تاریخ نوربخشیہ پر اجمالی نظر


تعارف

نوربخشیہ شاہ سید محمد نوربخش ؒ سے منسوب ایک اسلامی فرقہ ہے شاہ سید محمد نوربخش ؒ سلسلہ ذہب کے ایک درخشان شخصیت تھے آپ ۱۵ شعبان ۷۹۵ھ بمطابق ۱۳۹۳ء کو روستای قائن میں پیدا ہوئے۔آپکے آباء و اجداد لحصا سے تعلق رکھتے تھے ۔جو اس وقت حکومت بحرین میں واقع ہے ۔آپ کے والد محترم امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کیلئے مشہد مقدس تشریف لائے اور مشہد کے نزدیک شہر قائن میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوئے ۔شاہ سید یہاں متولد ہوئے ۔آپ بہت ذہین و فطین تھے ۔شروع سے ہی اچھے اخلاق اور خلق کے مالک تھے۔آپؒ نے سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کیا اور ابتداء ہی سے دل و روح کو نور قرآن ہی سے منور کیا۔آپ نے معروف عالم دین اور عرفانی شخصیت علامہ فہدبن احمد حلی ؒ سے علوم دینی حاصل کئے۔ علامہ فہدبن احمد حلی علم شریعت میں متبحر ہونے کے ساتھ سیر و سلوک میں بھی خاص مقام رکھتے تھے۔

شاہ سید محمد نوربخش ؒ سلسلہ ذہب کے حلقہ احباب میں داخل ہوئے اور سلسلہ ذہب کے پیر حاضر خواجہ اسحق ختلانی کے دست مبارک پر بیعت کی۔ واضح رہے خواجہ اسحق ؒ ، سید علی ہمدانیؒکے خلیفہ تھے۔سلسلہ ذہب میں آنے کے بعد آپ نے سیروسلوک کے مراحل تیزی سے طے کئے۔ آپ میں سیادت کا پہلو عیاں تھا۔ آپ ؒموسوی سادات سے تعلق رکھتے تھے۔

جب تمام خلفاء سلسلہ ذہب مع مرشد حاضر خواجہ اسحاق ختلانی نے نوربخش کے ہاتھوں پر بیعت کی اس وقت سید عبداللہ برزش آبادی نے انکار کیا اور سلسلہ سے خروج کیا۔ خواجہ اسحاق ختلانی ؒنے سید عبداللہ برزش آبادی کے انکار کو سلسلہ سے خارج ہونے کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا :ذہب عبداللہ ، عبداللہ ہم سے نکل گیا یعنی ہماری فکر ،ہماری مذہبی حدود و قیود سے خارج ہوا ۔
یہ شاہ سید محمد نوربخش ؒکے لئے پہلا اور بڑا دھچکاتھا ۔سید عبداللہ ایک با نفوذ شخص تھے شاہ سید محمد نوربخشؒ کے ہم عمر تھے ۔سلسلہ ذہب کے تمام مذہبی، سیاسی اور سماجی فعالیتوں سے واقف تھے اور سلسلہ کی رموزات سے آگاہ تھے۔یہ سب چیزیں مذہب کیلئے مستقبل میں خطرہ کی گھنٹی تھیں۔ سید عبداللہ نے نہ صرف شاہ سید کی مخالفت کی بلکہ نوربخشی فعالیتوں کی راہ میں رکاوٹ بھی بن گئے۔

بلتستان میں اسلام کا نور

بلتستان میں پہلی مرتبہ نور اسلام امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒکے توسط سے پہنچا آپ ؒنے بہت کوشش کی اسلام پھیلانے میں تین بار بلتستان کا دورہ کیا۔ آپ ؒ ۷۸۳ میں بلتستان تشریف لائے اور تمام بلتستان میں محمد ؐ و آل محمد علیہم السلام کی تعلیمات پر مشتمل اسلا می ثقافت کو پھیلایا ۔ آپ ؒولی کامل تھے اہل کشف و کرامات تھے آپ ؒکی کرامات آج بھی بلتستان میں مشہور ہیںشگر پولو گراونڈ کے سنٹر سے پتھر کو زمین بوس کرنا ۔
لداخ کے معبد میںلاما کے ساتھ مقابلہ میں جوتوں کے ذریعے لاما کو آسمان سے زمین پر لانا ،خپلو چقچن میں ہونے والے عظیم مناظرہ اور مذہب بودھائی پر غلبہ ۔
سلترو گونما کے بروق غیر کی روحانی نعمت ۔ سلترو اور چھوربٹ سے زمین کی گوڑھی سے نجات
اس کے علاوہ بہت سے آثار ابھی تک موجود ہیں ۔ آپ کے بعد جس نے سب سے زیادہ اہلیان بلتستان کی خدمت انجام دی وہ محمد عراقی بت شکن ؒکی ذات گرامی تھی ۔ آپؒمذہب ائمہ معصومین کے بڑے داعی تھے ۔ محمد عراقی بت شکن ؒ نے بادشاہ ایران سلطان حسین کے زمانے میں شاہ قاسم فیض بخش ؒکے نمائندہ و خلیفہ کے عنوان سے سلطان حسین کے لئے طبیعی دوائی لینے کیلئے کشمیر کی طرف سفر کیا۔
آپ ؒ نے کشمیر میں تعلیمات نوربخشیہ کو پھیلایا اور بہت سے بت خانوں کو مسجد میں تبدیل کر لیا بہت سے کفار کے قلوب کو نور اسلام سے منور کیا۔
بلتستان اور کشمیر کے مسلمانون پر شاہ ہمدانؒ ،سیدمحمد نوربخش ؒاور محمد عراقی بت شکن ؒکے بہت احسانات ہیں۔ بلتستان کے مختلف علاقوں میںزیر تعمیر مساجد اور خانقاہیں جن کی بنیاد امیر کبیر ؒکے زمانہ میں رکھی گئی تھی ان کو مکمل کیا۔ سات سو سال گزر جانے کے باوجود بھی مساجد و خانقاہوں کے آثار آج بھی پورے آب و تاب کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان باقی ہیں۔
سید حمایت علی میر واعظ مرکز ی خانقاہ معلی خپلو ہیں آپ تاریخ نوربخشیہ سے بخوبی واقف ہیں۔ آپ کے آباء واجداد سے رموزات سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے آپ تک پہنچے ہیں آپ میر محمد عراقی بت شکن ؒ کی اولادسے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ محمد عراقی جب شاہ سید محمد نوربخش کی ارادت میں آیا تو اس وقت آپ جوان تھے ۔شاہ سید کو بتایا گیا کہ محمد کے والدین عمر رسیدہ ہیں لہٰذا محمد کو والدین کی خدمت کے لئے واپس بھیج دیا جائے۔ آپ ؒ نے محمد کو والدین کی خدمت کرنیکا حکم دیتے ہوئے واپس جانے کو کہا۔محمد واپس چلے گئے شاہ سید ؒکی وفات کے بعد محمد اسیری لاہیجیؒ کے ساتھ محمد عراقی ؒدوبارہ شاہ قاسم فیض بخش ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ نے محمد کو اپنے پاس رکھا اور آپ کوکشمیر میں تبلیغ دین کے لئے خلیفہ بنا کر بھیجا۔
محمد عراقی بت شکن ؒکی وفات کے بعد آپ کے خلیفہ سید دانیال شہید نوربخشیہ کے پیر ہوئے۔ اندرونی اختلاف اور بیرونی سازش کے سبب نوربخشیہ مکتب فکر والوں کو کشمیر میں زندگی کرنا بہت مشکل ہوا۔ کچھ وہاں سے فرار ہو کر دوبارہ ایران چلے گئے اور کچھ لاہور کی طرف اور کچھ بلتستان کی طرف گئے جس میںمیر مختار اختیار ؒ اور میر یحییٰ ؒ اور میر عارف ؒ شامل ہیں۔ میر مختار اختیار ؒ ،میر ابوسعید سعدا ءؒ کے فرزند تھے اور میر سعید سعداء ؒمیر دانیال دانا ؒکے فرزند تھے اور دانیال دانا ؒ،میرحسن رہنما کے فرزند تھے یہ سب نوربخشیہ مسلک کے پیران پیر ہیں اور تعلیمات نوربخشیہ کو پھیلانے میں ان ہستیوں کی سخت مشقتیں شامل ہیں ۔سید حمایت علی مدظلہ کے بقول محمد عراقیؒ کی وفات کے بعد جب آپ کی اولاد پرسختیاں شروع ہوئیں تو کشمیر سے ہجرت کر کے جانے والوں میں امام خمینی ؒ کے اجداد بھی تھے۔

سنہری دور

یہ دور نوربخشی تاریخ میں سنہری دور کہا جاتا ہے جس میں اسلام کی بہت خدمت کی گئی اسلام ناب و تعلیمات محمد ؐ و آل محمد علیہم السلام کو کشمیر سے لیکر بلتستان کے دور دارز علاقوںمیںپھیلاگیااس دور میں بلتستان کے تمام مضافات مذہب اہل بیت علیہم السلام منسلک تھے صوفیانہ طرز زندگی حاوی تھا۔ کشمیر کے بادشاہان وقت اور بلتستان کے لوگ مکمل طور پر نوربخشی پیران پیر کے ماتحت تھے۔ یہ انقلابی دور تھا کشمیر سے نوربخشی طاقت مکمل ختم ہوجانے کے بعد اس کے اثرات بلتستان میں بھی مرتب ہونا شروع ہوا اس دورن خصوصاً الحاج سید حمایت علی الموسوی کے بیان کے مطابق پیر طریقت سید شاہ جلال ؒ کے زمانہ میں راجہ سکردو و خپلو کے درمیان نزاع پیش آیا جس کو حل کرنے کے لئے پیر طریقت نے بہت کوشش کی مگر یہ اختلاف نوربخشی مکتب کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔
بلتستان و کشمیر میں امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒکے ذریعے نور اسلام پہنچا۔ بلتستان میں اسلام اولیاء کرام کے ذریعے پہنچا جو سلسلۂ ذہب کے پیران طریقت تھے۔ جس کے تسلسل آج بھی بلتستان میں جاری وساری ہے ہم بلتستان میں نوربخشی عروج و زوال کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔
۱۔ترقی وترویج کا دور ۲۔ زوال کا دور ۳۔ عروج وثبات کا دور
اول الذکر دور وہ ہے جس میں نوربخشی بزرگان کی انتھک کوشش اور زحمت کی بدولت بلتستان اور کشمیر میں اسلام کی پیشرفت ہوئی۔ جس کی ابتداء امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒکی ذات مبارک سے ہوئی اور میر نجم الدین ثاقب ؒپر اختتام ہوا۔ اس دور میں بہت سے کام انجام پائے۔ کشمیر و بلتستان میں کثیر تعدادمیں مساجد اور خانقاہیں تعمیر ہوئیں کشمیر و بلتستان میں بہت سے بت کدے مساجد میں تبدیل ہوئے۔ ہزاروں غیر مسلموں کو اسلام کے حلقہ میں لایاگیا ۔ اتنے عظیم کام کی انجام دہی میں کوئی جنگ نہیں ہوئی بلکہ کردار و گفتار سے یہ نیک کام انجام پایا ۔بلتستان میں کافی عرصہ تک تمام بلتستان نوربخشی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اس زمانہ میں راجگان جو اپنے اپنے حلقہ میں بادشاہ تھے وہ سب بھی نوربخشی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ۔
رضوی سادات کے علاوہ بلتستان کے تمام سادات عظام نوربخشی تھے جو اہل بیت اطہار ؑکے نقش قدم پر چلنے والے تھے حضرت میر دانیال شہید ؒکے بعد کشمیر سے آہستہ آہستہ نوربخشیہ ختم ہوگئے جو صرف اہل بیت اطہار علیہم السلام سے محبت رکھنے کے جرم میں مرزا حیدر دوغلت کی سیاسی حکمت عملی کے تحت دبائو میں تھے اور ان کو طاقت کے زور سے مذہب بدلنے پر مجبور کیا جن لوگو ں نے استقامت اختیار کی ان کو شہید کر ڈالا اور بعض کو جلاوطن ہونا پڑا۔
پہلے ذکر کیا گیا ہے یہ دورنوربخشیہ مکتب فکر کیلئے بہت اہم اور سنہری دور تھا ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ شاہ سیدمحمد نوربخش سے پہلے نوربخشیہ خاص معنیٰ کے تحت موجود نہیں تھا مگر عام معنیٰ کے تحت حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر امام مہدی علیہ السلام تک یہ تسلسل نوبت و امامت و خلافت سب نور بانٹنے والے تھے۔ لوگوں کو نور کی طرف ہدایت کی طرف رہبری کرنے والے تھے۔ قرآن مجید میں ایک مکمل سورہ بنام نور ذکر ہوا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف آیات میں مادہ نور استعمال ہوا ہے۔ مشہور حدیث نبوی ہے خلقت انا و علی من نور واحد
یہ ہستیاں نور ہیں ان کے پیروی کرنے والے ان کے نور سے منور ہو جاتے ہیں۔ امیر کبیر ؒ و شاہ سید محمد نوربخش ؒ و باقی مشائخ سلسلۂ ذہب نے حقیقی معنوں میں محمد ؐ و آل محمد علیہم السلام کے نور سے کسب نور کر کے دنیا میں ان کے نور کو پھیلایا۔ شاہ سید محمد نوربخش ؒایک واسطہ سے امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ تک پہنچتے ہیں۔
دونوں کے اہداف و مقاصد ایک تھے۔ نور اسلام سے دنیا کو منور کرنا اور تعلیمات محمد ؐ و آل محمد ؑ سے بنی نوع انسان کو آشنا کیا۔
اسی وجہ سے یہ ہستیاں بھی نور الٰہی و نور محمد ؐ و آل محمد ؑ کا مظہر تھے۔
یہ سنہری دور امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ متوفی۷۸۶ ہجری قمری سے شروع ہو کر نجم الدین ثاقب ؒمتوفی ۱۱۳۱ھ ق پر اختتام پذیر ہوا ۔ اس دور میں اسلام و مسلمین کیلئے بہت قابل قدر کام انجام پائے۔
اس دور میں مکتب نوربخشیہ کے مشائخ و علماء کرام و سادات عظام نے اسلام کے پھیلائو اور تعلیمات محمد ؐ و آل محمد علیہم السلام کیلئے قابل قدر خدمات انجام دیے امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒمحمد عراقی بت شکن ؒ شاہ سید محمد نوربخش ؒ نے ہزاروں لوگوں کو اسلام کے حلقہ میں داخل کیا۔ ان بزرگان نے کشف و کرامات کردار و رفتار سے پھیلایا آج بھی اہل کشمیر و بلتستان احسان مند ہیں۔ تصوف کے باقی سلاسل میں یہ خصوصیت بہت کم ہے ۔نوربخشیہ کے بزرگان میں شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ،خواجہ اسحق ختلانی ؒ،میر دانیال شہید ؒ، میر محمد شاہ ؒومیر نجم الدین ثاقب ؒشہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ کشمیر میں ہزاروں نوربخشی، متعصب لوگوں کے حملہ میں تعلیمات محمد ؐو آل محمد علیہم السلام کے تحفظ کر تے ہوئے شہید ہوئے
اسی سنہری دور میں ولی کا مل مرشد کامل شاہ سید محمد نوربخش ؒ نے فقہ کی ایک ضخیم وکامل کتاب تدوین فرمائی۔ اس کتاب میں آپ ؒنے رفع اختلاف امت اسلامیہ کو ہدف اصلی قرار دیتے ہوئے مسلمانوںکو شخصی رجحانات کے سبب سے اختلاف کاشکار ہونے کو جہل مرکب کی علامت قرار دیا ۔ اس کتاب میں فقہ کی اصطلاحات کو عملی جامہ پہنایا۔ چنانچہ تصوف کے تمام سلاسل فقہ کے لحاظ سے کسی اور شخص کی طرف رجوع کرتے ہیں صرف سلسلہ ذہب مکتب نوربخشی ہے جن کی اپنی مستقل فقہ ہے۔
اس سنہرے دور میں نوربخشیہ مکتب فکر کے مشائخ نے اس وقت کے بادشاہان اسلام کو شریعت پر کمربستہ ہونے کے ساتھ ساتھ شفقۃ علی خلق اللہ کے تحت لوگوں کی مشکل کشائی اور سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کی۔ امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ نے بادشاہان اسلام خصوصاً ماوراء النہر اور کشمیر و بلتستان کے بادشاہوں کے لئے ایک ضخیم کتاب ’’ذخیرہ الملوک‘‘ لکھی جس میں شرائط و ارکان حکمرانی ، اسلامی حکمرانوں کی ذمہ داریاں بیان کیا۔ یہ کتاب آپ نے بلتستان میں تحریر فرمائی۔ اس دور میں سلسلہ ذہب کے مشائخ نے فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے تبلیغ وارشاد کے علاوہ عقیدہ صالحہ کے تحفظ اور آئندہ نسل کے لئے رہنمائی کی خاطر بہت سے قیمتی کتابیں تحریر کیں۔ جو سب کے سب محمد ؐ و آل محمد علیہم السلام کے فضائل و مناقب پر مشتمل تھیں۔ یہ کتابیں ان احادیث کا مجموعہ ہیں جو زبان صادق حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاری ہوئیں جیسے مودۃ القربی ،کتاب السعین فی فضائل امیر المومنین ؑ،کتاب الاربعین فی فضائل امیر المومنین ؑ،کتاب الاعتقادیہ ،دعوات شریف از امیر کبیر ،۱؎ اسکے علاوہ شاہ سید محمد نوربخش ؒ کی معروف کتاب کشف الحقیقت جوآپ ؒکے اشعار کا مجموعہ ہے ۶ جلدوں پر مشتمل ہے جس میں کلامی ،اعتقادی اور اخلاقی مسائل بیان ہوئے ہیں یہ کتابیں نوربخشی حلقہ میںمعروف و مشہور ہیں۔ تمام مراسم و مسائل فقہی وکلامی انہیں کتابوں کے مطابق انجام پاتے ہیں۔
اسی دور میں دو طرح کے مدارس بھی وجود میں آئے۔ مدرسہ سیار ، مدرسہ ثابت ۔ سیار وہ مدرسہ ہے جو مشائخ کی سیاحت کے دوران کچھ شاگرد کسب علم و حکمت میںمشغول رہتے تھے ، یہ روش سید علی شاہ علیہ الرحمہ( گلشن کبیر) کے زمانے تک رائج تھی شاہ ہمدان کے ساتھ ۷۰۰ نفر نے سفر کئے شاہ سید ؒاور محمد عراقی بت شکن ؒ کے دور میں بھی یہ اپنی شان وشوکت کے ساتھ قائم تھی ۔اپوچو میر محمد شاہ علیہ الرحمہ کے زمانے میںکچھ شاگرد خاص آپ ؒکے ساتھ تبلیغ کے لئے جاتے تھے اور فرصت پاتے ہی اپنے درس و تدریس قائم کرتے تھے۔ اس وقت یہ سنت حسنہ مکمل بند ہو گئی ہے اس پر جتنا افسوس بھی کریں کم ہے۔ دوسرا مدرسہ ثابت تھا جو مکتب کے علاوہ خانقاہوں میں یہ کام انجام دیتے تھے جہاں اسلامی تعلیمات کی تدریس کابھی باقاعدہ بندوبست ہوتا تھا جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ یہاں سے ہزاروں فرزندان مکتب تربیت حاصل کرتے ہیں جو آگے چل کر دینی ذمہ داری کو بہ طور احسن انجام دیتے ہیں۔ اس دور کے مشائخ بالخصوص باقی ادوار کے مشائخ طریقت نے اسلام کے فرقوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ امیر کبیر سید علی ہمدانی رحمۃاللہ علیہ ،خواجہ اسحاق ختلانی ؒ ،میر سید محمد نوربخش ؒ ،میر مختار اختیار ؒ ،سید عون علی عون المومنین ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

کشمیر اور بلتستان میں نوربخشی اسلامی حکومت

نوربخشیہ مکتب فکر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایک دور میں کشمیر اور بلتستان کے حکمران نوربخشی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ چونکہ یہ سلسلہ دینی پہلو اور حکومت اسلامی رکھتے ہیں۔ برخلاف باقی سلاسل تصوف جہاں حکمرانی وسیاست کو اہمیت نہیں دیتے۔ دورہ گسترش و شکوفائی میں کشمیر میں چک خاندان نے جو محمد عراقی علیہ رحمہ کے مرید اور شاہ ہمدان رحمۃ اللہ و شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ کے ارادتمند تھے۔ اس خاندان نے کشمیر میں ۳۰ سال حکمرانی کی بلتستان میں بھی میر شاہ جلال تک تمام راجگان نوربخشی مکتب سے تعلق رکھتے تھے۔ خصوصاً سید محمد عراقی علیہ الرحمہ کے زمانہ میں کشمیر میں ملک موسی رینہ، خپلو میں راجہ بہرام اور سکردو میں راجہ بوخا آپ کے مرید تھے ۔ اسلام میںثقافت اور انسان سازی کے لئے مسجد کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ ابتداء اسلام میں مرکز اسلام مساجد تھے مسجد نبوی سے اسلام کو پھیلانے والے مسلمانوں کی دینی اعتقادی و فروعی تعلیم کا بند وبست بھی مسجد نبوی میں ہوتا تھا ۔ اواخر صدی تک مسجد عبادت و بندگی کے علاوہ تمام اہم امور کا فیصلہ بھی یہاں ہوتا تھا ۔ مسجد کوفہ کو دیکھے امام علی ؑ کی قضاوت کی چبوترہ بھی آج باقی ہے مشائخ سلسلہ ذہب کے بزرگان نے مساجد و خانقاہ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا۔ آج بھی مساجد کے احاطے میں درس و تدریس اور ثقافتی وسماجی زندگی کے بارے میں اہم فیصلہ بھی کرتے ہیں۔

زوال اور اس کے اسباب

پیر طریقت میر نجم الدین ثاقب ؒ کی شہادت کے بعد مکتب نوربخشیہ کے عروج میں ایک دفعہ زوال آگیا اسکے چند عوامل واسباب تھے جو مختصراً درج ذیل ہیں ۔ یہ سلسلہ پیر طریقت سید محمد شاہ زین الاخیار رحمۃاللہ علیہ (متوفی ۱۹۴۷ م )کے اواخر تک جاری رہا۔ اس تنزلی کی وجوہات میں علماء کی قلت ، راجائووں کے درمیان اختلافات شامل ہیں۔ بلتستان و لداخ کرگل میں نوربخشی افراد کا دوسرے مکاتب فکر اختیار کرنے کا ایک اہم سبب بلتستان کے راجا حضرات کے درمیان اندرونی اختلاف تھا۔ سیدحمایت کے بقول راجہ خپلو و راجہ سکردو کے درمیان میر شاہ جلال کے زمانہ میں سخت اختلاف پیدا ہوا جس کو حل وفصل کرنے کیلئے پیر طریقت میر شاہ جلا ل نے سخت کوشش کی۔ یہی اختلاف نوربخشیہ مکتب فکر کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا۔ واضح رہے شاہ جلال کا زمانہ ۱۲۰۰ء کے بعد کا زمانہ ہے۔ چونکہ آپ کے جد بزرگ سید محمد نورانی ۱۱۸۱ء میں وفات پائے۔ بعد میں میرمحمد شاہ مخدوم الفقراءؒ آپ کے والد بزرگوار تھے۔
ایک زمانہ میں بلتستان کے حکمران حضرات نوربخشی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ حضرات نوربخشی مفادات کے محافظ تھے اس زمانہ میں راجا حضرات حاکم مطلق تھے ان کے ہر حکم و ہر فیصلہ لازم الاجراء ہوتا تھا۔ بعد میں آہستہ آہستہ یہ حاکمان تقلید میت سے تقلیدحی کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اسی وجہ سے حکمرانوں کے رشتہ داروں نے بھی انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تقلیدحی کی طرف رجوع کیا اور اس کام میں نجف اشرف سے آئے ہوئے علماء کرام نے اچھا خاصا کردار ادا کیا۔ ملاپشاوری جس کا اصل نام ملا عمر تھابلتستان میں آیا اور آخری عمر تک تقیہ میں رہا اس نے مقامی لوگوں کے افکار میں تبدیلی لانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اور بعض نوربخشی اعتقادی مسائل کو بھی مشکوک بنا دیا۔ تنزلی میں ایک بنیادی وجہ ہندوستان کی تقسیم بھی تھی۔ نوربخشی مکتب فکر کیلئے ایک بہت بڑا دہچکا اس وقت لگا جب برطانیہ نے پاکستان و ہندوستان کے نام سے دو ملک دنیا کے نقشہ پر لایا اور کشمیر دو حصوں میں بٹ گیا۔ اس تقسیم کے باعث آدھے نوربخشی ہندوستان میں رہ گئے اور رابطہ مکمل طور پر منقطع ہوگیا۔ اس دہچکے کا اثر پاکستان میں مقیم نوربخشیوں پر بھی پڑا۔ تقسیم پا ک وہند سے پہلے بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا اور ہندوستان کے ساتھ زمینی رابطہ کشمیر کی طرف سے تھا۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے ساتھ زمینی رابطہ گلگت کے راستہ راولپنڈی و باقی شہروں سے ہوا اور یہاں سے ہزاروںنوربخشی نے کسب علم کیلئے پاکستان کے مختلف شہروں کا رخ کیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میںنوربخشی مکتب فکر کے بچے اہل حدیث و دیوبندی میں پڑھنے لگے۔ جس میں سے اکثر بچوں نے اپنے مذہب کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے علاوہ زمینی راستہ کھولنے کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر کے علماء نے بلتستان کا رخ کیا۔ اسی زمانہ میں نوربخشیہ بلتستان کے کچھ علاقوں سے مکمل طور پر صفایا ہوا اور ضلع گانچھے میںاپنی اکثریت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے شگر ، کھرمنگ اور غواڑی میں بہت کم نوربخشی باقی بچے ۔ ضلع سکردو اور علاقہ یوگو سے نوربخشیت کا مکمل خاتمہ ہوا۔ ہندوستان میں کر گل میں بہت کم نوربخشی باقی رہا۔ مگر لداخ میں آج بھی نوربخشی اکثریت میں ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں آج بھی نوربخشی اپنے مکتب فکر پر قائم ہیں۔

استحکام کا دور

پیر طریقت سید محمد شاہ نورانی مدظلہ کے جدا مجد اور سلسلۃ الذہب کے پیر طریقت سید محمد شاہ زین الاخیار ؒ نے نوربخشی مکتب فکر کو حوصلہ دینے اوراس سے مذہبی و سیاسی تحفظ فراہم کرنے کے لئے بہت کوششیں کیں ‘ آپ ؒنے مختلف علاقوں میں مذہبی دورہ کرکے لوگوں کو تسکین روح فراہم کیا۔ آپ ؒنے ہندوستان کے نوربخشی نشین علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا اور بلتستان کے مختلف علاقوں میں دورہ کیا۔ دورۂ شگر کے دوران آپ ؒکو کھانے میں زہر دیاگیا۔ جس کے سبب آپ ؒنے شگر کا دورۂ ملتوی کرتے ہوئے فوراً مرکز کریس واپس تشریف لائے جہاں آپ ؒزہر کے اثر سے شہید ہوگئے۔ اس کے بعد آپؒ کے خلیفہ سید عون علی عون المومنین ؒ پیر طریقت کے منصب پر فائز ہوئے اور آپ ؒکے زمانہ میںنوربخشی ترقی کا دور شروع ہوا مختلف علاقوں میں انجمنیں قائم ہوئیں۔ علماء کرام کی قلت ختم ہوگئی۔ پیر سید محمد شاہ ؒ کے اواخر زمانہ میں سید علی شاہ ؒمفتی نوربخشیہ ،سید شاہ عباس غورسے، مولوی محمد علی ڈغونی ، سید قاسم شاہ کھرکوہ اور سید سلطان حسین سرمو جیسے نامور علماء پیدا ہوئے جنہوں نے نوربخشی کشتی کو بچایا۔ آج نوربخشی مکتب فکر اپنے عروج پر ہے۔ بہت سے اندرونی و بیرونی مشکلات کے باوجود ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں۔ پیر حاضر سید محمد شاہ نورانی کو مشکلات ضرور ہے۔ ان کے مخالفین بھی موجود ہیں جو بعض مسائل میں ان کے ہم نوا نہیں مگر اس کے باوجو د یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ان کے دور میں جو ترقی ہو رہی ہے اس میں پھر ٹھہرائو نہیں آئے گا۔ چونکہ نوربخشی عوام بیدار ہے۔ علماء کرام،دانشوراں ،سرکاری آفیسراں اور اساتیذ دینی جذبات سے سرشار ہیں۔ میرا موضوع کا اصل محور بھی یہی دور ہے۔ یہاں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کس شعبہ میں نوربخشیہ ترقی کر رہا ہے اور نوربخشیہ اجتماعی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے کس مقام پر کھڑاہے۔ ثبات و عروج کا یہ دور سید محمد شاہ زین الاخیارؒ متوفی ۱۹۴۷ء سے شروع ہوا اور پیر حاضر سید محمد شاہ نورانی تک جاری ہے۔
بلتستان کا خطہ مذہبی لحاظ سے رواداری اتحاد و اتفاق کا نمونہ ہے۔ یہاں پر بسنے والے تمام مکاتب فکر ایک بھائی کی طرح ایک دوسرے کی مشکلات کے موقع پر اپنی خدمت پیش کرتے ہیں۔ بلتستان دو ضلعوں پر مشتمل ہے ضلع سکردو اور ضلع گنگ چھے۔ ضلع سکردو میں آبادی کی اکثریت شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ ضلع گنگ چھے میں اکثریت نوربخشی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ سازشی گروہ شخصی مفادات کی خاطر گلگت بلتستان میں شیعہ، نوربخشیہ اور اسماعیلیہ کے درمیان اتحاد ہونے نہیں دیتے۔ اگر یہ تینوں مکتب فکر کے درمیان سیاسی اتحاد ہو جائے۔ تو گلگت بلتستان میں ہمیشہ پیروان اہل بیت ؑ کی حکومت قائم رہے گی۔
سید محمد شاہ نورانی مدظلہ العالی مکتب نوربخشیہ کے پیر حاضر ہیں ۔ آپ اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالم اسلام کی ترقی، مختلف مکاتب فکر کے درمیان برادری و وحدت کو قائم رکھنے میں سرگرم عمل ہیں۔ آپ رفتار و کردار اور تقاریر میں کسی کا دل آزاری کی باتیں کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ تمام نوربخشی کے آپ پیشوا ہیں۔ آپ سادہ زیست ،خوش اخلاق و مشہور عالم دین کے ساتھ ساتھ سلسلۂ ذہب کے پیر ہیں۔ آپ کریس میں مقیم ہیں جو آپ کے آباء و اجداد کا مسکن ہے ۔ اہل سنت برادری بھی آپ کا احترام کرتی ہے ۔ بلتستان خصوصاً ضلع گنگ چھے میں امن و امان قائم رکھنے میں آپ کا مرکزی کردار ہے۔

نوربخشی دنیا کے علمی مراکز

پیر طریقت سید عون علی شاہ مرحوم ؒ کے زمانہ میں نوربخشی زوال کے اسباب پر انتہائی غور فکر کرنے کے بعد انہوں نے دو اہم پروگرام بنایا اس پر وگرام کے تحت ایک مدرسہ کا قیام عمل میں آیا۔ جو اس وقت بھی سترونپی میں قائم ہیں۔ لیکن عدم توجہ کی بنا پر وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا جس کے لئے مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ نوربخشیوں کے اندر مذہبی شعور آنے کے بعد بانپی ،تھسکوں ،غورسے اور کھرکوہ میں اس وقت کے علما ء نے مدرسہ قائم کیا مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ علامہ مفتی سید علی شاہ پھٹروا ؒ ہندوستان سے تعلیم حاصل کرکے تشریف لائے۔ آپ ؒنے اپنے ذاتی خرچہ اور کوششوں سے بہت سے سادات وغیر سادات کو دینی تعلیم دی اور لوگوں کو اسلامی اور تعلیمات محمدؐ وآل محمد ؑ سے آگاہ کیا۔ آپ کے ہزاروں شاگرد اس وقت نوربخشی مکتب فکر اور اسلام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ آپ ؒایک جید عالم دین تھے اور مستجاب الدعا بھی تھے۔ اگر اس موضوع پر کتاب لکھی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔ اس کے علاوہ تھلے میں بوا مختار نے بلترو میں بھی مدرسہ قائم کیا۔ جہاں سے کئی معروف علماء نکلے یہ سب غیر منظم تھے اور جلد ختم ہو گئے۔
سکردو میں مدرسہ کاقیام :پیر طریقت سید عون علی عون المومنین ؒ کے زمانہ میں ایجنڈا نمبر ایک کے تحت خپلو میں مدرسہ ناکام ہونے کے بعد سکردو میں پہلا نوربخشی مدرسہ قائم کیا۔ ضلع گنگ چھے سے باہر سکردو سے نوربخشیہ کاملاً ختم ہوجانے کے بعد یہ پہلی دینی درسگاہ تھی۔ جہاں ایک مستقل و دلسوز استادکی کمی پھر محسوس کرنے لگی پہلے بوا علی کوروی مرحوم ،مولانا علی محمد شگر،مفتی عبداللہ یکے بعد دیگر بعنوان استاد تشریف لائے مگر کامیاب نہیں ہوا۔ اور مدرسہ دوبارہ تعطل کا شکار ہوا۔

کراچی میں مدرسہ کاقیام :کراچی میں موجود نوربخشی برادری نے دینی مراکز کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے انجمن فلاح و بہبودیٔ نوربخشی کے ماتحت ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میںمختلف علاقائی تنظیموں کے علاوہ تعلیم یافتہ حضرات کو بھی دعوت دی گئی ۔ علاقائی انجمنوں نے مرکزی انجمن فلاح وبہبودیٔ نوربخشی پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔۱۸ مئی ۱۹۹۰ بروز جمعہ کو انجمن کے ہی ایک اجلاس میں تمام علاقائی نمائندوں نے متفقہ طور پر اس علمی درسگاہ کا نام ’’جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ‘‘ رکھا۔ بعد ازاں انجمن فلاح و بہبود کے مرکزی صدر جناب بابر علی کے ہمراہ عبداللہ عرف نانا کو بلتستان روانہ کیا تاکہ پیر طریقت سید عون علی عون ؒ سے اجازت لیکر مدرسہ کا قیام عمل میں لایا جائے وہاں پیرطریقت سید عون علی شاہ نے شیخ سکندر حسین کو کراچی مدرسہ کیلئے بعنوان استاد و پر نسپل متعارف کرایا۔ اس طرح شیخ سکندر حسین کراچی تشریف لائے اور۲۵ دسمبر ۱۹۹۰ء کو پیغمبر گرامی ؐ کے یوم ولادت اس مدرسہ کا افتتاح اور آغاز کیا۔

علمی انقلاب

حضرت علامہ سکندر حسین دام ظلہ کی تعیناتی سے پہلے جتنے مدرسے قائم کئے گئے، وہ سب ایک دو سال کے بعد بند ہو گئے۔ نوربخشی عوام ان تلخ واقعات کو ابھی تک نہیں بھلا سکے۔ مگر شیخ صاحب کا پروگرام منظم و دقیق تھا۔ بہت جلد مدرسہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ نے بلتستان میں شہرت حاصل کی۔ دوست دشمن سب علامہ صاحب کی زحمات و خدمات کا اعتراف کرنے لگے۔
آج بلتستان اور پاکستان کی سطح پر یہ مدرسہ جانا پہچانا جاتا ہے۔ نوربخشی علمی ترقی اور حوزہ کے قیام میں شیخ صاحب کی خدمت ہمیشہ باقی رہے گی۔ اس وقت آپ کے شاگرد بلتستان اور پاکستان میں مختلف مقامات پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انجمن فلاح و بہبود نوربخشی بلتستانیاں رجسٹرڈ کراچی اس وقت نوربخشی انجمنوں میں سب سے زیادہ منظم اور پراپرٹی کے لحاظ سے ایک مستحکم ادارہ ہے۔ شیخ محسن اشراقی صاحب مدرسہ کے نائب مہتمم ہیں اور ساتھ ہی مسجد کے خطیب وپیش امام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔
کراچی مدرسے کی کامیابی دیکھتے ہوئے سکردو مقیم نوربخشی حضرات نے بھی ہمت باندھ لی اور سکردو میں شاہ ہمدان سید علی ہمدانی ؒکے نام سے مدرسہ قائم کیا۔ جہاں ایران سے پڑھے ہوئے جامعہ المصطفی(مرکز جھانی علوم اسلامی ایران) کے طالب علم شیخ عبداللہ پرنسپل ہیں۔ آپ کے علاوہ مولانا عارف حسین بھی بحیثیت مدرس اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
بعض غیرضروری اختلافات کے باعث پیرطریقت کو مذکورہ جامعہ میں کسی قسم کی مداخلت و حیثیت نہیں دی گئی لیکن پھر بھی انہوں نے اس کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ سکردو کے سرکاری ملازمین نے اس مدرسہ کے قیام کے لئے محنت کی ہے اور ایک عالی شان مسجد کے علاوہ بہت بڑا مدرسہ قائم ہے۔
نوربخشی آبادی کو دیکھتے ہوئے چندہ دلسوز نوربخشی حضرات نے پیر طریقت سید محمد شاہ نورانی ؒ کی اجازت سے اولڈینگ میں نوربخشی برادری نے ایک اور خوبصورت مدرسہ باب العلم کی بنیاد رکھی اور جلد تکمیل ہو کربدست پیر طریقت سید محمد شاہ نورا نی مدظلہ اس کا افتتاح ہوا اس وقت تعلیمات محمدؐ وآل محمد ؑ و نوربخشی مشائخ ؒ کے سیرۂ عملی کو نظریاتی طور پر نوجوان نسل تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس وقت شیخ عبدالکریم امامی جامعہ کے پرنسپل ہیں اور مولانا محمد اسحاق ثاقب گلشن کبیر بھی بعنوان استاد خدمات انجام دے رہے ہیں۔
عرصہ دراز سے نوربخشیوں کی مرکزی حیثیت رکھنے والا علاقہ خپلو خاص ایک مادر علمی سے محروم تھا۔ قبل ازیں کئی ایک مضافاتی اور اجتماعی بنیادوں پر مدارس قائم ہو ئے تاہم بوجوہ انتظامیہ کی نااہلی اور انتظامی کمزوریوں کے باعث یہ مدارس کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ علاقہ خپلو کو کثیر آباد ی کے باعث ایک نامور دینی مرکز کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جارہی تھی۔ لائق صد تحسین ہے خپلو کے معززین ، جنہوں نے اس سلسلے میں اب پھر قدم اٹھایا ہے اور جامعہ نوربخشیہ کراچی کے فارغ التحصیل عالم دین جناب موسیٰ علی صدیقی کی ذاتی کوششوں اور کاوشوں اور عوام الناس کی بھرپور مدد کے باعث ایک شاندار تعلیمی مرکز ’’جامعہ آل رسول صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ‘‘ کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے اور جناب نائب پیر سید حمایت علی کے دست مبار ک سے جامعہ کیلئے شاندار عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کی شاندار تعمیر جاری ہے ۔ اس وقت اس جامعہ میں ۷۰۰ بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔مستقبل میں شب باش نظام کے تحت اعلیٰ علوم کا بھی منصوبہ ہے ۔
ان تمام مدارس کو نوربخشی عوام اپنی قلیل آمدنی سے ماہانہ چندہ دیکر چلاتے ہیں۔ انشاء اللہ آئندہ قریب میں اور بھی دینی مدرس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
اس کے علاوہ تھلے میں ایک مدرسہ کافی عرصہ سے نوربخشی بچوں کو احکام دینی کی تعلیم دینے کیلئے قائم ہے۔ یہ صرف تھلے کے نوربخشی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس کی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی قابل ذکر عالم دین وہاں سے فارغ نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن یہاں سے پڑھے ہوئے طلبہ بعد میں کسی اور مدرسہ میں جاکر عالم ضرور بنتے ہیں۔ کریس میں بھی ایک مدرسہ قائم ہے۔ لیکن ابھی تک قابل ذکر کا م انجام نہیں پایا ہے۔ یہاں کی انجمن بہت محنت کر رہی ہے۔ انشاء اللہ اس کا ثمرہ جلد سامنے آئے گا۔

تحریر: الحاج علامہ شیخ محمد یونس سلتروی