قبلہ رخ ہونے کا حکم


قبلہ رخ ہونے کا حکم
قبلہ رخ ہونا نماز کی صحت کے لیے شرط ہے ،بشرطیکہ قدرت ہو تاہم یہ شرط مسافر نفل گزاروں اور دشمن سے خوفزدہ افراد وغیرہ کیلئے نہیں، چاہے وہ سوارہوں یا پیدل۔ ایسے افراد کے لیے ان کے سفر کا رخ ہی انکے حق میںقبلہ کا بدل ہے۔ اگر نیت کے لیے قبلہ رخ ہوسکیں تو افضل ہے۔ شدید خوف کے وقت فرائض کو بھی نوافل کی طرح چلتے ہوئے اشارے سے پڑھنا جائز ہے اور قضا ء بھی واجب نہیںہے اور اگر قضاء بجالانے کا ارادہ ہو تو افضل ہے ۔ مناسب ہے کہ سجدہ کے لیے اشارے رکوع کی نسبت زیادہ جھکاؤ کا حامل ہو۔
کعبہ شریف کے اندر کسی بھی دیوار کی طرف منہ کر نا جائز ہے اور دروازے کی طرف بھی بشرطیکہ دروازہ بند ہو۔ دروازہ کھلاہو ا ہو یا کعبہ کی چھت پر نماز پڑھے اور سامنے کوئی چیز کھڑی نہ ہو تو مکروہ ہے۔ اگرقبلہ کے رخ سے متعلق پریشانی کی صورت میں کسی باخبر سے یا راہ گیر وغیرہ سے تحقیق کرنا ممکن ہو توکھوج لگاناواجب ہے اگر ایسا ممکن نہیں تو کوشش سے کام لے۔ اگروقت باقی ہو اور واضح ہوجائے کہ نماز غیر قبلہ کی طرف پڑھی گئی ہے تو دہرانا واجب ہے ورنہ نہیں۔
اجتہاد سے سمت قبلہ کے تعین کے بعدپریشانی کا شکار شخص کا دل کسی تشویش میں نہ پڑے۔ بلکہ اسے مضبوط رکھے اور اپنے دل میں کہے’’تم جس طرف بھی منہ کرو وہاں اللہ کی رضا موجود ہے‘‘ اوریہی کعبہ حقیقی ہے کیونکہ نماز حضور قلب کے بغیر نہیں ہوتی۔
تکبیرۃالاحرام باندھنے کے بعدپھر اجتہاد جائز نہیں۔ لیکن دوران نماز کسی بھی سبب سے قبلے کا رخ متعین ہو نے کا یقین ہوجائے تو اس جانب رخ موڑنا جائز ہے۔ تاہم نماز کو دہرانا افضل ہے۔ نماز کے دوران اجتہاد ثانی کے ذریعے قبلہ رخ تبدیل کرنا جائز ہے ۔ اس بیان سے بھی قبلہ کا تعین نہ ہو اور نہ ہی زوال کے سائے کی ابتداء معلوم ہواتو کعبہ (دام اللہ برکتھا)سے دور شہروں کے اہل اسلام کے لیے ظہر کی ابتدائی وقت معلوم کرنے اورسمت قبلہ کے تعین کے لیے دائرہ ہندیہ کا جاننا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں دائرہ ہندیہ کے بغیر متحقق نہیںہو سکتے۔