امیر کبیر سید علی ہمدانی بحیثیت مبلغ اسلام


تحریر


بارہ رجب المرجب یوم ولادت علی ثانی حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ کی مناسبت سے خوبصورت تحریر

امیر کبیر سید علی ہمدانی بحیثیت مبلغ اسلام

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے-کہ حضرت آنحضرت ﷺ تبلیغ دین کیلئے بہت سے مسلمان مبلغین کو دنیا کے مختلف ممالک میں اشاعت اسلام کی خاطر بھیجا کرتے تھے– آپِ نے ایران بھی اسی غرض سے حضرت علی مرتضٰی علیہ السلام کو بھیجا اور ہمدان کے عوام کے نام اسلام قبول کرنے کے متعلق ایک خط بھی دیا- جب حضرت علی علیہ السلام نے ایران کے علاقہ ہمدان جاکر اپنی آمد کی غرض و غایت کا اعلان کیا تو وہاں کے لوگ برانگیختہ ہوکر لڑنے کیلئے گھروں سے باہر جمع ہوئے- حضرت علی ؒنے یہ حال دیکھ کر اپنی جیب سے رسول اللہ ﷺ کا خط نکال کر ان لوگوں کے سامنے پڑھا-خط رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تھا-اس کو حضرت علی نے پڑھا -اس لئے اس کا مضمون ان لوگوں پر اس قدر چھا گیا کہ وہ سب مسلمان بن گئے- جب رسول اللہ ﷺ کو ہمدان کے لوگوں کی خبر آئی تو آپ بہت خوش ہوئے اور بارگاہ ایزدی میں سر بہ سجود ہوئے-طویل سجدہ کیا جب سجدہ سے اٹھے تو ہمدانیوں کیلئے تین بار دعا کی “اے اللہ ہمدانیوں پر سلامتی ہو” ظاہر ہے کہ وہ تب سے اب تک سلامتی میں ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی رہینگے- یہ واقعہ ؔ 8 ھ کا ہے-اسطرح حضرت علی کے ذریعہ ایرانی مسلمان ہوئے-اور حضرت علی ثانی نے ایران صغیر یعنی کشمیر کو اسلام کی دولت سے فیضیاب کیا-چنانچہ ان کی شان میں شاعر مشرق نے لکھا ہے-
سیدالسادات سالار عجم – دست او معمارتقدیر امم
تاغزالی ذکراللہ ہوگرفت – ذکروفکرازدودمانش او گرفت
یک نگاہ او کشاید صدگرہ خیز تیرش را بدل راہے بدہ
مغلیہ دور کے اختتام تک سینکڑوں سلاسل تصوف سمٹ سمٹ کر اور ایک دوسرے میں ضم ہوکر چودہ تک پہنچ گئے- تفصیل یوں ہے:- قادریہ ‘ چستیہ’ نقشبندیہ’ سہروردیہ’ شازلیہ’ رفاعیہ’ فردوسیہ’ مدینیہ’ یسویہ’ شطاریہ’ کبرویہ’ جلالیہ’ مولویہ’ و’ہمدانیہ’- مگر ان میں سے بھی صرف چار ہی سلسلوں کے مقدر میں قبول عام کی سند لکھی تھی-امت اسلامیہ کے جلیل القدر علماء اور روحانی پیشوائوں نے ان میں ہی سے منسلک ہونے پر فخر محسوس کیا-آج بھی ان ہی چار سلسلوں کے مشائخ اور خدام پوری دنیا میں تبلیغ و تربیت کے کام پر لگے ہوئے ہیں-اور زمین کا ہر گوشہ ان کے فیوض سے بقدر ظرف متمتع ہو رہا ہے-
یہ چار سلاسل طریقت یہ ہیں:- قادری’ چستی’ نقشبندی و سہروردی –

آخر الذکر سلسلہ :حضرت شیخ ضیاءالدین ابو نجیب عبدالقادر سہروردی ؒ(م 563ھ) کے سربر آوردہ خلفاء سے ایک عالم و متقی بزرگ ابوالجناب احمد بن عمر ؒتھے- جو تاریخ و تصوف اسلامی میں نام سے زیادہ اپنے عرف یعنی شیخ نجم الدین کبرا ؒسے مشہور ہوئے- جو خوارزم کے ایک گائوں خیوق یا خیول میں ( 540ھ) میں تولد ہوئے- ظاہری علوم اور مناظروں میں غلبہ و تفوق رکھنے کی وجہ سے’ الطامتہ الکبریٰ ‘اور باطنی کمالات سے متصف ہونے کی بنیاد پر’ ولی تراش’ سے مشہور ہوئے- ان کے مشائخ میں سے شیخ عمار یاسرؒ ‘ شیخ اسماعیل قعری ؒاور شیخ رود بہار بقلی مصری ؒکے گرامی قدر اسماء قابل ذکر ہیں- حضرت امام محی الدین رازی ؒاپنے علم و فضل اور دنیاوی وجاہت کے باوجود پہلے ہی ملاقات سے اس قدر متاثر ہوئے-کہ گوشہ نشین ہوئے- حضرت شیخ ؒ بلند پایہ کے شاعر اور مصنف بھی تھے– ان کی تالیفات پر بارہ جلدوں پر مشتمل ایک تفسیر بھی تھی- کتب تصوف میں ان کا رسالہ فوائح الجمال و فوائح الجلال عہدوسطٰی کے ارباب معرفت کے پاس مقبول اور مستند ماخذ رہا ہے- حضرت شیخ نجم الدین کبرٰیؒ کا سلسلہ کبروی سلسلہ کہلاتا ہے- ہندوستان اور پاکستان میں یہ سلسلہ متعدد بزرگوں کے ذریعہ پہنچا ہے- جس میں حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒکو بے نظیر مقبولیت حاصل ہوئی- وہ تین واسطوں سے حضرت شیخ نجم الدین کبرٰی ؒسے اجازت رکھتے تھے- حضرت کبیرؒ نے اپنے متعدد رسائل میں اپنے مشائخ کا سلسلہ اس طرح درج کیا ہے:-شجرہ طریقت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کبروی سلسلہ اصل میں سہروردی سلسلہ کی ایک شاخ ہے-

حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی

حضرت امیر کبیر کا اسم گرامی سید علی ہے- آپ شہر ہمدان میں 12 رجب المر جب 714ھ میں پیدا ہوئے- اسلئے ہمدانی کہلائے-آپ نجیب الطرفین سید تھے–آپ کے والد گرامی کا نام سید شہاب الدین اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ فاطمہ تھا-
آپ کے ماجد ہمدان کے سربر آوردہ امراء میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ آپ بچپن سے ہی باوقار اور متانت و تدبر کا مجسمہ تھے- صغر سنی میں عام طفلانہ شرارتوں اور حرکتوں سے کنارہ کش رہے- آپ نے صغر سنی میں ہی قرآن پاک حفظ کیا- پھر علوم و فنون کی طرف متوجہ ہوئے- حضرت سید علاوالدین آپ کی تعلیم و تربیت کے ذمہ وار ہوئے- جو کہ آپ کے ماموں بھی تھے- ان کے زیر سایہ حضرت امیر نے بارہ سال تک تمام دینی علوم’ علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل کئے۔ اور ان سے فیضان حاصل کیا- دس سال تک علوم متداولہ علماء وقت سے حاصل کئے- اسی دوران حضرت علاوالدین نے ابوالبرکات علی دوستی کی تربیت میں دیا-
علوم ظاہری کے بعدسیادت صوری معنوی حاصل کرنے کیلئے آپ تزکیہ نفس’ پاکیزگی اعمال اور اعلٰی کردار کی طرف متوجہ ہوئے- عنایت ربانی سے آپ کو نادر روزگار اہل صفا خاصتہ حضرت رکن الدین علاوالدین سمنانی اور ابوالمعالی شرف الدین مزدقانی کا سائیہ عاطفہ اور شفقتیں حاصل ہوئیں- حضرت مزدقانی کی تربیت میں آپ چھ سال 726ھ سے 733ھ تک ذکر و فکر اور تزکیہ باطن کے اصول سیکھ کر درجہ محویت تک پہونچ گئے حضرت مزدقانی نے آپ کا حال دیکھ کر علوم باطنی اور پاک نفس کے مقامات و مدارج پانے کیلئے حضرت اخی علی دوستی کی خدمت سے مستفید ہونے کو کہا-
حضرت دوستی کے انتقال کے بعد دوبارہ حضرت مزدقانی کی خدمت میں حاضر ہوئے- اور ان ہی کے ارشاد گرامی پر حضرت امیر نے دنیا کی سیاحت شروع کی-اس سیاحت میں سیر و تفریح کی غرض و غایت نہیں تھی۔ بلکہ علماء وفضلاءاور مشائخ حضرات کی صحبت میں بیٹھ کر ان سے فیض روحانی حصل کرنے کی راہیں تلاش کرنی تھیں– اسطرح انہوں نے تقریبا چودہ سو اولیاء کرام کی صحبت میں بیٹھ کر ان کے بتائے ہوئے وظائف جمع کئے– جن کی نسبت حضرت سرورعالمﷺ تک پہونچتی ہے-اور انہیں ترتیب دیکر آپ نے ایک جامع کتاب تالیف کی جس کا نام ہے “اوراد فتحیہ” حضرت علی ثانی کا فرمان ہے کہ میں نے مشرق و مغرب کی سیاحت کی-اس سے فراغت حاصل کرنے کے بعد میں پھر واپس اپنے وطن “ہمدان” پہونچے-
ایک رات بوقت سحر حضرت خضر کی زیارت کا شرف حاصل ہوا- اس اوراد فتحیہ کے مجموعہ کو وہ اپنے ساتھ لےگئے-چند روز بعد پھر آئے اور فرمایا کہ اے سید علی اس اوراد میں اور چند کلمات کا اضافہ کیا-جن کی بدولت اس کے فضائل میں اور اضافہ ہوا ہے- اور اس کا نام بھی “اوراد فتحیہ” رکھا ہے-حضرت امیر فرماتے ہیں کہ میں نے اس میں چودہ مقام با حشمت پائے-جو خط سبز سے پر رونق تھے-اور یہ اوراد فتحیہ کا مجموعہ سلسلہ کبروی سے تعلق رکھتا ہے-جس کی نسبت رسول اللہ ﷺ تک پہونچ جاتی ہے- تاریخ گواہ ہے کہ حضرت امیر نے یہ نسخہ کیمیاء لکھ کر دربار نبویﷺ میں پیش کیا- تاکہ منظوری کے بعد اس کو عوا م کی نظر کریں- لکھا گیا ہے کہ حضورسرور ﷺ جلوہ گر ہوئے اور فرمایا “خذ ھٰذہ الفتحیہ” – چنانچہ تب سے آج تک اکثر مساجد میں صبح کی نماز کے بعد لوگ اجتماعی صورت میں بالجہر اوراد فتحیہ پڑھ کر اپنی روح کو ان توحیدی کلمات کے ذکر سے تازہ کرتے ہیں- انہیں اللہ تعالٰی ان کی بدولت خوش اور شادمان رکھتا ہے- اوراد فتحیہ توحید باری کا ایک انمول اور گراں قدر تحفہ حضرت علی ثانی نے کشمیری مسلمانوں کو عطا کیا ہے-اس کے بہت سے تراجم اور شرحیں لکھی جا چکی ہیں- جن کے پڑھنے سے اس تحفئہ علی ثانی کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے- کیونکہ جس توحید ربانی تحفہ کو حضور سروردو عالم ﷺ نے قبول فرمایا ہو – وہ لا ثانی نہ ہو تو اور کیا؟

اہل کشمیر را پناہ است او – رہبر خلق تا الٰہ است او ٭ یعنی آں بانئی مسلمانی – میر سید علی ہمدانی

پہلی بار کشمیر آمد

قرون ہفتم اور ہشتم کے ربع الاول کے بعدجن مسلمان علماء ومشائخ نے اسلام کی اشاعت کی خاطر کشمیر کی طرف توجہ فرمائی ان ہی اولیاء میں حضرت امیر میر سید علی ہمدانی بھی ہیں- جو حضرت سید یحٰی منیری کے ساتھ ہندوستان کی تبلیغی سیاحت پر آئے تھے- حضرت منیری نے فیض آباد کو رونق بخشی- جبکہ حضرت امیر نے کشمیر جسے آپ نے “باغ سلیمان” کا نام دیا ہے کو اپنی تشریف آوری سے بہرہ ور کیا-یہاں آنے سے پہلے آپ نے ثقہ اور قابل اعتبار حالات جاننے کیلئے اپنے برادران سید حسین سمنانی اور سید تاج الدین ہمدانی کو کشمیر بھیجا تاکہ وہ اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ کشمیر کو اسلامیانے کے عمل کے امکانات کا جائزہ لیں- دونوں بزرگ تشریف لائے اوریہاں کی دینی و سماجی و سیاسی و معاشی و جہالت و ابتری کا پورا جائزہ لیکر حضرت امیر کو خبر دی- کشمیر کے حالات سے باخبر ہوکر آپ نے تقریبا سات سو سادات کرام جو کہ سب کے سب علماء ربانین اور ماہر فنون تھے- ساتھ لیکر774 ھ میں جانب کشمیر روانہ ہوئے- اس پہلی سیاحت کے دوران حضرت امیر نے کشمیر میں صرف چھ ماہ قیام کیا – بچشم خود حالات کا جائزہ لیا عوام اور حاکمان وقت سے روابط قائم کئے- اسطرح سیاسی و سماجی ومذہبی و ثقافتی وفکری و روحانی کوائف سے پوری واقفیت حاصل کی-اس دوران آپ کو سلطان کشمیر شہاب الدین کے قریب جانے کا موقع ملا- جو فیروزپور میں پڑاو ڈالے ہوئے تھے–ان دنوں شہاب الدین بارادہ فتح ہند فیروزشاہ تغلق کے ساتھ جنگ لڑنے گیا تھا- مگر حضرت امیر کے سیاسی تدبر سے دونوں بادشاہوں میں صلح ہوئی-

دوسری بار کشمیر آمد

دوسری سیاحت کے حوالے سے آپ نے تقریبا سات سال کے وقفہ کے بعد 781ھ میں کشمیر آئے- سلطان وقت قطب الدین نے بڑے تپاک سے استقبال کیا- اس سفر میں آپ نے یہاں تربیت و تعلیم کے مستقل ادارے جا بجا قائم کئے-ہماری سماجی زندگی میں بہت اہم اور دور رس تبدیلیاں لائیں- اشاعت اسلام میں حائل رکاوٹوں کو اپنے تدبر سے دور کیا- اس ضمن میں اسلام کی حقانیت کے ثابت کرنے کیلئے مباحثے بھی کرنے پڑے- اور ڈھائی سال کی جی توڑ محنت کے بعد کشمیر میں اسلام کا بول بالا ہوا- پھر آپ 783ھ میں دعوت اسلامی کے دائرہ کو وسعت دینے کی غرض سے تبت اور ترکستان کی سیاحت کی خواہش سے کشمیر روانہ ہوئے- اس مشن میں آپ نے تین سال کا عرصہ صرف کیا-

تیسری بار کشمیر آمد

پھر 785ھ میں تیسری بار کشمیر کو تشریف آوری سے رونق بخشی- اس بار دعوت اسلام اورشریعت کے احکام اور شعائر اسلامی کو جاری کیا- مسلمانان کشمیر کو بالجہرذکر کی اجازت عام بلکہ ذکر کا مجموعہ “اوراد فتحیہ” مرحمت فرمادی- 786ھ میں وطن مالوف جانے کے ارادے سے نکلے- تیسری سیاحت میں آپ کا قیام کشمیر میں چار ماہ کیلئے رہا- کشمیر میں اگرچہ بہت پہلے علماء و اصفیاء نے دینی دعوت اور فکری تطہیر کا کام شروع کیا تھا اور اسکے حوصلہ افزاء نتیجے بھی نکلے تھے-تاہم اس کی رفتار مدہم تھی- مگر حضرت امیر نے معاشرتی ‘ فکری’ سیاسی’معاشی مختصر ہمہ جہت تقاضوں کو مد نظر رکھ کر ہمہ گیر اور منظم منصوبہ بندی کے تحت دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا- حضرت امیر نے عوام کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا اور کشمیریوں کے مزاج کی رعایت کی- سر اسلام کو عوامی تحریک بنانے کا سہرا بھی ان ہی کو حاصل ہے- چنانچہ آپ کی مساعی جمیلہ کے طفیل اہل کشمیر کا مزاج ‘ ذوق’ سوچ’ طرز فکر یکسر بدل گیا- ان کے مقاصد اور منزلیں بدل گئیں-اس طرح سماجی زندگی کو صالح اقدار پر استوار کرکے فکری و روحانی’ دینی و معاشی’ تہذیبی و ثقافتی’ پسماندگی اور جہالت سے نجات دلائی- ہمہ گیر معاشی اصلاح کیلئے آپ نے ہنرمند اور ماہر دستکار علماء کی وساطت سے شالبافی’ پشمینہ سازی’ خوشنویسی کو کشمیر میں متعارف کرایا-نیز علماء نے ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مبادیات دین سے واقف کیا- فکری اصلاح کیلئے آپ نے جگہ جگہ خانقاہیں تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ تبلیغی مشن طول و عرض میں بھیجدئے- دینی تعلیمات اور احسان و سلوک کے اقدار کو ذہن نشین کرایا- اور ا نمیں صالح جمالی ذوق کو بھی پروان چڑھایا- غرض اسطرح اہل کشمیر غربت و جہالت- توہمات و خرافات کے قعر مذلت سے باہر نکل آئے- اسطرح جس حیات بخش تحریک کو حضرت بلبل شاہ صاحب نے اپنے زور بیان سے امراء اور شاہی محلات میں پہنچایا تھا- اسے حضرت امیر کبیر نے وادی کے کونے کونے میں تائید ایزدی اور اپنی خداداد صلاحیت سے پہنچادیا- مجموعی تبلیغ کے بعد حضرت موصوف نے علماء اور مشائخ کے الگ الگ گروہ کشمیر کے طول و عرض میں تبلیغ دین کی خاطر بھیجدئے-اور خود بھی مختلف مقامات پر اشاعت اسلام کی غرض سے گئے–ان مقامات میں قابل ذکر اس وقت خانقاہ معٰی سرینگر’خانقاہ ترال اور خانقاہ مکہ ہامہ ہیں- یہ وہ جگہ ہے جہاں پر کم از کم 37 ہزارغیرمسلم حضرت علی ثانیؑ کے دست شفقت پر بیعت لے کر مشرف بہ اسلام ہوئے-اور حضرت للہ عارفہ بھی ان کے ذریعہ سے اسلام کے نام سے سیراب ہوئی-خانقاہ معلٰی کی تعمیر میں حضرت شیخ العالم شیخ نورالدین ولی نے اہم کام انجام دیا ہے-ان کی اور حضرت شیخ حمزہ کی عبادت گاہیں بھی وہاں موجود ہیں- اسیطرح ترال میں انکی عبادتگاہ مایہ ناز خانقاہ کی صورت میں موجود ہے- مکہامہ تحصیل بیروہ میں بھی حضرت امیر بہت عرصہ اپنے مولا کی عبادت میں مصروف تھے– اس پر کیف جگہ کو بھی لوگوں نے عبادت گاہ میں تبدیل کیا- اسکے علاوہ حضرت علی ثانی کی عبادت گاہیں کشمیر کے طول و عرض میں موجود ہیں-جو عبادت گاہوں کی حیثیت سے لوگوں میں شہرت یافتہ ہیں-(اس کے علاوہ بلتستان کی وسیع و عریض وادیوں میں امیر کبیر کی تعمیر کردہ سینکڑوں مساجد موجود ہیں مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ سے وابستہ لاکھوں معتقدین روزانہ ان کی کتاب دعوت صوفیہ امامیہ کی تعلیمات کے مطابق عمل کرتےہیں )

تصانیف

بے حد مصروفیات کے باوجود آپ نے تحریری طور بھی اسلام کی بڑی خدمت کی ہے- آپ بلند پایہ کثیرالتصانیف مصنف تھے- مئورخین کی تحقیق کے مطابق آپ کی تصانیف کی تعداد پونے دو سو تک پہنچی ہے- جن میں اکثر مخطوطات کی شکل میں دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں-بلکہ حضرت امیر سے کشمیریوں کے خصوصی لگاو کی بنا ءپر یہاں بھی بہت سے علمی گھرانوں میں آج بھی حضرت کی کتابیں مخطوطات کی شکل میں موجود ہیں- حضرت امیر نے اسلامی ادب کی اکثر اصناف میں مفید کتابیں اور رسائل تصنیف کئے ہیں- ان میں اکتالیس کتابوں کے نام ابھی تک معلوم ہوئے ہیں جو درجہ ذیل ہیں:-

ذخیرۃ الملوک’ چہل اسرار’ اوراد فتحیہ’اوراد عصریہ’ مودۃ القربٰی’ اورادیہ’ تلقینیہ’ اربعینیہ’ نفسیہ’ نفسیہ فارسیہ’ ذکریہ’ الفتوۃ’ وجودیہ’ اعتقادیہ’ دریشیہ’ عقلیہ’ میریہ’ داوئدیہ’ ہمدانیہ’ اخلاقیہ’ نوریہ’ فقریہ’ اسراریہ’ فارحیہ’ شرح قصیدہ خمریہ’ چہل حدیث’ مشارق الانوار’ حل الفصوص’ اسرار النقط’ قواعد عشرہ’ مرآۃ الطالبین’وصیت نامہ’ مجمع الاحادیث’ آداب المریدین’ سبعین’ معرفتہ الزاہد’ مکتوبات شریف ‘شرح اسماءاللہ’ الدعوات’ منہاج العارفین’ حل مشکل وغیرہ وغیرہ-
ان تصانیف کو مختصر طور درجہ ذیل زمروں میں رکھا جا سکتا ہے :-
کتب:- آپ نے سیاسی’ سماجی’ الہیاتی’ اخلاقی وغیرہ موضوعات پر نہایت شرح و بسیط کے ساتھ کتابیں تحریر فرمائیں– جن میں ذخیرۃ الملوک ہمہ علوم کی جامع اور نمائندہ کتاب ہے- اس کتاب کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اسکا ترجمہ 1825عیسوی میں لاطینی زبان میں کیا گیا ہے-اور1829 عیسوی میں اسکا ترجمہ فرانسیسی زبان میں ہوا-اسکے بعد اسکو ترکی زبان کے قالب میں ڈالا گیا-اردو زبان میں اسکا ترجمہ 1915 عیسوی میں کیا گیا-کشمیرمیں اول بار انگریزی زبان میں اسکا ترجمہ پروفیسر محمد امین ملک نے 2014عیسوی میں کیا ہے- اس کتاب کے قلمی نسخے دنیا کی مختلف ممالک کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں–جیسے کہ برٹش میوزم لندن’ پنجاب یونیورسٹی لائبریری’ کتب خانہ ملی تہران ایران’خدا بخش لائبریری بانکی پورہ’ برلن لائبریری’ انڈیا آفس لائبریری لندن’ ٹیپو سلطان لائبریری’ رایل ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کلکتہ ‘ کیمبرج یونیورسٹی لائبریری’ کتب خانہ پرنسٹن یونیورسٹی لندن ‘ جموں و کشمیر محکمہ تحقیق و اشاعت اورکلچرل اکادمی سرینگر کے شعبہ مخطوطات میں بھی اسکے کئی ایک قلمی نسخے دستیاب ہیں-حضرت امیر کا یہ قلمی شاہکار دس ابواب پر مشتمل ہے-
شروح:- روحانی معارف و اسرار کی تشریح میں کئی رسائل لکھے ہیں- نیز آپ نے ابن عربی کی فصوص الحکم کے اخلاق و پیچیدگیوں کو حل کرنے کیلئے ایک عمدہ شرح لکھی ہے –
رسائل:- آپ نے تصوف’ عرفان اور اصطلاحات تصوف پر بڑے مختصر مگر جامع رسائل تحریر کئے ہیں- جن میں کچھ عربی میں ہیں اور کچھ فارسی میں-
انتخابات:- اپنے سفر اور سیاحت کے تجربات اور بزرگان دین سے سنی ہوئی عمدہ نصائح اور قرآن و حدیث سے ادعیہ ماثورہ اور کلمات مقدسہ کو بڑی عمدہ ترتیب سے رسالوں کی صورت میں جمع فرمایا ہے-
مکتوبات:- آپ نے اپنے مریدوں کی وقتا فوقتا اپنے خطوط کے ذریعہ اصلاح و رہنمائی فرمائی ہے- جن میں نہ معلوم کتنے
مکتوبات ضائع ہوئے ہیں- البتہ مکتوبات کا ایک مجموعہ مرتب کیا گیا ہے- جو عرفان اور روحانیت کا بحر ذخار ہے- حضرت امیر موزوں طبیعت کے مالک تھے- اپنی تصانیف میں آپ نے جگہ جگہ شعر لکھدئے ہیں- اسکے علاوہ شعر میں ایک مستقل تصنیف “چہل اسرار” کے نام سے آپ کا اثر خامہ ہے- آپ بڑے قادرالکلام شاعر تھے- آپ کی شاعری کے موضوعات تصوف’ عرفان اور نعت سرور دو عالم ﷺ ہیں-
آپ کی تعلیمات قرآن’ حدیث اور صحابہ کرام کی سیرت کا آئینہ ہیں – آپ نے علمی مضامین میں تحقیق و تفحص سے کام لیا ہے – آپ پہلے قرآن و حدیث سے رجوع کرتے ہیں- آپ نے اختلافی و فروعی’ الہیانی و کلامی مباحث سے تعرض نہیں کیا ہے – مختصرا یہ کہ آپ کی تصانیف اسلامی علم وادب اور ثقافت و فکر کا ایک نہایت ہی گرانقدر سرمایہ ہے- ان میں ایسے حقائق و معارف پیش کئے گئے ہیں کہ جس کی حقانیت اور افادیت واضح ہے –ان میں صالح ذوق رکھنے والے سالک راہ حق کیلئے نقوش ہدایت و رشد کا وافر ذخیرہ موجود ہے- ذخیرۃ الملوک کے علاوہ من بھج السلوک ‘ محاسن السلوک’ صحیفۃ السلوک’ بصیرۃ السلوک’ ذخیرہ سعاست ‘اوراد فتحیہ ‘ منہاج العارفین ‘ چہل اسرار’ رسالہ معرفت’ منازل السالکین’ کتاب الاخلاق وغیرہ کا ترجمہ چھپ چکا ہے-
چہل اسرار’ حضرت امیؒر کی چالیس غزلوں کا ایک مختصر مجموعہ ہے- ان غزلوں میں آپ نے توحید باری تعالٰی اور حب محبوب کبریا کے حوالے سے توحید وجودی اور شہودی کے اسرار و معارف اور روحانی ترقی کے رموز و حقائق کو بیان کیا ہے- اس کے ساتھ ان میں عبودیت کے آداب’عبد کے عبدہ کے مقام ارفع تک پہنچنے کی حقیقت اور معبود کی ازلی و ابدی شان کبریائی کا بھر پور اظہار بھی ملتا ہے-عشق الٰہی اور حب رسولﷺ کے سمندر کا تموج دیکھنا ہو تو چہل اسرار میں غوطہ زن ہونا چاہئے–اس کی غزلوں میں بیان کئے گئے مفاہیم’ ان کی معنی آفرینی اور ان میں پوشیدہ اسرارومعارف اس وقت تک ذہن پر نہیں کھلتے ہیں جب تک کہ ان کو مکمل غوروفکر اور یک سوئی کے ساتھ نہ سمجھا جائے-ان میں اختصار اعجاز کی حد تک ہے-لیکن بہ ایں ہمہ اجمال’ فصاحت و بلاغت کے ساتھ یہ تفصیلی سرمایہ سے بھی خالی نہیں ہیں- اس میں وہ کوائف و مناظر کھول کر پیش کئے گئے ہیں جن کا تجربہ راہ حق پر مر مٹنے والے عاشقوں کو ظاہری و باطنی صورت میں ہوتا ہے- ہر غزل کے ہر شعرکا لفظ روحانی’ علمی اور ادبی لحاظ سے اپنی خاص حیثیت رکھتا ہے-

کلام کا مختصر ذکر

دعائ صبحیہ ‘اوراد فتحیہ  قرآن کریم و احادیث نبوی ﷺ کے نچوڈ ہیں اور جس جامعیت و کاملیت سے حضرت امیر نے ان کو مرتب کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ منبع علم و عمل تھے- اور واقف اسرار ربانی تھے– انہوں نے ہمیں دعائ صبح بہ جہر پڑھنے کی تلقین کی- نماز سے فارغ ہوتے ہی ہم ان کے ارشادات کے مطابق ان کی مقدس امانت اوراد فتحیہ کا بہ جہر ورد کرتے ہوئے اللہ اور اسکے پیارے رسولﷺ کی عظمت اور تعریفیں بیان کرکے کفر و شرک پر وعید بھیج دیتے ہیں کہ کفر و شرک کے ماحول میں یہ لازمی ہے کہ کلمات حق اونچی آواز میں پڑھے جایئں- اسکے علاوہ “ہمہ اوست” کا موضوع کی پرچھایئں’ چہل اسرار میں کہیں کہیں نظر آتی ہے- شاہ ہمدان کے قصیدہ کنزالیقین کا واحد موضوع ہے- یہ قصیدہ ابن العربی کے فلسفہء وحدت الوجود اور منصورالحلاج کے نعرہء ‘انا الحق’ کی صدائے بازگشت نظر آتا ہے- اس میں کائنات تکوینی کے تمام حوادث اور تاریخ انسانی کے تمام واقعات کو ذات حق کے مختلف مظاہرہ شیئون کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے-
بایزیدؒ و شبلیؒ ومعروف کرخیؒ وجنیدؒ
بے گماں یک ذات آمد’ نام من بسیارشد
دریکی محبوب گشتم دریکی عاشق شدم
عاشقی وشب روی دل را ازیں جا کار شد
نورچشم مرتضٰے یعنی شہید کربلا
از فراق آزویم کشتہ کفار شد