اہداف بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


تحریر سیدہ شہناز فاطمہ کاظمی


مقدمہ
تمام تعریفیں اس خداوند عالم کے لئے کی جس نے اس مادی اور فانی کائنات میں اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے اسووں کو خلق کیا کہ جو اپنے گفتار و عمل سے انسانوں کو راہ نجات کی جانب دعوت دیتے ہیں
یوں تو خداوند عالم نےبہت سے انبیاء اور اوصیا کے ذرِیعے انسانون کی راہنمائی کی ہے لیکن حضرت محمد ﷺ کو تمام انسانوں کی راہنمائی کے لیے آخری نبی بنا کر بھیجا اور آپ چالیس سال کی عمر میں آپ کی رسالت ( بعثت ) کا اعلان کیا گیا۔ حضرت محمدﷺ کے بعثت کے مقصد پر میں نے اس مقالہ میں تھوڑی سی روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ، جن میں تعلیم و تربیت، اتمام حجت، رفع اختلاف، عدل و انصاف کا قیام، بشارت و انذار، یکتا پرستی کی دعوت اور بت پرستی سے دوری وغیرہ شامل ہے۔

مفہوم شناسی
بعثت
لغوی معنی
اصلی لفظ (ب ع ث) ہے جس کا معنی حوصلہ افزائی ہے. بعثت حوصلہ افزائی، ارسال یا روانہ کرنے کے معنی میں سے ہے.
اصطلاحی معنی
بعثت، ایک انسان کو خداوند کی جانب سے دوسرے انسانوں کی جانب بھیجنا تا کہ وہ لوگوں کو دین الہی کی طرف دعوت دے. جس دن حضرت محمدﷺ خداوند کی جانب سے رسالت پر مبعوث ہوئے اس دن کو جشن اور عید منائی
بعثت رسولﷺ کی ضرورت و اہمیت
بندے کی معیشت اور اس کی آخرت کی اصلاح کے لئے رسالت بہت ضروری ہے۔ جس طرح اس کی آخرت کی اصلاح رسالت کی اتباع کے بغیر نہیں ہو سکتی ایسے ہی اس کی دنیا اور معیشت کی اصلاح بھی رسالت کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں ۔ ثابت ہوا کہ انسان کیلئے شریعت پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ دو حرکتوں کے درمیان ہے- ایسی حرکت جو اس کے نفع اور نقصان کو کھینچ لاتی ہے تو یہ زمین میں اللہ تعالی کا نور اور اس کا اپنے بندوں کے درمیان عدل اور وہ قلعہ ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہوا وہ امن میں رہے گا۔ –
شریعت سے یہ مراد نہیں کہ اس سے نفع اور نقصان کے درمیان حسی طور پر تمییز ہوتی ہے کیونکہ یہ تو حیوانات اور جانوروں کو بھی حاصل ہے۔ گدھا اور اونٹ جو اور مٹی کے درمیان تمییز اور فرق کر سکتے ہیں بلکہ ان افعال کے درمیان تمیز بھی کرسکتے ہیں جو کہ انہیں زندگی اور آخرت میں نفع اور نقصان دہ ہیں ۔ وہ افعال جو کہ انسان کی زندگی اور آخرت میں نفع مند ہیں مثلا ایمان و توحید ، عدل وانصاف ، نیکی و احسان ، امانت وعفت اور شجاعت وبہادری ، علم وصبر ، امر بالمعروف ،نہی عن المنکر ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی ، والدین سے نیکی ، پڑوسیوں سے احسان اور ان کے حقوق ادا کرنے ،اللہ تعالی کے لئے عمل میں اخلاص ۔ اسی پر توکل ۔ اسی سے مدد طلب کرنا ۔ اس کی تقدیر پر راضی ہونا ، اس کے حکم کو تسلیم ، اور اس کی اور اس کے رسولوں کی ہر اس چیز کی تصدیق کرنا جو انہوں نے بتایا ہے ۔ اس کے علاوہ جس فعل میں انسان کی دنیا وآخرت میں نفع ہے اور اس کی مخالف چیزوں میں اس کی دنیا وآخرت میں اس کی نقصان ہے ۔
اگر رسالت نہ ہوتی تو عقل معیشت میں نفع اور نقصان کی تفصیل کو نہیں پہنچ سکتی تھی تو اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی نعمت اور احسان یہ ہے کہ اس نے ان کی طرف اپنے رسول بھیجے ، ان پر اپنی کتابوں کو نازل فرمایا اور ان کے لئے صراط مستقیم کو بیان کیا، اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو وہ جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی برے حال میں ہوتے ۔ جو شخص اللہ تعالی کی رسالت کو مانتا ہے اور قبول کرنے کے بعد اس پر استقامت اختیار کرتا ہے وہ بہترین مخلوق ہے اور جو اسے رد کر دے اور اس سے نکل جائے تو وہ بدترین مخلوق اور اس کی حالت کتے اور خنزیر سے بھی بری اور حقیر سے حقیر تر ہے۔ اہل زمین کے لئے ان میں رسالت کے موجودہ آثار کے سوا بقا ہی نہیں اور جب زمین سے آثار رسالت مٹ جائیں اور انہیں ہدایت دکھانے والے نشانات ختم ہو جائیں تو اللہ تعالی اوپر والے اور نچلے عالم کو خراب کر کے قیامت قائم کر دے گا ۔
رسول اکرم ﷺ کی بعثت کا فلسفہ
پیغمبران خدا کی بعثت اور آسمانی کتابوں کا نزول ، قرآنی آفاقیت سے براہ راست مربوط ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے “میں نے جن و انس کو فقط اپنی عبادت و پرستش کے لیے پیدا کیا “۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے ۔” اے انسان تو کوشش اور رنج و سختی کے ساتھ اپنے کی پروردگار کی طرف جارہا ہے اور اس سے ملاقات کرے گا۔ ”
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات بخوبی سمجھی جاسکتی ہےکہ کمال مطلق (خدا وندعالم کی ذات پاک )کی طرف انسان کا یہ پرخوف ، پرخطر اور طولانی سفر رہبران الہی کے بغیر ہرگز ممکن نہیں ہے۔ ہمراہی خضر کے بغیر اس مرحلے کو طے کرنے کے نتیجے میں انسان گمراہی کے اندھیروں میں مبتلا ہو جائے گا۔
اس وجہ سے انبیاء کو رہبر اور آسمانی کتابوں کو دستور کامل قرار دیا گیا ہے تاکہ دستور العمل پر عمل کرنے اور رہبر کی درست رہنمائی سے انساان کا سفر آسان ہو اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں سے نجات حاصل کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے۔
پیٖغمبر خداﷺ کی بعثت کے مقاصد
27 رجب المرجب کو ہجرت سے ۱۳ سال پہلے رسول اکرمﷺ پر سورہ اقراء ناز ل ہوئی۔ محمد بن عبداللہ جو بعثت سے پہلے ہی اپنی پا رسائی کا لوہا منوا چکے تھے اور لوگوں کے درمیان “صادق اور امین “سے معروف تھے ،۲۷ رجب کو غار حرا میں مصروف راز ونیاز تھےکہ خداوند عالم کی جانب سے جبرئیل امین پیغام الھی کے ساتھ نازل ہوئے اور سورہ اقراء کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی۔”اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے ،اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے ،پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے ،اور انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا”
اور اس طرح بعثت کا آغاز ہوا ۔ البتہ ہر صاحب فکر کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پیغمبروں کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے اور انبیاء کو مبعوث کرنے کی کیا حکمت ہے؟اس کا جواب چند نکتوں میں مختصر طور پر بیا ں کیا جارہا ہے۔
۱)بت پرستی سے دوری اور وحدانیت کی دعوت
اہداف بعثت انبیاء میں سے ایک مہم تریں ہدف لوگوں کو یکتا پرستی اور خدا شناسی کی طرف دعوت دینا ہے اورلوگوں کو جہل و شرک سے نجات دینا ہےاور زمان جاہلیت میں موجود اعتقادی انحرافات میں سے ایک بت پرستی تھا۔ نبی اکرم ﷺ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کو شیطان کی عبادت سے رحمان کی عبادت کی طرف مائل کیا۔
اسی طرح ارشاد ہوتا ہے:”وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ فَسِيرُواْ فِي الأَرْضِ فَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
ترجمہ:۔ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ “اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔” اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی۔ پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے۔
۲۔ تعلیم و تربیت
بعض آیات میں انبیاء کے بعثت کا مقصد آسمانی کتاب اور حکمت کی تعلیم دینا قرار دیا ہے البتہ کتاب سے مراد ہر پیامبر کی کتاب ہے جس کے ساتھ اسے مبعوث کیا گیا ہے۔جیسے حضرت نوح ؑاور حضرت ابراہیمؑ کے لیے “صحف”حضرت موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کے لیے تورات اور انجیل اور پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے قرآن مجیدحکمت سے مراد وہ حکیمانہ احکام ہیں جو دونوں جہانوں میں انسان کی سعادت اور بھلائی کے ضامن ہیں حکمت سے مراد فقط فلسفہ نظری ہی نہیں ہے کیونکہ قرآن چند اصول اور معارف جو مختلف معاشرتی،اخلاقی اور عقائدی جہات سے متعلق ہیں جیسے
ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ
یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے رب نے تجھ پر وحی کی ہیں
لہذا کہا جاتا ہے کہ ان آیات کے مطابق انبیاء کی بعثت کا ایک مقصد کتاب و حکمت کی تعلیم ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ واضح آیات یہ ہے جس میں حضرت ابراھیم دعا کرتے ہیں
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ
ترجمہ :۔ اے ربّ، ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھا ئیو، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔”
اسی کو ایک اور انداز میں یوں بیان کیا گیا ہے
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ
ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے۔
اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔کتاب و حکمت کی تعلیم عقیدے معاشرے اور اخلاق کی اصلاح کا مقدمہ ہےاس کے لیے راہ ہموار کرتی ہے اس سے حضرت ابراہیم کی گفتگو میں تعلیم کو تزکیہ سے پہلے ذکر کرنے کا نکتہ واضح ہو گیا کیونکہ جب تک کتاب و حکمت کی تعلیم نہ دی جائے اس وقت تک تزکیہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔کیونکہ نفس کی پاکیزگی تو خدا کی احکامات پر عمل کرنے کے بعد حاصل ہوگی۔ وہ احکامات کتاب اور حکمت میں ہی ذکر ہوا ہے۔
لیکن چونکہ کتاب و حکمت کی تعلیم پیغمبروں کے بلند مقاصد کے پیش نظر صرف ایک مقدمہ اور وسیلے کا کام دیتی ہے گویا انبیاء کو مبعوث فرمانے کا مقصد ان تین مقاصد کی تکمیل ہے جن میں سے اخلاقی اصلاح ہے۔ ان آیات میں جن میں خدا نے اپنی طرف سے اس مسئلے کی وضاحت کی ہے تزکیہ کو تعلیم سے پہلے ذکر کیا گیا ہے
ارشاد ہوتا ہے:هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
ترجمہ:۔ وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
۳۔ اتمام حجت
خدا وند عالم نے ارسال رسل کے ذریعے تمام امتوں پر حجت تمام کی ہے تاکہ قیامت کے دن کوئی شخص یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم تک حق بات نہیں پہنچی اسی لئے خدا وند قہار کا عذاب بھی انہی اشخاص کے لئے ہے جن کے درمیان نبی یا رسول آکرتبلیغ کی ہو اور اس کےبعد غلط راستے پر گامزن ہوئے ہو۔
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً
اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغمبر نہ بھیج دیں۔
مولا علی ؑ فرماتے ہیں:
…ارسلہ لانفاذ امرہ وانہا عذرہ وتقدیم نذرہ
انہیں (پیامبر اسلام ﷺ) پروردگار نے اپنے حکم کو نافذ کرنے اپنی حجت تمام کرنے اور عذاب کی خبریں پیش کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔
ایک اور مقام پر آنحضرت کا بیان یوں آیا ہے ۔
…وانھی الیکم علی لسانہ محابہ من الاعمال … واتخذ علیکم الحج
اور تمہارے لئے پیغمبر کی زبان سے ان تمام اعمال کو پہنچا دیا ہے جن کو وہ دوست رکھتا ہے یا جس سے نفرت کرتا ہے اپنےاوامر و نواہی کو بتا دیا ہے اور دلائل تمہارے سامنے رکھ دئے ہیں اور حجت تمام کردی ہے ۔
مولا علی ؑ کے ان دونوں ارشادات  سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسفہ بعثت انبیا میں سے ایک مقصد لوگوں پراتمام حجت ہے۔
امام صادق سے نبوت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اس کا جواب میں فرمایا:تاکہ نبیوں کے بعد لوگ خدا کے سامنے کوئی عذر نہ پیش کر سکیں کہ کوئی ہمیں بشارت دینے اور ڈرانے والا نہیں آیا۔
۴۔بشارت اور انذار
مادی اور معنوی جزا اور ثواب کی بشارت و خوشخبری اور سخت روحانی و جسمانی سزاوں سے ڈرانا اگرچہ تعلیم و تربیت کا ایک شعبہ ہے جس کے ذریعے انسان کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لایا جاسکتا ہے لیکن قرآن نے بڑی تاکید کے ساتھ انبیاء کےاس عظیم فریضے کا تذکرہ کیا ہے لہذا اس سے ایک مستقل عنوان کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے
خداوند عالم فرما رہا ہے
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلاَّ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ
ہم جو رسول بھیجتے ہیں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ وہ نیک کردار لوگوں کے لیے خوش خبری دینے والے اور بد کرداروں کے لیے ڈرانے والے ہوں۔
اس آیت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کا کام صرف بشارت اور انذار ہے جبکہ باقی امور خدا کے ہاتھ میں ہیں اور ہدایت کو قبول کرنا لوگوں کا کام ہے”پھرجو ایمان لے آئے اور اصلاح کر لے تو ایسے لوگوں کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ مخزون ہوں گے”
“اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا وہ اپنے گناہوں کی پاداش میں،عذاب میں مبتلا ہوں گے”
فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ
۵۔رفع اختلاف
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتاب بر حق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا عمل دیا چکا تھا۔ اُنہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس کے لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ پس جو لوگ انبیا ءپر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے۔
اسی طرح رسول نے خود فرمایا:
میں مکارم اخلاق اور نیکیوں کی خاطر مبعوث ہوا ہوں۔
۶۔اخلاق حسنہ کو رائج کرنا
فضائل و صفات حسنہ حاصل کرنے کیلئے ایک تربیت مقرر ہے جس سے تجاوز کرناسزاوار نہیں۔اس کی توضیح یہ ہے کہ جو شے ایک درجہ میں منتقل ہوتی ہے،وہ لامحالہ درجہ اولی سے درجہ ثانیہ تک بذریعہ حرکات افعال ترقی کرتی ہے۔اور یہی حرکات وافعال نقص سے کمال تک پہنچاتے ہیں۔اب حرکت یاتو ہمارے اختیار سے باہر یا اختیار میں ہے۔
ایسے ماحول میں کہ جہاں بد اخلاقی عام ہو،خداوند عالم نے پیکرِاخلاق حسنہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو بھیجا تاکہ لوگ اخلاق الھی سے آراستہ ہو جائیں۔اسی بات کو رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں ذکر کیا
إنّما بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکارِمَ الاَخْلاقِ’’
میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں تاکہ مکارم اخلاق کو تمام کر
سکوں‘‘
۷۔ خدا وند عالم اور بندوں کے درمیان رحمت کا وسیلہ بننا
وہ انسان جو اپنے خالق سے بے خبر  بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے ،جب انکے دلوں میں نور ہدایت پیدا ہوا تو لازم تھا کہ عبد کو معبود سے ملانے کے لئے کوئی ہو اور یہ کام ختمی مرتبت کا تھا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ جو فیض الھی کا واسطہ بنے۔قرآن مجید اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ اللَّهَ وَ ابْتَغُواْ إِلَيْهِ الْوَسِيلَ’’
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو ‘‘
۸۔مرحلہ عبودیت تک پہنچانا
خداوند عالم نے واضح طریقہ سے متعدد مقامات پر  خلقت انسان کے مقصد کو بیان کیا ہے، مثلا فرمایا
وَ مَا خَلَقْتُ الجْنَّ وَ الْانسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون 
’’ اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ‘‘(۵۵)۔
جب خلقت کا مقصد عبادت ہے تو کوئی نمونہ عمل بھی تو ہو جو عبادت کر کے دیکھائے۔ اسی لئے آنحضرت (ص) نے فرمایا صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي‏ أُصَلِّي‏’’نماز پڑہو ، جیسے مجھے نماز پڑہتے دیکھتے ہو ”
۹۔عدل و انصاف کا قیام

انسان کی اجتماعی زندگی سے متعلق بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہدف اجتماعی عدالت و انصاف کو یقینی بنانا ہے۔ خداوند متعال فرماتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
ترجمہ:۔ درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے،
“قسط” اور “عدل” میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ عدل کا مفہوم عام ہے یعنی وہی اعلی اور برتر مفہوم جو انسان کی شخصی اور اجتماعی زندگی اور روزمرہ حوادث میں پایا جاتا ہے تاہم عدل کا مطلب صحیح طرز عمل، معتدل ہونا اور اعتدال کی حد کو پار نہ کرنا ہے اور قسط کا مطلب اسی عدالت کو اجتماعی روابط میں اجراء کرنا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اجتماعی عدالت اور انصاف کا نام دیتے ہیں۔ یہ عدل کے عام مفہوم سے مختلف ہے۔ اگرچہ انبیای الہی کا بنیادی ہدف اسی عدل کے عام مفہوم کو تحقق بخشنا تھا کیونکہ “بالعدل قامت السموات و الارض”۔ آسمان اور زمین عدل کی برکت سے ہی استوار ہیں۔ لیکن وہ چیز جس کی وجہ سے انسانیت کو آج بہت مشکلات کا سامنا ہے اور بشریت اس کی پیاسی ہے اور اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں “قسط” ہے۔ قسط یعنی یہ عدل و انصاف انسانی کی اجتماعی زندگی میں جلوہ گر ہو جائے۔ انبیاء علیھم السلام اسی مقصد کیلئے مبعوث ہوئے ہیں۔”لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط”۔
ترجمہ:  یعنی بیشک ھم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھه بھیجا ھے اور انکے ساتھه (آسمانی ) کتاب اور میزان ( حق کو باطل سے پھچاننا اور عادلانھ قوانین ) کو نازل کیا ھے تا کھ لوگ انصاف کے ساتھه قیام کریں۔
۱۰۔تاریکیوں سے نجات
بعثت رسول کا ایک مقصد لوگوں کو فکری،عقیدتی اور عملی تاریکیوں سے نجات بخش کر انہیں نور حیات کی طرف لانا ہے۔البتہ اس ہدف کو تعلیم و تربیت یا عدل وانصاف کے قیام میں سمو کر ایک ہی ہدف قرار دینا بھی درست ہے لیکن چونکہ قرآن مجید نے اسے واضح طور پر الگ بیان کیا ہے لہذا ہم نے بھی اسے مستقل ہدف اور مقصد کے طور پر الگ بیان کیا ہے فقط قرآن ہی نور ہدایت نہیں بلکہ ذات مقدس ختمی مرتبت کے بارے میں بھی “نور”کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔اور یہی دو نور انسان کو تاریکیوں سے نجات دیتا ہے۔
تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا
جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔
انسانوں کو فکری،عقیدتی،اخلاقی اور عملی ظلمتوں سے نجات دینا، نور کی طرف حرکت دینا اور زندگی اور حیات کو روشنائی بخشنا بعثت انبیاء کے اہداف میں سے ایک ہدف ہے۔سورۂ ابراہیم کی پہلی آیت میں ارشاد ہے:- الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
ترجمہ: الف، لام، را۔ (اے رسول(ص)) یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ پر اس لئے نازل کی ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی کی طرف لائیں (یعنی) اس خدا کے راستہ کی طرف جو غالب (اور) قابل تعریف ہے۔
نتیجہ
بعثت انبیاء کے جن دس اہداف اور مقاصد کو میں نے بیان کیا ہے ۔جن میں تعلیم،تزکیہ عدل وانصاف کا قیام ،آزادی،اتمام حجت اور باہمی اختلافات کو دور کرناوغیرہ شامل تھا۔کہ اگر ابنیاء نہ ہوتے اور انسانی معاشرہ میں ان کا حیات آفرین مکتب فکر نہ ہوتا تو یہ معاشرہ بہت ہی وحشت ناک صورت میں ہوتا۔
اس کے علاوہ یہ نتیجہ بھی نکلتا نتیجہ ہے کہ بعض کوتاہ فکر افراد کی سوچ کے بر خلاف دین ایک شخصی اور خصوصی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت کا نام ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلووں پر اثر انداز ہے اور انہیں الہی رنگ میں رنگے ہوئے ہے
فہرست منابع
http://ur.wikishia.net
مجموع الفتاوی جلد نمبر 19 صفحہ نمبر 99
Hhtps://islamqa.info
۔سورہ الذاریات ۱۵۴
۔الانشقاق ۶
۔ پیام قرآن ج،۷ ،ص ۱۲
۔سورہ علق ۱ تا ۵
سورہ نحل آیت ۳۶
سورہ اسراء آیت ۳۹
سورہ بقرہ آیت ۱۲۹
سورہ ابراھیم آیت ۴
سورہ جمعہ آیت ۲
سبحانی جعفر،مترجم: مولانا سید علی محمد نقوی،قرآن کا دائمی منشور،ناشر: مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور، ج ۹،۱۰ چ ۲۰۱۳
سورہ اسراء آیت ۱۵
نہج البلاغہ خطبہ ۸۳
العلامہ السید الشریف الرضی، مترجم،سید ذیشان حیدر جوادی،نہج البلاغہ خطبہ ۸۶ /: ،ناشر:قم جمھوری اسلامی ایران، چ ۲۰۰۹
اکبر دہقان،مترجم:محمد وزیر حسین،درہاے آبدار، ناشر:تہران\مرکز فرہنگی در سہائی از قرآن
سورہ انعام آیت ۴۸
مکارم شرازی ناصر،مترجم: سید نثار حیدر نقوی، پیام قرآن ، ،ناشر:مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور،ج ۷ ، ،ص ۲۴چ چہارم۔ص
سورہ بقرہ آیت ۲۱۳
اکبر دہقان، مترجم:محمد وزیر حسین،درہاے آبدار،ناشر:تہران\مرکز فرہنگی در سہائی از قرآن
نراقی احمد، مترجم:میر محمود علی لائق،معراج السعادۃ،ناشر:معراج کمپنی،لاہور،چ ۲۰۱۴ ،ص ۶۲
نوری محدث ،مترجم: مؤسسه آل البیت ،مستدرک الوسائل، ، ، 1408، قم، ج11، ص187.
سورہ مائدہ آیت ۳۵
پیروان ولایتwww.welayatanet.com
سورہ آل عمران آیت ۱۶۴
سورہ حدید آیت ۲۵
. مکارم شرازی ناصر ؛ (مترجم: سید نثار حیدر نقوی)؛ پیام قرآن ؛ چ :چہارم؛لاہور :مصباح القرآن ٹرسٹ ؛ج ۷ ص ۲۴س
سورہ احزاب آیت ۴۵
ابن عربی، محی الدین محمد، تفسیر ابن عربی، بیروت: دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق.