تصوف کی تعریف اور اہل تصوف کا مقام


قال اللہ تعالٰی:ولا تطردالذین یدعون ربھم بالعداۃوالعشی یریدون وجھہ ما علیک من حسابھم من شئی ومامن حسابک علیھم من شئی فتطردھم فتکون من الظالمین۔
(سورہ انعام پارہ ۷ آیت ۵۲)
ترجمہ:(اے میرے حبیب)آپ ان لوگوں کو نہ نکال دیں۔جو خدا کے رضا حاصل کر نے کیلئے صبح وشام اپنے رب کے درگاہ میں فریاد کر تے رہتے ہیں۔نہ ان کے حساب وکتاب کی اب کوئی چیز ان کے اوپرہے پس(تو اگر انکو نکال دیں)توتو ظالم لوگوں میںشمار ہو جائیگا۔(نعوذ بااللہ )
شان نزول:اس آیت مبارکہ کے شان نزول میںتمام مفسرین متفق ہے۔کہ یہ آیۃ کریمہ اصحاب صفہ کے شان میںنازل ہوئی ہے۔پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اپنے غریب پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے اصحاب باوفا (اصحاب صفہ)کے ساتھ مسجد نبوی کے چبوترے میں وعظ ونصیحت اور درس دیا کر تے تھے۔جب سردار قریش نے یہ حالت دیکھی۔تو انکو بہت حسد ہوئی ۔کہ اگر محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب صفہ کو اس طرح درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھئے ۔تو اسلام کو ضرورت تقویت حاصل ہو گا ۔اس لئے انھوںنے ایک میٹنگ کر کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا ۔کہ یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ سے ایک عرض کر تے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے ساتھ ہتے ہیں۔اگر آپ انکو مختصر وقت کیلئے نکا ل دیں۔تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجلس میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعظ ونصیحت سن کر آپ پر ایما ن لے آتے ہیں۔کیونکہ ہم ان غریب لو گوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کو اپنے شا ن کے خلا ف اور اپنے لئے عارسمجھتے ہیں۔لہذٰاآپ ان کو تھوڑی سی وقت کیلئے اپنا محفل سے نکا ل دیں۔تا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھوں۔ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عزت ہو گئے۔چونکہ رحمۃالعالمین ہمیشہ امت کی فکر میںرہتے تھے۔اس لئے اصحاب کے یہ تجویز سن کر آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیا ل آیا ۔شاید میںمختصر سی وقت کیلئے اپنا وفادار اصحاب (اصحاب صفہ) کو باہر نکا ل دوں ۔تو یہ لوگ ایمان لائیںگے۔انکے ایمان لا نے لا نے سے انکے مال ودولت سے اسلام کو تقویت پہنچے گی ۔سوچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اقدس جھکا کر وحی کی انتظار کی کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کے بغیر اپنے رائے سے کبھی بات نہ کر تے تھے ۔ارشاد ربانی ہے۔
وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یو حیٰ۔
جب آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اقدس جھکا یا ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحا ب (اصحاب صفہ)نے سوچا ۔کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیں یہاں سے جانے کا حکم دینا گوارہ نہیں ہوئے ہیں ۔اس لئے ہم خود چلے جا ئیں گے ۔یہ کہ کر اصحاب صفہ میںسے ہر ایک چبوترے سے مسجد میںداخل ہو کر نمازمیں مشغول ہو گئے ۔اتنے میںتلاوت کر دہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
ولا تطردالذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی یردون وجھہ۔۔۔۔۔۔۔س
ترجمہ:(اے محمدؐ)آپ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کو اپنا نفس پر صبر کر یں۔جو رضا الٰہی حاصل کر نیکی خاطر صبح شام خدا کو دعا کر تے رہتے ہیں۔اور تو دنیا وی حیات کی زینت کو چا ہتے ہوئے ان (اصحاب صفہ سے اپنا نظر رحمت بھی نہ پھرو۔خلا ق عالم کے طرفسے جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے اس تجویز کو رد کیا۔اب انھوںنے تیسری بار عرض کیا ۔یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے ہما را دوسری تجویز بھی قبول نہیںکیا تو ہمارا آخری تجویز بھی قبول کر یں ۔آپ انکی طرف سے نظر اٹھانا بھی گوارہ نہیں ہوتا ہے تو آپ اہم اہم امور میں ہمارا مشہورہ قبول کریں ۔ہم سے مشہورہ لیں۔اتنا کہنا تھا کہ خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی ۔
ولا تطیع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکا ن امرہ فرطا۔
(سورہ کہف پارہ ۱۵آیت ۲۸آخری حصہ)
ترجمہ:آپ ان لوگوںکے اطاعت نہ کر و ۔ جن کے دلوں کوہم نے ہماری یاد سے غافل رکھتا ہے اور انھوں نے اپنے نفس کی اتباع کی ہے ۔اور انکا کام حد سے تجاوز ہے۔
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکے آخری تجویز سے انکار کیا ۔تو وہ لوگ نا امید ہو کر واپس چلے گے ۔پھر آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر مبا رک اٹھایا ۔تو اپنا اصحاب وہاں نہیں پایا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا اصحاب کی تلاش میںنکلا ۔آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھاکہ اصحاب صفہ مسجد نبوی میں عبادت میںمشغول تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ملاقات پر چند جملہ شکرانہ کیا ۔
الحمد اللہ الذی لم یمتنی حتٰی امرنی ان اصبر نفسی مع القوم من امتنی فمعکم المحیٰ ومعکم المعاتی۔
ترجمہ:تمام تعریفیں اس ذات کیلئے جس نے مجھے موت نہیں دی ۔یہاں تک کہ مجھے اپناامت کے ایک خاص گروہ (اصحاب صفہ ) کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحاب صفہ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا۔پھر یہ دعافرمایا ۔
اللھم احیینی مسکینا وامتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃالمساکین ۔
(دعوات صوفیہ امامیہ)
ترجمہ :پروردگار آپ مجھے مسکین کے ساتھ زندہ رکھ ۔اور مسکین کے ساتھ مجھے موت دے ۔اور مسکین کے زمرے میں میرا حشر ونشر کر ۔
اسی لیے ہم بھی ہمیشہ نماز مغرب کے بعد یہی دعا کر تے ہیں ۔اس حدیث مبارکہ کی شرح حضرت شاہ سید محمد نوربخش ؒنے کشف حقیقت میں یوں بیان کیاہے ۔ شعر
بشنو ایں رمز از محمد در دعا
بامساکین خواست حشرش از خدا
ترجمہ:(اے دوست )تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دعا میں ایک راز کو سن لو ۔وہ بروز حشر مسکین کے ساتھ حشرونشر ہونیکی دعاکی ہے ۔
چوںندید او بہتری ازایں گروہ
خواست ایں وزد یگر ان بندبر سطوہ
کیونکہ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصحاب صفہ کے علاوہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نظر نہ آیا ۔ اس لئے آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب کے ریئسوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے اصحاب صفہ کو پسند کیا ۔
صوفی کے تعریف کر تے ہوئے حضرت شیخ جنید بغدادی فرماتے ہیں۔
الصوفی من لبس الصوف علی الصفاوعاسن الناس علی الوفاء وجعل الدنیا علی خلف القفا ء وسلک طریق المصطفٰی محمد ؐ۔الا فکلب الکوفی خیر من الف صوفی۔
ترجمہ :صوفی وہ ہے جو پاک ،صاف اونی کپڑا پہنتاہو۔اور لوگوں کے ساتھ وفادار ہوتا ہے ۔اور دنیا کو پس پشت چھوڑ دیتے ہیں۔اور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر گامزن رہتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو ایسے ہزار صوفی کوفی کتا بہتر ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفی بننے کیلئے ان چار اوصاف کا حامل ہونا شرط ہے ۔
۱۔پاک صاف اونی کپڑا پہننا ۔
۲۔لو گوں کے ساتھ وفاکرنا ۔ جسکی مثال حضرت عباس علمدارؑ نے کربلا میںعملا دکھایا ۔
مذکورہ حدیث کی تشریح کر تے ہو ئے حضرت شاہ سید محمد نو ربخشؒ اپنا کتاب کشف الحقیقت میں فرماتے ہیں۔ شعر :
دلا در صحبت اہل صفاباش
چو صحبت یافتی اہل وفاباش
ترجمہ:اے دل تم اہل صفا کے صحبت اختیار کرو ۔جب تم کو اہل صفا کے صحبت نصیب ہو جائے تو اہل وفاکی محبت میں رہنا ۔
ہمچو صوفی در لباس صوف باش
در صفتہائے خدا موصوف باش
ترجمہ:اگر کسی کو صوفی بننے کا خواہش ہو تو صوفی کے لباس میں ملبوس ہو نا چاہیے۔اور خدا کے ننانوے اوصاف اپنے اندر پیدا کر نا چاہیے۔
۳۔دنیا کو پس پشت چھو ڑ دے ۔جیسا کہ منبع تصوف حضرت علی ابن ابیطالب ؑ نے اس دنیا کو تین دفعہ طلاق دیا۔شعر :
طلق الدنیا ثلاثا اے فقیر
اتبا عا اقتداء بالامیر
حضرت شاہ سید محمد نوربخش ؒاپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔اے فقیر تو بھی امیر المومنین علی ابن ابیطالب کے پیروی اور اقتدا کر تے ہوئے اس دنیا کو تین دفعہ طلاق دو ۔
۴۔پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفی کے شریعت پر چلنا حقیقی صوفی بننے کیلئے چوتھا شرط ہے ۔یعنی آپ نے جس چیز سے منع کیا ۔اس سے باز رہنا۔کیو نکہ حدیث میں ہے ۔
حلال محمد حلال الی یو م القیامۃ۔
ترجمہ:محمد نے جس چیز کو حلال قرار دیا وہ قیا مت تک حلال ہے ۔
وحرام محمد ؐ حرام الی یو م القیامت ۔
ترجمہ: اور محمد ؐ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے وہ قیامت حرام ہے ۔
محمد ؐ کے سنت پر عمل کر نا ہے کیو نکہ حدیث میں مبا رکہ ہے ۔
فمن رغب عن سنتی فلیس منی ۔
ترجمہ:جو شخص میر اسنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔
تصوف کی تعرف کر تے ہوئے سلسلہ الذ ہب کے روحان پیشوا حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں۔
التصوف کلہ آداب ، فلکل وقت آداب ولکل حال آداب ۔
ترجمہ:تصوف آداب کا مجموعہ ہے پس ہر وقت کیلئے اپنے مناسب ،ہر حال کیلئے اپنے مناسب اور ہر مقام کیلئے اپنے مناسب آداب ہیں۔
تصوف کے وقت کی آداب:وقت کی آداب منبع تصوف حضرت علی ابن ابیطالب نے ہمیں اسطرح دکھایاہے ۔جب اپنے دور خلافت میں مدینے میں قحط آپڑا ۔تواپنے گھرمیں سات دن تک چولہا بالکل نہیں جلا یا ۔باوجو دیکہ اپنے کمر سے محنت مشقت کر کے روزی کما کر غریبوں،فقیروں اور مسکینوں کے گھر وں تک پہنچاتے تھے۔اس طرح آپؑ کے دور خلافت میںاسطرح کے بہت سے مثا لیں پائے جاتے ہیں۔
حال کا آداب:تصوف کے حال کا آداب بھی مولا متقیان علی ابن ابیطالب ؑ کے زندگی پہ نظر ڈالیں۔
جب مسجدکے محر اب میں پہنچ جاتا۔تو عبادت میں اس قدر حضور قلب پیدا ہو تا تھا۔کہ اصحاب نے پیغمبر کے حکم سے پاؤںسے تیر کو کھینچ کر نکا ل دیا ۔لیکن آپ ؐ کو پتہ ہی نہیںنہ ہوا کیونکہ حال تصوف عبادت میں محو ہو نا ہے ۔
اسی طرح میدان جنگ میں تصوف کے حال کا آداب اس طرح بجا لا تے تھے ۔
جنگ خندق کا واقعہ،جنگ خیبر کا واقعہ ،جنگ احد کا واقعہ
تصوف کے مقام کا واقعہ :جب خندق کھود نے کا وقت آیا ۔تو نبی کریم ؐ نے خود اپنے ذات کو صوفی کہ کر کام میںسب سے ذیادہ حصہ لیا۔کیو نکہ تصوف کا مقام اس وقت خندق کھود نا تھا اس لئے آپؐ جنگ خندق میںتصوف کی مقام کے آداب کا سبق دیکر کہا ۔
الصوفیون ھم المشتغلون باالعبادات والمعرضون عن الدنیا والمقبولون الی الاخرۃ۔
ترجمہ:صوفی وہ لوگ ہے جو ہر وقت عبادات میںمشغول رہتے ہیں۔اس دنیا سے وہ لو گ اعراض کر تے ہیں ۔اور انکی توجہ آخرت کی طرف ہو تے ہیں۔
ان صفتیوں کے حامل اشخاص کو صوفی سے تعبیر کیا ہے ۔تصوف کی تعریف کر تے ہو ئے حضرت علی ؑ اور جنید بغدادی فر ما تے ہیں۔
التصوف حفظ الاصول وترک الفضول۔
ترجمہ:تصوف اس چیز کا نام ہے جو اصول کے حفاظت کر تے ہیں۔یعنی خدا ور رسول کے چاہنے والے کاموں میں رغبت کر تے ہیں اور فضول کاموں کو ترک کر تے ہیں ۔جس میں خدااور رسول کے خشنودی نہ ہو ۔
التصوف اکتساب الفضائل ومحو الرزا ئل ۔
تر جمہ:تصوف اس چیز کا نام ہے جو اچھے کاموں کو کسب کر تاہے اور برے چیزوںکو چھوڑدیتے ہیں۔یعنی شریعت محمدیہ عین مطابق عمل کر تے ہیں۔
التصوف حفظ الا سرار وحب الابرار ومجانبۃ الاشرار ۔
ترجمہ:تصوف وہ ہے جو رموزات کی محافظت کرے اور اچھے لو گوں کے صحبت میں رہتے ہیں۔اور بر ے لو گوں سے دوری اختیار کر تے ہیں۔
التصوف ترک الداوی وکتمان المعانی۔
ترجمہ:تصوف وہ ہے جو بڑے بڑے دعویٰ کو ترک کر تاہے اور خدا کے طرف کشف ہوا ہو ۔تو اسے چھپا کر رکھتا ہے ۔
التصوف صفا السر من کدورۃ المخالفۃ۔
ترجمہ:دل کو تمام مخالفتوں سے پاک رکھنے کا تصوف ہے ۔
التصوف رقص الھواہ؛
اپنے خواہش کو روکے رکھنے کا نام تصوف ہے ۔
التصوف صدق التوبہ؛
سچے دل سے توبہ کر نیکا نام تصوف ہے ۔
کیو نکہ ارشاد ربانی ہے ۔
یا ایھا الذین اٰمنو ا تو بو ا الٰی اللہ تو بۃ النصوحا ۔
(سورہ التحریم پارہ ۲۸آیت ۸)
ترجمہ :اے ایمان والو اللہ کی طرف توبہ کر و تو بہ نصوح ۔
وراغبو ابدعا اھل التصوف واصحاب الجوع ولعطش فان اللہ ینظر الیھم ویسر ہ فی اجا بتھم۔
ترجمہ:تم اہل تصوف اور بھو کے ،پیاسے رہنے والے اصحاب کے دعا کے ساتھ رغبت دو بیشک خدا انکی طرف دیکھتا ہے اور ان کے دعا اجابت کر نے میں جلدی ہوتا ہے اسی فرمان رسا لت ہے ۔
لا تطغو اعلی اہل التصوف والخرق فان اخلاقھم اخلاق الانبیا ء ولباسھم لباس الانبیا ء۔
ترجمہ:تم لوگ اہل تصوف اور پھٹے کپڑے پہنے ہوئے لو گوں کو طعنہ مت دو ۔بے شک ان کے اخلاق انبیا ؑ کے اخلاق ہے اور ان کے (پھٹے پرانے کپڑے)انبیا ؑکے لباس کی طرح ہے اسی لیے اور ایک حدیث میں ہے ۔
من سرہ ان یجلس مع اللہ فیجلس مع اھل التصوف۔
ترجمہ:اگر کوئی اللہ کے ساتھ زندگی بسر کر نا چاہے تو اہل تصوف کے ساتھ بیٹھو۔کیو نکہ لوہا جب گرم ہو تا ہے تو اس وقت وہ آگ کا دعویٰ کرے تو بالکل درست ہے کیو نکہ آگ کا دونوں صفت اس میں مو جود ہے ۱ ۔چیزوں کو جلا دینا ۔۲۔اس کا رنگ ۔جب یہ دونوں صفت مو جود ہو ۔تب تک وہ لوہا اپنا دعویٰ میں سچ ہے ۔اسی طرح اہل تصوف جب خدا ئی اوصاف سے متصف ہو تا ہے ۔یعنی
خدا رحیم ہے ۔وہ لو گوں پہ رحم کر تا ہے ۔
خدا پاک وپاکیزہ ہے وہ ہمیشہ پاکیزگی اختیار کر تاہے ۔
خدا بے عیب ہے ۔وہ بھی اپنا عیوب کو ختم کر تے ہیں۔
خدا سب سے زیادہ بخش دیتا ہے وہ سب کو بخش دیتا ہے۔
خدا سمیع ہے۔ وہ لو گوں کے فریا د سنتے ہیں ۔
خدا بصیر ہے ۔ وہ لوگوں کے مجبو ر کو دیکھتاہے ۔
خدا صاحب عدل ہے۔ وہ لوگوں پر عدل وانصاف کرتا ہے۔
خدا صمد ہے ۔ وہ بھی لو گوں سے بے محتاجی ہو تا ہے اور آخرت کی طرف رغبت دیتی ہے۔
جب یہ تمام اوصاف پیداہوتا ہے تو مذکورہ حدیث مبارکہ اس پر تطبیق آتا ہے۔
من سرہ ان یجلس مع اللہ فیجلس مع اہل تصوف ۔وقال امیر المومنین علی ابن ابیطالبؑ قال :التصوف علیٰ اربعۃاحرف :التا ،والصاد ،والواؤ،والفاء۔
ترجمہ:منبع تصوف حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالب ؑفرماتے ہیں۔تصوف چار حروف کا مجموعہ ہے ۔
تاء،صاد،واؤ،فاء۔
ان تینوں میں سے ہر ایک کے تین تین معانی ہیں۔
۱۔ التا ء : ترک و توبۃ و تقیٰ
۲۔ الصاد : صدق و صبر و صفا
۳۔ الواو : ورد و ود و وفاء
۴۔الفاء : فرد و فقیر و فناء
۱ : التاء ۱۔تصوف کے تا ء کی پہلا معنیٰ ترک دینا ہے۔یعنی دنیا کی محبت اور لالچ میں پڑے۔کیونکہ حدیث مبارکہ ہے
حب الدنیا راس کل خطیئۃ
ترجمہ:دنیا کی محبت تمام گناہوںکا جڑھ ہے اس لیے دنیا کی لہوولعب سے باز رہے اور یاد الٰہی ہمیشہ دل میں رکھئے۔
۲۔دوسرا معنی توبہ ہے۔
یعنی ہمیشہ اسی پر قائم رہنا ۔گذشتہ گنا ہوں پر ندامت کر نا ۔اور آئندہ گناہو ں میں مبتلا ہو نے باز رہنے کو توبہ کہا جاتا ہے ۔ارشاد ربانی ہے۔
ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطہرین۔
(سورہ البقرہ پارہ ۲ آیت ۲۲۲)
ترجمہ:بیشک اللہ تعالیٰ تو بہ کر نے والوں اور طہارت سے رہنے والوں کو چاہتا ہے ۔
۳۔تیسرامعنی تقویٰ الٰہی اختیار کر نا ہے ۔
یعنی خوف خدا ہمیشہ دل میں رکھنا ۔پرہیزگاری اختیار کر نا ۔ارشاد ربانی ہے ۔
ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم ۔
(سورہ الحجرات۲۶ آیت ۱۳)
ترجمہ:بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معززوہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہو۔
۲: الصاد: ۱۔تصوف کے صاد کا پہلا معنی صدق (سچائی )ہے۔ یعنی جب بھی کو ئی بات بولے تو سچ بولتا ہے فرمان رسالت ہے ۔
الصدقی ینجی والکذب یھلک۔
ترجمہ:سچائی نجا ت دیتی ہے اور جھوٹ ہلاک کر تاہے ۔
۲۔دوسرا معنی صبر ہے ۔یعنی خدا کے طرفسے آئے ہوئے آزمائش اور امتحانا ت میں صبرکر نا ۔کیونکہ قرآن میںجابجا آیا ہے ۔
ان اللہ مع الصابرین ۔
ترجمہ:بے شک اللہ تعالٰی صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے ۔
وبشر الصابرین ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حیات طیبہ سے صبر کا اچھے نمونے ظاہر ہو تا ہے مظلوم کر بلا حضرت امام حسین ؑ نے بھی کر بلا میں صبر کا درس دیا ۔
۳۔تیسرا معنی صفا ہے ۔یعنی دل تمام گناہا ن کبیرہ وصغیرہ سے پاک رکھنا ۔
۳ : الواو : ۱۔تصوف کے واو کا پہلا معنی ورد (یاد الٰہی ہر وقت دل میں)رکھنا ۔اور خدا کو چاہنے والوں (یعنی محمدوآل محمد ) کے محبت دل میں رکھنا ہے ۔کیو نکہ رسول اکرم ؐ نے اپنا تبلیغ رسالت کی اجرت اہل بیت کی مودت لیا ہے ارشاد ربانی ہے ۔
قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ۔
(سورہ الشوری پارہ ۲۵ آیت ۲۳)
ترجمہ : (اے حبیب ؐ) آپ کہ دیجئے میں اپنا تبلیغ رسالت کی اجرت میں کوئی چیز طلب نہیں کر تا ہوں مگر میرا قریبی رشتہ داروں کے مودت کے علا وہ ۔
۲۔واو کا دوسرا معنی ود ( یعنی یاد خدا میں رہنا )ہے ۔کیو نکہ قرآن فرماتے ہیں ۔
فاذکر واللہ ذکر اکثیر ا وسبحو ہ بکرۃواصیلا ۔ (سورہ احزاب پارہ ۲۲ آیت ۴۱)
ترجمہ:اے ایمان والو خدا کے ذکر کثرت سے پڑھو اور صبح شام خدا کے تسبیح پڑھو ۔
۳۔واو کا تیسرا معنی وفا ہے ۔قرآن اعلان کر تے ہیں ۔
واوفوا بالعہد ان العھد کان مسئو لا۔
(سورہ بنی اسرائیل پارہ ۱۵ آیت ۳۴)
ترجمہ :تم لو گ وعدے پورا کرو بیشک وعد ے کے بارے میں پوچھا جایئگا چنانچہ حضرت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وفا کا بہترین نمونہ چھوڑا ۔اسی طرح حضرت عبا س ؑ نے حضرت امام حسین ؑ کے ساتھ کربلا میں وفا کا درس دے دیا ہے ۔
۴: الفا ء ۱۔تصوف کے فا کا پہلا معنی فرد (لو گوں سے خلوت نشینی اختیا ر کر نا ) ہے ۔چنا نچہ حدیث میں ہے
قال رسول اللہ ؐ الحکمۃ عشرۃ اجزا ء تسعۃ منہا فی الصمت وواحد فی العزلۃ۔
(الفقہ الاحوط باب الاعتکاف )
ترجمہ :رسول اللہ ؐ فرمایا حکمت کی دس اجزاء ہے ان میں سے نو حصے خاموشی اختیا ر کر نے میں ہے ۔اور ایک حصہ الگ تھلک رہنے میں ہے ۔
۲۔فا کا دوسرامعنی فقر (فقیری اختیا ر کر نا) ہے ۔کیونکہ رسول کر یم ؐ نے فرمایا ۔الفقر فخری ۔ فقر حقیقی میرا فخر ہے ۔یعنی صرف خدا کے طرف محتاج ہونا ۔فقر حقیقی کہلا تاہے ۔
۳۔ تیسر امعنی فنا (یعنی خدا ئے تعالٰی میں فنا ہو نا )ہے ۔
اگر کسی شخص میں یہ بارہ اوصاف پایا جائے ۔تو وہ حقیقی صوفی ہے لفظ تصوف کے ان بارہ معنی میں ایک رازہے وہ راز یہ ہے کہ یہ بارہ اماموں کی طرف اشارہ ہے اگر کوئی بارہ اماموں میںسے کم یا زیادہ کر نا چاہئے ۔تو پہلے ان بارہ معنی میں ایسا کر نا چاہیے ۔کیو نکہ یہ تقسیم منبع تصوف حضرت علی ؑ نے فرمایا ہے اس ہستی کے اقوال پے عمل کر نا ہم پر لازم ہے ۔کیونکہ قول رسول حجت ۔فعل رسول ؐ حجت تقریر رسول ؐ حجت ۔اسی طرح قول ائمہ حجت فعل ائمہ حجت تقریر ائمہ حجت ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے عقیدے کے مطابق ۔
اگر ایسا نہ ہو تواہلسنت میں تصوف کے بہت سے فرقے موجود ہے ۔
مثلا : صوفیہ نقشبندی صوفیہ قادریہ صوفیہ چشتیہ صوفیہ سہروردی صوفیہ کبرویہ صوفیہ مداریہ صوفیہ قلندریہ وغیرہ ۔
ان کے بھی حقیقی تصوف ہو نا لازم آجاتا ہے کیونکہ تصوف کے قائل ہے ۔لیکن حقیقت یوں ہے ۔کہ بارہ اماموں کے ساتھ متصل نہ ہو نیکی وجہ سے ان لوگوں کے تصوف کو ما ننے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ بحمد اللہ ۔ ہمارے اس پاک مسلک میں سلسلہ بھی مو جود ہے ۔ اور بارہ اماموں سے متصل تصوف پہ ہم ثابت قدم ہے اس لیے ہمیںیقین ہے کہ رسول اللہ ؐ نے اصحاب صفہ کو جو تربیت دی ہے ان کے بارے میںجو احادیث نقل ہوئے ہیں اس پر آپ اور گامزن ہے میرا دعا ہے خدا ہم سب کو تصوف حقیقی یہ عمل کرنیکی توفیق عطا فرما ۔ (آمین)
(نوٹ:التصوف علیٰ اربعۃاحرف سے پہلے یہ حدیث پڑھئے)ارشاد نبوی ہے ۔
التصوف شکر علی النعم وصبر علی النقم:
ترجمہ:تصوف اس چیز کا نام ہے جو خدا کے نعمتوں کی شکر بجا لا تے ہیں۔کیو نکہ قرآن فرما تے ہیں۔
لئن شکر تم لاازیدنکم ولئن کفر تم ان عذابی لشدید ۔
(سور ہ ابراھیم پارہ ۱۳ آیت ۷)
ترجمہ اگر تم لوگ شکر کرے تو میں ضرور بہ ضرور تم کو زیا دہ کر تے ہیں۔اگر تم کفر کر و گے ۔تو میرا عذاب ضرور سخت ہے ۔ارشاد نبوی حضرت امیر المومنین علی ؑ فرما تے ہیں ۔
اذا وصلت الیکم اطراف النعم فلا تنفروا اقصاھا بقلۃ الشکر ۔
(نہج البلا غہ قول ۱۲ ص ۷۱۷ )
ترجمہ :جب چا روں طرف سے خدا کے نعمت کی ابتدا تجھ پر ہو جا ئے تو شکر کم کر نے کے ذریعے ان نعمتوں کی انتہا ء کو مت بھا گو ۔مطلب یو ں ہے کہ شکر کر نے سے خدا نعمت میں اضا فہ کر تے ہیں شکر نہ کر نے سے اس کا عکس ۔اس لئے صوفی ہر وقت خدا کے شکر ادا کر تے رہے ہیں۔
وصبر علی النقم۔
اور خدا کے امتحانا ت پر صبر کر تے ہیں چنا نچہ صبر کے میدان میں حضرت ایوب ؑ کا واقعہ مشہو ر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے بطور آزمائش تمام با غات پر سیلاب آئے ۔تمام چو پا ئے پر بھی سیلاب آئے ۔ بارہ کے بارہ بیٹے ایک ہی وقت میں وفا ت پاگئے ۔تو آپ ؑ نے صبر کیا ۔ ساتھ ساتھ شکر بھی ۔آپ ؑ مریض ہو ئے کیڑے مکو ڑے آکر آپ کو کھا نا شروع کیا ۔لیکن آپ نے صبر کیا آخر آپکے ذکر سوچنے (یعنی دل ) اور بولنے (زبا ن)والے چیزوںکو بھی ڈسنے لگے تو دعا کی ۔
رب انی مسنی الضر وانت ارحم الرحمین۔ (سورہ الانبیا پارہ ۱۷ آیت ۸۳ )
ترجمہ :اے پر ور دگار بے شک تکلیف نے مجھ کو مس کیا ہے اور تو رحم کر نے والوں میں سب سے زیادہ رحم کر نے والا ہے۔
تو اس وقت خدا نے حضرت ایوب ؑ کے دعا قبول کئے ۔اور پہلے سے زیادہ مال وجائیداد دے دیا ۔کیو نکہ حضرت ایوب ؑ تصوف اولیٰ کے منزل پر تھا ۔اسی طرح خود رسول کر یم ؐ نے بھی دوران تبلیغ صبر کا بہترین نمونہ چھوڑا ہے ۔حضرت علی ابن ابیطالب ؑ نے بعداز وفات رسول صبر عملا ہم کو دکھا یا ۔حسین ابن علی ؑ نے میدان کر بلا میں صبر کا بہترین درس دیا ۔ثانی زہرا جنا ب زینب ؑ نے ازکر بلا تا شام ، شام تا کو فہ ،کو فہ تک مدینہ باقی اسیر ان کے ساتھ صبر کا طریقہ ہم کو سکھایا ۔
علی ھٰذا القیاس چودہ معصومین نے ہمیںصبر وشکر کا بہترین درس دیا ہے کیو نکہ ان ہستیوں میں سے ہر ایک تصوف کے اعلیٰ مقام پر فائز تھا ۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔