جانوروں پر زکوٰۃ


جانوروں پر زکوٰۃ
چار شرائط پورے ہوں تو جانوروںپر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ (۱)نصاب کو پہنچنا۔ (۲)سال گزرنا۔ (۳) باہرچرنا۔ (۴) کام والے جانوروں میں سے نہ ہونا۔
اونٹ پر زکوٰۃ
اونٹ کی زکوٰۃکیلئے بارہ نصاب ہیں۔
(۱) پہلا یہ ہے کہتعداد پانچ ہوجائے تو نو تک ایک بکری،
(۲) جب دس ہوجائے چودہ ہونے تک دوبکریاں
(۳) جب پندرہ ہوجائے تو انیس تک تین بکریاں ،
(۴) جب بیس ہو جائے تو چوبیس تک چاربکریاں،
(۵) جب یہ پچیس ہوجائے تو پانچ بکریاں،
(۶) جب چھبیس ہوجائے تو پینتیس تک ایک سال کی اونٹنی ،
(۷) جب چھتیس ہوجائے تو پینتالیس تک دوسال کی اونٹنی ،
(۸) جب چھیالیس ہوجائے توساٹھ تک تین سال کی اونٹنی ،
(۹) جب اکسٹھ ہوجائے تو پچہتر تک چارسال کی اونٹنی ،
( ۱۰) جب چھہتر ہو جائے تو نوے تک دوسال کی دو اونٹنیاں ،
(۱۱) جب اکیانوے ہوجائے تو ایک سو بیس تک تین سال کی دو اونٹنیاں
(۱۲)اور جب ایک سو اکیس ہوجائے تو دوسال کی تین اونٹیاںبطور زکوٰۃ دینا واجب ہے۔
یہاں یہ نصاب ختم ہوجاتا ہے اس کے بعدہرچالیس پردوسال عمر والی اونٹنی دیاکرے اور ہر پچاس پرتین سال کی اونٹنی کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

کو کہا جاتا ہے۔ بھَیڑ میںجذعہ ایک سالہ بچے کو جبکہ بکروںمیںثنیہ دوسال کے بچے کو کہا جاتا ہے ۔ جس شخص پر دو سال کی اونٹنی کی زکوٰۃ واجب ہو اور وہ اسے نہ پاسکے جبکہ اسکے پاس ایک سال کی اونٹنی ہو تو بیس درہم کیساتھ اسکی زکوٰۃ جائز ہے اگربرعکس ہوتو حکم برعکس ہوگا یعنی بنت لبون کو نکالاجائے اور بیس درہم واپس لے لے ۔ جن کو بطور زکوٰۃ نکالاجائے اور جن سے زکوٰۃ نکالی جائے دونوں میں جانور کا نر یامادہ ہونا برابر ہے ۔

گائےپر زکوٰۃ
گائے کی زکوٰۃ میں دونصاب ہیں:
(۱) تعداد تیس ہونے تک گائے پرزکوٰۃ واجب نہیں تعداد تیس ہوجائے تو انتالیس تک ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی ۔
(۲) اور جب چالیس ہوجائے تو دوسالہ ایک بچھڑا یا بچھڑی ہے۔ پہلا ایک سالہ اور دوسرا دوسالہ ہوتا ہے، تعداد ساٹھ ہونے تک اضافی زکوٰۃ نہیں۔ساٹھ ہونے پر ایک سالہ بچھڑا واجب ہے اور پھر یہ حساب رک جاتاہے۔اب ہرتیس گائے پر ایک سالہ بچھڑا اور ہرچالیس پرایک دو سالہ بچھڑا واجب ہوگا اور یہ نصاب ہر دس کی تعدادپرتبدیل ہوتا رہے گا بھینسوں کا حکم بھی گائے جیساہے۔

بھیڑبکریوں پرزکوٰۃ
بھیڑبکریوں کی تعداد چالیس ہونے تک زکوٰۃ واجب نہیں۔( ۱) چالیس ہوجائے تو تعداد ایک سو بیس ہونے تک ایک بکری واجب ہے۔ زکوٰۃ نکالاجانیوالابھیڑ ہو تو جذعہ (ایک سالہ) اور بکرا ہو تو دو سال کا ہونا چاہے۔ بطور زکوٰۃ نکالاجانیوالا جانور کا نوزائیدہ ، بیمار، عمر رسیدہ اور کانا ہونا جائز نہیںاور نہ ایسا جانور ہو جسے کھانے یا نسل کشی کیلئے رکھاہو۔
(۲) جب تعدادایک سواکیس ہوجائے تودوسو تک دوبکری
(۳) جب یہ تعداد دو سو ایک ہوجائے تو چار سو تک تین بکریاں
(۴) جب یہ تعدادچارسوکو پہنچ جائے تو چار بکریاں بطور زکوٰۃ نکالنا واجب ہے۔
اس کے بعد نصاب یوںبرقرار رہےگاکہ ہرسو پرایک بکری واجب ہوگی چاہے تعداد جتنی ہوجائے۔ واضح رہے کہ سال کا کچھ حصہ گھر میں پلنے والاجانور ، باہر چرنیوالاجانور شمار نہیں ہوگا۔

جانور کی زکوٰۃ کی مختلف صورتیں
جانوروں پر واجب زکوٰۃ کے بدلے اس جنس کے سوا دیگر چیزوں سے بازاری قیمت کی کوئی چیز بطور زکوٰۃ نکالنا بھی جائز ہے تاہم اسی جنس کا ہونا افضل ہے۔ اگر سارے جانور بیمار ہوں تو زکوٰۃ کیلئے تندرست جانور کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ کسی اور شہر کے جانوروں کو زکوٰۃ میں دینا جائز ہے چاہے وہ کمترکیوںنہ ہو، اگر دو شراکت دار مویشوںکو باہم ملا دے اور تعداد نصاب مکمل ہوجائے تواس کا نصاب پر اثرنہیں ہوگا اور زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔اگر کوئی چالباززکوٰۃسے بھاگنے کیلئےمویشوںکو باہم جدا کرے تو زکوٰۃ ساقط نہیںہوگی ۔