اتحاد و اتفاق کی ضرورت


تحریر


“بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا”
اجتماعیت اور اتحاد ایک فولادی قوت و طاقت ہے، عروج و ترقی کا سبب ہے اور انتشار و اختلاف ضعف و کمزوری ہے، پسپائی اور زوال کا باعث ہے، اگر آپ ذرا سنجیدگی سے غور کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ دنیا کا سارا نظام اتحاد کے بل بوطے پر قائم ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ روٹی کا وہ نوالہ جسے اپنے منہ میں ڈالتے ہیں، کبھی محض ایک دانہ تھا، اُسے زمین سے پیدا کرنے میں کسان کی ضرورت ہوئی، زمین نے ساتھ دیا، مٹی ہموار ہوئی، آب و ہوا موافق ہوا، پھر کٹائی، پسائی اورسپلائی کے بعد نوالہ بننے تک جن جن مراحل سے گزرا یہ اتحاد کا بین ثبوت ہے۔
جانوروں میں کبوتروں کو دیکھئے جب وہ شکاری کے جال میں پھنستے ہیں تو کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ جال کے بندھن کو توڑ کر نکل جائے لیکن جب سارے کبوتر مل کر زور لگاتے ہیں تو جال سمیت پرواز کر جاتے ہیں، اور شکاری منہ دیکھتا رہ جاتا ہے، تاروں کی دنیا میں غور کرکے دیکھئے کہ اگر وہ منتشر ہوں تو حسین و جمیل کہلانے سے رہیں، لیکن جب وہی متحد ہوتے ہیں تو کہکشاں کہلاتے ہیں ورنہ اگر یہ بکھرے ہوتے تو انہیں کہکشاں کون کہتا، اسی حقیقت کی ترجمانی علامہ اقبال نے کی ہے۔
ہیں جذب  باہمی  سے قائم  نظام  سارے           پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
جب دنیا کی ساری چیزوں میں اتحاد و اتفاق کی کار فرمائی پائی جاتی ہے تو حضرت انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے اندر کیسا اتحاد پایا جانا چاہئے؟ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
ملت نوربخشیہ کا بھی بنیادی مسئلہ اتفاق و اتحاد ہے مگر ہم نے اپنے اس بنیادی مسئلے کو یکسر  فراموش کردیا ہے۔ ملت نوربخشیہ کے افراد اور عمائدین اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اپنی ذاتی معمولی و حقیر سی منفعت کی خاطر پوری قوم اور ملت کے وقار اور شریعت کا سودا کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ ہم بکھرے ہوئے ہیں، ہمارے درمیان کسی قسم کا کوئی ربط اور اتحاد نہیں،  ہر کوئی اپنی بولی بول رہا ہے اوراپنے سُر میں گارہا ہے بلکہ ہرفرد قائد بنا ہوا ہے، کوئی دوسرے کی بات اور کسی کو اپنا قائد ماننے کیلئے تیار نہیں، اور ستم بالائے ستم کوئی صوفیہ ہے تو کوئی امامیہ ہے اور  ہمارے قائدین بھی بکاو مال کی طرح اِدھر سے اُدھر ڈھلکتے رہتے ہیں اور اپنے مفادات کے لئے دین کا سہارا لے رہے ہیں۔ ان میں بھی مصلحت پسندی اور خوف گھر کر گئی ہے۔ وہ کھلے عام بات کرنے اور صحیح موقف اختیار کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں کہ کہیں وہ اپنے مفادات کھو نہ دیں، کہیں ان کا حساب کتاب نہ مانگ لیا جائے ۔
عجیب بات ہے کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں، محسوس بھی کررہے ہیں اور اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت بھی محسوس کررہے ہیں پھر بھی باہم دست و گریبان ہیں، ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے ہوئے اور ایک دوسرے کی تکفیر تک کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں، مناظرے ہورہے ہیں، گالی گلوچ ہو رہا ہے اور ملت نوربخشیہ کے اصل دشمن لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہیں۔ احساس کے باوجود قوم نہ عقیدۂ واحدہ پر جمع ہورہی اور نہ ہی رسول اللہ کے لائے ہوئے اصول اور اسلام کی بنیاد پر یکجا ہورہے ہیں بلکہ “کل حزب بما لدیہم فرحون”   کی زندہ مثال بنے ہوئے ہیں۔
کیا اس پُر آشوب دورمیں ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم اسلام کے گرد جمع ہو جاتے اور اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرتے ہوئے اسلام اور اس کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑ لیتے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے صریح حکم دیاہے :
واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا ۔
’’سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو، اور پھوٹ کا شکار نہ بنو۔‘‘
ولا تنازعوا فتفشلوا وتذہب ریحکم۔
’’آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تم ناکام ہوجائوگے اورتمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپس میں جب بھی کوئی اختلاف پیدا ہو، کسی کی جانب سے جفاہو، تعلقات منقطع کئے جائیں، رنجش و کدورت رونما ہو، گلے شکوے ہوں اور حالات ایک دوسرے کو دور کرنے لگیں تو ہم دین کی طرف رجوع کریں ، ہم یاد کریں کہ ہم سب ایک جیسی نماز پنجگانہ اداکرتے ہیں، ایک قبلے کا رخ کرتے ہیں، ایک رسول(ص) کی پیروی کرتے ہیں، ایک رب ذوالجلال کی عبادت کرتے ہیں، ہمارا دین ایک ہے، ہمارا قبلہ ایک ہے، ہماری کتاب ایک ہے، ہمارا رسول(ص) ایک ہے، اورہم سب سنت رسول (ص)کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں، پھر ہم آپس میں کیوں دست وگریباں ہیں، ایک دوسرے کی جڑکاٹنے کیلئے کیوں غیروں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں؟
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم  پاک  بھی،  قرآن  بھی،  اللہ  بھی  ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء ، قائدین، دانشور  ،داعیانِ دین اور مسلک  میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات آپس میں پہلے اپنے دلوں کو جوڑیں، اپنے اختلافات کو دور کریں ،اپنی صف میں اتحاد پیدا کریں ،اپنے ذاتی مفادات پر مذہبی مفادات کو مقدم رکھیں ،اپنی سیاسی  دکانوں سے زیادہ اپنے مذہب و مسلک  کی حفاظت کی فکر کریں ، آپس میں اتحاد و اتفاق کے بعد قوم و ملت کو الفت و محبت ،اتحاد و اتفاق اور دلوں کو جوڑنے کی دعوت دیں ۔

ہمارے دلوں میں اپنے مخالفین کے تعلق سے الفت ومحبت کے جذبات ہوں اور دین کی خاطر انہیں گلے لگانے کیلئے راضی ہوں، اس کے بغیر ہم ہزار جلسے جلوس کرتے رہیں اور سوشل میڈیا پر اتحاد کے کیمپین چلاتے رہیں، تحفظ کے نعرے بلند کرتے رہیں، کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ۔ہم جب تک اپنے اندر تبدیلی نہیں لائیں گے دوسروں کے اندر تبدیلی لانے کا عمل یا اس کی کوشش محض ایک خواب ہوگی۔
خِرد  نے کہہ بھی دیا  ’لااِلہ‘  تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اپنے دشمن کو پہچانیں اور اپنے اتحاد کو اپنے ہاتھوں زمین بوس نہ کریں، ذرا دیکھئے تو سہی اللہ تعالی نے ہمیں کتنے پیارے انداز میں اہل کتاب کی طرح گروہ در گروہ ہونے سے روکا ہے:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔
“کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روز سخت سزا پائیں گے”۔