فضائل حسین علیہ السلام


فضائل حسینؑ در زبان رسولؐ
وعن زید بن ارقم قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلیّ وفاطمۃ والحسن والحسین أنا حرب لمن حاربہم وسلم لمن سالمہم (مشکوٰۃ فضائل اہل بیت)
زید بن ارقم سے روایت ہے رسول خدا نے فرمایا علی فاطمہ حسن وحسین کے متعلق جو کوئی ان سے جنگ کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا اور جو ان سے سلم رکھے گا تو میں بھی ان سے سلم رکھوں گا۔
عن ابی سعید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ
ابو سعید سے روایت ہے رسول اکرمؐ نے فرمایا حسن وحسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ (مشکوٰۃ ترمذی)
عن ابی بریدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان رسول اللہ یخطبنا اذا جاء الحسن والحسین علیہما قمیصان أحمران یمشیان ویعشران فنزل رسول اللہ من المنبر فحملہما ووضعہما بین یدیہ ثم قال صدق اللہ إنما أموالکم واولادکم فتنۃً نظرت الیٰ ھذین الصببین یمشیان ویعسیران فلم أصبر حتی قطعت حدیثی ورفعتہما
(مسلم ومشکوٰۃ ترمذی باب مناقب الحسن والحسین)
حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ ہمیں خطبہ دے رہے تھے اسی اثناء میں حضرت حسن وحسین دونوں سرخ لباس میں ملبوس تشریف لائے دونوں گرتے پڑتے آرہے تھے رسول اکرم نے ان کو دیکھا منبر سے اتر آئے اور دونوں کو اٹھا کر اپنے ساتھ بیٹھاتے ہوئے ارشاد فرمایا اللہ نے سچ فرمایا مال واولاد دونوں آزمائش ہیں میں نے جب دونوں کو گرتے اٹھتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے ہوسکا یہاں تک کہ بات کو ادھورا چھوڑ کر انہے اٹھالیا۔
عن یعلی بن مرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الحسن منی وانا من الحسین أحب اللہ أحب حسیناً حسین سبط من الاسباط
(مشکوٰۃ ترمذی)
حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اسے دوست رکھتا ہے جو حسین کو دوست رکھتا ہو حسین میرے نواسوں میں ہے
عن ابی نعیم سمععت عن عبد اللہ بن عمر سألہ من المعرم قال شعبۃ أحیہ یقتل الذباب فقال اہل العراق یسالون عن الذباب وقد قتلوا ابن ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقالؐ ھما رقیحانتا من ریحا نتای من الدنیا
(بخاری فضائل اہل بیت ‘ترمذی)
ابونعیم سے روایت ہے میں نے عبد اللہ بن عمر سے سنا ان سے ایک (عراق) نے سوال کیا شعبہ کہتے ہیں مکھی کو مار ڈالنے پر حساب کرتے ہیں حضرت عبد اللہ نے کہا عراق والے مکھی کو مارنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور آنحضرت ؐ کے نواسے حضرت امام حسینؑ کو مار ڈالا اور کچھ خوف خدا نہیں ہوا حالانکہ حضرت محمدؐ نے فرمایا حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
عن ابی أسامۃ بن زید قال طرقت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ذات لیلۃ فی بعض الحاجۃ فخرج النبی صلی اللہ علیہ آلہ سلم و ھو مشتمل علی شیء لا ادری ما ھو فلما فرغت من حاجتی قلت ما ھذا الذی انت مشتمل علیہ فکشفہ فاذا حسن و الحسین علی ورکیہ فقال ھذان ابنای و أبنای و إبنا إبنتی اللھم إنی احبھما فأحبھما و أحبھما و أحب من یحبھما۔
(ترمذی مناقب الحسنؑ و الحسینؑ)
حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے ایک رات میں کسی کام سے رسول اکرم ؐ کے ہاں گیا رسول کچھ چیز لئے باہر تشریف لائے مجھے معلوم نہ ہو سکا کیا چیز ہے جب اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرفض کیا یا رسول اللہ ؐ کیا چیز ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں آنحضرت ؐ نے کھول کر دیکھایا حضرت امام حسنؑ اور حسینؑ آپ کی ران پر تھے۔ اس وقت آنحضرت ؐ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت رکھ اور جو ان دونوں سے محبت رکھتا ہے اس سے بھی محبت رکھ۔
عن انس بن مالک یقول سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ سلم إی اہل بیتک أحب الیک الحسنؑ الحسینؑ و کان یقول لفاطمۃ أدعی لی إبنی فیشمھما و یضمھما الیہ۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ سے سوال کیا گیا اہل بیت میں سے کس سے زیادہ محبت ہے آپ نے فرمایا حسن و حسینؑ سے اور آپ حضرت فاطمہؑ سے فرمایا کرتے تھے میرے پاس میرے دنوں بیٹوں کو لاؤ اور آپ ان کو سونگھتے اور سینے سے لگاتے تھے۔
ترمذی مناقب الحسن والحسین
حضرت امامہ بن زید سے مروی ہے ایک رات میں کسی کام سے رسول اکرم کے ہاں گیا رسول کچھ چیز سے باہر تشریف لائے مجھے معلوم نہ ہو سکا کیا چیز ہے جب اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا چیز ہے اسکو آپ لپٹے ہوئے ہیں آنحضرتؐ نے کھول کر دیکھایا حضرت امام حسنؑ وحسینؑ آپکی ران پر تھے اسی وقت آنحضرتؐ نے فرمایا یہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھتا ہے اس سے بھی محبت رکھ۔
عن انس بن مالک یقول سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ سلم أیّ اہل بیتک أحب الیک الحسن والحسین و کان یقول لفاطمۃ أدعنی لی إبنی فیشمھما و یضمھما الیہ۔
حضرت انس بن مالک سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ اہل بیت میں سے کسی سے زیادہ محبت ہے آپ نے فرمایا کہ حسنؑ و حسین ؑ سے۔ اور آپؐ حضرت فاطمہؑ سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس میرے دونوں بیٹوں کو لاؤ اور آپؐ ان کو سونگھتے اور سینے سے لگاتے۔
(ترمذی مناقب حسن والحسین)
عن براء أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابصر حسنا و حسینا فقال اللہم انی احبہما فأحبہما۔
حضرت براء سے مروی ہے کہ رسول اکریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حسن و حسین کو دیکھا اور فرمایا کہ اے اللہ میں ان محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ۔
عن ابی ہریرہ أن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قال من أحب الحسن و الحسین فقد احبنی و من ابغضہما فقد ابغضنی۔
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس کسی نے حسنؑ اور حسینؑ کو دوست رکھا تو بے شک اس نے مجھے دوست رکھا اور جس کسی نے ان دونوں سے دشمنی رکھی تو گویا اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔
عن عمران ابن سلیمان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم الحسن و الحسین اسمان من اسماء اہل الجنۃ ما سینت العرب بہما فی الجاہلیۃ۔
حضرت عمران بن سلیمان سے مروی ہے کہ حضرت محمد ؐ نے فرمایا کہ حسن و حسین علیہما السلام اہل جن کے ناموں میں سے ہیں ان دونوں کا نام جاہلیت کے زامنے میں کسی کا نہ تھا۔
قال النبی حسین منی وانا منہ احب اللہ من أحبہ والحسن و الحسین سبطان من الاسباط۔
حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں۔ حسن و حسین میرے نواسوں میں سے دو نواسے ہیں۔
عن جابر کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فدعینا الیٰ طعام فاذا الحسین علیہ السلام یلعب فی الطریق مع الصبیان فاسرع النبی امام القوم ثم بسط یدہ فجعل الحسین یفر ہاہنا و ہاہنا فیضاحکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حتیٰ اخذہ تفعل احدیٰ یدیہ فی ذقنہ و الاخریٰ بین اذنیہ ثم اعتقنہ و قبلہ ثم قال حسین منی و انا منہ احب اللہ من احبہ الحسن و الحسین سبطان من الاسباط۔

ایک شخص جس کا نام وصیہ کلبی تھا وہ باربار رسول اللہؐ کے دربار آتے رہتے تھے جب وہ حضرت کے پاس آتے تو وہ حسنینؑ کے لئے کچھ نہ کچھ لے کر آتے تھے خالی ہاتھ نہ آتے تھے۔ دونوں شہزادے بھی ان سے مانوس تھے جب وہ آتے جھٹ پٹ بے تکلف ان کی گود میں جابیٹھتے اور گریبان اور آستین کے ساتھ لٹکتے رہتے تھے اور جبریل بھی کبھی وحید کلبی کی صورت میں تشریف لاتے تھے۔ غرض ایک دن جبریل وحیہ کلبی کی صورت میں تشریف لائے اس وقت دونوں شہزادے حضرت کی گود میں بیٹھے تھے۔ جبریل کو دیکھ کر حضرت کی گود سے اٹھ کر جبریل کی گود میں جا بیٹھے اور آستین اور گریبان میں ہاتھ ڈالنے لگے تو آنحضرت نے چاہا کہ دونوں شہزادوں کو جبریل کی گود سے ہٹا دیں تو جبریل نے کہا یا رسول اللہؐ آپ رہنے دیں بچوں کو کچھ نہ کہیں۔ آپ نے فرمایا اے جبریل یہ دونوں تیری قدر کو نہیں جانتے اس لئے میں ان کو ہٹانا چاہتا ہوں تم کو وصیہ کلبی سمجھ کر تمہارے ساتھ ایسا کر رہے ہیں۔ تو جبریل نے عرض کیا آپؐ کو ان کی اس فعل پر ناراض نہ ہونا چاہئے ان کی والدۂ محترمہ فاطمہ الزہراؑ نماز تہجد پڑھ کر سو گئی جب یہ دونوں پیارے گہوارے میں بیدار ہوئے تو مجھے فرمان جاری ہوا جبریل دیکھو جلدی جاو حسینؑ کا گہورہ ہلاو اگر یہ روئیں گے تو فاطمہؑ کی نیند میں خلل آئے گا ۔ یا رسول اللہؐ میں نے اکثر راتوں کو ان کے گہوارے جھلائے ہیں۔ حضرت جب ہم نے ان کے گہوارے اکثر ہلاتے ہیں اگر یہ میری گود میں بیٹھتے اور ہاتھ جیب اور گریبان میں ڈالتے ہیں تو کیا ہوا مگر میں حیران ہوں کہ یہ میرے گریبان اور آستین میں کیا تلاش کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اخی جبریل تم اس وقت بصورت وصیہ کلبی کے آتے ہو جب وہ یہاں آتے ہیں تو دونوں شہزادوں کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لاتے ہیں یہ وہ تلاش کررہے ہیں تو جبریل نے عرض کیا تو میں ابھی بہشت میں جاتا ہو اور اللّٰہ تعالب سے عرض کرکے ابھی بہشت کے میوے لاتا ہوں دونوں نے ہاتھ میں میوے لئے ہوئے تھے اتنے میں ایک سائل نے آواز لگائی اے اہل بیت نبوت میرے اوپر کرم کیجئے مجھے کچھ دیں خصوصا کوئی پھل ہو تو میں شوق سے کھاتا ہوں حضرت نے چاہا کہ سائل کو کچھ انگور میں سے دے دیں تو جبریل نے روکا یہ شیطان بدانجام ہے میوہ بہشتی اس پر حرام ہے غرض حضرت نے انگور اور انار کے دانے توڑ توڑ حسنین کے منہ میں ڈال رہے تھے تو جبریل نے عرض کیا آپ حسین کو زیادہ پیار کرتے ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا کیوں نہیں میری اولاد میرے جگر کا ٹکڑا ہیں۔
حسنین علیہما السلام کے خط کے بحث پر حکم خدا
وعن ابن عباس قال ان الحسن والحسین کانا کتبا الحسنؑ والحسینؑ خطی احسن من خطک فقالا لفاطمۃؑ احکمی بیننا من احسن منا خطا فکرھت فاطمہؑ ان تودی احدھما یتفصل احدھما علی الاخر فقالت منہما سئلا ابا کما علیاؑ فسئلاہ عن ذالک فقال علیؑ سئلا جد کمارسول اللّٰہ ؐ فسئلا ہ فقال لا احکم بینکما حتی اسئل جبریلؑ فلما جاء جبریلؑ قال لا احکم بینہما ولٰکن یحکم بینہما میکائیلؑ فقال لا احکم بینہما ولیکن یحکم بینہما اسرائیلؑ فقال لا احکم بینہما حتی اسئل اللّٰہ تعالی ان یحکم بینہما فقال اللّٰہ تبارک وتعالی لا احکم بینہما ولکن امہما فاطمہؑ تحکم بینہما فقالت فاطمۃؑ احکم بینہما وکانت لھا قلاوۃ من الجواہر فقالت لھما نشر جواہرھذہ القلاوۃ فمن اخذ منہما اکثر فخطہ احسن فنشرتہا وکان جبریل واقفا عند قائمۃ العرش فامرہ اللّٰہ تعالی اھبط الی الارض وانصف الجواہر بینہما حتی لایتاذی احدھما ففعل ذالک احتراما وتعظیما لھما
(مودۃ القربیٰ مودۃ چہاردہم)
ترجمہ ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حسنؑ اورحسینؑ نے بطور مشتق کچھ لکھا اورحسنؑ وحسینؑ سے کہ میرا خط آپ سے اچھا ہے اور وہ کہتے تھے کہ میرا خط آپ سے اچھا ہے آخر اپنی مادر گرامی جناب فاطمہ زہراؑ سے عرض کی آپ ہمارے درمیان فیصلہ کیجئے کہ ہم میں سے کس کا خط اچھا ہے حضرت فاطمہ نے اس خیال سے کہ اگر میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دوں گی تو ان میں سے ایک کو تکلیف پہنچے گی فیصلہ کرنا پسند نہ کیا اور دونوں صاحبزادوں سے فرمایا اپنے والد ماجد علیؑ سے دریافت کروتب انہوں نے حضرت علیؑ سے خط کے بارے میں دریافت کیا علی نے فرمایا اے فرزندوں اپنے نانا رسول خداؐ سے معلوم کرو (پوچھو) انہوں نے آنحضرت سے دریافت کیا حضرت نے فرمایا میں تمہارے درمیاں حکم نہیں کرتا جب تک کہ جبریلؑ سے دریافت نہ کرلوں جب جبریل حاضر ہوئے تو عرض کی کہ میں ان دونوں کے درمیان فیصلہ نہیں کرتا ہوں بلکہ میکائیلؑ ان دونوں کے درمیان حکم کریں گے میکائیلؑ نے عرض کیا میں ان دونوں کے درمیان حکم نہیں کرتا بلکہ اسرافیلؑ ان دونوں کے درمیان حکم کریں گے اسرافیل نے کہا کہ میں ان دونوں کے درمیان حکم نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالی سے درخواست کروں گا کہ ان دونوں کے درمیان حکم کرے اخر کار اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ میں ان درمیان حکم نہیں کرتا بلکہ انکی ماں فاطمہؑ ان کے درمیان حکم کرے گی۔ الغرض جناب فاطمہؑ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کے درمیان فیصلہ کرتی ہوں وہ یوں کہ اس معصومہ کے پاس جواہرات کی ایک مالا تھی دونوں صاحبزادوں سے فرمایا کہ میں اس مالا کے جواہرات کو بکھیر دیتی ہوں تم میں سے زیادہ جواہرات چنے گا اسی کا خط اچھا ہے یہ فرمایا کر جواہرات بکھیردیئے اور اس جبریل عرش کے پائے کے پاس موجود تھے اللہ تعالی نے ان کو حکم دیا کہ زمین پر اترو اور جواہر کوان کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردو تاکہ ان دونوں میں سے کوئی رنجیدہ نہ ہو پس جبریل نے آکرک ان دونوں حضرات کی عظمت وحرمت کے سبب جواہرات کو آدھا آدھا کردیا۔
غم حسینؑ میں فرشتوں کا رونا
کتاب مشیر الاحزان اور دیگر کتب میںہے ایک فرشتہ ملائکہ السموٰات جو اس پہلے کھبی رسول خداؐ کی خدمت نہ آیا تھا۔ رسول اللہ ؐ کی زیارت کے لئے اللہ تعالی سے اجازت چاہی۔ جب روانہ ہونے لگا تو اللہ تعالی نے اس کو وحی کی کہ محمد کو خبر دینا کہ تمہاری امت میں ایک شقی القلب جس کا نام یذید ہے۔ وہ بتول کے ٹکڑے جنت کے سردار کو شہید کرے گا۔ تو اس فرشتے نے عرض کیا خدایا میں خوش اور مسرور تھا کہ زیارت رسولؐ کو جاتا ہوں۔ اب اس غم کی خبر سے محمدؐ کرو کس طرح محزوم و مغموم کروں۔ اس وقت ارشاد ہوا جو کچھ میں نے وحی کیا ہے اس کو محمد مصطفیٰ ؐ تک پہنچا دو اور میرے حکم کی تعمیل کرو۔ یہ سن کر وہ فرشتہ رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اپنے پروں کو کھول کر انتہائی تواضع کے ساتھ السلام علیک یا حبیب اللہ میں نے اپنے پرودگار سے اجازت مانگی کہ خدمت حاضر ہوا ہوں۔ اللہ تعالی نے اجازت دی تو میں آپ خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ وحی ہے۔ سزوار تو نہیں تھا۔ یہ خبر آپ تک پہنچانے کا مگر میں اپنے پروردگار کے حکم کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ اے محمد مصطفیٰؐ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ آپؐ کی امت میں ایک شقی القلب ہے جسے یزید کہتے ہیں۔ ( اللہ تعالی اس کو ہر وقت جہنم کے عذاب میں رکھے) وہ آپؐ کے فرزند مبارک بتول کو شہید کر دے گا۔ شہید کرنے کے بعد اسے اس دنیا میں کچھ بھی نصیب نہیں ہو گا۔ اللہ تعالی اسے ہر وقت ذلیل خوار کر گا اور قیامت کے دن اس کو ہر قسم کا عذاب دے گا۔ جب امام حسینؑ دوسال کے ہوئے تو رسول خداؐ کی کسی سفر کو گئے۔ ایک دن راستے میں کسی کی آواز آئی ان للہ و انا الیہ راجعون کہ کر رونے لگے۔ اس وقت جبریلؑ آئے اور رسول اللہ کو خبر دی کہ دریائے فرات کے کے کنارے ایک زمین ہے اس زمین کا نام کربلا ہے اس زمین کربلا میں آپ کی امت اشقیاء آپ کے فرزند حسینؑ اور اس کے جانثاروں کو شہید کرے گی۔ تو اصحاب نے عرض کیا یا رسول اللہؐ حسینؑ کو کون شہید کرے گا تو آپ نے فرمایا یزید پلید میرے حسینؑ کو شہید کرے گا۔ اللہ اس کو ہر وقت عذاب میں مبتلا رکھے۔ آنحضرت اس سشفر سے محزون و غمگین ہو کر واپس آئے اور بالائے منبر جا کر ایک خطبہ پڑھا اور حسین کو بھی منبر پر لے گئے اپنا دائیاں ہاتھ حسنؑ کے سر پر اور بائیاں ہاتھ حسین ؑ کے سر پر رکھ کر آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا خداوند میں تیرا بندہ ہوں اور تیرا پیغمبر ہوں اور یہ دونوں فرزند میری پاکیزہ ذریت میں سے ہے۔ جن کو میں اپنی امت میں اپنی امت میں سے تیرے تمام احکام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے اپنی امت میں قرار دیتا ہوں۔ مجھے جبریل نے خبر دی ہے کہ میرے فرزند ارجمند کو ظلم و ستم کے ساتھ شہید کریں گے۔ خداوند قاتلان حسینؑ کو ایسے عذاب میں مبتلا کرنا جو اس کے غیر کے لئے عبرت ہو اور میرے حسینؑ کو بلند تر درجۂ شہادت عطاء فرما۔ بے شک تو تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے۔
صحراء کربلا میں حضرت آدمؑ کا نزول
جب حضرت آدمؑ زمین پر آئے اور حضرت حواؑ کو تلاش کرنے زمین کے اطراف میں تھے یہاں تک کہ تلاش کرتے کرتے کربلا سے ان کا گزر ہوا جب میدان کربلا مقتل امام حسینؑ میں پہنچے تو ایک پتھر کی ٹھوکر کر کھائی مبارک قدموں سے خون جاری ہوا حضرت آدمؑ نے آسمان کی طرف منہ بلند کیا اور عرض کی اے میرے اللہ میں تمام زمین پر پھیرا مگر مجھے جتنے مصیبت و غم اس زمین پر پہنچا اور کسی زمین پر نہیں پہنچا۔ اس وقت اللہ تعالی نے حضرت آدم کو وحی فرمائی اس سر زمین پر میرا برگزدیدہ بندہ حسینؑ ابن علی شہید ہو گا۔ میں نے چاہا کہ حسینؑ کے غم میں تم کو بھی شامل کروں اور تمہارا خون بھی اس سر زمین پر جاری ہو۔ اس وقت آدمؑ نے عرض کی کہ حسین ابن علیؑ کا قاتل کون ہے۔ اللہ نے آدم کو وحی کی حسین ابن علیؑ کا قاتل یذید ملعون ہے کہ اہل زمین اور آسمان والے اس پر لعنت کریں گے پھر حضرت آدمؑ بھی یذید پر لعنت کر کے زمین کربلا سے باہر تشریف لے گئے۔
صحرائے کربلا میں حضرت نوحؑ کا نزول
جب حضرت نوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے اور حضرت نوحؑ کی کشتی چلتے چلتے زمین کربلا پر پہنچی تو ایک موج ایسی آئی قریب تھا کہ کشتی غرق ہ جائے اس وقت نوحؑ نے حیران ہو کر پرودگار سے التجاء کی کہ پرودگار کسی زمین پر ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ھجو کہ اس سرزمین پر یہ واقعہ گزرا ہے اس وقت اچانک جبریل نازل ہوئے اور کہا اے نوح یہ وہ جگہ ہے جہاں فرزند رسول سید شباب اہل الجنت شہید ہو گا نوحؑ نے کہا پرودگار حسینؑ کا قاتل کون ہو گا۔ حکم الہی ہوا ان کا قاتل یذید ہے اس پر زمین پر زمین و آسمان میں موجود تمام ذی روح لعنت کریں گے۔ یہ سن کر نوحؑ نے بھی لعنت کی۔ یہاں تک کہ کشتی غرق ہونے سے نجات پا گئی۔
صحرائے کربلا حضرت ابراہیمؑ
ایک روز حضرت ابراہیمؑ گھوڑے پر سوار ہو کر صحرائے کربلا میں پہنچے تو اچانک ٹھو کر کھائی اور گھوڑے پر سے گرے اور زخم سے خون جاری ہوا اس وقت ابراہیمؑ استغفار کرنے لگے پرودگار عالم نے مجھ سے کون سا گناہ صادر ہوا اچانک جبریلؑ نازل ہوئے اور کہا اے ابراہیمؑ تم سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے۔ لیکن یہ وہ جگہ ہے جس میں مصطفیٰ کا فرزند مرتضیٰ کا لخت جگر ظلم وستم کے ساتھ شہید ہوگا۔ تو خدا نے چاہا کہ آپ کا بھی خون اس سر زمین پر جاری ہو حضرت ابراہیم نے کہا اے جبریل حسین کا قاتل کون ہے جبریل نے کہا ان کا قاتل یزید پلید ہے آسمان وزمین لوح وقلم اس پر لعنت کریں گے یہ سن کر حضرت ابراہیم نے بھی ہاتھ بلند کر کے اس پلید یزید پر لعنت کی تو ابراہیم کے گھوڑے نے آمین کہیں تو ابراہیم نے گھوڑے سے پوچھا تم نے آمین کیوں کہا ہے گھوڑے نے عرض کیا اس لئے کہ ملعون کے شوم سے میں نے آپکو زمین پر گرایا اورمیں آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔
نزول موسٰی ؑ زمین کربلا میں
ایک دن حضرت موسٰیؑ اپنے وصی یوشع بن نون کے ساتھ میدان کربلا میں پہنچے جب موسٰیؑ اس میدان میں داخل ہوئے تو موسٰیؑ کی نعلین ٹوٹ گئی اور پائے مبارک مجروح ہوا موسٰیؑ نے کہا خداوندا اس سبب کیا ہے خدا نے وحی کی کہ اس زمین پر میرے برگزیدہ بندے حسین ابن علی کا خون بہئے گا میں نے چاہا کہ تمہارا خون بھی اسی سرزمین کربلا میں ٹھوڑا بہئے موسٰیؑ نے عرض کیا حسینؑ کون ہے وحی ہوئی مصطفٰےؐ کا نواسا مرتضٰیؑ کا فرزند دلبند ہے موسٰیؑ نے کہا حسینؑ کا قاتل کون ہوگا خدا نے وحی کی حسینؑ کا قاتل وہ ہے جس پر تمام چرند پرند سب کے سب لعنت کریں گے۔ یہ سن کر موسیٰ نے بھی ہاتھ بلند کیا اور یزید پلید پر لعنت کی۔
ارض کربلا پر نزول سلیمان ؑ
ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام تخت پر سوار تھے جب وہ تخت مقابل صحرائے کربلا پہنچا اس وقت ہوا کے تیز جھونکے سے تین مرتبہ تخت کو تزلزل ہوا۔ حضرت سلیمانؑ کو خوف ہا کہ کہیں تخت ہوا سے نیچے نہ گرے جب واقعہ پیش آیا تو سلیمانؑ نے عرض کی یہ کیا واقعہ ہے اس وقت اچانک جبریل نازل ہوئے یہ وہ جگہ ہے جہاں حسینؑ شہید ہوں گے۔ تو سلیمانؑ نے عرض کیا اے اللہ حسینؑ کا قاتل کون ہے وحی ہوئی حسینؑ کا قاتل وہ ہے جس پر جن و انس سب کے سب لعنت کریں گے۔
مورخین کے نزدیک فضائل حسین ؑ
ابن ماجہ میں ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا حسین منی و انا من الحسین حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں پھر آپ نے فرمایا احب اللہ من احب حسیناجو حسین سے محبت رکھتا ہے اللہ اس سے محبت رکھتا ہے۔ ایک دن مسجد نبوی میں عصر کی نماز ہو رہی تھی آنحضرتؐ جماعت کرا رہے تھے اور مقتدی میں حضرت علی مرتضیؑ سمیت باقی اصحاب بھی تھے اس وقت امام حسینؑ کی عمر چھ سال کی تھی اور مدینۂ منورہ کی مقدس گلیوں میں کھیل رہ تھے کھبی مدینہ کی دیوار کو دیکھتے کھبی مصطفیٰ کے مصلی کو۔ کملی والے آقائے دوعالم سجدے میں تھے۔ اس وقت حسینؑ پیارے نانا جان کے کندھے پر سوار ہو گئے عرش والے حیران رہ گئے اور حوریں محو حیرت مگر لوح فطرت مسکرا رہی تھی۔ جبریل نے پکارا کہ یہ بچہ آنحضرت کے کندھوں پر سجدے کی حالت میں سوار ہو گیا ہے خدا نے فرمایا جبریل خاموش رہو آج جس بچے کو آنحضرتؐ کے کاندھے پر دیکھ رہے ہو کل اس بچے حسین کو میدان کربلا میں نیزے پر قرآن تلاوت کرتے ہوئے دیکھو گے۔ امام الانبیاء سید المرسلینؑ نے ارادہ کیا کہ سجدے سے سر کو اٹھائیں مگر جبریل نے آکر کہا فرمان خدا وندی ہے کہ جب تک حسینؑ اپنی مرضی سے نہ اترے آپؑ سجدے سے سر کو نہ اٹھائیں لہذا آپؑ نے نماز لمبی کردی سجدہ کی دعا تین سے سات کے بجائے بہتر دفعہ پڑھی۔ امام حسینؑ اپنی مرضی سے نانا کے مبارک کاندھے سے اترے اور ہنستے کھیلتے گھر میں تشریف لے گئے۔ جب آپؐ گھر گھر تشریف لے گئے والدہ ماجدہ نے فرمایا میرے لخت جگر کہاں تشریف لے گئے تھے عرض کیا یپارے نانا جان تمام نبیوں کا امام سجدے میں تھے کہ میں دوڑ کر نانا جان کے مبارک کندھے پر سار ہو گیا اور جب تک میں نہ اترا نانا جان نے سجدے سے سر کو نہیں اٹھایا۔ اس وقت فاطمہ زہراؑ نے فرمایا بیٹا حسینؑ آپ نے نماز کا خیال نہ کیا تو حسینؑ نے عرض کیا پیاری ماں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں اس میں ایک راز کی بات ہے تو فاطمہ الزہراؑ نے پوچھا بیٹا حسین وہ بات کیا ہے عرض کیا میرے نانا جان نے سجدے میں تین اور سات کے بجائے بہتر تسبحیں پڑھی ہیں اور کربلا کے میدان میں اس بہتر تسبیح کے بدلے اپنے نانا کے دین اسلام کے خاطر میں اپنے بہتر جانثار قربان کر دوں گا۔
چار صفات ایسی ہیں اگر وہ کسی مرد میں پیدا ہو جائیں تو اس مرد میں تمام صفتیں موجود ہو نگی سوائے خدا وروسولؐ کے۔ وہ چار صفات یہ ہیں۔ عبادت‘ سخاوت‘ شجاعت‘ شہادت ان چار صفتوں کو دیکھو پھر حسین کی صفات کو دیکھو گویا کہ ان چار صفات کو جمع کریں تو ایک حسین بنتا ہے ان چار صفات کے مجموعہ کا نام حسینؑ ہے۔
امام حسینؑ کی عبادت کو دیکھو کہ خنجر تلے بھی نماز پڑھ گئے امام حسینؑ کی شجاعت کو دیکھو تین دن بھوک پیاس کے باوجود چالیس ہزار لشکر باطل کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ امامؑ کی شہادت کو دیکھو تو نیزے پر بھی قرآن مجید کی تلاوت کی ۔
عبادت ہے شجر لیکن شہادت ہے ثمر اس کا
عبادت ہے دعا لیکن شہادت ہے اثر اس کا
عبادت بے شبہ بے چین دل کو چین دیتی ہے
شہادت چین لے کر عظمت دارین دیتی ہے
عبادت کی حقیقت ہے محبت میں فنا ہونا
شہادت کی حقیقت ہے فنا ہو کر بقاء ہونا
فضائل حسنین کریمین ؑ
سرکار دوعالم کے پاک و پاکیزہ شہزادوں کی فضیلت کو بیان کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ ان کی فضیلت بیان کی بھی جائے تو ختم ہونے والی نہیں کتب و تفاسیر و احادیث کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے۔ جیسے دنیا و جہاں کی تمام فضیلتیں جمع کر کے اللہ تعالی نے ان دونوں جکو عطاء کی ہیں۔ بغیر کسی مبالغہ کے جمال کبریائی مکا مشاہدہ کرنا ہے تو آئینہ جمال مصطفیٰ میں کیا جا سکتا ہے۔ اگر جمال مصطفیٰ دیکھنا چاہتے ہو تو حسینینؑ کریمین میں دیکھا جا سکتا ہے۔ خداتعالی کا عکس جمیل اور پرتو کامل تاجدار مدینہ کا عکس منور حسینؑ اور حسنؑ ہیں۔
ذات و صفات خداوندی کے مظہر اتم حضورؐ ہیں اور حضورؐ کے مظہراتم حسنین ہیں۔ سرکار دو عالمؐ نے پتھروں کی بارش میں سجدے کئے حسین نے تیروں اور تلوارروں کی بارش میں اس فرض کو ادا کیا۔ حضور ظل خدا ہیں ۔حسنین ؑ ظل مصطفیٰ ؐہیں۔ یہ سب کے سب حقیقھت پر مبنی ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ حسن ؑ سراقدس سے سینہ مبارک تک اور ضحسین سینہ مبارک سے پاؤں تک سرکار دو عالم کے مکمل شبیہ تھے۔
عن علی قال الحسن اشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مابین الصدر الیٰ الرأس و الحسین اشبہ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماکان اسفل من ذٰلک۔
سرکار دو کونین کے دونوں شہزادے جس طرح ظاہر میں آپ کی شباہت منور کی مکمل تصوریر تھے اسی طرح باطن میں بھی آپ کے کامل ومکمل تھے جس طرح یہ دونوں صورتاً حضور کی یاد تازہ کرتے تھے۔