پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کو درپیش چیلنجز:حکمت عملی اور حل مشاورت کی ضرورت و اہمیت قسط 1


تحریر ریسرچ سکالر سکندر اعظم شگری


خلاصہ :
اسلام عدل عمرانی کے معاشرتی اصولوں پر مبنی ایک ایسا پُر امن معاشرہ چاہتاہے جس میں جمہوری ، آزادی ، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں کا پاسدار ہو۔ انہی عزم واستقلال کے لئے رسول عربی ﷺ نے کبھی آیت کی صورت میں کبھی حدیث اور کبھی سنت کی صورت میں عمرانی عاملین کوپہنچا دیا۔ اس کے لئے محمد مصطفیﷺ نے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کی کہ اسلام کا سب سے پہلا فرض منصبی ہے جن سے اہل سماج کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے امن و آشتی کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب اور امداد ملے جن کا فطرت اور قدرت میں تعین کیا گیاہے ۔
زبانوں کا تنوع ،مقامی ثقافتوں کی رنگا رنگ ، قدیم مذاہب وادیان کا ورثہ ، مختلف دینی مسالک کی موجودگی اور اس اختلاف میں ہم آہنگی میں اسلام کے ممتاز علماء کرام کاطرہ امتیاز رہاہے ۔ البتہ جہلاء معاشرہ نے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں زبان چلانا شروع کی تو اختلاف میں شدت آرہی ہے۔ پاکستان میں اس شدت کی وجہ سے مختلف علماء و عوام کا قتل وغارت شروع ہو گئی۔ مگر حکومت کی جانب سے منطقی کاروائی کے نتیجہ میں قابل حد تک کنٹرول میں آگئی۔
1980ء سے لے کر اب تک فرقہ واریت نے پاکستان میں سر اٹھالیا تو اسلامی معاشرت کے خدوخال واضح کرنے کی خاطرسابقہ صدر پاکستان غلام مصطفی خان نے اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی فرقہ واریت کے گھمبیر مسئلہ نے تشدد اورانتہا پسندی کی شکل اختیار کر لی جس کی بڑی وجہ مسلک پرستی اور مسلکی منافرت ہے جس کی اصل بنیادی سبب مختلف دینی مسالک سے عدم واقفیت اور ایک دوسرے کے لاعلمی کی بنیاد پر مبنی تعصبات ہیں ۔
اس عدم واقفیت اور لاعلمی کو ختم کرنے اور مسلک کے عوام اور علماء کرام کوقریب لانے کے لئے اس طرح کے کانفرنس قابل دیدنی اور فائدہ مند ہوگا۔تاکہ مسلک ومذاہب ایک دوسرےکے لئے تعارف اور غیرجانب دار ہوسکے ۔ اس پروگرام کے توسط سے تحقیق وتفتیش کا میدان بھی کھلا ہوگا۔
مخلوق الٰہی میں سب کا اگر ہم مطالعہ کرے تو ہر ایک دوسرے کے ساتھ مختلف صورتوں میں متحد نظر آتے ہیں ۔ چہ جائے کہ وہ من جان اللہ ہی ) سے تعبیر کیا ہے Thesis and Anti – Thesis(دافعہ کیوں نہ ہو۔ مثلا ماہر عمرانیات ہیگلز نے اس متحد کائنات کو قوت جازبہ اور
کلید واژہ:
بین المذاہب، اسلامی، وحدت ، صلح، اہمیت ،ضرورت
مقدمہ:
ادیان عالم میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر مکمل راہنمائی فرماتا ہے ۔ اسلام انفرادی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اجتماری زندگی کی تمام پیچیدگیوں اور الجھنوں کو سلجھاتاہے ۔ اس کا مؤثر ااور آسان حل بھی پیش کرتاہے مزید یہ کہ اس کا فائدہ محض دنیا تک ہی محدود نہیں رکھتا بلکہ ہمیشہ کی کامیابی حصول تک مقرر کرتا ہے ۔
چونکہ ہر انسان کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتاہے اس لئے اکھٹے رہن سہن ، لین دین اور باہمی معاملات و تعلقات میں اکثر اوقا ت دوسرے کے خلاف مزاج باتوں سے غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتےنفرت وعداوت ،قطع کلامی و قطع تعلقی ، ، دشمنی اور لڑئی جھگڑے ، جنگ وجدل ، خون خرابے اورو قتل وغارت تک جا پہنچتے ہیں نتیجتا معاشرے میں فساد شروع ہوجاتاہے ، انسانی نظام زندگی تباہ ووبرباد ہو کر رہ جاتے ہیں حتی کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں ، یہی حالت دینی مسالک وفرق میں بھی ہے ۔
اس حالت میں اسلام ہمارے لئے کیا راہنمائی کرتاہے ۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ گل مل کے رہنے اور کس طرح اتحاد واتفاق کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتاہے قرآن کریم ، سیرت رسول اکرم ﷺ، علماء وزعماءہمیں کیا اصول بتاتا ہے ؟
قرآن وحدیث اور عرفان وتصوف کی رو سے ہر چیز میں کوئی نہ کوئی تعلق اوراتحادنظر آتاہے مگر ان دوچیزوں کے درمیان کوئی سنخیت ہو ۔ اگر مکمل طور پر نقیض ہو یا نقیض ہونے کا شبہہ ہی کیوں نہ ہو ا ن کے درمیان اتحاد ہونے میں حرف آئے گا۔
مثلا علم معلوم میں اتحاد، جہل ومجہول میں اتحاد، حاضر ومحضؤر میں اتفاق اور اسی طرح صلح ان دو چیزوں ، مذہب یا فرقوں کے درمیان ہو گا جو آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ہو۔ اسلام کے تمام مسالک میں خدا ، رسول ، قرآن ، فرشتے ، قیامت وغیرہ اسی طرح فروعی مسائل میں قبلہ، نماز کی رکعتوں کی تعداد ، رمضان کے روزے ، زکات اور حج میں خانہ کعبہ کی زیارت وغیرہ ایک جیسا ہونے کے باؤجود فرقہ بندی میں بٹے ہوئے ہیں ۔ اس پر قرآن و سیرت رسول ، علماء وتاریخ ہمیں کیا راہنمایئ کرتا ہے اس کاجائزہ لیتےہیں ۔
علم اور معلوم کااتحاد:
صوفیانہ واردات میں اگر ہم مطالعہ کریں تو تجلیات خواہ کتنی ہی زیاہ ہو ان کا مرجع دو چیزیں ہوتی ہیں ،ایک صورت علمیہ جو ہواس خمسہ میں سے کسی ایک میں نقش ہوتی ہے۔ پھر اس صورت علمیہ کی دو وجہیں ہیں وجہ واحدسے وہ نفس عالم میں قائم عرض ہے اور دوسری طرف سے دوہ معلوم کے ساتھ نوع اتحادسے متحد ہوجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ ادراکی یا خیالی وہمی ساخت میں معلوم کے لئے تجلیٰ ہوتی ہے۔اور دوسری رقیقہ ہے جو ذات الٰیہ کے مقابل ہوتی ہے ۔ اور ووہ یہ ہے کہ مثلا جب زید نےاس میں گہری نظر سے دیکھا تو ظا ہر وہ انسان ، حیوان ،جسم ، ناطق ، حساس ، صاحب ارادہ ، نامی ، بڑھنے والا، چلنے والا ، لکھنے والا، ہنسنے والا ،شاعر اوررومی، حبشی وغیرہ ہے۔ اور ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ ذاتیات اور عرضیات کے باب سے ۔چنانچہ وہ ایسا امر کلی ہے جو اس افراد کے ساتھ تقید سے مشخص ہوتاہے ۔اور وہ نفس امر میں کسی وطن یاکسی میدان میں موجود ہے اورہم اس موجود کو رقیقہ کا نام دیتے ہیں ۔
اور جو رقیقہ جو ذات الٰہی کے مقابل ہوتی ہے ، وہ موجودمیں ایک لمبا چمکدار نقطہ ہوتاہے اوروہ چونکہ موجود ہے اس لئے اس میں وہ وجود ہے جس میں موجوادت اور وجود برابر ہوتی ہے۔وہ ذلت سے نیچے اترنا ہے چنانچہ ان مراتب میں جن میں وجوب کے احکام غالب ہوتے ہیں ، یہ نقطہ ظاہر ہے اور تمام مراتب میں پوشیدہ ہے ۔ چنانچہ جب ظاہر ہوگا، وہ شخص ایک فرد ہوگااور بہت زیادہ تامل کرتاہے یہاں تک کہ اس نقطہ تک پہنچ جاتاہے ، پھر اس میں فناء ہوجاتاہے اور اس کے علاہ سے غافل ہوجاتاہے ۔ اور وحی تجلیٰ ذاتی ہے اور یہی رقیقہ بعینہا شخص اکبر میں موجود ہے ۔ اور وہ اس میں بمنزلہ روح ہے اور وہ اللہ اور نفس کلیہ کے درمیان واسطہ ہے ۔اور وہ پہلو جو اس نقطے پر ختم ہوجاتاہے مقدس دائرہ ہے لیکن اس نقطے کے لئے مراتب ملکی وروحی میں فضیلتیں مظہر ونمود اور تجلیات ہے ۔ ان مراب کے لباس حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوئے ۔
قران و تفسیر قرآن کی رو سے وحدت اسلامی میں صلح کی اہمیت و ضرورت:
وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ
اگر مسلمانوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑے تو ان کے درمیان اصلاح کر دو پھر اگر میں کا ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتاہے یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع ہوجاوئے پھر اگر روجوع ہو جائے تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ اصلاح کردو اور انصاف کاخیال رکھو بے شک اللہ انصاف والوں کوپسند کرتاہے۔
بخاری و مسلم نے حضرت انس سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گدھے پر سوار ہو کر عبداللہ ابن ابی منافق کے پاس سے گزرے ۔ وہ بدبخت کہنے لگا کہ اپنے گدھے کو مجھ سے دور کرو کیونکہ آپ کے گدھے کی بدبو نے مجھے پریشان کر دیا یہ سن کر ایک انصاری بولے اللہ کی قسم تجھ سے زیادہ آپﷺ کا گدھا پاکیزہ اور پاکیزہ اور خوشبودار والا ہے تو عبد اللہ ابن ابی کی حمایت میں اس کی قوم میں سے ایک شخص غصہ ہوا غرض یہ کہ ان میں سے ہر ا یک جماعت میں سے ان کےساتھی سے غصہ ہوئے اور دونوں جماعتوں میں کھجوروں شاخوں، جوتوں اور ہاتھوں سے ایک دوسرے کی خوب پٹائی ہوئی ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوااللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
مسلمان تو سب بھائی سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے ۔
ابن جریر نے حسن سے روایت کیا ہے کہ دو قبیلوں میں باہم لڑائی تھی انہیں فصیل کی طرف بلایا جاتا تھا وہ اس کی بات ماننے سے انکار کرتے تھے۔تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔
یعنی صلح اور جنگ ہر ایک حالت میں یہ ملحؤظ رہے دو بھائیوں کی لڑائی، دو بھائیوں کی مصالحت ہے دشموں اور کافروں کی طرح برتاؤ نہ کیا جائے ۔ جب دو بھائی آپس میں ٹکڑا جائے تو یونہی نان کے حال پر نہ چھوڑ دو ، بلکہ اصلاح ذات البین کی پوری کوشش کرو ۔ اور ایسی کوشش کرتے وقت خدا سے ڈرتے رہو کہ کسی کی بے جا طرف داری یا انتقامی جذبات سے کام لینے کی نوبت نہ آئے ،
یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کے ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے، اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤںمیں دو اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے ۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو اپنی بکثرت ارشادات میں بیان فرمایاہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔
حضرت جریر ابن عبدا للہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے تین باتوںپر بیعت لی تھی ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا دوسرا یہ کہ ذکات دیتا رہوں گا تیسرا یہ کہ ہر مسلمانوں کا خیر خواہ رہوں گا۔
حضرت سہیل ابن سعد ساعدی آپ ﷺ کا یہ ارشاد مبارک روایت کرتے ہیں کہ گروہ اہل ایمان کے ساتھ ایک مؤمن کا تعلق ویسا ہی جیسے سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتاہے ۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتاہے جس طرح سرجسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے ،
مسند امام احمد سے ملتا جلتامضمون ایک اور حدیث میں ہے، جس میں آپﷺ نے فرمایا ہے کہ “مؤمنوں کی مثال آپس کی محبت ،وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضؤ کو بھی تکلیف ہوتوسارا جسم، اس پر بخار اوربے خوابی میں مبتلا ہوجاتاہے ”
ایک اور حدیث میں آپرﷺ کا ارشاد منقول ہواہے کہ ” مؤمن ایک دوسرے کے لئے ایک دیوار کی اینٹوں کی دیوار کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے تقویت پاتاہے”
واخرج ابن مرودیة والبهیقی فی السنن عن عائشة رضی اللہ عنها قالت ما رأیتُ مثل ما رغبت عنه فی ھذه الأية وان طائفتان من الممؤمنين اقتتلوا
قال اھل الغة جمع اخیه من السب والإخوان جمع اخ من الصداقات فاللہ تعالیٰ قال انما المؤمن اخوانا تاکیدا للأمر واشارۃ إلیٰ عن ما بینھم ما بین اخوۃ والنسب والإسلام کالأب
قال قائلھم :
ابی الإسلام لا اب(لی) سواء
اذا افتخروا بقیس او بتمیم
عند اصلإح الفریقین والطائفتین لم یقل اتقوا! وقال ھٰھُنا اتقوا مع عن ذالك اھم؟ تقولوا فائدۃ ھو الإقتتال بین الطائفتین یقضی الیٰ ان تعم المفسدۃ ویلحق کل مؤمن منھا شیئ وکل یسعیٰ فی الإصلاح للأمر نفسه فلم یوکدی بالأمر بالتقویٰ ، واماعند تخاصم الرجلین لایخاف الناس ذالك وربما یرید بعضھم تاکید الخصام بین الخصوم للغرض فساد فقال فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ او تقولو قوله فاصلحوا اشارۃ الصلح وقوله(اتقو اللہ )اشارۃ الیٰهما بصونھم عن التشاجر،لأن من تقی اللہ شغلله تقواه عن الإشتغال بغیرہ ،ولھذا قال النبیﷺ والمسلم من سلم الناس من لسانه (ویدہ) لان المسنلم یکون منقاد للأمر للہ مقبلا علیٰ عباداللہ فیشغله عیبه عن عیب الناس ویمنعوہ ان یرھب الأخ المومن ، والیه اشارۃ النبیﷺ المومنون من یامن جادہ بواثقه۔ یعنی اتقو اللہ فلا تنفرغ لغیرہ۔
الفت ومحبت ، بھائی چارگی کو اللہ اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ
اوراللہ کی رسی کوسب مل کرمضبوط سےتھامےرکھو،اورآپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نےتم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے ، اور تم آگے کے گڑھے کےکنارےپرتھے، اللہ نےتمہیں اس سےنجات عطافرمائی ۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتاہے، تاکہ تم راہ راست پرآجاؤ ۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت وحدیث کی روشنی میں وحدت اسلامی میں صلح کی اہمیت و ضرورت:
رسول اللہ ﷺ نے کئی بار اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مسئلہ مسائل اور دین فہمی میں کوئی لڑائی ہوتی تو ان کے درمیان صلح فرماتے تھے۔
1: خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان صلح سے متعلق ایک حدیث مباکہ میں ہے حضرت سہیل ابن سعد رضی اللہ سے روایت ہے کہ اہل قباء کسی معاملے پر باہم جھگڑ پڑے یہاں تک کہ ہاتا پایئ اور ایک دوسرے پر پتھر پھینکنے کی نوبت آئی نبی کریمﷺ کو اس کی اطلاع کی گئی تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا
ہمارے ساتھ چلو ہم ان کے درمیان “صلح وصفائی ” کراتے ہیں ۔
‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَهْلَ قُبَاءٍ اقْتَتَلُوا حَتَّى تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “”اذْهَبُوا بِنَا نُصْلِحُ بَيْنَهُمْ
قباء کےلوگوں نے آپس میں جھگڑا کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک نے دوسرے پر پتھر پھینکے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ”چلوہم ان میں صلح کرا ئیں گے۔ “
گروہوں کے درمیان صلح سے متعلق ایک حدیث پاک میں ہے کہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی معاملے کے حل کے لئے نبی کریم ﷺ سے گزارش کی گئی کہ آپﷺ عبد اللہ ابن ابی(منافق) کے پاس تشریف لے چلے ۔
عن مُعْتَمِرٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “”قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ حِمَارًا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ يَمْشُونَ مَعَهُ وَهِيَ أَرْضٌ سَبِخَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِلَيْكَ عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَشَتَمَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ بَيْنَهُمَا ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ وَالْأَيْدِي وَالنِّعَالِ””، ‏‏‏‏‏‏فَبَلَغَنَا أَنَّهَا أُنْزِلَتْ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا سورة الحجرات آية “”.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےعرض کیاگیا،اگرآپ عبداللہ بن ابی ( منافق ) کےیہاں تشریف لےچلتےتوبہترتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں ایک گدھےپرسوارہوکرتشریف لےگئے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم بھی آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کےہمراہ تھے۔ جدھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزررہےتھےوہ شورزمین تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئے آپ کے گدھے کی بونےمیر ا دماغ پریشان کردیاہے۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولےکہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھاتجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ عبداللہ ( منافق ) کی طرف سےاس کی قوم کاایک شخص اس صحابی کی اس بات پرغصہ ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ پھردونوں طرف سے دونوں کی حمایت میں مشتعل ہوگئےاورہاتھاپائی،چھڑی اورجوتےتک نوبت پہنچ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما‏» ”اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑ یں تو ان میں صلح کر ادو۔ “
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ لا يحل الكذب إلا في ثلاث:‏‏‏‏ يحدث الرجل امراته ليرضيها والكذب في الحرب والكذب ليصلح بين الناس
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”صرف تین جگہ پر جھوٹ جائز اور حلال ہے ، ایک یہ کہ’ آ دمی اپنی بیوی سے بات کرے تاکہ اس کو را ضی کرلے ،دوسراجنگ میں جھوٹ بولنااورتیسرا لوگوں کےدرمیان صلح کرانےکےلیےجھوٹ بولنا“۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”کیامیں تہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جو درجہ میں صلاۃ ، صوم اور صدقہ سےبھی ا فضل ہے،صحابہ نےعرض کیا: کیوں نہیں ؟ ضروربتائیے“،آپ نےفرمایا: ”وہ آپس میں میل جول کرادیناہے۱؎ اس لیے کہ آپس کی پھوٹ دین کو مونڈ نے والی ہے“۔
‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”اللہ تعالی ٰکےنزدیک دنیا کی وقعت اگرایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافرکواس میں سے ایک گھو نٹ پانی بھی نہ پلاتا“۔
اس لئے رسول اللہ ﷺ کی کئی احادیث اس موضوع پر مل جاتی ہیں مثلا
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ جَدِّهِ،‏‏‏‏ أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ،‏‏‏‏ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا،‏‏‏‏ وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہو گی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال“۔
حَدَّثَنَاسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَاسُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ شَكَّ الشَّيْخُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَثِيرِبْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْوَلِيدِ بْن ِرَبَاحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏زَادَأَ حْمَدُإ ِلَّا صُلْحًا أَحَلّ َحَرَامًا ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ حَرَّم َحَلَالًا وَزَادَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے درمیان مصالحت جائز ہے ۔ احمد بن عبدالواحد نے اتنا اضافہ کیا ہے: سوائے اس صلح کے جو کسی حرام شے کو حلال یا کسی حلال شے کو حرام کر دے ۔ اور سلیمان بن داود نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہیں گے ۔
عن علي ابن ابی طالب،صلاح ذات البین خیر من عامة الصلواة والصوم
دو آدمیوں کے درمیان اصلاح کرنا نفلی نماز اور روزے سے بہتر ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ ان العرش منابر من نور علیھا قوم لباسھم نور وجوھھم نور لیسوا بانبیاء ولا شھدآء یغبطھم النبیون والشھداء فقالوا یا رسول اللہ ﷺ صفھم لنا قال المتاحبون فی اللہ والمتجالسون فی اللہ و المتازارون فی اللہ ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے شک عرش کے ارد گرد نور کے منابر ہیں ان منبروں پر ایسی قوم ہوں گی جن کے لباس نور، چہرے نورہو ں گے مگر یہ نہ انبیاء میں سے ہیں اور نہ شہداء میں سے جبکہ انبیاء وشہداء ان پر رشک کریں گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ان قوم کی صفتیں بیان فرما دیجئے ۔ آپﷺ نے فرمایا: رضائے الٰہی کی خآطر لوگوں سے یہ یہ محبت کرتے ہیں، خوشنودی الٰہی کے لئے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں ۔ اور خدا کی خاطر یہ لوگ اپنے دینی بھائیوں کی زیارت کرتے ہیں ۔
اسی طرح اللہ رب العز ت حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ
اوحی اللہ الیٰ عیسیٰ یا عیسیٰ لو انك عبدتنی بعبادۃ اھل السموات واھل الأرض ولم یکن فیه حب فی اللہ وبغض فی اللہ فاغنی عنك من ذالك شیئا
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے عیسیٰ علیہ السلام ! اگر آپ زمین وآسمان والوں کے برابر میری عبادت کرے وہ عبادت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی جب تک تمہارا کوئی صالح دوست نہ ہواور ہماری خوشنودی کی خاطر تمہارا کوئی بدعتی یا کوئی دشمن نہ ہو۔
حضرت علی علیہ السلام کا یہ قول کہ
قال علی ؑ علیکم بالإخوان فانھم عدۃ فی الدنیا والأخرۃ ألأتسمعون الیٰ قول اھل النار فمالنا من شافعین ولا صدیق حمیم
مولا علی ؑ نے فرمایاتم لوگوں پر لازم ہے کہ دینی بھائی پیدا کرے کیونکہ وہ دین ودنیا میں تمہا را معاون ہوں گے تم لوگوں نے اللہ کا یہ قول نہیں سنا ہےکہ جب ان سے پوچھے جائیں اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا حال اس طرح بیان کرتاہے کہ
جب ان سے پوچھے جائیں کہ تم لوگوں کو عذاب دوزخ سے کیوں نجات نہیں ملی دوزخی جواب دیں گے الٰہی ہم نے دنیامیں ایسے دینی بھائی کو کسب نہیں کیا تھا جو آج ہماری شفاعت کرے اور ہم کو اس عذاب سے نجات دلائے ۔
تایخی حقیقت کی روشنی میں صلح وصفائی کی اہمیت وضرورت:
مسلمان اور مشرکین مکہ کے درمیان مارچ628ء یا چھے ہجری کو مکہ ومدینہ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا یہ معاہدہ ایک کنواں جس کا نام حدیبیہ تھا ۔ اسلئے اس کوصلح حدیبیہ کے نام سے جاناجاتاہے۔
رسول اللہ ﷺ 1400 مسلمانوں کے ہمراہ عمرہ بجالانے کی غرض سے نکلے ۔628 غیر مسلح حالت میں تھے ۔خالد بن ولید کی قیادت میں مشرکین نے مسلمانوں کی طرف خبر لے کر آیا کہ ہم مسلمانوں بالخصوص محمدﷺ کومکہ میں داخل ہونے ہی نہیں دیں گے ۔ رسول اللہ ﷺنے حضرت عثمان رضی اللہ کو سفیر بنا کر بھیجا ۔ اس کے آنے میں تاخیر ہوگئے۔تو آپﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر ہی صحابہ کرام سے بیعت لے لی اس کو بیعت رضوان کہا جاتاہے۔اتنے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پہنچ گئے مکہ والے جنگ پر آمادہ پایا۔مسلمان کی طاقت دیکھ کر پھر وہ لوگ صلح کی طرف بڑھے۔
اس صلح کو اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لکھوایا۔
اس معاہدے کے درج ذیل شق تھے۔
1۔ کوئی بھی مسلمان مکہ کی طرف گیا تو اس کو واپس نہیں کیا جائے گا۔ لیکن کوئی مکہ والے مدینہ آنے کی صورت میں اس کو مکہ واپس کیا جائے گا۔
2۔فریقین دس سال جنگ وجدال سے باز رہیں گے۔
3۔کوئی بھی شخص چائے محمد ﷺ کے ساتھ دے یا مکہ والوں کے ساتھ دے اس معاملے میں وہ شخص آزاد ہوگا۔
4۔ اس سال مسلمان مدینہ واپس جائیں گے ۔ مگر اگلے سال صرف تین دن مکہ آکر زیارت کرسکتے ہیں ۔ تین دن سے زیادہ مکہ نہیں ٹھہر سکتے۔
5۔ محمد ﷺ اور اس کے ساتھی مکہ میں داخل ہوجائے تو غیرمسلح حالت میں داخل ہوں گے۔
اس صلح کے کئی ثمرات مسلمانوں کے لئے سود مند ہوئے ۔
اسی طرح سن 41ھ میں حضرت امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان ایک صلح ہوا ۔امیر معاویہ کی طرف سے درج زیل نکات تھے ۔
1۔کوفہ کے خزانے میں موجود 50 لاکھ درہم خود امام اپنے لئے رکھے گا۔
2۔ دارابگرد فارس کی سالانہ آمدنی خود امام سے مختص ہوگی۔
3۔ امام حسن کی موجودگی میں امام علیؑ پر منابر سے سب و شتم نہیں ہوگی۔
4۔ عراق سمیت دیگر مناطق میں موجود اہل بیتؑ کے پیروکار عفو عمومی کے تحت مورد عفو قرار پائے گا۔
کتاب الفتوح ابن اعثم کوفی نے صلح نامے کی ایک اور مفاد کو نقل کیا ہے جس کے تحت صلح نامے کے شرائط مذکورہ شرائط سے مکمل متفاوت ہے اور اکثر شیعہ محققین اس قول کو اس حوالے سے صحیح ترین قول قرار دیتے ہیں
امام حسن علیہ السلام کی طرف سے درج زیل نکات تھے۔
1۔ معاویہ کتاب خدا، سنت پیغمبرؐ اور خلفای راشدین کی سیر پر عمل پیرا ہوگا۔
2۔ معاویہ کسی کو اپنا ولی عہد اور جانشین مقرر نہیں کرے گا بلکہ خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کی شوری پر چھوڑے گا۔
3۔ تمام لوگ جہاں کہیں بھی ہو امن و امان میں ہوگا۔
4۔ شیعیان علی اور آپ کے پیروکا کی جان، مال، اور عزت و ناموس محفوظ ہوگی۔5۔معاویہ امام حسن ، امام حسین علیہما السلام اورخاندان اہل بیت کے خلاف کوئی سازش یا کسی قسم کی اذیت نہیں پہنچائے گا۔
امیر معاویہ امام حسن ؑ کی طرف سے دئے گئے نکات پر رضامند ہوگیا اور دونوں میں صلح ہوگئی۔
جاری ہے…
منابع و مآخذ:
التفہیمات الٰیہ ،ص88،ج دوم ،شاہ ولی اللہ محدث دھلوی ، مترجم مولاناعقیدت اللہ قاسمی، عکس پبلیکیشنز داتا دربار مارکیٹ لاہور، 2018ء

سورہ حجرات ،آیت 9،ص669 ،مترجم مولانا اشرف علی تھانوی ، بیت القرآن اردو باازار ، کراچی، ندارد

تفسیر ابن عباس ، ص271،مؤلف ابن طاہر محمدابن یعقوب فیروز آبادی، مترجم مولانا پروفیسر محمد سعید احمد عاطف، 37، مزنگ روڈ ، بک سنٹر ، لاہور، 2012ء

سورہ حجرات آیت ،10ص669 مترجم مولانا اشرف علی تھانوی ، بیت القرآن اردو باازار کراچی، ندارد

تفسیر ابن عباس ، ص272،مؤلف ابن طاہر محمدابن یعقوب فیروز آبادی، مترجم مولانا پروفیسر محمد سعید احمد عاطف، 37، مزنگ روڈ ، بک سنٹر ، لاہور، 2012ء

تفسیر عثمانی ،ص589،ج دوم ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ،دار الاشاعت اردو بازار کراچی،ط اول 1993،

تفہیم القرآن ،ص83،سیدابولاعلیٰ مودودی،بار اول، ادارۃ ترجمان القرآن ،غزنی سٹریٹ،رحمن مارکیٹ ، اردو بازار، لاہور ، مارچ2011ء

تفہیم القرآن ،ص84،سیدابولاعلیٰ مودودی،بار اول، ادارۃ ترجمان القرآن ،غزنی سٹریٹ،رحمن مارکیٹ ، اردو بازار، لاہور ، مارچ2011ء

در منثور فی تفسیر الماثور، ص562، الجزء السابع، للامام عبدالرحمن ابن الکمال جلال الدین سیوطی ،متوفی911ھ،داالفکر الطباعۃ والنشر والتوزیغ،1414ھ۔

التفسیر ا لکبیر ،ص129،للامام فخرالدین الرازی،الجزء السابع والعشرون،الطبعۃ ا لثالثۃ،مکتبۃ ،عبدالرحمن محمد ،للنشر القرآن الکریم والکتاب الاسلامیۃ بمیدان الجامع ،الازھر بالقاھرۃ،ندارد۔

التفسیر ا لکبیر ،ص130،للامام فخرالدین الرازی،الجزء السابع والعشرون،الطبعۃ ا لثالثۃ،مکتبۃ ،عبدالرحمن محمد ،للنشر القرآن الکریم والکتاب الاسلامیہ بمیدان الجامع ،الازھر بالقاھرۃ،ندارد۔

آل عمران آیت103،آسان ترجمۃ القرآن،مترجم مفتی تقی عثمانی، دار العلوم،انڈسٹریل ایریا کرونگی کراچی، ندارد

باب قول الاام لاصحابہ اذھب اذھبوا بناء نصلح،محمد ابن اسماعیل البخاری، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،ندارد, صحیح بخاری ، حدیث 2693

بخاری حدیث ، 2691ما جاء فی اصلاح بین الناس اذا تفاسدوا،، محمد ابن اسماعیل البخاری، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،ندارد

جامع ترمذی ، حدیث 1939باب ماجاء فی الاصلا ح ، ذات البین ، ابو عیسیٰ محمد ابن سورۃ ابن الشداد،دارلکتب الغربی الاسلامی، بیروت،1998ء

جامع ترمذی ، حدیث 2509، باب الفضل کل قریب حین سہل ، ابو عیسیٰ محمد ابن سورۃ ابن الشداد، دارلکتب الغربی الاسلامی، بیروت،1998ء

جامع ترمذی ، حدیث 20 23،باب ما جاء فی المتہاجرین ، ابو عیسیٰ محمد ابن سورۃ ابن الشداد، دارلکتب الغربی الاسلامی، بیروت،1998ء

جامع ترمذی،حدیث 1352،باب ما جاء فی الصلح بین الناس، ابو عیسیٰ محمد ابن سورۃ ابن الشداد،دارلکتب الغربی الاسلامی، بیروت،1998ء

سنن ابو داوؤد،حدیث 3594،باب بیان الصلح،المکتبۃ العصریہ، سلیمان ابن الاشعث السجستانی،بیروت لبنان، ندارد

الفردوس بماثؤڑ الخطاب،حدیث 3771،ص598،الجزء الثانی، ابی شجاع شیرویہ ابن شھردار ابن شیرویۃ الدیلمی ،متوفی 509ھ، دارالکتب العلمیہ ،بیروت لبنان ،1971ء۔

ذخیرۃ الملوک ص 118، امیر کبیر سید علی ہمدانی،مشتاق بک کارنر الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،طبع اول، 1987ء

ذخیرہ الملوک ص119، امیر کبیر سید علی ہمدانی،مشتاق بک کارنر الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،طبع اول، 1987ء

ذخیرہ الملوک،ص119، امیر کبیر سید علی ہمدانی،مشتاق بک کارنر الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،طبع اول، 1987ء

طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۶۰، محمد ابن جریر طبری ، دار الااشاعت اردو بازار کراچی، 1996ء

تاریخ الخلفاء،، ص153۔154، جلا ل الدین عبدالرحمن ابی ابی بکر سیوطی،دارالکتاب العربی بیروت لبنان،2012

تاریخ ابن اعثم کوفی ،ص 29ٍ0،291،الفتوح،دارالاضواء ، نجف عراق، ندارد

پاکستان کے دینی مسالک ص45،تحقیق و تالیف ثاقب اکبر، البصیرہ 40 بیلا روڈ جی ٹی ون اسلام آباد ، طبع سوم ،فروری 2015ء

پاکستا ن کے دینی مسالک ،ص 47،تحقیق و تالیف ثاقب اکبر، البصیرہ 40 بیلا روڈ جی ٹی ون اسلام آباد ، طبع سوم ،فروری 2015ء

صحیح بخاری ، حدیث6045،باب گالی دینے اور لعنت کے بارے میں ،دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان،ندارد

صحیح مسلم، حدیث216،ابوالحسین مسلم ابن الحجاج المسلم القشیری،داالاحیاء التراث العربی،ندارد

سنن ابی داوڈد، حدیث 4901،باب ظلم زیادتی اور بغاوت منع ہے، سلیمان ابن الاشعث السجستانی،المکتبۃ العصریہ بیروت لبنان، ندارد

تکمیل الایمان ، ص 180،شیخ عبدالحق محدث دھلوی ، مکتبہ نبویہ لاہور، 1987ء

عقیدہ ، ایمان اور منہج اسلام ،ص 285، شیخ عبداللہ ابن عبدالحمید اثری، مترجم ابو یحی ٰ محمد زکریا زاہد، مکتبۃ الکتاب وسنہ، لاہور، ندارد)