تصوف و عرفان


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تصوف کی تعریف

تصوف اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کو کہا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیاء) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ
تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس تعریف کے مطابق تصوف کا قرآن و سنت کے عین مطابق ہونا ضروری ہے ۔ تصوف اگر قرآن و سنت کی راہ سے متصادم ہو تو قابل رد ہے۔ تصوف کا لفظ روحانیت ، ترکِ دنیا داری اور اللہ سے قربت حاصل کرنے کے مفہوم میں جانا جاتا ہے اور مسلم علماء میں اس سے معترض اور متفق ، دونوں اقسام کے طبقات پائے جاتے ہیں۔
یہاں پر چند بزرگان دین کی تعلیمات کی روشنی میں تصوف کی تعریف پر مشتمل چند اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔

( ابی یحییٰ زکریا الانصاری)
التصوف ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس و تصفیۃ الاخلاق و تعمیر الظاھر والباطن لنیل السعادۃ الابدیۃ
”یعنی تصوف ان کیفیات کا علم ہے جن کے ذریعہ نفس کا تزکیہ اور اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے، تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے۔“

حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
التصوف ترک کل حظ للنفس
”تصوف تمام لذات نفسانی کو ترک کردیتے کا نام ہے۔“

حضرت ابو علی قزوینی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہے
التصوف ھو الاخلاق المرضیۃ
”تصوف پسندیدہ اخلاق (کو اختیار کرنے) کا نام ہے۔“

ابومحمد جریری رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے
التصوف الدخول فی کل خلق سنی والخروج من کل خلق دنی
”تصوف ہر اخلاق حمیدہ کو اختیار کرنے اور ہر اخلاق (شنیعہ) رذیلہ کو ترک کرنے کا نام ہے۔“

حضرت کتانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ
التصوف خلق فمن زاد علیک فی الخلق فقد زاد علیک فی الصفا
”تصوف اچھے اخلاق کا نام ہے، سو جس کے اخلاق تیرے اخلاق سے زیادہ عمدہ ہیں وہ صفا (تصوف و قلبی صفائی) میں بھی تجھ سے زیادہ ہے۔“

مندرجہ بالا تمام تعریفات سے یہ معلوم ہوا کہ تمام اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے، تمام اخلاق رذیلہ کو ترک کرنے بالخصوص ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح اور تعلق مع اللہ قائم کرنے، دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے اور ہر معاملہ میں رضائے الٰہی کی طلب اور اس پر راضی رہنے کو تصوف کہا جاتا ہے۔

صوفی کی تعریف

تصوف کو عملی طور پر اختیار کرنے والے کا نام صوفی رکھا گیا ہے۔

حضرت شیخ ابو علی رودباری رحمۃ اللہ علیہ کار ارشاد ہے
الصوفی من لبس الصوف علی الصفا واذاق الھویٰ طعم الجفا ولزم طرق المصطفیٰ و کانت الدنیا منہ علی القفاء
”صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو اور شریعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم پکڑتا ہو اور دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو۔“

حضرت شیخ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے فرمایا
”صوفی فانی ز خویش اور باقی بحق ہوتا ہے۔“

حضرت عمر بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے
الصوفی ھو ان یکون العبد فی کل وقت بما ھو اولیٰ بہ فی الوقت
”صوفی وہ ہے جو ہر وقت اسی کا ہوکر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔“
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرماتے ہیں۔
الصوفی ساکن الجوارح مطمئن الجنان مشروح الصدر منور الوجہ عامر الباطن غنیا عن الاشیاء لخالقھا
”صوفی پرسکون جسم، دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع اللہ کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔“

حضرت شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
منقطع عن الخلق و متصل بالحق
”صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔“

حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ نے فرمای
ھم قوم آثروا اللہ عزوجل علیٰ کل شیء
”صوفیاء کرام وہ ہیں جو ہر چیز سے زیادہ اللہ کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں۔“

حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ”المنقذ من الضلال“ میں پوری امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں

و علمت ان طریقتھم انما تتم بعلم و عمل و کان حاصل علمھم قطع عقبات النفس عن اخلاقھا المذمومۃ و صفاتھا الخبیثۃ حتیٰ یتوسل بھا الیٰ تخلیۃ القلب عن غیر اللہ تعالیٰ و تخلیۃ بذکر اللہ۔
”صوفیاء کرام کا طریقہ علم اور عمل کے ذریعہ مکمل ہوتا ہے اور ان کے علم کا حاصل یہ ہے کہ نفس اخلاق مذمومہ اور صفات خبیثہ سے پاک ہوجائے تاکہ دل غیراللہ سے خالی ہوکر اللہ کے ذکر سے مزین ہوجائے۔“

نوربخشی بزرگان اور تصوف

اگر نوربخشی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تصوف کا وہی راستہ درست اور باعث نجات ہے جو قرآن و سنت سے متصادم نہ ہو اور جہاں شریعت مطہرہ پر مکمل عمل پیرا ہونے کو یقینی بنایا گیا ہو۔ چنانچہ حضرت جنید بغدادی (۲۹۷ھ) نے پہلی مرتبہ تصوف کو بحیثیت ایک فن کے تدوین کیا۔ آپ کی تدوین کے بعد آپ کے مخالفین نے بھی یہ تسلیم کیا کہ تصوف سنت کے مطابق ہے۔
اس ضمن میں گزارش ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ نے قرآن و حدیث ہی کو تصوف کی اساس بتلایا ہے اور سنت کی پیروی پر زور دیا ہے۔ چناں چہ فرماتے ہیں:
من لم يقرأ القرآن ويكتب الحديث لا يقتدى بہ في ھذا الشان لان علمنا مقيد بالكتاب والسنۃ
’’جس نے قرآن پڑھا، نہ حدیث لکھی، وہ تصوف کے باب میں لائقِ اقتدا نہیں ہے کیوں کہ ہمارا علم کتاب و سنت کا پابند ہے۔‘‘:
گویا اگر کوئی شخص قرآن مجید اور حدیثِ رسولؐ کے علم سے ناواقف ہے تو اسے شیخ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کی روشنی میں دیکھیے تو موجودہ دور کے وہ سجادہ نشین ہرگز قابل اعتنا نہیں ہیں جو شرعی علوم سے بالکل کورے اور بے خبر ہیں۔
سنت کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے شیخ فرماتے ہیں:
الطرق كلھا مسدودۃ عن الخلق الا من اقتفى اثر الرسول صلى اللہ عليہ وسلم، واتبع سنتہ، ولزم طريقتہ، فان طرق الخيرات كلھا مفتوحۃ عليہ
مزید فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد آٹھ خصائل(جمع خصلت )پر ہے . (١) سخا (٢) رضا (٣) صبر (٤) اشارہ (٥) غربت (٦) لبس صوف (٧) سیاحت (٨) فقر .

چہاردہ معصومین علیہم السلام قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن پاک کے صحیح وارثین ہیں اور انہوں نے ان دونوں پر عمل کرنے کا کما حقہ حق ادا کیا ہے چنانچہ اہل تصوف کیلئے بھی ان ہستیوں سے بڑی مشعل راہ ہوئی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ نوربخشی بزرگان دین ائمہ معصومین علیہم السلام کے ہی راستے کو تصوف کا نجات دہندہ راستہ سمجھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں حضرت پیغمبر خدا ﷺ کا فرمانا
انی تاریک فیکم حبلین الثقلین کتاب اللہ و وعترتی اہل بیت الخ (مودۃ القربیٰ از امیر کبیر ؒ)
اسی تصوف کی طرف اشارہ ہے ۔ اس سے ہٹ کر دیگر تصوف کے راستے نجات کے راستے نہیں۔
ھمچو صوفی درلباس صوف باش
درصفت ھاے خدا موصوف باش
من سرہ ان یجلس مع اللہ فلیجلس مع اھل التصوف
اگر کوئی اللہ سے رشتہ جوڑنا چاہے تو اہل تصوف کی
اللہ ہم سب کو حقیقی تصوف کی پہچان کرنے اور اس پر سیرہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی روشنی میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین

تصوف پر مزید پڑھیں