قرآن زمان و مکان کے تناظر میں[تیسری قسط[


تحریر


قرآن زمان و مکان کے تناظر میں[تیسری قسط[
تحریر: سید صلاح الدین پیرزادہ
جدید سائنس اور واقعہ معراج
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ [سورہ اسرا]
ترجمہ: اکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام(خانہ کعبہ) سے مسجد اقصا(بیت المقدس) تکجس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
شاہ سید محمد نوربخش علیہ رحمۃ [متوفی ۸۶۹ھ] فرماتے ہیں:
وَیَجِبُ اَنْ تَعْتَقِدَ اَنَّ نَبِیَّنَا تَرَقّی عَلَی الْمِعْرَاجِ وَعَبَرَ عَلَی السَّموَاتِ بِجَسَدٍ یَّلِیْقُ بِالْعُرُوْجِ وَهُوَ جَسَدٌ مُّکْتَسَبٌ لَطِیْفٌ خَفِیْفٌ وَّ بِوُلُوْجِه مَعَ فَتْحِ اَبْوَابِ السَّموَاتِ لَایَلْزَمُ الْخَرْقُ وَالْاِلْتِیَامُ ۔
اس بات پر اعتقادرکھنا واجب ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے اور عروج کے لائق جسم کے ساتھ آسمانوں سے گزرے اور یہ ایک لطیف اور ہلکا اکتسابی جسم ہے اور آسمانی دروازوں کے کھلتے ہوئے داخل ہونے کی صورت میں اس میں کسی قسم کا جوڑ و توڑ لازم نہیں آیا۔(کتاب الاعتقاديه)
عہد جدید کا مسلمان غبار تشکیک میں گم ہے اور اسے معجزات نبوی اور کمالات مصطفوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے بخوبی آگاہ کرنے کے لئے اس کے ساتھ جدید سائنسی تناظر میں بات کرنا ضروری ہے۔
اگر مسلمان دانشور اور علماء اِس سلسلے میں محنت کریں تو نہ صرف یہ کہ نوجوان نسل کے اِیمان کو غارت ہونے سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ غیرمسلموں کو بھی عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رُوشناس کراتے ہوئے دَعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ بطریقِ اَحسن ادا کیا جا سکتا ہے۔عالمِ بشریت میں
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور اس قرآن میں تین ایسے واقعات میرے نظروں سے گزرے جس نے مجھے بہت زیادہ excited کیا one of the most impossible versus ایک حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ دوسرا ، اصحاب کہف کا واقعہ اور تیسرا معراج کا واقعہ۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سراِنجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجدِ اَقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات (Cosmos) کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔
آج سے چودہ سو سال قبل علومِ اِنسانی میں اِتنی وُسعت تھی اور نہ اِتنی گیرائی اور گہرائی کہ معجزاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی اَدنیٰ جزو ہی اُن کے فہم و اِدراک میں آ جاتا حتی کہ اُس وقت بہت سے علومِ جدیدہ کی مُبادیات تک کا بھی دُور دُور تک کہیں نام و نشان نہ تھا۔ آج عقلِ اِنسانی اپنے اِرتقاء، اپنی تحقیق اور جستجو کے بل بوتے پر جن کائناتی صداقتوں اور سچائیوں کو تسلیم کر رہی ہے، ہزاروں سال قبل اِن کی تصدیق و توثیق وحئ اِلٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ جمیع مسلمانانِ عالم اِیمان بالغیب اور قدرتِ اِلٰہیہ کے ظہور پر اِیمان رکھنے کی وجہ سے بغیر دلیل معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمیشہ قائل رہے۔ عہدِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عہدِ صحابہ، عہد ائمہ طاہرین اور بعد میں آنے والے اُن مسلمانوں کا اِیمان قابلِ رشک اور قابلِ داد تھا کہ ظہورِ قدرتِ اِلٰہیہ کے ناقابلِ فہم و اِدراک ہونے کے باوجود اُن کا اِیمان کبھی متزلزل نہیں ہوا، اُن کے آئینۂ دل پر کبھی بھی شبہات کی گرد اور وسوسوں کی دُھول نہیں پڑی، اُن کے آئینۂ شعور میں بھی کبھی کوئی بال نہیں آیا۔ آج سے چودہ سو سال قبل عقلی بنیادوں پر دورانِ معراج آن کی آن میں ساتوں آسمانوں کی حدود سے گزر کر لامکاں تک جا پہنچنا اور اسی لمحے میں اس کھربوں نوری سال کی مسافت کو طے کر کے واپس سرزمینِ مکہ پر تشریف لے آنا تو کُجا زمین کی بالائی فضا میں پرواز کا تصوّر بھی ناقابلِ یقین محسوس ہوتا ہے اور دُوسری طرف آج کا اِنسان اللہ ربّ العزّت کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت عالمِ اَسباب کے اندر رہتے ہوئے اپنی کی سی اِتباعِ معجزۂ معراج میں کائنات کو مسخر کرنے کا عزم لے کر نکلا ہے۔ اگرچہ آج کا اِنسان صبح و شام فضائے بسیط میں محوِ پرواز ہے لیکن اگر واقعۂ معراج کو اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ حیطۂ شعور میں لایا جائے تو خلائی سفر کے مخصوص لوازمات کے بغیر کرّۂ فضا سے باہر ایتھر (Ather) میں کروڑوں نوری سال کا سفر طے کرنے کا تصوّر آج بھی ناممکن دِکھائی دیتا ہے۔
فضائے بالا کی مختلف کیفیّات
یہ کرۂ ارضی گیسوں پر مشتمل ایک ایسے شفّاف غلاف میں لپٹا ہوا ہے، جو زمین پر زِندگی کو ممکن بھی بناتا ہے اور شہابِ ثاقب کی بارِش میں اس پر پرورش پانے والی زندگی کو تحفظ کی رِدا بھی فراہم کرتا ہے۔ آج کے اس خلائی تحقیقات کے دور میں جب اِنسان خلاء کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے مرحلے میں اُسے سینکڑوں کلومیٹر کی گہرائی پر مشتمل زندگی بخش ہواؤں کے اِسی سمندر کو عبور کرنا ہوتا ہے۔
ہوائی سفر میں زیادہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی صورت میں گیس ماسک (Gas Mask) اِستعمال کیا جاتا ہے۔ جہاز کے اندر مصنوعی طور پر ہوا کا دباؤ (Air Pressure) بھی بنایا جاتا ہے اور اگر کسی تیکنیکی خرابی کی وجہ سے مکیّف (Air Tight) جہاز میں سوراخ ہو جائے تو جہاز کے اندر کا مصنوعی دباؤ تیزی سے گر جاتا ہے، جس سے مسافروں کے اَجسام سخت اِضمحلال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض صورتوں میں مسافروں کے منہ، ناک اور کانوں سے خون بھی بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر فوری طور پر دوبارہ مصنوعی دباؤ بنانا ممکن نہ ہو تو پائلٹ تیزی سے جہاز کی بلندی گراتے ہوئے اُسے اُس مخصوص سطح تک لے آتے ہیں، جہاں ہوا کا مناسب دباؤ موجود ہوتا ہے اور مسافر مزید پریشانی اور جانی نقصان سے بچ جاتے ہیں۔
خلائی سفر کی لابدّی ضروریات
خلائی سفر پر روانگی کے دوران کرۂ ہوائی (Atmosphere) سے باہر نکلنے کے لئے کم از کم 40,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ خلانوردوں (Astronauts) کو آکسیجن اور مصنوعی دباؤ کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص لباس ’’Pressuresuit ‘‘ بھی درکار ہوتا ہے جو اُنہیں درجۂ حرارت کی شدّت کے علاوہ برقی مقناطیسی لہروں (Electro Magnetic Radiations) سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ EVA Spacesuit جو ایک اِنسان کو خلائی سفر کے دوران آکسیجن کی فراہمی، مناسب حرارت، کمیونیکیشن اور خلاء میں قیام کے لئے دیگر ضروری سہولیات فراہم کرتا ہے، کے علاوہ (Manned Maneuvering Unit (MMU کی بدولت اِنسان اِس قابل بھی ہو چکا ہے کہ خلائی شٹل سے باہر نکل کر ایک مصنوعی سیارے کی طرح زمین کے مدار میں طویل وقت کے لئے بآسانی چہل قدمی کر سکے۔
تسخیرِ ماہتاب۔ ۔ ۔ اِنسان کا بعید ترین خلائی سفر
ہوائی سفر کی مشکلات پر بتدریج قابو پایا جا رہا ہے اور اَب یہ سفر کسی حد تک محفوظ خیال کیا جاتا ہے لیکن خلائی سفر میں اِنسان کو فنی اور تیکنیکی پیچیدگیوں کا ہی سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ نفسیاتی اُلجھنیں بھی اُس کا دامن تھام لیتی ہیں۔ خلاء کا سفر خطرات سے خالی نہیں، لیکن جذبۂ تسخیرِ کائنات عزم کو عمل کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو اِنسان چاند کی سطح پر اپنی عظمت کا پرچم نصب کرنے کے بعد اپنے خلائی سفر کے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ بیسویں صدی میں یہ کارنامہ سراِنجام دیا جا چکا ہے۔
خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے (National Aeronautic Space Agency (NASA کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کے لئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کے تحت جولائی 1969ء میں چاند کا پہلا کامیاب سفر کرنے والے Apolo-11 کے مسافر امریکی خلانورد ’نیل آر مسٹرانگ‘ (Neil Armstrong) اور ’ایڈون بُز‘ (Edwin Buzz) تاریخِ اِنسانی کے وہ پہلے اَفراد تھے جو چاند کی سطح پر اُترے جبکہ اُن کا تیسرا ساتھی ’کولنز‘ (Collins) اُس دوران مصنوعی سیارے کی مانند چاند کے گرد محوِ گردش رہا۔ اِس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز (Kennedy Space Center (KSC میں موجود سائنسدان اُنہیں براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چند پتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر، روانگی سے محض دو دن بعد خلا نوردوں کا یہ مہم جو قافلہ واپس زمین پر آ گیا۔ اِس مہم کے دوران پل پل کی خبر ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعہ زمین کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی جاتی رہی۔ عالم اِنسانیت کی اِن خلائی فتوحات اور تسخیرِماہتاب کا ذِکر چودہ صدیاں قبل صحیفۂ کمال یعنی قرآنِ مجید میں پوری وضاحت کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔ اِرشادِ خداوندی ہے :
وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَO لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍO فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَO [سورہ انشقاق]
قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے،تم یقیناً طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گے، تو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشینگوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتے۔
قرآنِ حکیم کے علاوہ بائبل سمیت دیگر صحائفِ آسمانی اور مذہبی کتب میں اِس قدر درُست سائنسی حوالے بالکل نہیں ملتے۔ درج بالا آیتِ مبارکہ میں تسخیرِ ماہتاب کا جو واضح اِشارہ ہے، بیسویں صدی کے اِنسان نے اُس اِشارے کی عملی تفسیر اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ آج کے اِنسان نے کامیابی و کامرانی کی اَن گنت منازِل طے کر لی ہیں۔ علومِ جدیدہ اِنسان کے ذِہن کو کشادگی بخش رہے ہیں۔ اُلجھی ہوئی گرہیں کھل رہی ہیں اور کائنات اپنی ازلی صداقتوں کے ساتھ نکھر کر اُس کے سامنے بے نقاب ہوتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن اپنی تمام تر مادّی ترقی کے باوجود ابھی تک اِنسان روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیّت حاصل نہیں کر سکا۔ روشنی 1,86,000 میل (تین لاکھ کلومیٹر) فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور سائنس کی زبان میں اِس قدر رفتار کا حصول کسی بھی مادّی شئے کے لئے محال ہے۔
روشنی کی رفتار کے حصول میں حائل رکاوٹیں
ممتاز سائنسدان ’البرٹ آئن سٹائن‘ نے 1905ء میں ’نظریۂ اضافیتِ مخصوصہ‘ (Special Theory of Relativity) پیش کیا۔ اُس تھیوری میں آئن سٹائن نے وقت اور فاصلہ دونوں کو تغیر پذیر قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ زمان و مکاں (Time & Space) کی گتھیاں اِس تھیوری کے کماحقہ اِدراک کے بغیر نہیں سلجھ سکتیں۔
آئن سٹائن نے ثابت کیا ہے کہ مادّہ (Matter) توانائی (Energy) کشش (Gravity) زمان (Time) اور مکان (Space) میں ایک خاص ربط اور ایک خاص نسبت پائی جاتی ہے۔ اُس نے یہ بھی ثابت کیا کہ اِن سب کی مطلقاً کوئی حیثیت نہیں۔ مثلاً جب ہم کسی وقت یا فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں تو وہ اِضافی (Relative) حیثیت سے کرتے ہیں۔ گویا کائنات کے مختلف مقامات پر وقت اور فاصلہ دونوں کی پیمائش میں کمی و بیشی ممکن ہے۔ نظریۂ اِضافیت میں آئن سٹائن نے یہ بھی ثابت کیا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے اور ایک جسم جب دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرتا ہے تو اُس کا حجم بھی اُسی تناسب سے گھٹتا اور بڑھتا ہے۔
آئن سٹائن برسوں کے غوروفکر کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا کہ اِنتہائی تیز رفتار متحرّک جسم کی لمبائی اُس کی حرکت کی سمت میں کم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ روشنی کی 90 فیصد رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت دوگنا ہو جاتی ہے، جبکہ اُس کا حجم نصف رہ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وقت کی رفتار بھی اُس پر نصف رہ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی راکٹ 1,67,000 میل فی سیکنڈ (روشنی کی رفتار کا 90 فیصد) کی رفتار سے 10 سال سفر کرے تو اُس میں موجود خلانورد کی عمر میں صرف 5 سال کا اِضافہ ہو گا جبکہ زمین پر موجود اُس کے جڑواں بھائی پر 10 سال گزرنے کی وجہ سے خلانورد اُس سے 5 سال چھوٹا رہ جائے گا۔ آئن سٹائن نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اِنسانی جسم کی اِس محیّرالعقول رفتار پر نہ صرف دِل کی دھڑکن اور دورانِ خون بلکہ اِنسان کا نظامِ اِنہضام اور تنفس بھی سست پڑ جائے گا۔ جس کا لازمی نتیجہ اُس خلانورد کی عمر میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔
آئن سٹائن کے اِس نظریہ کے مطابق روشنی کی رفتار کا 90 فیصد حاصل کرنے سے جہاں وقت کی رفتار نصف رہ جاتی ہے، وہاں جسم کا حجم بھی سکڑ کر نصف رہ جاتا ہے اور اگر مادّی جسم اِس سے بھی زیادہ رفتار حاصل کرلے تو اُس کے حجم اور اُس پر گزرنے والے وقت کی رفتار میں بھی اُسی تناسب سے کمی ہوتی چلی جائے گی۔ اِس نظریئے میں سب سے دِلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال کوئی مادّی جسم روشنی کی رفتار حاصل کرلے تو اُس پر وقت کی رفتار بالکل تھم جائے گی اور اُس کی کمیّت بڑھتے بڑھتے لامحدود ہو جائے گی اور اُس کا حجم سکڑ کر بالکل ختم ہو جائے گا، گویا جسم فنا ہو جائے گا۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر آئن سٹائن اِس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔
معجزۂ معراج میں برّاق کا سفر
آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت (Theory of Relativity) کے مطابق روشنی کی رفتار کا حصول اور اُس کے نتیجے میں حرکت پذیر مادّی جسم پر وقت کا تھم جانا اور اثر پذیری کھو دینا ناممکن ہے (کیونکہ اِس صورت میں مادّی جسم کی کمیّت لامحدود ہو جانے کے ساتھ ساتھ اُس کا حجم بالکل ختم ہو جائے گا)۔ آئن سٹائن کے نظریہ کی رُو سے یہی قانونِ فطرت پورے نظامِ کائنات میں لاگو ہے۔ اب اِس قانون کی روشنی میں سفرِ معراج کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ’’اللہ کی عادت‘‘ کا یہ نظامِ فطرت اُس کی ’’قدرت‘‘ کے مظہر کے طور پر بدل گیا۔ وقت بھی تھم گیا۔ ۔ ۔ جسم کی کمیّت بھی لامحدود نہ ہوئی، اور وہ فنا ہونے سے بچا رہا۔ ۔ ۔ اُس کا حجم بھی جوں کا توں برقرار رہا۔ ۔ ۔ اور خلائی سفر کی لابدّی مقتضیات پورے کئے بغیر سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برّاق کی رفتار (Multiple Speed of Light) سے سفر کیا، بیت المقدس میں تعدیلِ ارکان کے ساتھ نمازیں بھی ادا کیں، لامکاں کی سیر بھی کی، اللہ کے برگزیدہ اَنبیاء کے علاوہ خود اللہ ربّ العزّت کا ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ رِفعت پر جلوہ بھی کیا اور بالآخر سفرِ معراج کے اختتام پر واپس زمین کی طرف پلٹے تو تھما ہوا وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کا منتظر تھا۔ وضو کا پانی بہہ رہا تھا، بستر ہنوز گرم تھا اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی۔ اگرچہ معجزہ کسی مادّی توجیہہ کا محتاج نہیں لیکن اِس حقیقت کا اِدراک ہمیں ضرور ہونا چاہئے کہ سائنس سفرِ اِرتقاء کے ہر قدم پر معجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں تسخیرِکائنات کرتے ہوئے اِسلام کے اِلہامی مذہب ہونے کے بالواسطہ اِعتراف کا اِعزاز حاصل کر رہی ہے۔ آگے ہم بات کرتے ہیں فرمان شاہ سید علیہ رحمہ کے فرماتے ہیں :-
” اس بات پر اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اور عروج کے لائق جسم کے ساتھ آسمانوں سے گزرے اور یہ ایک لطیف اور ہلکا اکتسابی جسم ہے اور آگے کہتے ہیں اس جسم میں کسی قسم کا جوڑ توڑ لازم نہیں آیا ” اب یہاں سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی اور جسم کے ساتھ لئے کے گئے تھے ، کوئی ایسا جسم جسکی ڈائمنشن زیادہ سے زیادہ ہو ویسے ڈائمنشن سے یاد آیا ” سایہ ” ٹو ڈائمنشن کا ہوتا ہے ، ” انسان ” تھری ڈائمنشن ، ” جنات ” اور ” فرشتے ” فور ، ففتھ ڈائمنشن کا ہوتا ہے ، ٹو ڈائمنشن تھری ڈائمنشن کو نہیں دیکھ سکتا اور تھری , فور اور ففتھ ڈائمنشن کو نہیں دیکھ سکتا مطلب انسان جنات اور فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتا (اگر وہ اپنے ڈائمنشن میں ہو) ، ہاں اگر وہ اپنا ڈائمنشن چینج کریں یعنی جنات یا فرشتہ انسانوں یا جانوروں کی شکل اختیار کریں تو ہمیں دیکھائی دیتا ہے ورنہ جنات اور فرشتوں کا دیکھائی دینے والی باتیں جھوٹ پر مبنی ہے، انکے کے لئے بھی کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی یہاں تک دروازہ ، کھڑکیاں سب کچھ بند ہونے کے باوجود بھی جن حاضر ہوتے ہے فرشتے حاضر ہوتے ہے ۔ خیر ہم بات کر رہے معراج کی تو شاہ سید علیہ رحمہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو جس جسم کے ساتھ لے گئے وہ جسم لطیف اور ہلکا اکتسابی جسم تھا یعنی کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں بنی اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تھوڑی بہت تبدیلی لائی تھی ، ڈائمنشن میں تبدیلی کی تھی تھرڈ ڈائمنشن سے چینج کر کے فور ففتھ یا یا اس سے زیادہ کیا تھا کیونکہ اللّٰہ جو چاہے کر سکتا ہے ۔ ۔۔۔۔ واللہ اعلم
خدا ہم سب کو قرآن کو سہی مانوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
[جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔]
منابع
القرآن
کتاب الاعتقادیہ
ماڈرن سائنس اور قرآن
تلاش :- عکسی مفتی
The book of cosmos
Theory of relativity