عاشور کا سورج ہے قیامت کی گھڑی ہے


عاشور کا سورج ہے قیامت کی گھڑی ہے
بھائی کا گلا کٹتا بہن دیکھ رہی ہے
مقتل میں کسی ماں کی صدا گونج رہی ہے

آ اے میرے حسینؑ میری گواد میں آجا
آجا میرے بچے میری آغوش میں آجا

میرے لئے اے لعل تو اصغرؑ کی طرح ہے
گودی میری گہوارہ ہے بستر کی طرح ہے
اس دھوپ میں دامن میرا چادر کی طرح ہے

میں ماں ہوں میرا دل نہیں سینے میں سنبھلتا
نازک یہ بدن تیرا یہ جلتا ہوا صحرا
اور اس پہ ستم یہ ہے کہ تو رہ گیا پیاسا

میں گواد میں لے لوں تجھے سینے سے لگالوں
سینے پہ سکینہؑ کی طرح تجھ کو سلالوں
سینے کے تیرے تیر میں پلکھوں سے نکالوں

آکر میرے زانو پہ جو سو جاتے تھے بیٹا
چکّی کی مشقت سے بھی پہلو نہیں بدلا
اب کیسے تجھے چھوڑ دوں مقتل میں اکیلا

تیری بھی تو اولاد ہے تو بھی تو پدر ہے
اولاد کا غم کیا ہے یہ تجھ کو بھی خبر ہے
غم بچے کا سہ جائے یہ کس ماں کا جگر ہے

تو لیٹ گیا تھک کے تو اسی جلتی زمیں پر
یہ کس کا لہو تو نے ملا روِ حزیں پر
مت خاک پہ سو لعل تیری ماں ہے یہیں پر

جو دل پہ تیرے گزری میں سب دیکھ رہی تھی
ہر لاش اٹھانے میں تیرے ساتھ گئی تھی
اب بات وہ کہتی تو جو بچپن میں کہی تھی