{۲۰}بَابٌ فِیْ حَدِّ السَّرِقَۃِ چوری کی حد کا بیان


اللہ تعالیٰ فرماتا ہےچورمرداور عورت کے ہاتھوں کو کاٹو یہ ان کی ناجائز کرتوت کی جزاء اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے عبرتناک سزاہے اور اللہ غلبہ والااور حکمت والاہے ۔

اگر کوئی بالغ،عاقل شخص کسی محفو ظ مقام سے چوتھائی دینارکی قیمت کی کوئی چیز چوری کرے تو حاکم پرواجب ہے کہ اس کادایاںہاتھ کلائی سے کاٹ ڈالے چاہے ہاتھ صحیح ہویا نہ ہو اوراسکا گرم تیل وغیرہ سے علاج کرے تاکہ ضائع نہ ہو۔

ہاتھ کاٹنے کا حکم ثبوت سے مشروط ہے
ہاتھ کاٹنادوعادل افرادکی گواہی یا اپنے خلاف چور کے دو دفعہ اقرار سے ثبوت کے بعد ہی جائز ہوگا ۔ ہاتھ کاٹنے کے بعد اگر وہ دوسری بار چوری کرے توبائیں پائوںکاٹ ڈالنا واجب ہے۔ اگر تیسری بار بھی چوری کرے تو ہمیشہ کیلئے قید کرنا واجب ہے۔ محفوظ مقام کی صورت عموماًعرف بلد سے پہچانی جاتی ہے یعنی مضبوط مکان یا کسی کی محافظت میں ہو۔

چوری جن میں سزا نافذ نہیں ہوتی
اگرمیاںبیوی میں سے کوئی دوسرے کامال یاوالدین اولاد کامال یا اولاد والدین کا مال چوری کرے یا کسی محرم کامال چوری کرے توہاتھ کاٹنے کاحکم نہیں،نہ ہی ہاتھ کاٹنے کا حرام مال کی چوری کرنے میں ہے۔ مشترکہ مال میں سے چوری کرنا، جس مال میں اسکا حق ہو اسے چوری کرنا ، آقا کے مال سے چوری،باغوںکے درختوںکے پھلوں اور سبزی جات کی چوری کرنے میںبھی ہاتھ کا ٹنے کاحکم نہیں ہے۔ چور پر مسروقہ مال کا واپس کرنا واجب ہےبشرطیکہ وہ ضائع نہ ہوا ہو۔اگر ضائع ہوچکاہوتو اس کی قیمت اداکرے۔

بچے اور پاگل کی چوری
اگر کوئی بچہ چوری کرے تو اس کیخلاف تا دیبی کارروائی اور پاگل چوری کرے تو اس کو ڈرانا واجب ہے۔ہنر والے لوگ اگر ظالموں کیلئے مجبورا ًکام کرتے ہوں اور انہیںاجرت کی ادائیگی سے انکار کیا جاتا ہو اور وہ اپنی اجرت کی مقدار کے برابر چوری کرے توان پرکوئی چیز واجب نہیں۔چوری کی حد میںمرد عورت اور آزاد وغلام کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

ڈاکہ زنی
جنگجو چور جو مسلح ہو اور مسلمانوں کو ڈراتاہو،جنگ اور رہزنی کے ذریعے چوری کرتا ہو۔ امام پر اسے روکنا، بے دخل کرنا، بھگانا یا گرفتارکرناواجب ہے۔اگر وہ گرفتاری سے قبل توبہ کرے اور وہ کسی کو قتل بھی کرچکا ہو یا مال بھی اٹھا چکا ہو پھراس کے بعد توبہ کرے توامام کیلئے جائز ہے کہ ان دونوںکایا ایک کامطالبہ نہ کرے،بشرطیکہ اس کی توبہ حقیقی ہواور وہ اپنے کئے پر پشیمان ہو اور پھر یہ کام دوبارہ نہ کرنے کا پکا ارادہ رکھتا ہواور وہ جانتا ہو کہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں اس کے ایسے افعال اس کیلئے ہلاکت کاباعث اور عذاب آخرت کاسبب ہیں۔

اگر امام اسے توبہ سے قبل گرفتار کر ےاوروہچوری کر چکا ہوتو اس کادایاں ہاتھ اور بایاںپائوںکاٹ ڈالے اور ان دونوں کوداغ دے ۔ اگر اس نے قتل کیا ہو تو اسے سولی پر لٹکا دیا جائے۔ اگر اس نے چوری نہ کی ہو نہ ہی کسی کو قتل کیا ہو اور گرفتار ہوجائے تو امام کو اس پرتعزیر ، ملک بدری ، قیدیا کسی مصلحت والی کارروائی کا اختیار ہے۔ سولی پرتین دن سے زیادہ لٹکائے نہ رکھے۔ پھر اسے اتارکر غسل اور کفن پہنائے اور نماز جنازہ پڑھ کردفن کردے ۔

دفاعی تدابیر اختیار کرنا واجب ہے
اپنے آپ سے،اپنے عیال،اولاد،محارم، مال، مظلوم مسلمان،جانوراور دیگر محلوقات خدا کااپنی قدرت اور اس کی ضرورت کے مطابق بات چیت کرکے مدد طلب کرکے، فریاد کرکے،مارپیٹ کرکے یاجنگ کرکے دفاع کرنا واجب ہے۔اگر مجبوری کی صورت میںدفع کرنے والا کسی دفع کے قابل چیز کوقتل کردے تو وہ ضامن نہیںہوگا۔

حملہ آور اگر جانور ہو
اگر حملہ آور جانور یاحیوانوںمیںسے ہواور اس کے قتل کے سوااسے روکنا ممکن نہ ہو تو دفع کرنیوالے پراس کاقتل واجب ہے اور وہ ضامن نہیں۔ اگر روکنا آسان ہو پھر بھی اسے قتل کرے تو ضامن ہوگا۔ اگر کوئی کسی انسان کے ہاتھ پر چک کاٹے اور وہ اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچے اور کاٹنے والے کے دانت گرجائے توکاٹ کا شکار شخص دانتوں کا ضامن نہیں ہو گا۔ اگر دوجنگجو میں سے ایک دفاع کا دعویٰ کرے اور دوسرا اس کو قبول نہ کرے تودفاع گواہ یا قسم سے ہی ثابت ہوگا۔