھی ا سے حاصل نہ تھی۔ اس نے معاشرے میں اس کا سر بلند کیا ہے، ۔ کتاب الہی میں انسانی ضروریات کے تحت جو تحفظ انہیں عطا کیا ہوا ہے نزول قرآن سے قبل کبھی اسے حاصل نہ ہوا۔ قرآن پاک مجید میں ارشاد پروردگار ہوتا ہے۔

وَلَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلنَاھم فِی البَرِّ وَالبَحرِ وَرَزَقنَاھم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلنَاھم عَلَی کَثِیرٍ مِّمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً۔

ترجمہ :ہم نے اولاد آدم کو عزت دی۔ خشکی و سمندر کو ان کی جولان گاہ بنایا، پاکیزہ نعمتیں ان کے لیے مہیا کیں اور بہت ساری مخلوقات پر انہیں نمایاں فضیلت عطا کی۔

انسان کو جو مقام اور مرتبہ عطا ہو اہے اس میں جتنا حصہ مردوں کا ہے، اتنا ہی حصہ عورتوں کا بھی ہے۔ کیونکہ بنی آدم کا لفظ مرد وعورت دونوں پر صادق آتا ہے۔ اس میں مرد عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔کیونکہ مرد اور عورت دونوں معاشرے کی تشکیل میں برابر کے شریک ہیں اور ایک دوسرے کے محتاج بھی ہیں۔ فرق صرف روش میں ہے ۔عورت کی گود سے انقلاب جنم لیتا ہے۔ اسکی تربیت سے معاشرہ خوشحال اور بیخطر ہوتا ہے۔ اگر خواتین کو ان کے تمام حقوق دیئے جائیں تو وہ معاشرے کو جنت بنا سکتی ہیں۔ عورت انسان ساز ہے اور ان کا اہم فریضہ انسان سازی، معاشرہ سازی ہی ہے۔اسلامی تاریخ کی دقیق مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی مومنہ اور فداکار خواتین گزری ہیں جنہوں نے سیاسی اور اجتماعی امور میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اولاد کی صحیح تربیت دینے کے علاوہ خود بھی مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر دین اورمعاشرے کی اصلاح کی ہے۔ خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔

ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے اسم مبارک جہاں کہیں بھی لیا جائے تو وہاں حضرت ہو اعلیہا السلام کا نام لازم وملزوم ہے۔خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے فرزند گرامی ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تاریخ جناب ہاجرہ علیہا السلام کے بغیر نامکمل ہے۔ جناب عیسی علیہ پکا نام جناب مریم علیہا السلام کے بغیر نہیں آتا۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺکے اس انقلاب کو کامیاب بنانے اور نور اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانے میں جناب خدیجہ علیہا السلام کی قربانی نظر آئے گی، جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی ہر مشکل میں ہر جگہ اپنے بابا بزرگوارختم الانبیا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اپنے شوہر نامدار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ساتھ نظرآتی ہیں۔اس کے علاوہ دوران تبلیغ اسلام بھی کہیں کوئی ایسی فتح دکھائی نہیں دیتی جس میں خواتین کے مضبوط ارادوں کے بغیر مردوں کو کچھ حاصل ہوا ہو۔اسلام کے آغاز کی سختیوں میں ام عمار کی دلیرانہ شجاعت نظر آتی ہے، ہجرت حبشہ میں جناب ام حبیبہ کا کردار قابل تعریف ہیں۔

واقعہ کربلا میں خواتین کا کردار

واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر مولا امام حسین علیہ السلام کے با وفا ،بہادرفرزندان اور اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پر خواتین کی بے مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جس کو انسانیت کی تاریخ نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا ہے۔ ان مثالی خواتین نے باطل کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، لیکن دین اسلام کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ مقصد واقعہ کربلا کو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے میں خواتین کربلا کے کئی بے نظیر ولاثانی کردار ہیں۔یہاں پر یہ جملہ لکھا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ حادثہ کربلا میں اگر یہ عظیم خواتین نہ ہوتیں تو حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد قربانی ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سید الشہدا علیہ السلام نے بہت سے اصحاب کباررضی اللہ عنہم کے مشورے کے برخلاف اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کے لیے نمونہ خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔کربلا کی ان بہادرخواتین نے اپنی عمل سے ثابت کردکھایا کہ نواسہ رسول علیہ السلام کربلا میں خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔

کربلا کا واقعہ صرف عراق کی سر زمین کربلا میں ہونیوالا ایک واقعہ نہیں ہے ،بلکہ کربلا ایک تحریک، ایک حقیقت ،ایک مشن اور ایک مقصد کانام ہے کیونکہ خامس آل عبا علیہ السلام کی اس عظیم تحریک کاآغاز 28رجب المرجب 60 ھ سے شروع ہو ا اور یہ تحریک محرم الحرام کو عصر عاشورا کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ ام المصائب ،ثانی زہرا جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور بیمار کربلا ،سید السجاد،زین العابدین حضرت امام علی ابن الحسین علیہما السلام کی سربراہی میں کوفہ اور شام کے فاسق،جابر اور ظالم حکمرانوں کے درباروں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس انقلاب کی صدا پورے شرق و غرب اور عرب و عجم میں بھی سنائی دی ۔لہذا ہم اس مقالے کو دو حصوںمیں تقسیم کرتے ہیں پہلے حصے میں ان با وفا خواتین کا مختصر تعارف اور ان کے کردار اور دوسرے حصے میں ان باکردار خواتین کو بھی خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کریں گے جنہوں نے کربلا میں موجود نہ ہونے کے باوجود خواہ وہ عاشورا کے بعد ہو یا پہلے اپنے کردار او ر افعال سے اس عظیم تحریک کی حمایت کر کے اپنے ناموں کو قیامت تک کے لئے حسینی کاروان کے ساتھ جوڑ لیا۔

وہ خواتین جو روز عاشورا کربلا میں موجود تھیں

حضرت زینب کبری علیہا السلام

جناب سیدہ زینب علیہا السلام 6ھ کو مدینہ میں متولد ہوئیں ،آپ کی مادر گرامی سید النسا العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور والد بزرگوار امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام ہیں ۔آپ کا نام زینب اور القاب میں سے عقیلہ بنی ہاشم ،ملکہ عرب اور ثانی زہرا مشہور ہیں ۔جناب زینب کبری علیہا السلام کوآٹھ معصومین یعنی رسول گرامی اسلام ﷺ،حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ،امام علی ،امام حسن ،امام حسین ،امام زین العابدین اور امام محمد باقر علیہم السلام کی مصاحبت کا شرف حاصل ہو ا۔آپ فصاحت وبلاغت میں اپنی مثال آپ تھی۔

آپ کی شادی اپنے چچازاد حضرت عبداللہ ابن جعفر طیار سے ہوئیں اور آپ کو اللہ نے چار بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا ۔ان میں سے دو بیٹے عون اور محمد کو بقائے اسلام کی خاطر عاشورا کے دن قربان کی۔ آپ کی اپنے بھائیوں سے محبت اس قدر تھی کہ عبداللہ ابن جعفر سے نکاح کے وقت آپ نے یہ شرط رکھی کہ میں میرے بھائی حسین جہاں بھی جائیں مجھے بھی جانے کی اجازت ہوگی،یہی وجہ تھی کہ جب امام عالی مقام نے مدینہ سے سفر کاارادہ کیاتو آپ کو اپنے شوہر نے خوشی کے ساتھ اجازت دی۔

کربلا معلی میں اور عاشورا کے بعد آپ کی کردار بہت ہی زیادہ ہیں۔عصر عاشور تک اگر تحریک کربلا کی قیادت نواسہ رسول،جگر گوشہ علی و بتول حضرت امام حسین علیہ السلام نے کی تھی تو عصر عاشور کے بعد اس تحریک کی روح رواں ثانی زہرا علیہا السلام بن گئیں۔

ثانی زہرا سلام اللہ علیہا نے شام غریباں سے شروع ہونے والی اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ چاہے کربلا کی شام غریباں ہو یا کوفہ و شام کے بازار و دربار، آپ نے ہر جگہ دشمنوں کی سازشوں اور اپنے بھائی کے مقصد شہادت کو کھل کر بیان کیا۔ آپ نے نہ صرف اسیران کربلا کے قافلے کی حفاظت اور قیادت کی بلکہ اپنے خطبات سے کوفیوں اور شامیوں کے سامنے یزیدیوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ آپ نے اپنے بابا فاتح خیبر کے لہجے میں خطبے دے کر ظلم کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے مظلوم کربلا کو شہید کر کے اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور کر دی ہے تو حیدر کرار کی شیردل بیٹی نے ان کی یہ غلط فہمی دور کر دی۔

یہ بات تاریخ کے اوراق پر لکھی واضح دکھائی دیتی ہے کہ دین اسلام کو بقا امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت سے نصیب ہوئی اور اس مقصد کی تکمیل سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں ان کے حیدری لہجے کے خطبوں سے ممکن ہوئی۔کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔

ترویج دین گر چہ بہ قتل حسین شد

تکمیل آن بہ موی پریشان زینب است

یعنی دین مبین اسلام کی ترویج یقینا امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے ہی ہوئی مگر اس کی تکمیل جناب زینب سلام اللہ علیہا کے کھلے سر بازاروں میں جانے سے ہوئی۔

امام حسین علیہ السلام کے اہداف کو مختلف مقامات پر خاص طور سے دربار یزید میں اسلامی ملکوں کے نمائندوں کے درمیان ضمیروں کو جھنجھوڑ دینے والا بینظیر خطبہ دینا اور بنی امیہ کی حکومت اور اس کی افکار کو زمانہ بھر کے سامنے رسوا کر دینا یقینا یہ دلیری اور شجاعت فقط اور فقط عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب سلام اللہ کیساتھ مختص ہے۔

دختر علی و بتول کی، دلیری اور شجاعت کے ساتھ ساتھ تقوی اور دین داری کی یہ حالت تھی کہ اتنے سخت حالات میں بھی اپنی نماز شب کو نہیں بھولیں اور حالت اسیری میں بھی نماز کی ادائیگی ترک نہ کی اس طرح سب پر اہمیت نماز بھی واضح کر دی اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ جنہیں باغی قرار دے کر شہید کیا گیا وہ اسلام کے اصل وارث تھے۔ اس کے بعد بازاروں اور درباروں میں دیئے گئے خطبات بھی تاریخ کے سنہرے ابواب ہیں ان خطبات نے ہی اس صورت حال کو تبدیل کر دیا جو یزیدیوں نے اپنے حق میں بنائی تھی۔

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق

یکی حسین رقم کردو دیگری زینب

حضرت ام کلثوم

آپ کا اسم مبارک زینب صغری جب کہ کنیت ام کلثوم تھی ،آپ جناب امیر المومنین اور جناب سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ آپ کی شادی کثیر ابن عباس ابن عبدالمطلب سے ہوئی ۔

آپ کی اولاد کے حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔آپ مدینہ سے اپنے بھائی کے ہمراہ کربلا آئی ۔عاشورا کے تمام مصائب کو برداشت کرنے کے ساتھ اپنی بڑی بہن زینب کبری کے ساتھ شام و کوفہ کے تمام مصائب پر صبر جمیل کرتے ہوئے مقصد شہادت حسین ابن علی کو دنیا والوں تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

حضرت رقیہ بنت الحسین

جناب رقیہ کی والدہ ماجدہ ام اسحاق ہے جن کا اصلی نام حبوہ ہے ،جناب رقیہ کے دیگر ناموں میں سے زبیدہ ،زینب اور فاطمہ بھی ذکر ہوئے ہیں ۔آپ کی ولادت تاریخی اختلافات کے ساتھ شعبان کے آخری عشرے میں سنہ57 ھ کو ہوئی ۔آپ کربلا معلی میں اپنے خاندان کے ہمراہ موجود تھی ،اپنے بابا خامس آل عبا ،جوان بھائیوں اور دیگر پیاروں کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس کم سنی میں کوفہ و شام کے اسیری کی مصائب و الام بھی دیکھے۔ ایک طرف اس کم سنی میں مشکلات و پریشانی اور دوسری طرف پیاروں کی جدائی کا غم زیادہ عرصہ برداشت نہ کر پائیں اور آخر زندان شام میں ہی خالق حقیقی سے جا ملیں ۔ جناب رقیہ کے مکمل حالات زندگی کے لئے عبدالحسین نیشابوری کی کتاب ریحانہ کربلا کا مطالعے فرمائیں۔

حضرت سکینہ بنت الحسین

جناب سکینہ کی والدہ گرامی حضرت رباب ہیں،مورخین نے آپ کے دیگر ناموں میں سے آمنہ ،آمینہ اور امیمہ بھی ذکر کیے ہیں ،جب کہ سکینہ آپ کی لقب تھی ۔

آپ کا عقد جناب عبداللہ ابن حسن کے ساتھ ہوگئی تھی لیکن وہ کربلا میں میدان میں شہید ہو گئے ۔ عبداللہ ابن حسن کو آپ سے والہانہ محبت تھی اسی لئے جب عبداللہ میدان کربلا میں جانے لگے تو آپ کے آنکھوں سے آنسوپونچھ کر فرمانے لگے۔

سیطول بعدی یا سکینه فاعملی منک البکا اذلمام دهانی

لا تحرقی قلبی بدمعک حسرمادام منی الروح فی جثمانی

ترجمہ: جان لیں میرے بعد تجھے بہت ہی زیادہ رونا ہے جب میرے موت آجائیس ،جب تک میں زندہ ہوں اپنے دل کے ارمانوں کو آگ نہ لگاو۔

آپ کربلا کے واقعے کے بعد اسیروں میں شامل ہوگئی اور دوبارہ مدینہ واپس آکر سنہ ھ میں وفات پائیں ۔ لیکن ابی مخنف کے بقول مندرجہ بالا اشعار امام حسین علیہ السلام کے ہیں جو انہوں نے جناب سکینہ سلام اللہ علیہا سے وداع کے وقت فرمائے تھے۔

لیکن بعض مورخین کا خیال ہے کہ سکینہ اور روقیہ امام حسین علیہ السلام کے ایک ہی بیٹی کے دو نام ہیں ۔واللہ اعلم بالصواب۔

حضرت فضہ

آپ کو رسول خدا ،احمد مجتبیﷺنے اپنی بیٹی دختر نبوت ،ہمسر ولایت ،مادر امامت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو خدمت گارکے طور پر بخش دیا تھا ۔ جناب فضہ نے ابی ثعلبہ حبشی سے شادی کی اور اللہ نے انہیں ایک بیٹا عطا کیا ۔ابی ثعلبہ کی وفات کے بعد ابو ملیک عطفا سے عقد کیا ۔جناب فضہ ایمان ،زہد وتقویٰ اور حب اہلبیت اور فصیح و بلیغ ہونے کے حوالے سے مشہور تھی ۔ آپ اپنے مولا کے سامنے اس قدر تابع و فرمانبردار تھیں جو کام خاندان پاک وعصمت انجام دیتے آپ بھی اس کام کو بجا لاتی تھیں ۔ آپ باب مدینہ علم کی بالواسطہ شاگردہ تھی، اسی لئے آپ کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ سے سوال کیا جاتا تو آپ جواب قرآن پاک سے دیتیں ۔ آپ جناب سیدہ کی شہادت کے بعد حضرت زینب کبری کی خدمت گار رہیں یہاں تک کہ کربلا کے اس پر آشوب واقعے میں بھی حاضر تھیں ۔مدینہ واپسی کے بعد دوبارہ جناب زینب کبری کی ہمراہ شام چلی گئی اور وہاں وفات پائیں ۔

جناب رباب

حضرت رباب کی والد کا نام امری القیس ابن عدی ابن اوس ابن جبکہ والدہ کانام میسورہ دختر عمرو ابن ثعلبیہ ابن حصین ابن صمیم ہیں۔ آپ کے والد نے حضرت عمر کے دور حکومت میں اسلام قبول کیا اس سے پہلے وہ نصرانی تھے ۔اس کے بعد آپ کی شادی حضرت امام عالی علیہ السلام مقام کے ساتھ ہوئی۔ اللہ تعالی نے حضرت سکینہ اور حضرت عبداللہ جیسے اولاد عطا فرمائی ۔امام حسین علیہ السلام کا آپ سے محبت کا اندازہ امام عالی مقام کے اس مشہور شعر سے ہوتا ہے ۔

لعمرک اننی لاحب دارا تحل بها سکینه و رباب

ترجمہ: میں اس گھر سے محبت کرتا ہو ں جس میں سکینہ اور رباب ہو ۔

حضرت رباب باقی خاندان بنی ہاشم کے ساتھ کربلا تشریف لائیں اور عاشوراکے اس دردر ناک والمناک واقع کے عینی شاہد ہونے کے ساتھ ساتھ کوفہ و شام میں اسیری کی صعوبتیں بھی آپ نے برداشت کیں۔ شیخ یعقوب کلینی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سےیہ رویت نقل کی ہے کہ: جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو حضرت رباب نے گریہ و زاری کی اور یہاں تک اشک بہائی کہ آپ کی آنکھیں خشک ہوگئی۔

حضرت رباب جب مدینہ پہنچیں تو بہت سے افراد نے آپ سے شادی کی درخواست کی مگر آپ نے کسی کو قبو ل نہیں کیا۔

اپنے عظیم شوہر نامدار کے غم کو برداشت نہ کرسکی اور واقعہ کربلا کے ایک سال بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئیں،مدینہ میں آپ کی تدفین ہوئی ۔

جناب رملہ

آپ جناب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زوجہ تھی ،آپ کی بطن سے قاسم ابن حسن اور ابی بکر ابن حسن پید ا ہوئے ۔معروف مورّخ محلاتی کے بقول آپ کربلا میں موجود تھیں اور اپنی آنکھوں سے اپنے پیارے بیٹے کی جسم مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔

جناب لیلی

لیلی بنت ابی مر بن عرو بن مسعود بن متعب بن مالک ابن کعب الثقفیہ مدینہ میں متولد ہوئیں ،آپ کے والد ابو مر جناب مختار ابن ابو عبیدہ ثقفی کے چچا زاد بھائی تھے ۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ سے عقد فرمایا جس کے نتیجے میں اللہ تعالٰی نے آپ کو علی اکبر جیسا فرزند عطا فرمایا جو صورت و سیرت میں رسول گرامی اسلامﷺ سے مشابہت رکھتے تھے۔ جناب لیلی کے کربلامیں حاضر ہونے کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے ۔ہم یہاں پر مختصر طورپر دونوں مورخین کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

محمد ہاشم خراسانی (صاحب کتاب منتخب التواریخ )،شیخ عباس قمی(صاحب کتاب منتہی الاعمال ،نفس المہموم) ،عبدالرزاق مقرم (صاحب کتاب علی الاکبر ابن الشہید )،شیخ مرتضی مطہری (صاحب کتاب الملحم الحسینیہ)،شیخ محمد تقی تستری (صاحب کتاب قاموس الرجال)وغیرہ آپ کی کربلا میں موجود نہ ہونے کے قائل ہیں ۔

جبکہ سید ابن طاس نے “الاقبال” میں ،شیخ یعقوب اسفراینی نے “نور العین فی مشہد الحسین “میں ،شہر آشوب نے “مناقب آل ابیطالب “میں ،شیخ مہدی مازندرانی نے “معالی السبطین ” میں ملا حسین واعظ کاشفی نے “روض الشہدا ” میں اور شیخ حبیب اللہ کاشانی نے “تذکر الشہدا “میں لکھا ہے کہ جناب لیلی کربلا میں موجود تھیں۔

ام وہب

ام وہب تقریبا سنہ 26 ھ کو متولد ہوئیں ۔جب وہب اور اسکی ماں اور زوجہ امام عالی مقام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہورہے تھے یہ لوگ مسلمان نہیں تھے انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔

وہب کی ماں اپنے بیٹے کو شہادت کی ترغیب دلاتی تھی کہ میرے بیٹے اٹھو، اور فرزند رسول کی مدد کرو ۔ وہب کہتے ہیں : اس معاملے میں میں کوتاہی نہیں کروں گا۔وہب کی شہادت کے بعد اس کی والدہ میدان کی طرف جانے لگی تو امام علیہ السلام نے بشارت دیتے ہوئے فرمایا اے ام وہب عورتوں پر جہاد واجب نہیں ہے واپس چلی آو بے شک تمہارااور تمہارے فرزند کا مقام جنت میں میرے نانا رسول خداﷺ کی ہمراہی ہے ۔

بحریہ بنت مسعود خزرجیہ

آپ اپنے شوہر جنادہ ابن کعب ابن حرث انصاری اور اپنے فرزند عمر ابن جنادہ کے ساتھ حاضر ہوئیں ۔روایت کے مطابق شوہر کی شہادت کے بعد آپ نے اپنے فرزند کو زرہ پہنا کر اذن جہاد کے لئے امام کی خدمت میں بھیجا ،جنادہ گیارہ سال کا تھا کچھ دیر پہلے آپ کے والد شہید ہوچکے تھے لہذا امام عالی مقام علیہ السلام نے ماں کا لحاظ کرتے ہوئے اجازت نہیں دی یہ دیکھ کر عمرو نے کہا مولا میری ماں نے مجھے یہ زرہ باندھ کر بھیجا ہے کہ آپ پر جان قربان کروں۔

ہانیہ وہاب کی بیوی

ہانی الکوفیہ سے جناب وہب کلبی نے ذی الحجہ23زی الحجہ60 ھ کو عقد کیا ،تمام خاندان محرم کو کربلامیں امام علیہ السلام کے قافلے سے جاملے۔

اس کے علاوہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے وہ زوجات مکرمات اور کنیزیں جو کربلا میں موجود تھیں ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔ام خدیجہ ،ام سعید بنت عروہ الثقفیہ،ام شعیب المخزومیہ،ام فاطمہ، ام کلثوم صغری بنت عبداللہ،ام کلثوم کبری اور امام حسن علیہ السلام کے ازواج اور کنیزوں میں فاطمہ بنت عقبہ الخزرجیہ ،ام کلثوم بنت فضل الہاشمیہ ،ام اسحاق بنت طلہ التیمیہ اور حبیبہ روز عاشورا کربلا میں موجود تھیں۔

قبیلہ بنی بکر کی ایک عورت

عصر عاشور کے بعد قبیلہ بنی بکر کی ایک خاتون جس کا شوہر عمر سعد کے فوج میں تھا اس سانحے سے متاثر ہو کر ہاتھ میں تلوار لیکر لوگوں کے ہجوم میں آگئی اور اپنے قوم سے کہنے لگی اے آل ابی بکر،اہلبیت رسولﷺ کو غارت کیا جائے اور تم لوگ خاموش رہے ۔ دین رسول اللہ کے قیام کے لئے قیام کریں۔اس کے شوہر نے اسے منع کیا اور واپس لے گئے۔

ان عظیم المرتبت خواتین جنہوں نے شہدائے کربلا کی صعوبتیں برداشت کرنے کے ساتھ اسیری کازخم بھی برداشت کیا اور کربلا سے کوفہ ،کوفہ سے شام اور شام سے مدینہ کی ساری سختیوں اور تکلیفوں کو برداشت فرمایا۔ ان کے کرداروں کومجموعی طور پر خلاصہ کریں تو ہم اس طرح بیان کرسکتے ہیں ۔

امام علیہ السلام کی حمایت

جو خواتین کاروان حسینی میں شامل تھیں امام حسین علیہ السلام کی مکمل حمایت کرتی تھیں خواہ وہ قیام کربلاسے قبل ہو یادوران قیام یا بعد از کربلا ہر وقت اپنے مولا کی فداکار اور حامی تھیں۔ساتھ ہی اپنے مردوں کو امام علیہ السلام کے مدد کی تلقین کرتی رہیں۔

جوانوں کو جنگ کی تشویق اور ترغیب دلانا

جب دشمنان امام اور فوج امام کے درمیان ایک غیر عادلانہ جنگ شروع ہوئی تو ان دلیر اور باکردار خواتین نے جنگ کے ظاہری نتائج سے آگاہ ہونے کے باوجود اپنے مردوں کو اس عظیم کار خیر کی تشویق اور ترغیب دلاتی رہی۔کربلا کے واقعے میں بہت سے ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین اپنے شوہروں ، بھائیوں اور بیٹوں حتی کہ معصوم بچوں کو بھی کو حوصلہ دیتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ کسی بھی صورت میں کوئی سستی کا مظاہرہ نہ ہو۔جیسا کہ عبداللہ ابن وہاب کلبی کی ماں کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ اپنے جوان بیٹے سے کہنے لگی بیٹا اگر مجھے خوش کرنا ہے تو آج نواسہ رسول علیہ السلام کی مدد کرکے خوش کریں ،جب عبداللہ میدان جنگ میں جا کر کچھ منافقین کو واصل جہنم کر کے واپس آئے اور کہنے لگے کہ اے مادر گرامی کیا اب آپ مجھ سے راضی ہیں؟ تو اس وقت اس کی ماں کہنے لگی میں تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہونگی جب اپنی جان رسول خدا ﷺ کے فرزند پر قربان کرتے ہوئے جام شہادت نوش نہ کرے۔ اسی طرح عمرو ابن جنادہ کی ماں “بحریہ”اپنے شوہر کے شہادت کے بعد بیٹے کو ترغیب دلا کر میدان کی طرف روانہ کیا اور جب دشمن بیٹے کوبھی شہید کرکے اس کے سرکو اس کی طرف پھینکا تو یہ کہ کر واپس کیا کہ ہم جو چیز راہ خدا میں دیتے ہیں اسے واپس نھیں لیتے ۔

صبر واستقامت

خواتین کربلا کی ایثاراور صبر استقامت تعجب انگیز ہیں ۔یہ خواتین اپنی زندگی کی سب سے عزیز سرمایوں کو راہ خدا میں دیتے ہوئے بھی خوشی کا اظہار کرتی تھیں۔اپنے شوہر ،بھائیوں اور جوان بیٹوں کی شہادتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی ان کے ہمتوں اور جذبوں میں لغزش نہیں آئی۔ یہاں تک بعض خواتین اپنے عزیزوں کے لاشوں کو جب خیمہ گاہ لائے جاتے تو خیمے سے باہر تک نہیں نکلتی اور اپنے احساسات کو چھپا کر رکھتی اور بلند آواز سے گریہ وزاری سے اجتناب کرتی تھیں۔جیسا کہ علی اصغر کے لاشہ مبارک کو خامس آل عبا دفن کرنے لگے تو اس کی ماں بیٹے کی تدفین کیلئے خیمے سے باہر نہیں آئی،اسی طرح علی اکبر کا لاشہ لایا گیا تو اس کی ماں نے خیمے سے باہرنکلنے سے اجتناب کیا۔

جنگ میں شرکت

تاریخ اسلام میں بہت سے جنگہوں میں خواتین نے شرکت کی ہے لیکن کربلا میں موجود خواتین کی کردار مختلف ہیں ۔اپنے پیاروں کی قربانیاں پیش کرنے کے بعد بھی بہت سے خواتین امام علیہ السلام کی مدد کیلئے خیموں سے نکل کر دشمن پر حملہ آور ہوئیں ۔عمرو ابن جنادہ کی ماں بحریہ اپنے شوہر اور بیٹے کی شہادت کے بعد خیمے کے ستون کو ہاتھ میں لے کر میدان میں آگئی اور عمر سعد کے دو فوجیوں کو جہنم رسید کیا اور امام حسین علیہ السلام کے حکم پر واپس خیمے میں پلٹی۔ عبداللہ ابن عمیر کی بیوی اپنے بیٹے کے لاشے پر جب گریہ کرنے آئی تو شمر نے اپنے غلام کو حکم دیا ان کو مار دیا جائے اس ملعون نے اس خاتون کے سر پر وار کر کے اپنے بیٹے کے پہلو میں ہی شہید کر دیا۔

مردوں کے حوصلہ افزائی

خواتین مردوں کے مقابلے میں ان کے حوصلے کمزورہوتے ہیں مشکلات اور پریشانی کے موقع پر انکے حوصلے جلد ان کا ساتھ دیناچھوڑ دیتے ہیں لیکن کربلا میں ہزاروں مشکلات اور پریشانی کے باوجود تاریخ میں کہیں یہ نہیں ملتاکہ کسی خاتون نے اپنے شوہر ،بیٹے یا والد سے شکوہ کیا ہو کہ ہمیں یہاں کیوں لے آئے، بلکہ تین دن کے پیاس اور بھوک کیباوجود ان کے حوصلے مزید بلند ہوتے گئے اور اپنے مردوں کو شوق شہادت دلاتی رہی۔

بچوں کو تسلیاں دینا

عاشورہ کے دن خواتین کے اوپر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد تھیں انہوں نے نہ صرف اپنے پیاروں کی شہادتوں کو برداشت کیا بلکہ اس عظیم ظلم و ستم سے سہمے ہوئے بچوں کو سنبھالنا اور انہیں تسلیاں دینا بھی انہی کی ذمہ داری تھی۔ جب خیمہ گاہ حسینی سے آگ کے شعلے بلند ہوئے تو ہراسان ہو کر میدان کربلا کے طرف نکل گئے اور شام غریبان انہی خواتین یتیمان آل رسول کو تلاش کر کے دوبارہ خیموں میں جمع کیا۔

قیمتی اشیا کی حفاظت

عاشورا اور اس کے بعد خواتین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک دین کے قیمتی چیزوں کی حفاظت ، خاندان نبوت پر لگائے گئے الزمات کا جواب دینا تھا ۔ یہ خواتین پابند رسن اسیر تھیں ،ان کے خیمے جلائے گئے تھے ،ان کے پیاروں کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا تھا ،ان کے زیورات اور لباسوں کو غارت کیا گیا تھا اس کے باجود عظمت اہل بیت پر کو ئی آنچ آنے نہیں دیا۔ خصوصا خامس آل عبا علیہ السلام کی دی ہوئی امانتوں کی حفاظت میں اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہو جاتی تھیں مگر ان پر کسی بھی قسم کی ظلم و زیادتی برداشت نہیں کی۔

ان خواتین کا کردار جو کربلا میں حاضر نہیں تھیں

اہلبیت علیہم السلام کے خواتین کے علاوہ ان کنیزان حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا بھی تذکرہ ضروری ہے جنہوں نے اپنے استطاعت اور صلاحیت کے حساب سے مشکلات اور مصائب کو برداشت کرتے ہوئے مقصد قیام و شہادت خامس آل عبا امام حسین ابن علی علیہما السلام کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

طوعہ

طوعہ اشش ابن قیس کی کنیز تھی آزادی کے بعد اسید حضرمی نے ان سے عقد کیا جس کے نتیجے میں بلال نامی ایک بیٹا ہو ا۔ یہ وہ عظیم خاتون ہے جس نے مشن حسینی کے شہدا میں سے سفیر حسین ،شہید کوفہ حضرت مسلم ابن عقیل علیہ السلام کو بے کسی اور بے بسی کے عالم میں خوف و خطر کے باجود اپنے گھر میں جگہ دی ۔

ہمسر حارث

سفیر امام حسین مسلم ابن عقیل علیہما السلام کی جب شہادت ہوئی تو ان کے دو نوں فرزند محمد اور ابراہیم کو ابن زیاد کے حکم پر زندان میں قید کر لیا گیا ،اور زندان بان مشکور کی بدولت ان کو رات کے اندھیرے میں رہائی نصیب ہوئی لیکن راستوں سے انجان ہونے کے باعث کوفہ سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔حارث جو کہ ابن زیاد کہ سپاہیوں میں سے تھا اس کی کنیز نے ان دونوں کو گھر لے آئی ۔حارث کی بیوی نیک دل اور عاشق اہل بیت تھی ،اس وجہ سے بچوں کی خاطر خواہ خدمت کی گئی ۔جب حارث کو معلوم ہو ا کہ مسلم بن عقیل کے بچے اس گھر میں پناہ لئے ہوئے ہیں تو دونوں بچوں پر ظلم وستم کر کے شہید کر دیا گیا ۔مورخین کے مطابق اس کی اس باکردار بیوی نے بچوں کو بچاتے ہوئے جان دے دی ۔

دیلم، زہیر کی بیوی

یہ باکردار خاتون عاشورا کے دن کربلا میں تونہیں تھی مگر وہ اپنے شوہر کو امام عالی مقام کے کاروان میں شامل ہوکر جام شہادت نوش کرنے کی باعث بنی۔قبیلہ فزارہ و بجیلہ کے لوگ روایت کرتے ہیں کہ، ہم زہیر بن قین بجلی کے ساتھ مکہ سے واپس آرہے تھے،اور امام حسین علیہ السلام کے پیچھے پیچھے حرکت کر رہے تھے۔ جہاں کہیں بھی امام عالی مقام خیمہ نصب فرماتے تھے، ہم اس سے تھوڑا دور نصب کرتے تھے ۔یہاں تک ایک منزل پر اچانک امام کا قاصد آیا، او ر کہا : اے زہیر ابن قین،نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام نے تمھیں بلایا ہے ۔جب یہ پیغام سنا تو زہیر پریشان ہوگئے ۔اس وقت زہیر کی بیوی دیلم بنت عمرو نے کہا: سبحان اللہ !فرزند رسول علیہ السلام تمہیں بلائے اور تم خاموش رہے۔ آپ جائیں اور امام عالی مقام علیہ السلام سے ملاقات کریں اور دیکھیں کہ کیا فرمانا چاہتے ہیں؟ جب اس نے بیوی کی یہ باتیں سنی تو وہ خامس آل عبا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ کچھ دیر کے بعد خوشی خوشی واپس لوٹا اور حکم دیا کہ ان کا خیمہ بھی امام کے خیمے کے نزدیک نصب کرے ۔ اور اپنی بیوی سے کہنے لگے : میں تجھے طلاق دیتا ہوں تو اپنے والدین کے پاس چلی جائیں ۔ میں نہیں چاہتا میری وجہ سے تجھے کوئی تکلیف پہنچے۔ میں نے یہ عزم و ارادہ کیا ہے کہ فرزند رسول علیہ السلام کیساتھ اس وقت تک رہوں گایہاں تک کہ اپنی جان ان پر قربان کروں ۔ پھر بیوی سے مربوط جو بھی مال دولت ساتھ لیکر آئے تھے ان کو دیدیئے اور ان کو اپنے چچازاد بھائیوں کے ساتھ روانہ کیا ۔وہ مومنہ عورت جگہ سے اٹھی اور روتی ہوئی زہیر ابن قین بجلی کو الوداع کیا ۔

حبیب ابن مظاہرکی بیوی

خامس آل عبا حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا پہنچنے کے بعد اپنے بچپن کے دوست حبیب ابن مظاہراسدی کو ایک خط لکھا جس میں ان سے فرمایا کہ میں کربلا میں ہوں اگر ہماری مدد کرنے کا ارادہ ہے تو عصر عاشور سے پہلے پہنچ جائیں۔ جب حبیب کو مولا کا خط موصول ہو ا تو ان کے رشتہ داروں نے ان سے رائے پوچھی مگر حبیب نے کوئی واضح جواب نہیں دی تو آپ کی بیوی نے کہا : اے حبیب ! فرزند رسول (ع)تجھے اپنی مدد کیلئے بلائے اور تو ان کی مدد کرنے سے انکار کرے ، کل قیامت کے دن رسول اللہ ﷺکو یا جواب دوگے؟حبیب نے کہا : کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں،تلوار اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔اس مومنہ خاتون نے اپنی چادر اتاردی اور حبیب کے سر پر اوڑ دی اورکہنے لگی: اگر تو نہیں جاتے تو عورتوں کی طرح گھر میں رہو! اورواویلاکرنے لگی یا ابا عبداللہ ؛ کاش میں مرد ہوتی اور تیرے رکاب میں جہاد کرتی۔ اس وقت حبیب نے فرمایا: اے ہمسر! تو خاموش ہوجا میں تیری آنکھوں کیلئے ٹھنڈک بنوں گا ۔ اور میں نواسہ رسول کی نصرت میں اپنی اس سفید دا ڑھی کو اپنے خون سے رنگین کروں گا۔

مدینے کی خواتین

جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کے شہادت کی خبر مدینہ رسول میں پہنچی تو اسما دختر عقیل خواتین کے ایک گروہ لیکر قبر رسول اللہ ﷺپر گئیں اور نالہ و فریاد بلند کرتی ہوئی انصار و مہاجرین سے کہنے لگی کہ جب قیامت کے دن رسول خداﷺ یہ سوال کریں گے کہ کیوں میرے اہل بیت علیہم السلام کی مدد نہیں کی اور ان کو کس طرح ظالم اورستمگروں کے درمیان چھوڑا تو ان کو کیا جواب دیں گے؟

بنی اسد کی خواتین

کربلا کی جنگ اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد جب عمر ابن سعد کے حکم پر اپنے فوجیوں کے لاشوں کو دفن کیا ۔ جب کہ نواسہ رسول ،جگر گوشہ بتول علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کے لاشے کربلا کے تپتی زمین پر بے گور وکفن پڑے رہے اور کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ ان کو دفنا دیا جائے تو اس وقت میدان کربلا سے کچھ ہی دور واقع قبیلہ بنی اسد کی خواتین ہاتھوں میں بیلچے اٹھائے تدفین شہدا کے لئے نکل آئیں تو ان کے مردوں کو غیرت پید ا ہوئی اور ان کی مدد کے لئے آئے یوں شہدا کی تدفین ہوئی۔

خولی کی بیوی

خولی بن اصبحی جو کہ کربلا میں فوج یذید کے آفیسروں میں سے تھا عاشورا کے بعد انعامات لینے کے لئے سیدالشہدا علیہ السلام کے سر مبارک کو کوفہ لیکر گیا، پہلے مبارک سر کو گھر لے گیا تو اس کے بیوی نے خولی پر خوب لعنت بھیجی اور اپنے گھر کے صحن میں سر مبارک کو لیکر صبح تک بیدار رہی۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے خواتین ایسے ہیں جو کربلا کے واقعے میں تو موجود نہیں تھیں مگر اپنے جہگوں پر عزاداری برپا کئے اور مقصد اور فلسفہ عاشورہ کو لوگوں تک پہنچائیں۔

عاشورہ کے بعد خواتین کا کردار

اصل میں خواتین کی کردار عاشورا کے بعد شروع ہوتے ہیں ۔جب عاشورا کے اس واقعے میں امام سجاد علیہ السلام کے علاوہ تمام مردان حسینی کو شہید کیا گیا تو یہ با عظمت خواتین اپنے کندھوں پر حقیقت کربلا کے پیغام رسانی کا ایک سنگین ذمہ داری اٹھاکر پابند رسن ہو کر نکلیں ۔یہ کہ سکتے ہیں کہ اگر یہ خواتین نہ ہوتی تو بنی امیہ کے جھوٹے پروپیگنڈوں اورتبلیغات کے زریعے شہدا کے ناحق خون جو کربلا کے سر زمین پر بہ گئے تھے اپنے اصلی مقصد حاصل کرنے میں شائد کامیاب نہ ہوتے ۔اسی عظیم مقصد کے خاطر خامس آل عبا نے اپنے ساتھ خواتین کو بھی کربلاکے تپتی ریت پر لے کر آئے تھے۔

عاشورہ کے بعد اپنے پیاروں سے جدائی کاغم ،شہدا پر گریہ و ماتم کرنے کی موقع نہ ملنے کا صدمہ ،اپنے اور اہل وعیال کے بے سر پرست ہونے کا دکھ ،ظالموں کی طرف سے مسلسل ملنے والی ذہنی و جسمانی تکالیف اور سب سے بڑھ کر دشمن کے نرغے اور حصار میں ہونے کے احساس کے باوجود صبر و وفا کی پیکر ان خواتین کے حوصلے بلند تھے ۔ان خواتین نے خواہ وہ دشمن کا دربار ہو یا شام و کوفہ کا بازار کہیں پر بھی دشمن کو یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ یہ مظلوم اور اسیر ہیں اور حالات سے خوفزدہ ہیں بلکہ ہر جگہ اپنے قول اور فعل سے یہ بتاتے چلیں کہ اصل میں اس معرکہ کا فاتح حسین ابن علی علیہ السلام ہیں۔ حضرت زینب بنت علی علیہما السلام کی کردار ان تمام خواتین کے کردارمیں سے یکساں ہے ۔آپ نے شام وکوفہ کے درباروں میں ان تمام قیدیوں کی رہنمائی اور سر پرستی کے ساتھ دشمن کے سامنے بھی اپنے موقف کو واضح اندازمیں بیان کیا،جس کا خلاصہ جناب زینب سلام اللہ علیہاکی حالات زندگی کے ذیل میں بیان ہو چکا۔

خلاصہ بحث

خدا وند عالم نے انسانوں میں سے مردوعورت کو ایک دوسرے کیلئے مددگار ،محافظ ، ایک دوسرے کے لئے پردہ اور ایک دوسرے کے لئے باعث عزت بنا کر خلق کیا ۔ اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے ۔ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لهنّ اس آیت مجیدہ میں ایک دوسرے کو لباس سے تعبیر کیا ہے ۔ یعنی لباس گرمی و سردی سے بچاتا ہے ،مرد اور عورت بھی مشکل حالات میں ایک دوسرے کاساتھ دینے والا ہو ۔لباس عیوب انسانی کو چھپاتا ہے ،مرد عورت بھی ایک دوسرے کے عیوب کو چھپانے والا ہو ۔ الغرض تمام صورت میں مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ دئیے بغیر معاشرے میں آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے ۔ کہا جاتا ہے ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ،خواہ وہ بیوی کی صورت میں دل بہلا کر حوصلہ دینے والی ہو،یا بیٹی کی صورت میں دل کا چین بن کر مرد کو سکون بخشتی ہو ،یا ماں کی صورت میں خلوص دل سے دعائیں دینے والی ہو ،یا بہن کی صورت میں ایک ہی ساتھ ہر مشکل میں بھائی کا ساتھ دینے والی ہو ۔اسلام تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مقام اور ہر موڑ پر عورت کا کردار موجود ہے ۔ یہی وجہ تھی کربلامعلی کے اس عظیم انقلاب میں بھی ابتدا سے ہی عورت کا کردار مردوں کے برابر ہے ۔کربلا کی یہ عظیم تحریک اور خامس آل عبا کی یہ عظیم قربانی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہونے کی وجہ ثانی زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر خواتین کا ہی کمال ہے ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ “کربلا در کربلامی ماند اگر زینب نبود”اگر علی کی بیٹی ،محمدﷺ کی نواسی اور حسن و حسین علیہما السلام کی بہن زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نہ ہوتی تو کربلا کی تحریک کا مقصد اور ہدف کربلا کے سر زمین میں ہی دفن ہوجاتی ۔

پروردگارا ہماری خواتین کو بھی ان عظیم خواتین سے درس لیکر تعلیمات محمد وآل محمد علیہم السلام کی دفاع کے لئے کردار زینبی ادا کرنے اور ہمیں حسین ابن علی علیہما السلام کی سیرت مبارکہ پرچلنے اور قیامت کے دن انہی ہستیوں کی شفاعت نصیب فرما۔آمین۔

منابع

1. قرآن مجید

2. الاصابہ فی تمیز الاصحابہ ج ۴ ،ابن حجر عسقلانی ،دارالاحیاء التراث الاسلامی، بیروت،سال اشاعت 1328ق

3. اصول کافی ج۱ ،شیخ یعقوب کلینی ،دارلکتب الاسلامیہ ،تہران ، سال اشاعت 1367ش

4. اعلام النساء المؤمنات، محمد الحسون ام‏على مشكور،انتشارات اسوه، سال اشاعت 1411ق

5. انساب الاشراف ج۲ ،احمد ابن یحیی بلازری ،دارلفکر ،بیروت لبنان

6. بحار الانوار جلد ۲،۳ ،علامہ باقر مجلسی ،موسسہ الوفا ، بیروت ، سال اشاعت 1403ق

7. تاریخ طبری،ابو جعفر محمد ابن جریر طبری ،نفیس اکیڈمی، اردو بازار کراچی پاکستان،سال اشاعت 2004ء

8. تجلیات حسین(ع) ،مولانا میرزا محمد جواد شبیر ،ادارہ منہاج الحسین، لاہور پاکستان ،سال اشاعت 2013ء

9. تنقیح المقال فی علم الرجال،عبداللہ ابن حسن مامقانی ،مطبعہ المرتضویہ ،نجف عراق ، سال اشاعت 1352ق

10. چہرہ ہا در حماسئہ کربلا ،محمد باقر پور امینی ،انتشارات بوستان قم ،چاب چہارم

11. زنان عاشورایی ،زہرہ یزدان پناہ ،موسسہ انتشارات و تبلیغات ہلال، تہران،سال اشاعت 1382ش

12. فرہنگ عاشورا ،جواد محدثی ،نشر معروف قم ایران، سال اشاعت 1380ش

13. الکامل فی التاریخ ج۴ ،ابن اثیر ،دارالاحیا ء التراث العربی، بیروت، سال اشاعت 1408ق

14. مقتل ابی مخنف ،نگارش: سید علی محمد موسوی جزائری ،انتشارات بن زہرا قم ایران،سال اشاعت 1390 ق

15. مقتل الحسين(ع)،ابو الموید الموفق بن احمد خوارزمی ،مطبعہ الزہرا ء ،نجف عراق ، سال اشاعت ،1367ق

16. مقتل لہوف،سید ابن طاووس ،انتشارات سرور ،قم ایران،سال اشاعت 1390ش

17. مقتل مفید ،شیخ مفید ،انتشارات نبوغ قم ،سال اشاعت 1391ش

18. مناقب آل ابی طالب ج۳ ،ابن شہرآشوب ،انتشارات بی نا ،قم ایران

19. نفس المهموم (ترجمه فارسى)، شیخ عباس قمی ،انتشارات مسجد مقدس صاحب الزمان، قم ،سال اشاعت 1370ش

20. وفیات الاعیان و انباء الزمان ،ابن خلکان ،دار صادر ،بیروت ، سال اشاعت 1968 ء