قرآن زمان و مکاں کے تناظر میں


تحریر سید صلاح الدین پیرزادہ


[پہلی قسط]
قرآن کے بارے میں جو بڑے بڑے اعتراضات ہمیں نظر آتے ہیں،جو مغرب کے بڑے بڑے فلسفیوں کے اعتراضات ہیں اور جو مشرق کے secularists کے اعتراضات ہیں اگر میں ان کا خلاصہ کروں تو اللہ کے بارے میں اور قرآن کے بارے میں ایک مختصراً بات وہ کہتے ہیں کہ اللہ کا کوئی data زمین پر موجود نہیں ہے ۔وہ اس بات کو سوچنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اگر کسی کتاب کا دعویٰ یہ ہو کہ میں اللہ کی کتاب ہوں تو اس کتاب کو reject کرنے کے بعد اس کو غلط ثابت کرنے کے بعد کتنا آسان ہو جائے گا کہ ہم خدا سے نجات پالیں گے ۔ اُن دانشوروں کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ قرآن سے رہائی در اصل اس کائنات کے خالق و مالک سے رہائی ہے اور اگر خدا نہ ہو تو بندہ آزاد ہے جو چاہے کرے،پھر مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔میں شاید secular فلاسفی سے بہت آگے نکل جاوں ، میں دانشورانِ مغرب سے بھی آگے نکل جاوں ، میں آزادی کی صورتیں اختیار کروں جو شاید ہر فرد و بشر کو شرما دیں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ اللہ کے دو datas زمین پر ہر وقت موجود رہے ہیں۔ پندرہ سو برس سے ہم ان datas سے بخوبی واقف ہیں:ایک قرآنِ معظم ہے اور دوسرا قرآنِ مجسم ۔یہ مضمون قرآن معظم تک محدود ہے اگر چہ قرآنِ معظم کا ذکر قرآنِ مجسم ص کے بغیر ہو نہیں سکتا مگر کوشش میں یہ کر رہا ہوں کہ اس آرٹیکل میں آپ کو یہ بتاوں کہ ہم اللہ کے ساتھ کیسے behave کرتے ہیں اور اعلٰی ترین کتابِ علم کے ساتھ ہمارا رویہ صدیوں سے کیسا ہے ؟
سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ قرآن اپنی سب سے اولین حیثیت کیا قرار دیتا ہے ؟ وہ اپنے اندر کس چیز کو اہمیت دیتا ہے ؟ اور اگر مخلوق کو وہ پکارتا ہے اور ہدایت کی خبر دیتا ہے تو اُن کی کس چیز کو وہ سب سے پہلے پکارتا ہے ؟ قرآنِ حکیم میں اللہ فرماتا ہے : میں نے یہ قرآن جو عربی میں اتارا، یہ تمہارے غور و فکر کیلئے ، تدبر کیلئے ، علم و دانش کیلئے اُتارا ہے تاکہ تم میری آیات پر غور کرو ،سوچو اور سمجھو ۔ فرض کیجیے کہ ہم اُس غور و فکر کے قابل نہ ہوں، ہم تعلیم سے آشنا نہ ہوں ، فرض کریں ہم قرآن کو بغیر سوچے سمجھے پڑھیں ، فرض کریں ہم جزدان سے نکال کر چوم کر اور پڑھ کر دوبارہ اسے جزدان میں رکھ دیں اور ہر ایک کیلئے بھی ہمارے علم میں ، ہمارے وجدان میں، ہمارے خیال میں نہ قرآن کی عظمت کا خیال آئے نہ اُس کے مضمون کا خیال آئے ، نہ اُس کے خالق کا خیال آئے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اللہ کی رائے آپ کے بارے میں کیا ہو گی ؟ ایک ہی آیت میں مختصراً اللہ نے بتایا: ” اِنَّ شَرَّ الدَآبِّ عِندَالله الصُمُّ البُکمُ الزِینَ لَا یَعقِلُونَ “( الانفال )( یعنی اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ ہیں جو گونگے اور بہرے ہیں، جو سوچتے سمجھتے نہیں ہیں )
یہاں پروردگار عالم نے اُن انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا جو بغیر غورو فکر کے قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں. ایک اور آیت میں اللہ نے قرآن کی definition دی ، فرمایا : وَ لَقَد جِنھُم بِکِتٰبِ فصَّلنہُ عَلٰی عِلمِ ( اعراف )( اور بے شک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے جسے ہم نے ایک بڑے علم سے مفصل کیا )
ہم نے جو کتاب آپ کو عطا کی ہے اس کی تفصیل علم کے ساتھ ہے … یہ بغیر علم آپ کو سمجھ نہیں آئے گی .. یہ کتاب جو ہم نے آپ پر اُتاری ہے ، یہ آپ کی سوچ اور سمجھ کے لئے اُتاری ہے ،اور بد قسمتی یہ ہے کہ جو بغیر علم اس کی طرف آئے گا وہ اس کی تفصیلات پا نہیں سکے گا،بغیر غور و فکر کے آپ اللہ کے رموز و کنایہ اور اسرار کو سمجھ نہیں پائیں گے، پھر رب کریم نے دوبارہ کہا : قَد فَصَّلنَا الاٰیٰتِ لِقَومِ یَعلَمُونَ ( الانعام )
یعنی میں نے یہ تفصیل اس لئے دی کہ سوچنے ،سمجھنے والے اس کو سمجھیں ، پڑھیں، دیکھیں کہ یہ کتاب محض رسم و رواج کی نہیں ، ظاہرہ عبادات کی نہیں ، یہ totem ، taloo کی کتاب نہیں بلکہ کائناتِ اوّل سے لے کر آخر تک یہ پروردگار عالم کا صحیفہ ء علم ہے ،دانش وروں کی متاع ہے ، انسان کی زندگی کا سب سے بڑا خزانہ ہے مگر کیا واقعی ہم اس کو اُسی طرح پڑھتے ہیں ، جیسے اسے پڑھنے کا حق ہے ؟
کسی بھی چیز کو پڑھنے سے پہلے ، کسی بھی خیال کو اخذ کرنے سے پہلے ،کسی کتاب کو لکھنے سے پہلے ، کسی مقالے کی وضاحت سے پہلے ، اُس پر research کرنے سے پہلے ، ایک جنرل سا قانون ہوتا ہے کہ تمام لوگ اپنا اپنا ایک تحقیقی synopses بناتے ہیں ۔ اگر قرآن میں ایک موضوع ہے تو پڑھنے والا یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ کیا یہ موضوع پہلی بار قرآن میں آیا ہے ؟ کیا یہ جو مذہب کی پکار ہے ، یہ قرآن میں پہلی مرتبہ آئی ہے ؟ کیا یہ خدا anthropology کی بات کرتا ہے؟وَلَکُم فِی القِصَاصِ حَیوتہُ یَاُولی الاَلبَاب ( البقرہ )( اے اہل عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )
کیا یہ بات پہلی مرتبہ قرآن ہی نے کہی ہے؟ کیا اس سے پہلے کوئی علم موجود تھا ؟ کیا اس سے پہلے کوئی شناختِ انسان موجود تھی ؟ آخر ہزار ہا سال پہلے انسان جو وقت سے گزر کر آیا ہے ، کیا قرآن نے اُن سے copy کیا ہے ؟ قرآن نے اُن سے اخذ کیا ہے ؟ کیا اپنے زمانے میں قرآن نے علومِ حاضرہ سے اخذ کیا ہے ؟ کیا جو دوسرے لوگوں کی رائے تھی ، جو مروجہ رائے تھی ، کیا قرآن نے اپنے صفحات میں وہ مروجہ رائے لکھ دی ہے ؟ جیسے بہت سے ایسے احباب ہیں ، جن کا خیال یہ ہے کہ قرآن نے اپنے گردوپیش سے معلومات اکٹھی کیں اور ذرا بہتر طریقے سے لکھ دیا کیا ہمارا یہ فرض نہیں بنتا کہ ہم اُن معلومات کو ، اُس خبر کو ، اُس انداز تحقیق کو غور و فکر سے پڑھیں؟
بار بار جو پروردگار عالم آپ کو غور و فکر کے لئے کہہ رہا ہے ،تو کیا وہ اپنے آپ کو توازن میں نہیں ڈال دیتا ؟ کیا وہ اپنے آپ کو تنقید کے پلڑے میں نہیں ڈال دیتا ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اگر اُس کی کوئی بات غلط ہے ، اگر اُس کی کوئی بات تحقیق شدہ نہیں ہے ، اگر اُس کی کسی بات میں وزن نہیں ہے ، اگر وہ دورِ حاضر یا دورِ قدیم میں کسی ایسی تحقیق کے خلاف جو فائنل ہو چکی ہے ، تو یقیناً آپ کا حق بنتا ہے کہ آپ کہیں کہ اے پروردگار تیرے بندوں نے تھوڑا سا علم تجھ سے زیادہ حاصل کر لیا ہے ۔مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو کوئی عزت و وقعت نہیں دی۔ میں نے پہلے بھی بتایا ہم نے اُسے چوما بہت، چاہا بہت ، نئے نئے جزدان بہت بنائے ، ہم نے اُسے بہت ہی عزت و وقار سے جیسے آباو اجداد کی تصویریں سجاتے ہیں ، سجا کے رکھا مگر ہم نے ُاس کے موضوعات پر کوئی تحقیق نہیں کی۔ یہ ایک بڑی بد قسمتی کی بات ہے اور اگر کی ہوتی تو ہمیں ایک حیرت انگیز انکشاف ہوتا کہ قرآن نے قدیم دور سے اپنے وقت سے اور آنے والے وقت کے بارے میں ساری statements دی ہیں اور زمانے نے ثابت کیا ، وقت نے یہ ثابت کیا کہ اہل قدیم کے دانشور بھی غلط تھے ،سائنسدان بھی غلط تھے، صرف اور صرف اللہ ہی سچا تھا اور اس سے بہتر کسی کی خبر نہیں ۔ اُس سے زیادہ سچائی کی خبر کسی کی نہیں ہو سکتی۔میرا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کتابِ تخلیق ہے اور سائنس کتابِ تحقیق ہے ۔ ان دونوں میں یہ بہت بڑا فرق ہے جو ہمیں ہر صورت ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے اور اگر تخلیق اور بنیادی خالق کی کوئی information غلط ہوگی تو پھر ہم اس خالق کو مان نہیں سکتے۔دیکھو انسان ہزار مرتبہ خطا کرے انسان رہتا ہے ۔ اس کی جنس اُس کا حلیہ ، اُس کی location ، اس کی recognition ، اُس کا نام نہیں بدلتا ، ہزار خطاوں کے باوجود بھی انسان ، انسان رہتا ہے مگر اگر اللہ ایک خطا بھی کرے تو اللہ نہیں رہتا ، دیکھیے کیا جبر ہے خدا پر کہ اگر اللہ ایک بھی خطا کرے تو خدا نہیں رہتا ، تو پھر آپ کے پاس کتنی بڑی وسیع زمین ہے ۔ قرآن اتنی بڑی کتاب ہے ، کتنی بے شمار اُس میں معلومات ہیں … کیا آپ جراءت نہ کرو گے ؟ ایک جراءت بھی نہ کرو گے ؟ کہ اس information کو اُس تعلیم کو ، اُس ساری بات چیت کو جو آپ قرآن میں پڑھ رہے ہو ، اگر آپ اُس کو properly چیک کرو تو آپ کو قرآن سے نجات ہو جائے گی ، خدا سے بھی نجات ہو جائے گی۔
میں نے یہ بڑی سنجیدگی سے کوشش کی تھی کہ کسی طریقے سے ، جدید ترین researches کے ذریعے اعلٰی ترین خیالات کی تعلیم کے ذریعے، دانشورانِ عصر کی مدد سے کسی نہ کسی طریقے سے میں قرآن کی کوئی بات غلط کر دوں مگر یہ ممکن نہ ہوا ۔ یہ حقیقت کہ میں بہت سارے ایسے سوالات مختلف گروپس میں کرتے تھے اور علماء سے پوچھتے بھی تھے یہاں تک کہ مجھے کچھ علماء نے کہا بھی کہ آپ کو اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتا ، آپ خدا کے بارے میں سوال کر رہے ہو ، کیا آپ ملحد ہو گئے ہیں ؟ ایک دن میں گھر والوں کے ساتھ چائے پی رہا تھا غالباً عصر کا وقت تھا ابو [سلسلہ نوربخشیہ کے پیر حاضر ]سے بہت سارے سوالات پوچھ رہیں تھے۔ زیادہ تر سوالات میرے خدا کے بارے میں تھا تو میری باتیں سن کے گھر والے بہت پریشان تھے اور امی بھی بلکہ کہہ رہی تھی اس طرح کے عجیب و غریب کتابیں کیوں پڑھتے ہو جس سے بندے میں یہ جرات پیدا ہو کہ وہ اسلام کے ہر چیز پے سوال کرے ؟ خیر ابو نے کہا: اچھی بات ہے کچھ سوال نہیں کرتے لیکن یہ تو سوال کر رہے ہیں اور مجھے یہ بھی کہا: بیٹاکتابیں پڑھو جس طرح کے بھی ہو لیکن یہ ضرور یاد رکھنا ساتھ میں تفسیرِ قرآن بھی پڑھنا اور نہج البلاغہ بھی۔ خیر ہماری باتیں ہو رہی تھی قرآن کے حوالے سے سو میرا تعلق ایک فزکس کے طالب علم ہونے کے ناطے میں سائنسی باتوں کو لے کے چلوں گا۔
مگر ایک سوال ہے آپ لوگوں سے بہت seriously کرنا چاہتا ہوں جو شاید پہلے کبھی کسی نے آپ سے نہ کیا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ تیرہ سو برس سے ہمارے وہ حضرات یا اُن مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں جو اس کتاب الہٰی کو سمجھتے تھے چاہے وہ کسی بھی خیال سے تعلق رکھتے ہوں ، کسی بھی مذہب کے مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ، قرآن پر اعتبار کیوں نہیں کیا ؟؟؟ میں ابھی یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ آخر یہ کیا المیہ تھا ، یہ کیا حادثہ تھا کہ ہمارے صاحبِ فضیلت لوگوں نے ، تاریخ میں مرقوم بڑے بڑے ناموں نے اللہ پر اعتبار کیوں نہیں کیا؟ اگر کر لیتے تو آج پندرہ سو برس بعد آپ بھی تاریخِ عالم میں اُستادِ علوم ہوتے ۔ایک چھوٹی سی بات کہ جب اللہ پندرہ سو برس پہلے یہ کہ رہا تھا : اَوَلَم یَرَالّزِینَ کَفَرُوااَنَّ السَّموٰتِ وَالاَرضِ کَانَتَا رَتقا فَفَتَقنٰھُمَا ( الانبیاء )( کہ تم میرا انکار کیسے کر سکتے ہو .. یہ جو زمین و آسمان پہلے ایک وجود تھا ، یہ ہٹا ہوا وجود نہیں تھا… یہ پہلے ایک وجود تھا پھر ہم نے اس کو پھاڑ کر جدا کر دیا..) ( its called Big Bang )وَجَعَلنَا مِنَ المَاءِ کُلِ شَیءِ حَیِّ ( الانبیا )( اے لوگو..! سن لو کہ میں نے تمام حیات کو پانی سے پیدا کیا. ) (Biology 9th class )
اگر یہ دو statement مسلمانوں کے اعتبار میں ہوتی ، اگر علمائے اسلام ، مفکر اسلام ، دانشور یہ بات مان لی ہوتی ، اس پر یقین کر لیا ہوتا ، تو Sir James Jeans سے تیرہ سو برس پہلے آپ کا نام ، اسلام کا نام ، قرآن کا نام Muslim Scientists کا نام اس وقت سرِ فہرست تحقیق ہوتا اور یہ cradet جو بیسویں صدی کے سائنسدانوں کو گیا ہے ، یہ بیسویں صدی کے سائنسدانوں کو نہ جاتا۔کیا تعجب کی بات ہے کہ قرآن پر لوگوں کو اتنی بے اعتباری تھی کہ اتنی بڑی statement کو کسی نے بھی mention نہ کیا ، اگر علماء اپنے عقائد کا اظہار کرتے اور کتاب ہائے علم میں اس approach کو درج کرتے اور بار بار اس کو ہر زمانے میں repeat کرتے تو غیر کیسے اس discovery کو اہنے نام لے لیتے ، یہ کبھی ممکن نہ ہوتا ،مگر افسوس کہ بات یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں نے ، مفسرین نے ، ہمارے محدثین نے ، ہمارے علماء نے قرآن کی اس آیت کو اُس طرح نہیں لیا ، جس طرح اس کو لینا چاہیے تھا۔
کچھ mentions میں آپ کو بتاوں گا ۔ ایک gynae کی بات ہے ، جب میرا دو جڑوان بچہ ہوا اور پھر ایک سال بعد دوبارہ جڑواں ہوا تو میں نے قرآن میں وہ آیتیں ڈھونڈنا شروع کیا جس میں بچے کی پیدائش کی بات ہو تو نظر آیا اللہ تعالی تو کسی خوردبین کے بغیر کسی سونوگرافی کے بغیر بچے کی پیدائش کی کچھ stages گنا رہا تھا :فَاِنَّا خَلَقنٰکُم مِن تُرَابِ ثُمَّ مِن مُضغَتہِ مُخَلَّقَتہِ وَّ غَیرِ مُخَلَّقَتہِ ( پھر بے شک ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا تھا ، پھر نطفہ سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر گوشت کے ٹکڑے سے )
اب ذرا خود تو سوچو ، جب نہ آنکھ تھی ، نہ باریکیوں کے پرکھنے والی کوئی جگہ تھی ، تب قرآنِ حکیم نے یہ statements دیں… gyanechologist اگر ان باتوں کو مان لیتے اور ان باتوں پر ذرا سی تحقیق کرتے Romans نے جو پہلی Anatomy دی….. Greeks کے پاس یہ علم نہیں تھا … قرآن حکیم نے ان میں سے کسی بات کو follow نہیں کیا اللہ نے ان سب کو بچو اور خناس کہا اور اپنی تخلیق کے مراحک کا خود ذکر کیا …. میں اس پر آپ کو ایک internationally renowned top embryologist keithmoor کی وضاحت بتاتا ہوں :
His comments are record in which he said that i have no doubt in my mind that Muhammad ، Jesus and Moses come from the same school.
They speak truth and only truth.
اس نے کہا میں یہ کہ سکتا ہوں کہ محمد ص اور عیسیٰ اور موسیٰ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں یعنی یہ پیغمبر ہیں ، یہ سچے ہیں ، یہ خدا کی طرف سے آپ کو تعلیم دیتے ہیں۔
بڑی عجیب و غریب کچھ آیات ہیں اور embryology میں نسلِ انسان کی جو progresses زمانوں میں ہوتی ہیں ، پروردگار نے ان کے بارے میں فرمایا :
ھَل اَتٰی عَلَی الاِنسَانِ حِینُ مِنَ الدَّھرِ لَم یَکُن شَیئًا مذکُورا ( الدھر )
( بے شک آدمی پر ایک وقت گزرا کہ کہیں اس کا نام بھی نہیں تھا )
بلاشبہ زمانے میں انسان کوئی ایسی شے نہ تھا کہ اُس کا ذکر ہوتا ، نہ قابک ذکر تھا ، نہ اسکا کوئی وجود قابل ذکر تھا ، نہ اس کی کوئی ایسی حیثیت قابل ذکر تھی ، نہ وہ اپنے مقام میں کسی ترقی میں تھا ، وہ اتنا حقیر تھا ، اتنا پست تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ شاید کائی کی شکل تھا یا شاید وہ الجائی کی ایک صورت تھا ۔پھر اللہ نے اُسے progress دی:اِنَّا خَلَقنَا الاِنسَانَ مِن نُطفَتہِ اَمشَاج ( الدھر )( بے شک ہم نے انسان کو دہرے نطفے سے پیدا کیا. )
یعنی پھر ہم نے single cell سے اسے مخلوط کر دیا ، اب اُس میں male اور female پیدا کیے ، single center کو توڑ دیا پھر اُس سے آگے ہم نے اس کے بقایا system اسے دینے شروع کئے .. نَبتَلِیہ ( تاکہ اسے جانچیں ) اب ہم نے چاہا کہ اس مخلوق کو اور آگے بڑھائیں :
فَجَعَلنحہُ سَمیعًام بَصیرَا ( الدھر )( بس ہم نے اسے سنتا دیکھتا کر دیا )
ہم نے اس کو سماعت کے system دیئے ، اس کو بصارت کے system دیئے ، مگر یہ ابھی اس قابل کہاں ہوا تھا کہ ہمیں پہچان سکتا ، پھر پروردگار عالم نے فرمایا :اِنَّا ھَدَینٰہُ السَّبِیلَ ( الدھر )( بے شک ہم نے اسے راہ دکھائی )
اب ہم نے اس کو عقل و شعور بخشا ، ہدایت بخشی ۔ ان یہ اس قابل تھا کہ علم وصول کر سکے ، اب یہ اس قابل تھا کہ ہدایت پا سکے اور کس لئے ؟؟
اِمَّاشَاکِراوَّاِمَّا کَفُورَا ( الدھر )( یا حق مانتا یا انکار کرتا )
[جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔]