حج قران کی نیت اور طریقہ


وَاَمَّا الْقِرَانُ فَنِیَّتُہُ اَنْ یَّقُوْلَ ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ مَعًا اَوْ مَقَارَنَیْنِ وَیُلَبِّیَ فَیَدْخُلَ مَکَّۃَ فَیَطُوْفَ وَیَسْعٰی لِعُمْرَتِہِ وَلَا یُحَلِّلَ وَیَمْشِیَ اِلٰی مِنًی وَیَقِفَ بِعَرَفَاتٍ وَیَرْجِعَ یَوْمَ النَّحْرِ اِلٰی مَکَّۃَ وَیَطُوْفَ طَوَافَ الزِّیَارَۃِ وَیَسْعَی بَیْنَ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃِ ثَانِیًا لِحَجَّتِہِ۔
حج قران کی نیت یہ ہے ’’اے اللہ ! میں ایک ساتھ یا آپس میں ملا کر حج اور عمرہ کا ارادہ کرتاہوں‘‘۔پھر تلبیہ پڑھے اور مکہ میںداخل ہوجائے ‘ طواف کرے اور اپنے عمرے کیلئے سعی کرے اور احرام سے نہ نکلے اور منیٰ کو نکل جائے ،وقوف عرفات کرے۔ یوم نحر کو مکہ واپس آئے اورطواف زیارت کرے،دوسری دفعہ اپنے حج کیلئے صفاو مروہ میں سعی کرے۔
وَیَسْتَحِبُّ لَہُ ھَدْیٌ یَذْبَحُہُ یَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًی اِمَّابَدَنَۃٌ اَوْ بَقَرَۃٌ اَوْ شَاۃٌ مِّنَ الضَّأْنِ جِذْعَۃٌ اَوْ مِنَ الْمَعْزِ ثَنِیَّۃٌ وَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَا ثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَ رَجَعَ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ وَلِلْقَارِنِ یَجُوْزُ اَنْ یُّقَدِّمَ عُمْرَتَہٗ عَلٰی حَجِّہِ کَمَا ذَکَرْتُہُ الْآنَ اَوْ حَجَّہُ عَلٰی عُمْرَتِہِ فَلَوْ قَدَّمَ حَجَّتَہُ عَلٰی عُمْرَتِہِ یَنْبَغِیْ اَنْ یَّمْشِیَ مِنَ الْمِیْقَاتِ اِلٰی مِنًی وَمِنْھَا اِلٰی عَرَفَاتٍ وَیَقِفَ بِھَا وَمِنْھَا اِلٰی مُزْدَلِفَۃَ وَیَقِفَ بِھَا ثُمَّ یَعُوْدَ اِلٰی مِنًی وَرَمٰی جَمَرَۃَ الْعَقَبَۃِ وَلَا یَخْرُجَ مِنَ الْاِحْرَامِ فَیَمْشِیَ اِلٰی مَکَّۃَ وَیَطُوْفَ وَیَسْعٰی لِحَجَّتِہِ وَیَرْجِعَ مِنَ الْمَرْوَۃِ اِلَی الْبَیْتِ فَیَطُوْفَ وَیَسْعٰی ثَانِیًّا لِلْعُمْرَۃِ فَیَرْجِعَ اِلٰی مِنًی ثُمَّ یَحْلِقَ اَوْ یُقَصِّرَ وَلِمَنْ لَا شَعْرَ عَلٰی رَاْسِہِ یَسْتَحِبُّ اِمْرَارُ الْمُوْسٰی عَلٰی رَاْسِہِ وَھُوَ بِمَثَابَۃِ الْحَلْقِ لَہُ۔
منیٰ میں یوم نحر کو دی جانیوالی قربانی اس پر مستحب ہے۔ قربانی کیلئے اونٹ ، گائے ، ایک سالہ بھیڑ یا دو سالہ بکری ہونا چاہئے۔جسے میسر نہ آئے تو حج کے ایام میں تین اور واپسی پر سات دن کے روزے رکھے یہ مکمل دس ہیں۔ حج قران والے کیلئے اپنے عمرے کو حج پر مقد م کرنا جائز ہے جس طرح ابھی ذکر کیا اور عمرے پر حج کو مقد م کرنا بھی جائز ہے اگر وہ حج کو عمرے پر مقدم کرے تو میقات سے منیٰ کی طرف جائے اور منیٰ سے عرفات کی طرف ۔ وہاں وقوف کرے، یہاں سے مزدلفہ جائے اور یہاں وقوف کرے پھر منیٰ کو واپس آئے جمرہ عقبہ کو کنکر یاں مارے ۔ احرام سے باہر نہ نکلے اور مکہ کی طرف چلاجائےاور طواف کرے اور اپنے حج کیلئے سعی کرے اور مروہ سے کعبہ کو واپس آئے او ر طواف کرے ۔ دوسری بار عمرہ کیلئے سعی کرے۔ پھر منیٰ واپس لوٹے بال مونڈ ڈالے یا چھوٹے کرائے جس کے سر پر بال نہ ہوں تو اس کے سر پر استرہ کا پھیرنا مستحب ہے یہ سر کو مونڈ ڈالنے کی طرح ہے۔
وَیَسْتَحِبُّ لِلْقَارِنِ اَنْ یَّسُوْقَ الْھَدْیَ مِنَ الْمِیْقَاتِ بِالْاِشْعَارِ وَھُوَ اَنْ یَّشُقَّ سَنَامَھَا مِنَ الْجَانِبِ الْاَیْمَنِ وَ یُلَطِّخَ صَفْحَتَھَا وَیُقَلِّدَھَا بِنَعْلٍ وَھُوَ اَنْ یُّعَلِّقَ مِنْ رَقَبَتِھَا نَعْلًا وَّاحِدًا اِنْ کَانَ الْھَدْیُ بَدَنَۃً وَلِغَیْرِھَا مِنَ الْبَقَرِ وَالضَّاْنِ التَّقْلِیْدُ فَقَطْ لَا اِشْعَارَ لَھُمَا وَبَعْدَ الذَّبْحِ بِمِنیً وَکَانَ وَقْتُہُ وَقْتَ الْاُضْحِیَّۃِ فَیَعُوْدَ اِلٰی مَکَّۃَ وَیَطُوْفَ طَوَافَ النِّسَائِ وَیُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ فِیْ مَقَامِ اِبْرَاھِیْمَ اِنْ تَیَسَّرَ اَوْ فِیْ الْمَسْجِدِ اَوْ حَیْثُ تَیَسَّرَ فَتَمَّتْ حَجَّتُہُ الْمَقْرُوْنَۃُ بِالْعُمْرَۃِ۔
حج قران والے کیلئے میقات سے ہی جانور کا اشعار کرکے ساتھ لے جانا مستحب ہے ۔ اشعار کا مطلب یہ ہے کہ کوہان کو دائیںجانب چیرے ‘اسکے چہرے پر خون لگائے اسکے گلے میںقلادہ لگائے یعنی ایک جوتا اس کے گلے میںلٹکائے اگر قربانی اونٹ ہو ۔اگر دیگر جانور مثلاً گائے بھیڑ ہوں تو گلے میںصرف قلادہ لٹکائے اشعار دونوں کیلئے نہیںاس کے بعدجانور کومنی میںذبح کرے ذبح کا وقت قربانی کا وقت ہی ہے ۔ پھر مکہ لو ٹ آئے اور طواف نساء بجا لائے اور مقام ابراہیمؑ پردو رکعت نماز پڑھے بشرطیکہ ممکن ہو یا پھر مسجد حرام میں یا کہیں پر بھی ممکن ہو ۔ پس اس کا عمرہ کیساتھ کیا جانیوالاحج پورا گیا۔