نماز میں سجدہ گاہ کا لگانا درست ہے یا نہیں اور کن کن چیزوں پہ سجدہ نہیں ہوتا؟


جواب: سجدہ گاہ کے حوالے سے فقہ الاحوط میں مجتہدعلیہ الرحمہ کا فرمان ہے۔
سجدہ گاہ کا پاک ہونا اور غصب شدہ نہ ہونا نماز کی شرائط میں سے ہے۔ اگر وقت کم ہواور اسی غصب شدہ جگہ کے علاوہ دوسری جگہ نہ ملے تو مکروہ طور پر اس پر نماز جائز ہے۔

دوسری جگہ فرمایا
اگر کوئی ایسی پاک جگہ نہ ملے جہاں قیام وسجود آسانی سے اداہوسکے تو (کم از کم )سجدہ گاہ کا پاک ہونا ضروری ہے باقی جگہ اگر خشک ہواور ان کی تری جسم، کپڑا تک نہ پہنچے تو (ایسی صورت میں )ناپاک ہوتے ہوئے بھی ضرورت کی بناء پر نماز جائز ہے۔ اگر اتنی مقدار میں بھی پاک جگہ نہ ملے تو نماز اشارے سے اداکی جائے۔

ایک اور جگہ فرمایا
سجدہ گاہ قیام کی جگہ کی سطح کے برابر ہو یا نیچی ہو اگر ایک اینٹ کے برابراونچی ہو جائے تو حرج نہیں

شاہ سید محمد نوربخش علیہ الرحمہ اور امیر کبیر سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ سمیت کسی بھی بزرگان دین نے ہمیں الگ سے سجدہ گاہ لگانے کانہ حکم دیا ہے اور نہ منع کیا ہے۔ نوربخشی تعلیمات کے مطابق سجدہ گاہ کا پاک ہونا نماز کی درستی کیلئے شرط ہے۔ سجدہ گاہ کی پاکی کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک تو وہ جگہ ظاہری ناپاکی سے دور ہو ثانیا وہ جگہ غصبی نہ ہو۔ ان دونوں صورتوں میں نماز نہیں ہوگی۔