نصاب جامعہ پر ایک نظر


علامہ شیخ محمد یونس
بسم اللہ الرحمن الرحیم :
اسلام کے آفاقی نظام کو باقی رکھنے اور معاشرے کی اصلاح وتربیت کی خاطر حضرت آدم ؑ سے لیکر آج تک مختلف ادوار میں علمی تحقیقی اورثقافتی میدان میں انبیاء ،اولیاء، ائمہ، علماء ربانین نے اپنا کردار ادا کیا اس کی اصل وجہ ایک عالمانہ اور مفید علم وعمل سے مزین اخلاقی دولت سے مالا مال اسلامی معاشرے کا قیام تھا۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تقاضے بدل گئے علوم میں جدت آنے پر تعلیمی نظام مکمل طور پر دو حصوں پر تبدیل ہوئے۔ دانشگاہوں میں تربیت سے عاری تعلیمی نظام جاری ہوا جہاں ملک اور قوم کی ہونہار نسل جدید کیلئے روحی تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کے مقابل میں اسلامی تعلیمی مراکز میں جدید تقاضوں کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے بلکہ قدیم طرز تعلیم پر آج بھی کاربند ہے۔ جس کی وجہ سے دینی مدارس میں پڑھنے والوں کیلئے اپنے مدارس سے فارغ ہونے کے بعد اقتصادی طورپر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نصاب تعلیم کی اہمیت:
دور جدید میں مسلمان ممالک یہ بات جاننا چاہتے ہیں کہ اچھے تعلیمی نظام کے بغیر ملک وقوم ترقی نہیں کرسکتی۔ اگر کوئی ملک سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہو تو ترقی یافتہ ممالک کی طرح اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ تعلیم وتربیت پر خرچ کرنا ہوگا۔ اور دینی مدارس میں آہستہ آہستہ جدید طرز کے سلیبس کی تیاری میں مصروف رہے جہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سے بھی طالب علموں کو آراستہ کیا جاسکے۔
نوربخشی دنیا میں نصاب تعلیم:
جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس ادارہ نے نوربخشیوں کے لئے پہلی بار جدید علوم سے آراستہ نصاب تعلیم تیار کیا جامعہ مذکورہ کی انتھک محنت ولگن کی وجہ سے دیگر مدارس کے نصاب تعلیم کو تیار کرنے میں آسانی ہوئی۔
ایک اچھے نظام تعلیم کی خصوصیت:
۱۔ نظام تعلیم معاشرے کی ضروریات کی عکاسی کرتا ہو۔
۲۔نظام تعلیم جدید تقاضوں کے مطابق بنایاگیا ہو۔
۳۔ نظام تعلیم میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہو۔
۴۔ نظام تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔پویا اور کلیہ کے اندر اخلاقیت پیدا کرتا ہو۔
۵۔ نظام تعلیم میں دینی و دنیوی دونوں علوم کیلئے گنجائش ہو۔
۶۔ نظام تعلیم ایسا ہو جہاں سے باہنر ،متقی ، باکردار طلبہ تیار کئے جاسکیں۔
۷۔ ہر سال تعلیمی نظام کو باریک بینی سے دوسرے مدارس اور جامعات کے نصاب تعلیم سے موازنہ ہو۔
جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے تعلیمی نصاب پر ایک نگاہ۔
جب جامعہ کراچی محمود آباد قائم ہوئی اس وقت کے پیر طریقت الحاج سید عون علی عون المومنین نے شیخ سکندر حسین صاحب کو جامعہ کا مدیر بنایا اور انجمن فلاح وبہبود کے نمائندہ کیساتھ کراچی تشریف لائے تو جامعہ میں کوئی باقاعدہ نصاب یا تعلیمی خدوخال نہیں تھا۔ شیخ صاحب نے سب سے پہلے مدرسے کا نصاب بنایا۔
اس وقت نصاب تعلیم دو چیزوں پر مشتمل تھا۔ (الف) علوم درسی (ب) مراحل تز کیہ وتحلیہ نفس ۔ اول الذکر پر کام ہورہا ہے اور آخر الذکر پر عمل ابھی بھی تشنہ ہے۔ تعلیم کے میدان میں شیخ صاحب اسلامی یونیورسٹی قم سے فارغ التحصیل ہیں اور طولانی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ شروع میں پانچ سالہ نصاب بنایا گیا جو تمام نوربخشی بزرگ علماء اور پیرطریقت سے منظور شدہ ہے۔ ۱۹۹۸ء میں پیر طریقت اور علماء کی سرپرستی میں نصاب پر نظرثانی کی گئی اور نصاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک سات سالہ نصاب (عالم کورس) دوسرا تین سالہ نصاب (خطیب کورس) کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ اسی نصاب کو آج تک پڑھایا جارہا ہے۔

جامعہ کی نصاب تعلیم کی خصوصیات:
۱۔ قرآن وحدیث:
جامعہ کے تعلیمی نصاب میں فہم قرآن اور حدیث پر سب سے زیادہ زور دیاگیا ہے کیونکہ تمام علوم کا مقصد قرآن و حدیث کی تفہیم ہے۔ اس سلسلے میں ہر روز پہلی کلاس اجتماعی طور رپر تدبر اور تفکر قرآنی سے ہوتی ہے۔ جس میں وہ احادیث معصومین ؑ پڑھائی جارہی ہیں جو ہمارے پیران طریقت نے جمع کی ہیں۔
۲۔ فقہ واصول:
اسلامی دنیا میں قرآن وحدیث کے بعد فقہ ہماری دستگیر ہے۔ جس مذہب میں فقہ نہ ہو وہ فرقہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لٰہذا جامعہ میں دوسرے اہم اساس فقہ الاحوط کی تدریس اور فقہی مسائل میں تدبر پیدا کرنا ہے ۔ فقہ کما حقہ سمجھنے کیلئے اصول فقہ سمجھنا ضروری ہے۔ چونکہ ابھی تک ہمارے پاس اصول فقہ تالیف نہیں ہوالہذا مذاہب خاصہ اور عامہ دونوں کے اصول فقہ نصاب میں شامل ہے تاکہ طلباء کرام دونوں مذاہب کے اصول فقہ سے آشنائی ہو۔
۳۔ ادبیات:
قرآن وحدیث فقہ اصول سمجھنے کیلئے اسلامی دنیا میں سب سے اہم اور ضروری ادبیات عرب سے آشنا ہونا ہے کیونکہ ہم عجمی لوگ ہیں۔ لہذا جب تک ادبیات میں مہارت پیدا نہ نہ ہو قرآن اور حدیث فقہ واصول سمجھنے میں دقت پیدا ہوگی۔ جو شخص ادبیات سے آشنا نہیں وہ علماء دین کے زمرہ میں نہیں آتے۔ اسی وجہ سے جامعہ نے اپنا سب سے زیادہ توجہ ادبیات عرب یعنی صرف ونحو پر دی ہے ۔ میرے خیال میں ادبیات کی جتنی کتابیں اس مدرسے میں پڑھائی جارہی ہے ۔ شاید وہ کسی بھی اسلامی مدارس میں نہیں پڑھائی جاتی۔
۴۔ فلسفہ ومنطق:
انسان کی ذہنی اور فکری ارتقاء کیلئے منطق اور فلسفہ اسلامی سے آشنا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے جامعہ میں فلسفہ اور منطق کے موضوع پر بھی مستند اور مشہور کتابیں شامل نصاب ہیں تاہم اس علم کی اہمیت اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں سے فراغت پانے والے طلباء منطق اور فلسفہ کے بنیادی اصولوں اور قوانین سے آشنا ہوں۔
۵۔ فصاحت وبلاغت:
قرآن کی فصاحت اور بلاغت احادیث معصومین ؑ کی فصاحت اور بلاغت سمجھنے کیلئے علم معانی وبیان سے بھی آشنا ہونا ضروری ہے آج کل دینی مدارس میں یہ علم آہستہ آہستہ نصاب تعلیم سے محو ہوتا جارہا ہے۔ الحمدللہ جامعہ اسلامیہ کراچی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے یہاں مختصر معانی جیسی اہم کتاب بھی پڑھائی جاتی ہے ۔
۶۔ اخلاق :
ہمارے دینی پیشوا اخلاق کے مجسمہ تھے۔ پیغمبر اکرم ؐ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو ا
انک لعلیٰ خلق عظیم
اسی وجہ سے علماء اخلاق نے طلباء کیلئے اخلاقی تربیت کرنے کی بہت تاکید کی ہے اسلام حسن اخلاق سے پھیلا ہے مدرسہ ہٰذا میں ہمارے بزرگان دین کی دست مبارک سے لکھی ہوئی اخلاقیات پر مشتمل کتابیں بھی نصاب میں شامل ہے۔
۷۔ تزکیہ نفس:
تعلیم کا مقصد نفس امارہ پر غلبہ اور روح کو پاک وپاکیزہ بنانا ہے اس سلسلہ میں علمی اور عملی دونوں کا بندوبست ہے علمی لحاظ سے تزکیہ نفس پر مبنی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور عملی لحاظ سے روز مرہ کے ذکر وافکار ورد و وظائف باقاعدگی سے کلاس میں بجالاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوراد فتحیہ، عصریہ اور صبحیہ ،جمعرات کو ذکر نوافل کے روزے اس سلسلے کی کڑی ہیں۔
۸۔ اعتقادات:
الحمدللہ ہمارے پیر طریقت سید محمد نوربخشؒکے دست مبارک سے لکھی ہوئی کتاب اصول اعتقادیہ ہمارے پاس موجود ہے جامعہ میں کشف الحقیقت کے ساتھ اصول اعتقادیہ جیسی کتاب بھی نصاب میں شامل ہے جو خالصتا نوربخشی عقائد پر مشتمل ہے ۔ شامل نصاب اس کتاب کا تعلق چونکہ علم کلام سے ہے اس لئے سال ششم میں رکھی گئی ہے کیونکہ اس کی اصطلاحات سمجھنے کیلئے کچھ حد تک علمی بنیاد کا مضبوط ہونا ضروری ہے ۔
۹۔ فہم حدیث:
مختصراً حدیث فہم کیلئے سال ششم میں درایۃ الحدیث کے عنوان سے نصاب تعلیم میں شامل ہے تاکہ حدیث کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائے جدید علوم مدرسہ میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے جس میں دوسال کے بعد جامعہ کے خرچ پر فاضل عربی کے علاوہ کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے لئے جاتے ہیں الحمدللہ بہت سے طلباء نے جامعہ کراچی اور دوسرے یونیورسٹیوں سے ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کرچکی ہیں۔
نصاب کی خامیاں:
تمام بشری کوشش کے باوجود کمزوری اور نقائص بشری تقاضا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے علاوہ باقی انسان سے خطا اور ضعف کا امکان ہے ۔ جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے نصاب تعلیم اپنے تمام خوبیوں کے باوجود میرے خیال میں کچھ کمی موجود ہے جن پر نظرثانی کرنی چاہئے۔
الف) جامعہ کا نصاب گذشتہ کئی عشروں سے یہی چلا آرہا ہے حالات و واقعات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر نظرثانی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ لہٰذا نصاب تعلیم میں دوبارہ اہل فن کے باہمی مشورے سے کچھ تبدیلی ناگزیر ہے۔
ب) ادبیات سے مراد علم صرف ، علم نحو اور معانی وبیان ہے ہمارے نصاب تعلیم میں ادبی کتابیں اتنی وافر مقدار میں ہے جو شاید پاکستان سمیت کسی غیر ملکی دینی جامعات میں تخصصی کے علاوہ نہیں ہونگی۔ جبکہ ادبیات کا اصل ہدف فہم قرآن وحدیث ہے لیکن یہ نصاب ادبیات کی قرآن و حدیث پر تطبیق کی ضرورت کو پورا نہیں کرتاہے۔ نصاب کو مزید موثر اور مفید بنانے کیلئے ان نقائض اور خامیوں کو بھی دور کرنا چاہئےتاکہ دینی طالب علم کو ان تمام لوازمات کے بہرہ مند ہونے کا موقع ملے۔
ج) علوم قرآن وحدیث شناسی: موجود ہ دور میں علوم قرآن اور حدیث شناسی کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرتا ہمارے درمیان موجود ظاہری اختلاف ان دونوں شعبوں پر عدم توجہ کا نتیجہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نصاب تعلیم کی طرف توجہ دیں۔
د) پاکستان کے تعلیمی میدان میں انگریزی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے قابل اور ناقابل کی اصل معیار معلومات کو حاصل نہیں بلکہ انگریزی سے آشنائی اور زبان انگریزی پر تسلط پر موقوف ہے اس سلسلہ میں جامعہ کی نصاب میں توجہ دینا ہوگا۔
حرف تمنا :
میری دلی خواہش ہے کہ مستقبل میں تمام شب باش دینی جامعات میں ایک ہی نصاب تعلیم مروج ہو ہم اس سلسلے میں کوشش کر رہے ہیں۔ جب نصاب تعلیم ایک ہو اس کے لئے ایک مستقل ادارہ قائم ہونا چاہے جو امتحانات لینے کا بھی ذمہ دار ہو جس طرح دیگر اسلامی مکاتب فکر میں رائج ہے۔
حرف آخر:
میں کراچی جامعہ محمود آباد کی ۲۵ سال مکمل ہونے پر اساتذہ، اراکین انجمن فلاح وبہبودیٔ نوربخشی اور کراچی کے غیور وبیدار نوربخشی خواتین وحضرات اور نوجوانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قوم وملت کی خدمت کرنے اور مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کرنے کی توفیق دے۔
اللھم صل علیٰ محمد وآ ل محمد