حضرت امام محمد باقر علیہ سلام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اﷲ تعالیٰ فی قرآن الحکیم یا ایھا الذین آمنوا تقو اﷲ و ابتغو الیہ الوسیلتہ وجا ھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون۔

۶؍۶ س مائدہ
ترجمہ: ۔ خداوند تعالیٰ اپنے نسخہ کیمیاء میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اے صاحبان ایمان خدا سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں دشمنان ظاہری و باطنی سے ) جہاد کرو تا کہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔
تفسیر معدن الجواہر جلد ۲ قلمی ۷۹ اپر ہے کہ وسیلہ جو خدا تک پہنچانے والا ہے وہ صرف حیدر کرار ؑ اور آئمہ طاہرین ؑ ہیں۔
تفسیر قمی میں منقول ہے کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ امام تقرب حاصل کرو عیون الاخبار الرضا میں رسول ؐ سے منقول ہے کہ آئمہ اولاد امام حسین علیہ السلام سے ہیں وہ دین کی مضبوط رسی اور خدا تک پہنچاد ینے کایکتائے وسیلہ ہیں ۔ واضح ہو کہ وسیلہ ماخوذ ہے توسیل سے یعنی وہ امور جن سے خدا کی قربت حاصل ہو ان کو ڈھونڈو اﷲ تعالیٰ سورہ آل عمران پ ۴ میں فرماتا ہے کہ
واعتصموا بحبل اﷲ جمیعاً و لا تفرقوا ۔
کہ تم سب کے سب مل کر مضبوطی سے اﷲ کی رسی کو تھام لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔
آیت بالا کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حبل اﷲ سے محبت حیدر کرار ؑ مراد ہے یعنی علی وآئمہ طاہرین ؑ کو اپنا رہبر و امام بناؤ ۔
اسعاف الراعین ص ۱۰۸ تفسیر نشاپوری ص ۳۴۹ جلد نمبر ۱ تفسیر کبیر جلد نمبر ۳ ص ۱۰۴ تفسیر خان مطبوعہ مصر جلد نمبر ۱ ص ۲۶۱ ینابیع المودۃ ص ۹۷
و عن علی علیہ السلام قال قال رسول اﷲ ؐ الائمۃ من بعدی من ولدی فمن اطاعھم فقد اطاع اﷲ و من عصاھم فقد عصی اﷲ و ھم العروۃ الوثقی و الوسیلۃ الی اﷲ )مودۃ القربی ص ۹۹، ینابیع المودۃ ص ۴۴۶ (
حضرت امام علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا میرے بعد میری اولاد سے آئمہ ہیں جنہوں نے ان کی اطاعت کی انہوں نے اﷲ کی اطاعت کی اور جنہوں نے ان کی نافرمانی کی انہوں نے اﷲ کہ نافرمانی کی وہی اﷲ کی مضبوط رسی ہیں اور اﷲ کی طرف جانے کے وسیلے اور ذریعے ہیں ۔
و عن جابربن عبداﷲ قال قال رسول اﷲ ؐ یقول توسلو ا بمحبتا الی اﷲ و امتثفعوا بنا فان بنا تکرمون و بنا تحیون و بنا ترزقون فازا غاب منا غائب فمحبو نا امنا ئنا غدا کلھم فی الجنۃ۔مودۃ القربی ص ۳۴
جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ خدا نے فرمایا کہ اے لوگو ہماری محبت کو اﷲ کی طرف سے اپنا وسیلہ بناؤ اور ہماری شفاعت طلب کرو کیونکہ ہمارے ہی سبب سے تمہارا اکرام کیا جاتا ہے اور ہمارے ہی سبب سے تم کو زندگی عطا ہوتی ہے اور ہمارے محب ہمارے امین ہیں ۔ وہ سب کے سب کل قیامت کے دن جنت میں ہونگے ( مودۃ القربی ص ۳۲ سید علی ہمدانی ( اور امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
نحن الوسیلۃ بینکم و بین اﷲ ۔
کہ ہم اہلبیت ؑ رسول ؐ تمہارے اور خدا کے درمیان ذریعہ و وسیلہ ہیں ان لئے ہم نور بخشی بعد نماز پنجگانہ دعائے تشفع میں اﷲ سے سوال کرتے ہیں کہ
اللھم انی اسئلک الی …و بمحمدن الباقر و کرامتہ – دعوات صوفیہ امامیہ
اے اﷲ حضرت امام محمد باقر ؑ اور ان کی کرامت کا واسطہ ہماری حاجتوں کو پورا فرما۔
اپنی ذوات مقدسات کو حضرت آدم علیہ السلام حضرت یونس علیہ السلام سمیت تمام انبیاء اور اولیاء کرام وسیلہ بنایا۔
توسل آدم ۔
توبہ گر خواہی کہ معبودرفیع
ازتوبہ پزیردکن این ہاراتیغ
لفظ ہارا گفتہ اہل ہدیٰ
بود نام پنجتن آلعبائؑ
) نجم الہدیٰ سید محمد نور بخش قدس اللہ سرہ(
آل النبی ؐ ذریعتی
وھم الیہ وسیلتی
ارجوالیھم اعطیٰ غداً
بیدالیمینی صحیفتی
امام شافعی ؒ
یعنی اہلبیت رسول ؑ میرا وسیلہ ہیں وہ اس کی بارگاہ میں میرے قرب کا ذریعہ ہیں ۔ امید کرتاہوں کہ ان کے ذریعے سے کل قیامت کے دن میرانامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا ۔
ولادت امام محمد باقر علیہ السلام
بعض مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام روز شنبہ تین ماہ صفر یا ماہ رجب کی پہلی تاریخ یعنی یکم ماہ رجب ۵۷ ھ مدینہ منورہ میں بروز جمعہ پیدا ہوئے اور فاطمہ بنت رسول ؑ کی پوتی اور علی ابن ابی طالب کے پوتے کے گھرمیں پھر سے نور محمدی ؐ چمکا ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ ؑ دختر امام حسن ؑ تھی اور امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ ابن الخیر ین و بین العلوین کہ میری دادی کو میرے والد امام محمد باقر ؑ فرماتے تھے۔ کانت صدیقتہ لم یدرک فی آل الحسن مثلھا دادا امام حسین علیہ السلام اپنے کربلا کے ہمسفر کو دیکھنے آئے پیشانی کا بوسہ لیا ۔ محمد علیہ السلام کے کان میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے اذان دی ۔ حضرت علی ؑ اور حضرت فاطمہ ؑ نے چہرے پر نظر ڈالی اور زبان پر بے ساختہ درود آیا اﷲ دود میں شریک ہوا ملائکہ درود میں شریک ہوئے مومنین نے صدائے درود بلند کی رسول خدا ؐ نے جنت سے درود بھیجے ہونگے رسول اﷲ صلعم جب فرش پرتھے تواپنے محمد ؐ کو پیغام سلام بھیجتے تھے ۔
جابربن عبداﷲ حسین ؑ کے پوتے محمد باقر ؑ کا زمانہ دیکھو گے جابر ! جب میرے محمد ؑ سے ملاقات ہوئی تو سلام کہنا اﷲ اﷲ اس امام کا مقام کہ انہیں رسول خدا ؐ نے سلام بھیجا۔ جس پر خدا نے درود و سلام بھیجا ۔ جابر انصاری ؓ علیل تھے امام محمد باقر علیہ السلام آپ کی عیادت کیلئے تشریف لائے فرمایا جابر کیف حالک کیا حال ہے اے جابر ؟ جابر ؓ بولا خدا کا شکر ہے ۔ پیری کو جوانی پر بیماری کو تندرستی پر موت کو زندگی پر ترجیح دیتاہوں۔
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا یہ منافی توکل ہے جابر یوں کہو کہ اگر خدا کو بیماری پسند ہے تو ہمیں بھی بیماری پسند ہے اگر اس کو تندرستی پسند ہے اگر موت دینا اس ذات کو پسند ہے تو ہمیں بھی تندرستی پسند ہے تو ہمیں بھی موت پسند ہے اور اگر زندگی دینا چاہتا ہے تو ہم زندگی میں خوش ہیں۔ جابر ؓ نے امام ؑ کا کلام سنا اور اٹھ کرہاتھ چوم لئے اور کہا کہ کلام الامام امام الکلام اور کہا خدا کے رسول ؐ نے سچ فرمایا تھا کہ آپ باقر العلوم ہیں ( حقائق کا انکشاف کرنے والا) امام محمد باقر ؑ کا سینہ علوم کا خزینہ تھا زمانہ نے تھوڑی مہلت دی تھی کہ درس و تدریس کا ایک بے پایاں سلسلہ شروع ہوگیا ۔ سینکڑوں اپنے اور غیر مکتب باقری سے فیضیاب ہوئے امام زہری ؒ امام مالک امام ابو حنیفہ و غیرہ آپ کے شاگردوں نے خدمت دین کے لئے امام علیہ السلام کے ارشادات سے بے شمار کتابیں لکھیں ۔ مشہور عالم ابن حجر مکی اپنی کتاب صواعق محرقہ ص ۱۲۰ پر لکھتے ہیں کہ حضرت نے معارف و حقائق علم و حکمت کے وہ دریا بہائے جس سے سوائے دیوانہ اور کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ حکمت میں سے صرف ایک واقعہ بیان کرتاہوں ۔ ایک روز عباد بن کثیر بصری ؒ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کی یابن رسول اﷲ ؐ مرد مومن کا حق حق تعالیٰ پر کیا ہے ؟ امام علیہ السلام خاموش رہے ٗ تیسری مرتبہ پھر سوال کیا تو فرمایا مومن کا حق اﷲ پر یہ ہے کہ اگر اس درخت سے کہے کہ میری طرف آتو درخت تعمیل حکم میں فوراً آجائے دیکھا کہ وہ درخت جس کی طرف امام محمد باقر علیہ السلام نے اشارہ کیا تھا چلا آرہاہے یہاں تک کہ قریب آگیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا میں نے دیکھا کہ درخت پھرا پنے مقام پر واپس ہوگیا ۔ ( کشف الغمہ) محمد ؐ و آل محمد ؐ کی پیروی تو بڑی چیزہے ۔ امام علیہ السلام کے اگر ان تین فقروں پر دنیا عمل کرے تو مومن کامل بن جائے ۔ آپ نے اپنے فرزند صادق آل محمد ؐ سے فرمایا کہ خداوند عالم نے تین باتیں تین چیزوں میں چھپا رکھی ہیں ۔
۱) … اپنی خوشی کو اپنی طاعت میں چھپایا ہے پس تم اس کی اطاعت سے کسی بات کو حقیرنہ جانو ہو سکتا ہے کہ جس کو تم معمولی سمجھ کر ترک کردو اسی میں اس کی خوشی پوشیدہ ہو۔
۲) … اور اپنے غضب کو معصیت میں پوشیدہ رکھا ہے لہٰذا کسی بھی معصیت کو معمولی سمجھ کر اس کے مرتکب نہ ہو ٗ کیا معلوم کس معصیت میں اس کا غضب ہے ۔
۳) … اپنے دوستوں کو اپنی مخلوق میں چھپایا ہے پس اس کے بندوں میں سے کسی کو حقارت سے نہ دیکھو شاید وہی خدا کا دوست ہو ۔ شان امام ؑ یہ ہیں ہے ۔
یبقر علم الدین بقرا المختصر۔
شہادت امام محمد باقر علیہ السلام
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کربلا کے جہاد میں اس طرح شریک ہوئے جس طرح ان کے والد ماجد امام زمین العابدین علیہ السلام شریک ہوئے اور واقعی بڑا سخت جہاد تھا ابتداء سے انتہا تک امام علیہ السلام نے مصائب و آلام کے پہاڑ اپنی آنکھوں سے ٹوٹتے ہوئے دیکھا ۔ عاشورہ کے دن بھر لاشوں پر لاشے آتے ہوئے دیکھا ۔ العطش العطش کی آوازیں سنیں ۔ گیارہ محرم کوماں ٗ پھوپھی ٗ دادی اور نانی کو سر برہنہ رسن بستہ دیکھا اگر جناب سکینہ ؑ کا بازو رسن سے بندھ سکتا ہے تو امام محمد باقر علیہ السلام کا گلا بھی ریسمان ریسمان ظلم باندھا گیا ہوگا ۔ ان مصائب و آلام کے دل پر وہ نقوش بیٹھے کہ عمر بھر بر قرار رہے ۔ مدینہ آکر پدر بزرگوار کو صرف دو کام کرتے ہوئے دیکھا ۔ عبادت باری تعالیٰ یا گریہ زاری ۔ باپ ؑ کے گلوئے بریدہ کے تصور میں امام زین العابدین علیہ السلام عمر بھروہ خون کے آنسو روئے جن سے رخسار مبارک فگار ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کا بھی یہی مشغلہ رہا ہوگا ۔ ۳۸ برس کی عمر میں بعد شہادت پدر علیہ السلام امامت کی ذمہ داریوں کا بار دوش امام محمد باقر علیہ السلام پر آیا ہوا کچھ حالت سازگار تھی دشمن خانہ جنگیوں میں گرفتار تھے ۔ ذرا آزادی کاسانس لیا اور علم و حکمت کا دریا بہادیئے مگر کربلا کے مناظرہ رہ رہ کر سامنے آتے تھے اور امام کو خون کے آنسو رلاتے تھے آپ نے مجالس سید شہدا کی بنیاد ڈالی اکثر مجلس عزاء برپاہوتی امام علیہ السلام اکثر کمیت بن زین اسعد شاعر کو دعوت دیتے کہ وہ آکر مرثیہ پڑھے کمیت ؓ مرثیہ پڑھتے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سن کراتنا گریہ فرماتے کہ بے ہوش ہوجاتے آخر ہشام خلیفہ امیہ کے دیئے ہوئے زہر سے روز شنبہ ہفتم ۷ ماہ ذی الحجہ ۱۱۴ ھ یا ۱۱۰ ھ میں ۵۷ یا ۵۸ سال کی عمر میں ۱۹ یا ۲۱ سال مدت امامت میں امامت کا یہ پانچواں چراغ بھی گل ہو کر بدرجہ شہادت فائز ہوئے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بمطابق وصیت غسل و کفن دیئے نماز جنازہ پڑھی اور اپنے پدر بزرگوار کے پہلو جنت البقیع میں مدفون ہوئے ۔