نوربخشی کتابوں کی روشنی میں عاشورا کی اہمیت


تحریر سید بشارت حسین تھگسوی Thagasvi1992@gmail.com


مقدمہ
خلقت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک راہ حق میں قربانیاں دینا اگرچہ انبیاءعلیہم السلام و صالحین کا شیوہ رہا ہے لیکن ۱۰ محرم الحرام ۶۱ھ کا خونین واقعہ جو صبح عاشور سے شام غریباں تک چند پہروں میں وقوع پذیر ہوگیا اپنے پیچھے فداکاری ، جانثاری اور غم و اندوہ کے وہ المناک اثرات چھوڑ گیا جس کی مثال اس قبل تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی اور نہ تاریخ کا قلم آئندہ اس قسم کے کسی واقعہ کو رقم کر سکے گا۔
یہ بھی اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فرزند رسول نے اپنے اور اپنے جانثاروں کے خون سے جو داستان غم رقم کر گئے ہیں اس کی یاد میں آج تک جتنے آنسو بہائے گئے اتنے آنسو شاید مجموعی طور پر انسانوں نے اپنے انفرادی رنج و الم کے حادثات پر بھی نہ بہائے ہوں گے ۔ اس المناک باب کا معجزاتی پہلو یہ ہے کہ آج بھی جب محرم کا چاند فلک پر نمودار ہوتا ہے تو یہ غم اپنے اندر وہی تازگی لیے پھر ابھر آتا ہے جیسے یہ المناک و اندوہناک واقعہ کل ہی رونما ہوا ہو ۔ جس طرح اس غم میں بہائے ہوئے اشکوں کا اندازہ ممکن نہیں اسی طرح واقعات کربلا پر ہونے والی گفتگو اور لکھی جانے والی تحریروں اور کتابوں کو بھی احاطہ شمار میں لانا ناممکن ہے ۔ عالم اسلام کے تمام علما، محدثین ، فقہا ، مفسرین ، مورخین اور مفکرین نے اس دن کے حوالے سے مختلف زاویوں کا جائزہ لیا ہے اور اس دن کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔ تصوف و عرفان کے بزرگان کا یہ شیوہ ہے کہ وہ اسلام تعلیمات کے ہر پہلو کو عرفانی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تصوف کے نامی گرامی شخصیات نے اس دن رونما ہونے والے واقعے کو اپنے مخصوص انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ انہی سلاسل تصوف میں سے سلسلہ ذہب کے بزرگان دین نے بھی اپنی کتابوں اور مکتوبات میں اس دن کو خاص اہمیت دی ہے ۔ زیر نظر مضمون میں ہم سلسلہ ذہب نوربخشیہ کے اقطاب اور سرخیلوں کی عاشورا کے دن کے حوالے سے نظریات اور اس دن کو دی جانے والی اہمیت کو بیان کریں گے ۔
عاشورا کے دن کا روزہ
سلسلہ ذہب کے اہم قطب اور سرخیل حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی اپنی کتاب میں عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہیں ، وہ اس حوالے سے رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث نقل کرتے ہیں :
صوم يوم عاشوراء يکفر السنة الماضية
عاشورا کا روزہ گذشہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
(ذخیرۃ الملوک ، ص ۹۰)
کتاب دعوات میں عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو سنت قرار دیا گیا ہے ۔ اس دن کے روزے کی نیت یہ ہے :
اصوم غدا يوم عاشورا لندبه قربة الي الله .
(دعوات صوفيه اماميه ، ص 355)
واقعہ کربلا کے حوالے سے لکھی جانے والی اہم نوربخشی کتاب الربض میں بھی عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو سنت قرار دیا ہے ۔ (الربض ، ص 178)
حضرت شاہ سید محمد نوربخش نوراللہ مرقدہ نے اپنی مایہ ناز فقہی کتاب میں مستحب روزوں کا ذکر فرماتے ہوئے عاشورا اور تاسوعا کے دن روزہ رکھنے کو بھی سنت قرار دیا ہے :
وَ اَمَّا الصَّوْمُ الَّذِیْ فِی الاِسْتِحْبَابِ فَفِی الاُسْبُوْعِ یَوْمَ الاِثْنَیْنِ وَ یَوْمَ الخَمِیْسِ وَ فِی الشَّهرِ الاَیَّامَ البِیْضَ وَ هیَ یَوْمُ الثَّالِثِ عَشَرَ وَ الرَّابِعِ عَشَرَ وَ الخَامِسِ عَشَرَ مِنْ کُلِّ شَهرٍ وَ فِی السَّنَةِ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ وَ یَوْمَ تَاسُوْعَا وَ یَوْمَ عَرَفَةَ وَ سِتَّةُ اَیَّامٍ مِّنْ شَوَالٍ مِّنْ غَیْرِ تَعْیِنٍ وَّ تَوَالٍ وَ التَّوَالِیْ اَفْضَلُ۔
ہفتے میں پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا سنت ہے مہینے میں ایام بیض یعنی ہر ماہ کی تیرہ ،چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے مسنون ہیں سال میںعاشورہ (دسویں محرم)اور تاسوعا (نویںمحرم)،یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ )اور ماہ شوال کے چھ روزے مسنون ہیں تاہم ماہ شوال کے چھ روزے معین نہیں نہ پے در پے رکھنا ضروری ہے پے درپے چھ روزہ رکھنا افضل ہے۔[فقہ الاحوط، باب صوم ]
عاشورا کے دن خیرات باعث فراخی رزق
روزہ عاشورا کے اہم امور میں سے ایک صدقہ و خیرات دینا ہے خصوصاً اپنے اہل و عیال ،گھروالوں اور رشتہ داروں کو اس دن زیادہ سے زیادہ فراخی دیکھانے کی شریعت اسلامی میں تاکید ہوئی ہے جیسا کہ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی قدس سرہ اپنی کتاب میں حضرت ابو سعید خدری سے منقول رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث کو نقل کرتے ہیں :
وَعَنْ ابي سعيدالخدريّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ الله صَلّی الله عَلَیهِ وَالهِ وَسَلَّمَ: مَنْ وَسَعَ عَلی عَیَالِه یَوْمَ عَاشُوْرَائِ وَسَعَ اللهُ عَلَیهِ السَّنةَ کُلّهَا۔
حضرت ابو سعيد خدري (رضي الله عنه) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص عاشورا کے دن اپنے اہل و عیال کے لئے فراخی فراہم کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک سال کی فراخی فراہم کرتا ہے ۔ (روضة الفردوس ، باب 12 ، ح 15، ص 208)
شب عاشورا کے نوافل
سلسلہ ذہب نوربخشیہ کے پیر طریقت حضرت میر اکبر شرف الاخیار کے خصوصی حکم سے تالیف ہونے والی کتاب میں آخوند نصیب علی بلغاری عاشورا کی رات کے نوافل و اعمال کے حوالے سے لکھتے ہیں :
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جوکوئی بھی عاشورا کی رات ’’سبحان الله و الحمد لله ولااله الا الله والله اکبر و لاحول ولاقوۃ الا بالله العلی العظیم ‘‘ پڑھے اور دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قل ہو اللہ احد تین بار پڑھے تو خداوندتعالیٰ اس کے قبر کو مشک سے پُر کردے گا ۔
جو کوئی محرم کے دسویں کی رات چار رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پچاس دفعہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزرے ہوئے پچاس سال اور آئندہ کے پچاس سالوں کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور ملٔا اعلیٰ میں اس کے لئے ایک ہزارنورانی شہر عطا ہوں گے۔جو کوئی شب عاشورا کو شب بیداری کرے تو ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے خداوند سبحانہ کی عبادت کی ہے اور اسے پچاس سال عبادت کرنے کا اجر عطا کرے گا ۔
روز عاشورا کے نوافل
آخوند نصیب علی ابن آخوند سلطان بلغاری عاشورا کے دن کے اعمال کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :
عاشورا کے دن روزہ رکھے اور اس دن چھے رکعت نماز تین سلام کے ساتھ پڑھے اور پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ الشمس اور دوسری رکعت میں سورۂ قدر اور تیسری رکعت میں سورۂ زلزلہ اور چوتھی رکعت میں سورۂ اخلاص اور پانچویں رکعت میں سورۂ فلق اور چھٹی رکعت میں سورۂ ناس پڑھے۔نماز سے فراغت کے بعد سجدہ (شکر ) میں جا کر سورۂ کافرون سات مرتبہ پڑھے اور حاجت طلب کرے۔ اسے تین سال کی نماز اور روزے کا ثواب ملے گا۔
نیت
اصلی صلوۃ زیارۃ علی ن الاکبر رکعتین قربة الی الله ۔
اصلی صلوۃ زیارۃ الحسین رکعتین قربة الی الله ۔
اصلی صلوۃ زیارۃ سائر الشهداء رکعتین قربة الی الله ۔
عاشورا کے دن ظہر کے بعد چار رکعت نماز پڑھے اور امام حسین شہید، مظلوم ، مہموم و معصوم کی پاک روح کے لئے ہدیہ کریں۔ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پندرہ دفعہ پڑھے۔
نیت
اصلی صلوۃ زیارۃ الحسین رکعتین قربةً الی اللہ ۔
جان لیں جو کوئی بھی عاشورا کے دن چار رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص دس مرتبہ پڑھ کر اپنی حاجت طلب کریں تو بے شک مستجاب ہوںگی۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: عاشورا کے دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور خداوند ایک ہزار شہدا ء کا ثواب اس کے لئے لکھ دیتا ہے۔
(الربض، ص ۱۷۸)
زیارت کی ان نمازوں کا حکم کتاب دعوات میں بھی تفصیل سے موجود ہے ۔ (دعوات صوفیہ امامیہ ، ص ۲۵۲ سے ۲۵۵)
مجالس کا اہتمام
عاشورا کے دن تمام نوربخشی خانقاہوں اور مساجد پر عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کے حوالے سے خصوصی مجالس مرثیہ خوانی، تقاریراور قصہ خوانی ، نوحہ خوانی اور سینہ زنی کیا جاتا ہے ۔ بعض مساجد اور خانقاہوں پر یہ ان مجالس کا انعقاد صبح اوراد فتحیہ کے بعد کیا جاتا ہے جبکہ بعض جگہوں پر نماز ظہر کے بعد مجالس برگزار ہوتی ہیں۔ اکثر نوربخشی خانقاہوں میں عاشورا کی صبح عربی اور فارسی اشعار کے ذریعے الوداع پیش کیا جاتا ہے ۔ ان مجالس سے علمائے کرام اور ذاکرین اپنے خطاب میں فلسفہ شہادت خامس آل عباء حضرت امام حسین علیہ السلام بیان کرنے کے ساتھ آپ اور آپ کے عظیم جانثار ساتھیوں پر آنے والی مصائب و مشکلات کا تذکرہ کرتے ہیں جس پر تمام نوربخشی مومنین آنسو بہاتے ہوئے امام علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ ان مجالس کو برگزار کرنے کی تاکید نوربخشی تمام کتابوں میں ہوئی ہے جیسا کہ نوربخشی پیر طریقت حضرت میر اکبر شرف الاخیار کے خصوصی حکم سے تالیف ہونے والی کتاب میں ان مجالس کے انعقاد کا حکم آیا ہے ۔ ساتھ ہی اس کتاب میں واقعہ کربلا تفصیل سے ذکر ہوا ہے ۔
خلاصہ بحث
تصوف و عرفان کا اہم پہلو ولایت ہے اور تمام صوفیا و عرفا اس بات پر متفق ہیں کہ ولایت کی ابتداء امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے ہوئی ہے اسی لئے اصطلاح تصوف و عرفان میں آپ علیہ السلام کو آدم الاولیاء کہا جاتا ہے ۔ تمام بزرگان آپ اور آپ کی آل سے فیوض و برکات لینے کو باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ عاشورا کا عظیم اندوہناک اور المناک واقعہ بھی آپ کے نور نظر حضرت خامس آل عباء علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ پیش آیا تو یقینی بات ہے کہ صوفیا و عرفا کے ہاں بھی اس دن کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ اسی لیے سلسلہ ذہب کے بزرگان میں شاہ ہمدان حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی کو ایک خاص اہمیت ہے اور اس سلسلے کے پیروکار اسی نسبت سے اپنے آپ کو “مشرب ہمدانی” جانتے ہیں ۔ امیر کبیر سید علی ہمدانی قد س سرہ نے اپنی کتابوں میں اس دن کی اہمیت کے پیش نظر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کو نقل کیا ہے ساتھ ہی اپنی عملیات اور دعاوں کے مجموعہ کتاب “دعوات صوفیہ امامیہ ” میں اس دن روزہ رکھنے کے ساتھ خصوصی زیارت کی نمازوں کا حکم بھی دیا ہے ۔نیز مجتہد اعظم حضرت شاہ سید محمد نوربخش نے فقہ الاحوط میں مستحب روزوں کی فہرست میں تاسوعا اور عاشورا کے دن روزہ رکھنے کو سنت قرار دیا ہے ۔ ساتھ ہی سلسلہ ذہب صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے پیر طریقت ،رہبر شریعت حضرت میر اکبر شرف الاخیار قدس سرہ کے خصوصی حکم سے آپ کے شاگرد اور مرید آخوند نصیب علی ابن آخوند سلطان بلغاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں واقعہ عاشورا تفصیل سے بیان کیا ہے اور عاشورا کی رات اور دن کے حوالے خصوصی نوافلات کا بھی حکم دیا ہے ۔ ساتھ ہی نوربخشی بزرگان نے اپنی کتابوں میں عاشورا کے دن مجالس منعقد کرنے نیز مرثیہ خوانی، قصہ خوانی، نوحہ خوانی کا تفصیلی حکم دیا ہے ۔
خدا ہم سب کو بزرگان سلسلہ ذہب کی سیرت پر چلتے ہوئے ائمہ اہل بیت علیہم السلام خصوصاً خامس آل عباء، مظلوم کربلا حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام اور ان کے عظیم جانثاروں کا غم مناتے ہوئے روز عاشورا کی اہمیت کو جان کر اس دن کے اعمال کو بجالانے نیز قیامت کے دن انہی ہستیوں کی شفاعت نصیب فرما۔
مآخذ و مصادر
دعوات صوفیہ امامیہ ، امیر کبیر سید علی ہمدانی، ترجمہ : سید خورشید عالم ، انجمن فلاح و بہبود سرموں چھوغو گرونگ کراچی، ۲۰۱۱ء۔
ذخیرۃ الملوک ، امیر کبیر سید علی ہمدانی، ترجمہ: صدر الدین الرفاعی المجدی، مشتاق بک کارنر لاہور، ۲۰۰۶ء۔
الربض ، آخوند نصیب علی بلغاری بحکم میر اکبر شرف الاخیار، ترجمہ : سید بشارت حسین تھگسوی، انجمن فلاح و بہبودئ نوربخشی بلتستانیاں رجسٹرڈ کراچی، ۲۰۱۷ء۔
روضۃ الفردوس ، امیر کبیر سید علی ہمدانی، ترجمہ : سید بشارت حسین تھگسوی، انجمن فلاح و بہبودئ نوربخشی بلتستانیاں رجسٹرڈ کراچی، ۲۰۱۶ء۔
فقہ الاحوط، شاہ سید محمد نوربخش ، ترجمہ : اعجاز حسین غریبی، انجمن صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کریس بلتستان، ۲۰۱۷ء۔