اخلاق امام زین العابدین علیہ السلام


امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے۔
مدینہ منورہ میں ایک مسخرہ رہا کرتا تھا اور اپنی حرکات وسکنات سے لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا اور دل میں کہا کرتا تھا کہ آج تک میں امام زین العابدینؑ کو نہیں ہنسا سکا۔ ایک روز حضرت امام زین العابدین علیہ السلام گزر رہے تھے مسخرے نے بڑھ کر آپؑ کے دوش مبارک سے آپؑ کی عباء کھینچ لی۔ لیکن کوہ حلم کو ذرا بھی جنبش نہ ہوئی۔ اصحاب جاکر اس شخص سے امام علیہ السلام کی عباء واپس لائے۔ امامؑ نے اصحاب سے پوچھا وہ کون تھا۔ اصحاب نے جواب دیا ایک مسخرہ تھا جو کہ لوگوں کو ہنسایا کرتا ہے۔ امامؑ نے اصحاب سے ارشاد فرمایا اس سے جاکر کہہ دو۔
انّ للہ یوماً یخسر فیہ المبطلون
خدا کے لئے ایک دن ہے کہ جس دن بیہودہ کام کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔
آپ علیہ السلام کے بے مثال اخلاق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک دن زید بن اسامہ موت کے بستر پر زندگی کے آخری لمحات طے کررہے تھے۔ امام سجادؑ عیادت کے لئے زید کے پاس تشریف لے گئے اور سرہانے جاکر بیٹھ گئے۔ دیکھا کہ زید کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے ہیں امام علیہ السلام نے دریافت کیا کہ رونے کا کیا سبب ہے؟
زید نے کہا پندرہ ہزار دینار کا مقروض ہوں۔ لیکن خود میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ میں اپنے قرض کو ادا کرسکوں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا رونے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے تمہارے سارا قرض میرے ذمے۔ میں سارا قرض ادا کر دوں گا۔ بعد میں امام نے زید کا پورا قرض ادا فرما دیا۔
آپؑ کے مکارم اخلاق سے متعلق آپؑ نے بھانجوں میں سے ایک بھانجے کا بیان ہے کہ میری والدہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ اپنا ذیادہ سے ذیادہ وقت اپنے ماموں جان کے پاس گزارا کرو وہ کہتا ہے بخدا میں جب بھی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا۔ بلکہ علم ودانش‘ اخلاق وفضیلت کے گوہر آب دار لے کر آتا تھا۔ امام علیہ السلام جس وقت بارگاہ خداوندی میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو امامؑ کی حالت دیکھ کر خدا کی عظمت وبزرگی میری نظروں کے سامنے مجسم ہوجاتی تھی۔
احسان کا بدلہ احسان
امام حسنؑ ‘ امام حسینؑ اور عبد اللہ بن جعفر حج کے لئے نکلے تو ان کا سامان سفر پس وپیش ہوگیا۔ وہ بھوکے پیاسے رہ گئے انہوں نے ایک بڑھیا کو ایک خیمہ میں دیکھا اس سے مانگا اس نے عرض کیا اس بکری کا دودھ دوھ کر پی لو انہوں نے ایسا ہی کیا پھر اس سے کھانا مانگا۔ اس نے کہا میرے پاس تو صرف یہی بکری ہے آپ میں سے کوئی ایک اس کو ذبح کرے ایک نے ذبح کیا اور اس کی کھال اتاری ضعیفہ عورت نے اس کا گوشت بھونا اور ان حضرات کو ڈڈکھلایا پھر انہوں نے ٹھوڑی دیر آرام فرمایا جب جانے لگے تو کہا کہ ہم لوگ قبیلہ قریش کے افراد ہیں جب وہاں آنا تو ہم سے مل لینا تیرے ساتھ نیکی واحسان کریں گے پھر رخصت ہوگئے۔ جب اس کا شوہر آیا تو بڑھیا تو اسے مطلع کیا وہ کہنے لگا کر وائے ہو تجھ پر تو نے بکری ایسے لوگوں کو کھلائی جنکا نام ونشان بھی تجھے معلوم نہیں اور کہی ہے کہ قبیلہ قریش کے کچھ افراد تھے۔ کچھ دنوں میں بڑھیا کے مالی حالات اور خراب ہوگئے تو وہ وہاں سے کوچ کرکے مدینہ پہنچے امام حسنؑ نے اسے دیکھا اور پہچان لیا۔ فرمایا مجھے پہنچانتی ہو اس نے کہا نہیں فرمایا میں وہی شخص ہوں کہ فلان دن تمہارے گھر مہمان ٹھہرا پھر آپؑ نے اس کے لئے ایک ہزار بکری اور ایک ہزار دینار دینے کا حکم صادر فرمایا اور اسے ایک قاصد کے ساتھ امام حسینؑ کے پاس بھیجا آپؑ نے بھی اتنا ہی مال دیا پھر عبداللہ بن جعفر کے پاس بھیجا اور انہوں نے بھی اس قدر مال اس بڑھیا کو دیا
(اسعاف الراغبین حاشیہ ص ۷۷ الفصول ص ۱۴۰ کشف الغمہ ص ۱۴۷ مصائب السؤال ۲)
حضرت امام زین العابدین کے رشتداروں میں سے ایک شخص امامؑ خدمت میں اس وقت آیا جس وقت آپؑ کے اصحاب پروانہ کی طرح شمع امامت گرد جمع تھے۔ وہ شخص وارد ہوتے ہی امام کو برا بھلا کہنے لگا اور سب کچھ کہنے کے بعد وہ چلا گیا۔ امام نے اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا ابھی تم لوگوں نے اس کی باتیں سنیں اب ذرا میرے ساتھ چلو اور میرا رد عمل بھی دیکھو اصحاب نے کہا ہم سب آپ کے ساتھ ہیں لیکن اگر آپ اسی وقت جب کہ وہ آپ کو برا بھلا کہہ رہا تھا اس کا جواب دے دیتے تو کیا بہتر تھا امام اپنے تمام اصحاب کو ساتھ لیکر اس شخص کے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور راستہ میں اس آیت کریمہ کی تلاوت فرماتے جاتے تھے۔
والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین (مومنین)
اور غصہ کو روک لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیا کرتے ہیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہیں اصحاب نے لب ہائے مبارک سے یہ آیہ کریمہ سنی تووہ لوگ سمجھ گئے کہ امام بدلہ لینے کی غرض سے نہیں جارہے ہیں بلکہ ابر کرم برسانے جارہے ہیں امام اس شخص کے گھر پر پہنچے اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص سے کہہ دو کہ علی ابن الحسینؑ آیا ہے جب اس شخص نے سنا کہ آپ ؑ تشریف لایا ہے تو وہ مزید امام ؑ کے ساتھ برائی کرنے کی غرض سے آیا۔ امام ؑ نے فرمایا اے شخص جو کچھ نازیبا الفاظ تم نے میرے بارے میں کہا ہے بتاؤ اگر یہی صفتیں میرے اندر موجود ہے تو میں اللہ سے بخشش کی دعا مانگتا ہوں اگر وہ باتیں جو تم نے مجھے کہی ہے مجھ میں نہیں تو اللہ تجھے معاف کردے۔ راوی کا بیان ہے کہ جب اس شخص نے آپ ؑ کے یہ کلام سنا تو آپ ؑ کے آنکھوں کے درمیان بوسہ دیکر معافی مانگا اور کہا یا امام ؑ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ آپ میں نہیں ہے۔ میں خود ان برائیوں کا سزاوار ہوں۔
آپ کے غلام کو معاف کرنا
ایک دفعہ آپ ؑ نے ایک غلام کو دو مرتبہ آواز دی تو اس نے جواب نہ دیا جب تیسری دفعہ آواز دی تو اس غلام نے جواب دیا۔ آپ ؑ نے فرمایا اے غلام کیا تم نے میری آواز نہیں سنی تھی۔ عرض کی سنی تھی آپ ؑ نے فرمایا پھر جواب کیوں نہیں دیا عرض کی مولا مجھے آپ ؑ سے کوئی خوف نہیں تھا یعنی مجھے امید تھا کہ آپ ؑ مجھے کچھ نہیں کرے گا جب میں آپ ؑ سے مامون تھا تو جواب نہیں دیا۔ آپ ؑ نے فرمایا حمد ہے اس ذات کیلئے جس نے میرے غلام کو مجھ سے مامون قرار دیا ہے۔
سفر میں آپ ؑ کے لوگوں کی خدمت کرنا
شیخ صدوق نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ امام زین العابدین ؑ ایسے لوگوں کیساتھ سفر کرتے جو آپ کو نہ پہچانتے تھے اور ہمسفر لوگوں سے وعدہ لیتے کہ جو بھی کام دوران سفر ہوجائے وہ آپ ہی پورا کریں گے یعنی راستے میں سب کی خدمت آپ ؑ ہی کریں گے۔
ایک دفعہ آپ ؑ ایک گروہ کیساتھ سفر کررہے تھے ان میں سے ایک شخص نے آپ ؑ کو پہچان لیا اس شخص نے باقی لوگوں سے کہا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہ شخص جو تمہارے ساتھ ہمسفر ہے کون ہے؟ لوگوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا یہ علی ابن الحسین ؑ ہے ساتھیوں نے جب یہ سنا تو اٹھا اور آپ ؑ کو ہاتھ پاؤں کے بوسے لینے لگے اور عرض کیا اے فرزند رسول ؑ کیا آپ ؑ چاہتے ہیں کہ ہمیں جہنم کی آگ میں جلائیں اگر نہ جانتے ہوئے غلطی سے ہمارے زبان یا ہاتھ سے کوئی جسارت سرزد ہوئی تو ہم ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوجائیں گے آپ ؑ نے ایسا کیوں کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا جب میں کسی ایسے گروہ کے ساتھ سفر کروں جو مجھے پہنچانتے ہیں تو وہ لوگ رسولخدا ؐ کی خوشنودی کیلئے میرا احترام کریں گے اس حد تک شفقت نوازش کریں گے جس کا میں مستحق نہیں ہوتا اس لئے مجھے خوف تھا کہ تم لوگ بھی مجھ سے ایسا سلوک کریں گے لہذا میں نے اپنے آپ ؑ کو پوشیدہ رکھنا پسند کیا۔
خاندانی دشمن مروان کیساتھ آپ ؑ کی اخلاق
واقعہ حرہ کے موقع پر جب مروان نے اپنی اور اپنی اہل وعیال کی تباہی کا یقین کرلیا تو عبد اللہ ابن عمر کے پاس گیا اور کہا مجھے اپنی اور اہل وعیال کی بے حرمتی کا خوف ہے۔ کیونکہ حکومت کی نظر میری طرف سے پھری ہوئی ہے لہذا ہماری محافظت کرو۔ عبد اللہ ابن عمر نے صاف انکار کردیا۔ اس وقت مروان امام زین العابدین ؑ کے پاس گیا اپنی اور اہل وعیال کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے امن دینے کی درخواست کیا تو امام ؑ نے یہ خیال کئے بغیر کہ مروان ہمارا دشمن ہے اور واقعۂ کربلا کے سلسلے میں پوری دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے آپ ؑ نے فرمایا اے مروان اپنے بال بچوں کو میرے پاس مقام منبع میں بھیج دو جہاں میرے بال بچے رہیں گے وہاں تمہارے اہل وعیال کو بھی رکھیں گے۔ چنانچہ مروان نے اپنے بال بچوں کو جن میں حضرت عثمان کی بیٹی عائشہ بھی تھی آپ کے پاس بھیجا آپ ؑ نے ان کی مکمل حفاظت فرمایا۔