سمت قبلہ کا مسئلہ


سمت قبلہ کا مسئلہ
قبلہ کی سمت : یہ افق کاوہ نقطہ ہے جس کی طرف جب نمازی رخ کرکے نماز ادا کرے تو وہ قبلہ رو ہو جاتا ہے۔ یہ افقی دائرہ اہل بلد اور اہل مکہ کے سروں سے گزرنے والے بہت بڑے دائرے کو آپس میں تقسیم کرتاہے اور اس تقسیم اور خط نصف النہار کے درمیان موجودقوس ہے۔ اس کو قوس انحراف کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے سمت قبلہ کہتے ہیں تاہم یہاں اس قوس سے مراد مذکورہ نقطہ ہے قوس نہیں۔ پھر اگر مکہ کی لمبائی اور طول بلد برابر ہوں تو سمت قبلہ اس خط نصف النہار کا سرا ہے جو دائرہ افق کو تقسیم کرتا ہے۔ اگر عرض بلد عرض مکہ سے زیادہ ہو تو یہ نقطۂِ جنوب ہوگا۔ اور اگر یہ کم ہو تو نقطہ شمال ہوگا۔
اس کے علاوہ دیگر صورتوں میں شمال اور جنوب کے دونوں نقطوں سے انحراف لازمی ہوگا۔ دونوں نقطوں سے انحراف والے سمت قبلہ کی پہچان کی کئی صورتیں ہیں ان میں سے سب سے آسان اور جامع صورت یہ ہے کہ سورج نصف نہار کے وقت شہر مکہ کے عین اوپر سے گزر تا ہے جب برج جوزا آٹھویں درجے اور برج سرطان تیئسویں درجے پر ہو۔ پس اسطر لاب میں وسط سمآء سے گرزنے والے خط عرض بلد پر ان دونوں میں سے کسی ایک درجے کو لیں۔ پھراجزائے حجرہ میں سے اس جزء پر نشان لگائیں جہاں مری
پہنچے اور مکہ مغرب میں ہونے کی صورت میں مغرب کی جانب دونوں لمبائی کے اندازے کے مطابق عنکبوت کو گھمائیں اور مشرق کی جانب گھمائیں اگر مکہ مشرق کی جانب ہو۔ پھر دیکھیں کہ یہ درجہ کس دائر ے سے مل رہا ہے۔ جو بھی ہو یہی مکہ میں نصف النہار کا وقت ہے اور اس صورت میں سورج مکہ کے بالکل اوپر سے ضو فشاں ہورہا ہوتا ہے۔ پھر زاویہ قائمہ کے برابر سطح پر ایک پیمانہ نصب کریں اور پیمانے کے سائے پر مرکز سے لے کر سائے کے سرے تک ایک خط کھینچیں ، چنانچہ یہ وہ خط ہوگا جسے اگر براہ راست پار نکالا جائے تو کعبہ مکرمہ (شرفھا اللہ) تک پہنچتا ہے۔ پس اس زاویہ قائمہ پر محراب اور مسجد کی بنیاد رکھیں تاکہ دین کا ایک عظیم رکن درست ہو جسے اللہ نے ان ائمہ علیہم السلام کے ذریعے مضبوط بنایا جو مقام یقین تک ہدایت یافتہ ہیں اور بدگمانوں کی بدگمانی سے پاک ہیں۔ لیکن یہ طریقہ مکان کے اعتبار سے عام ہے تاہم سال میں صرف دو دنوں موسم بہار کے اواخر اور موسم گرما کے ابتدائی ایام کیساتھ مخصوص ہونے کی وجہ سے زمانہ کے اعتبار سے عام نہیں ، لہٰذا ایک ایسے طریقے کی ضرورت ہوئی جو زمانہ اور وقت دونوں کیلئے عام ہو تاہم یہ ان مقامات کیلئے نہیںجس کا عرض مکہ کے عرض کے برابر ہو کیونکہ اگر دونوں برابر ہو تو دونوں دن کے ایک مدار کے ماتحت ہونگے۔ اس طرح سمت قبلہ کی پہچان پہلے طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔ کیونکہ دوسرے طریقہ کار جس کا ذکر عنقریب انشاء اللہ میں کرونگا مکہ شریف کے طول اور عرض میں مختلف ہے مکہ کے طول کے برابر شہر یا شمالی ہوگا یاجنوبی اور عرض سے برابر شہر شرقی ہو گا یا غربی۔ مکہ سے مختلف شہر یا اس کا شمال مشرقی ہوگا یا جنوب مشرقی ، یا شمال مغربی ہو گا یا جنوب مغربی۔ اگر شہر شمال مشرقی ہو تو اس کی سمت قبلہ اس طرح واضح ہوگی کہ جنوبی نقطے سے ابتدا کرتے ہوئے مغرب کی جانب مکہ کے طول پر طول بلد کے اضافی اندازے سے محیط کے اجزاکی گنتی کریں۔ اور اسی اندازے سے شمال سے مغرب کی جانب تک گنتی کریں اور دونوں کے انتہائی عددوں کو سیدھی لکیر کے ذریعے ملائیں جو خط نصف النہار کے برابر ہو اور مغرب سے ابتدا کرتے ہوئے جنوب تک مکہ کے عرض پر عرض بلد کے اضافی اندازے کے مطابق اجزا کی گنتی کریں۔
مشرق سے جنوب کی جانب اسی اندازے سے گنتی کریں اور ان دونوں کے انتہائی عددوں کو سیدھی لکیر کے ذریعے ملائیں جو خط اعتدال کے برابر ہو۔ اس طرح یہ دونوں لکیریں مرکزی خط کے سوا کسی اور مقام پر آپس میں لازمی طور پر مل جائیں گی اور پھر مرکز سے ایک خط اسی نکتہ انقطاع تک کھینچیں اور اس کو محیط کے پار تک لے جائیں محیط کے آخر تک جانے والا یہ خط سمت قبلہ ہے۔
اگر جنوب مغربی ہو تو مذکورہ طریقہ کار کے معکوس طریقے پر عمل کریں اگر شہر جنوب مشرقی ہو تو جنوب کے نقطے سے مغرب تک مکہ کے طول پرطول بلد کے اضافی اندازے کے مطابق محیط کے اجزا کی گنتی کریں۔ اور شمال کے نقطہ سے مغرب تک پہلے کی طرح گنتی کریں۔
باقی طریقہ کار وہی ہے جسپر آپ نے عمل کیا۔ پھر مغرب کی جانب سے شمال تک مکہ کے عرض پر عرض بلد کے اضافی اندازے کے مطابق محیط کے اجزأکی گنتی کریں اور مشرق سے شمال تک بھی ایسے ہی کریں اور ان دونوں کو خط مستقیم کے ذریعے باہم ملائیں جو خط اعتدال کے برابر ہو۔

یہ دونوں لکیریں مرکزی نقطہ کے علاوہ کسی اور جگہ پر باہم مل جائیں گی چنانچہ مرکزی نقطے سے اس نقطے تک ایک خط کھینچیں اور اس کو محیط کے پار لے جائیں۔ پس محیط سے ملے اس خط کا سرا سمت قبلہ ہے۔ اور اگر شہر شمال مغربی ہو تو طریقہ اس کے برعکس ہوگا۔ نقشوں کے طول و عرض کی معرفت کے بعد یہی قواعد سمت قبلہ کی پہچان کیلئے کافی ہیں۔