میاں بیوی کا ایک دوسرے سے معذرت خواہی


تحریر فضل خان صاحب


ہم انسان معصوم نہیں ہیں اور ہم سے غلطی اور خطا کا امکان موجود ہے.اگر ہماری مشترکہ زندگی میں شوہر یا بیوی سے غلطی ہو جائے تو ہمیں وہاں پر کیا کرنا چاہیے؟

بعض افراد کی یہ عادت ہوتی ہے کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے ممکنہ حد تک اس کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں. جب کہ اپنی غلطی کا انکار کرنا خود اس پر اصرار کرنے کے مترادف ہے.

اگر شوہر یا بیوی سے غلطی ہو جائے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا جائے .

ممکن ہے وہ چیز ہماری نگاہ میں غلط نہ ہو لیکن اختلافات سے بچنے کے لئے بات کو اس انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ” اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں”

اس لئے کہ حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ:

معذرت چاہنا خود عقل مندی کی علامت ہے .

بعض افراد معذرت چاہنے کی بجائے فرار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنی غلطی کو دوسروں کے گلے میں ڈال دے جبکہ یہ چیز کبھی بھی مشکل کو حل نہیں کر سکتی بلکہ نئی مشکلات جنم لیتی ہیں.

اگر شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے معذرت مانگ لیں تو اس کی وجہ سے ایک فرد کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا لیکن اگر ہم غلطی کرنے کے بعد بہانے تلاش کریں گے تو مدمقابل فرد کا غصہ پہلے سے زیادہ ہو جائے گا.

معذرت چاہنا انسان کے کمزور ہونے کی علامت نہیں ہے بلکہ گھریلو اختلافات کو کنٹرول کرنے کا ایک عاقلانہ طریقہ ہے.

شوہر یا بیوی میں سے جو فرد غلطی کرے اور پھر معذرت کر لے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص عقلمند ہے. خود حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ معذرت چاہنا عقلمندی کی دلیل ہے.

جبکہ دوسری طرف سے کسی کی معذرت کو قبول کرلینا بھی عقلمندی کی دلیل ہے. حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ:
لوگوں میں سے سب سے زیادہ عقل مند فرد وہ ہے جو دوسروں کی معذرت قبول کرلے.

اگر ہم سِکے کے دونوں اطراف کو دیکھیں تو ان میں سے ایک بندہ معذرت کر لے اور دوسرا اس کی معذرت کو قبول کرلے تو ہمارے گھر میں اختلافات بہت حد تک کم ہو سکتے ہیں اور ہمارے گھر میں رابطے مستحکم ہو جائیں گے.

کئی دفعہ دیکھا ہے کہ شوہر یا بیوی اپنی زبان سے معذرت طلب نہیں کرتے بلکہ اپنے عمل سے معذرت کر لیتے ہیں مثال کے طور پر اگر بیوی سے غلطی ہوئی تھی اور شوہر اس سے ناراض ہے.

تو شوہر جب گھر آتا ہے تو بیوی اچھا لباس پہن کے لئے آمادہ ہوتی ہے ،اس کا استقبال کرتی ہے اس کے لئے بہترین کھانے بناتی ہے تو اس کا مطلب ہے وہ اپنی غلطی سے عملی طور پر معذرت طلب کر رہی ہے.

اسی طرح اگر شوہر سے غلطی ہو جائے اور بیوی ناراض ہو تو جب شوہر گھر آئے تو مٹھائی کا ڈبہ اور گفٹ لے کر آئے .

تو ان حالات میں بھی شوہر اور بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو معاف کر دیں اور ہرگز اس بات کے انتظار میں نہ رہے کہ شوہر یا بیوی آ کر اپنی زبان کے ذریعے مجھ سے معذرت طلب کرے.

شوہر یا بیوی کا عذر اور بہانہ قبول کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم کسی ایسی دلیل کے پیچھے جائیں جو ہمیں قانع کر سکتی ہو.

ممکن ہے کہ شوہر سے غلطی ہوئی ہو اور وہ ایسی دلیل بنا رہا ہوں جو ہماری نگاہ میں منطقی نہ ہو تو ایسا نہ ہو کہ ہم اس وجہ سے اس کی معذرت قبول نہ کریں.

بلکہ اگر ممکن ہو تو ہم خود اس کے لئے کوئی عذر اور بہانہ تراش لیں.

حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ:

اپنے بھائی کا عذر اور بہانہ قبول کر لیں اور اگر اس کے پاس عذر اور بہانہ نہ ہو تو خود اس کے لیے عذر بنا اور تراش لیں.

مثال کے طور پر اگر شوہر نے کوئی وعدہ کیا تھا اور اس پر پورا نہیں اتر سکا اور بیوی سے معذرت چاہتا ہے تو بیوی یہ بہانا اس کے لئے تراش سکتی ہے کہ:
? شاید اس کی طاقت سے باہر تھا.

? شاید اس نے فراموش کردیا ہو .

?شاید اسے کوئی اور کام پڑ گیا ہو………..

یہاں تک کہ اگر ہم کو معلوم ہو کہ یہ جو بہانہ بنا رہا ہے اس میں سچائی نہیں ہے تو روایات تاکید کرتی ہیں کہ پھر بھی ہمیں اس کا بہانہ قبول کرلینا چاہیے.

ممکن ہے بعض افراد کہیں کہ اگر ہم اپنے شوہر یا بیوی کا بہانہ قبول کر لیں گے تو اپنی غلطیوں میں زیادہ جری ہو جائے گا .

لیکن ہر صورت میں مصلحت یہی ہے کہ شوہر یا بیوی کے بہانے کو قبول کر لیا جائے .اس لیے کہ اگر قبول نہیں کریں گے تو دل میں بغض اور کینہ باقی رہے گا اور ہم اس کی اصلاح نہیں کر سکیں گے اور اگر عذر اور بہانہ قبول کر لیں گے تو ہمارے تعلقات عادی حالات میں پلٹ آئیں گے اور اس صورت میں ہم اس کی اصلاح کے لیے کچھ کام کرسکیں گے.