{۲۸) بَابُ الصُّلْحِ صلح کا بیان


اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ’’صلح اچھی چیز ہے ۔‘‘رسو ل اللہ ﷺنے فر ما یا دومسلما نوں کے درمیا ن صلح کرنا درست ہے سوائے یہ کہ کسی حر ام کوحلا ل یا کسی حلال کو حرام قرار دیا جائے ۔

صلح کہاں جائز ہے ؟
صلح نکاح،علیحدگی،خر یداری،جنگ اورآپس کے جھگڑوں وغیرہ میں ایک جا ئز اور مشہو ر معاہدے کا نام ہے مگر صلح اس وقت درست نہیں جب کسی حلال کو حر ام یا حرام کو حلا ل بنا دیا جائے مثلاً کسی بے گنا ہ نفس کو قتل کرنے کی صلح یا کسی آزاد کو غلام بنانے یا کسی آزاد بالغہ اور عا قلہ عورت کی رضامند ی کے بغیر اسکے نکا ح، یا شراب نو شی کے ارتکاب یا نیک لوگوں کی صحبت سے دور رہنے یا فاسقوں سے میل جول رکھنے یا شراب کو تحفہ میں دینے یا کسی گنا ہ کے قبول کرنے کیلئے صلح کرنا وغیر ہ بےشک ان برائیوں کے بارے میں صلح کر نا جائز نہیں پس یہ صلح دنیا میں نقصان اور آخر ت میں پشیمانی کا باعث ہے پس ذہانت اور دیندار شخص کیلئے لازم ہے کہ صلح کے نفع نقصان اور انجام کیلئے دقت نظر سے کام کرے۔
صلح صر ف ایک جا نب سے و قوع پذیر نہیں ہو تی بلکہ طرفین کی جا نب سے منعقد ہو تی ہے اور جب تک طرفین اس کے ختم کرنے پراتفا ق نہ کر یں صلح باقی رہتی ہے ۔صلح دشمنی یا بغیر دشمنی دونوں میں جائز ہے ۔

درست صلح کونسی ہے؟
صحیح صلح وہ ہے جو دو با لغ عاقلوں میں واقع ہو اور اسکے مطالبے سے اقرا ر لازم نہیںآتا ۔صلح اقرار ،انکار اور اُن دونوں کے با رے میں خامو شی کی صو رت میں بھی جا ئز ہے۔ تاخیر ی کام جلد اور جلد والاکام تاخیر سے کرنے اور کم کے مقابلے زیادہ اور زیادہ کے مقابلے میں کم کیلئے صلح جائز ہے۔ بشر طیکہ طرفین راضی ہوں اور اس سے کو ئی سود لازم نہ آئے ۔
اگر دو شریک افراد اس با ت پر صلح کر لیں کہ اصل مال ایک کا ہو گا اور نفع و نقصان دوسر ے شریک کا ہو گا تو یہ صلح درست ہے۔ایک طرف سے دوسر ی طرف نکلنے والی گلیوں میں روشند ان لگانا ، چھجہ لگانا ،نئے دروازے کھولنا ، چھت لگانا اور پر نا لے لگانا جا ئز ہے بشرطیکہ وہا ں سے گزرنے والوں کیلئے باعث تکلیف و ضر ر نہ ہوں لیکن جن گلیوں سے گزرنا منع ہو وہ گلی ایک طرف سے بند ہو تو اس گلی والوں کے ساتھ مصلحت اور ان کی رضامند ی کے بغیر نئے دروازے کھولنا ، نئے دریچوں کا لگانا ،روشند ان لگانا،پر نا لے نصب کرنا ،نا لیاں بنا نا اور کھڑ کیا ں کھولنا جا ئز نہیں ۔

گلی والے کون ہیں؟
گلی کو چوں کے مالک وہ ہیں جو اس گلی میں دروازے کے بھی مالک ہوں صرف دیو ار کے مالک ان گلی والوں میں شامل نہیں ہوتے۔ اگر کوئی کسی گلی میں چھت لگائے تو لازم ہےکہ وہ اتنی بلند ہو کہ گھوڑا سوار یا اونٹ سوار محمل کے بغیر یا محمل کیساتھ وہاں سے گزرنے میں کو ئی تکلیف نہ پہنچے، کسی ایک کے ساتھ مختص کی گئی دیو ار پراسکی اجا زت کے بغیر کسی کو اس پر چھت ڈالنا یا اس پر لکڑی وغیر ہ رکھنا جا ئز نہیں ہے۔

مشترکہ دیوار اور چھت کا مسئلہ
دو پڑوسیوں میں مشتر کہ دیوار جس کا ہر رخ مکمل طور پر ایک پڑوسی کی طرف ہو اور وہ دوسر ے رخ تک تصرف چاہتا ہو تو اسے پڑ وسی کی اجا زت ضر وری ہو گی۔ اوپر اور نیچے منزلوں کے رہائشیوں کی مشترکہ چھت مشترکہ دیو ار کی طر ح ہے لہٰذا کسی ایک کو اس چھت میں سوراخ ،میخ گاڑنا اوپریا نیچے رہائش پذیر پڑوسی کی اجا زت کے بغیر جا ئز نہیں ۔اگر کوئی مشترکہ چیز گر جا ئے اور کوئی ایک تعمیر کا ارادہ کر ے تو اس کو دوسرے کو بھی تعمیرپر مجبورکرنیکا حق نہیںاور نہ ہی دوسرا شریک تعمیر روک سکتا ہے۔ جو وہ دوبا رہ تعمیر کریگا وہ اس کی ملکیت ہوجائےگی اور اگر وہ زمین مشترکہ ہو تو دوسرے شریک کو صرف زمین سے حصہ ملے گا۔

صلح کی مختلف صورتیں
جن چیزوں کا عوض لینا جائز ہوان سب میں صلح بھی جائز ہے۔ پڑ وسیوں کے درخت کی شاخیں اگر اس کی ملکیتی حدود سے باہر نکل آئیں ‘اس کی حدود میں داخل ہوں اور انہیں موڑنا ممکن نہ ہو توپڑوسی کو انہیں کاٹنے کا حق ہےیا رسم کے مطا بق دونوں مصالحت کرے اور انہیں نہ کا ٹے۔ جن چیزوں کا عوض لینا جائز نہ ہو وہاں صلح جائز نہیں مثلاً کسی عورت سے اقرار زوجیت کی صلح کرنا جبکہ دونوں میں نکاح نہ ہو۔یا کسی گواہ کو گواہی نہ دینے کی صلح جبکہ وہ گواہی میں سچا ہو اگر کسی شخص پر حد تہمت کی حد واجب ہو گئی ہو تو جب تک الزام زدہ شخص معاف نہ کر ے اس وقت تک صلح جائزنہیں ہے۔ حدود کے دیگر معاملا ت میں مثلاً شراب نو شی اور زنا کا ری وغیر ہ میں صلح اور معافی کبھی بھی جا ئز نہیں ہے ۔
اگر دو افرادکسی ملکیتی دیو ار پر دعویٰ کریںاور وہ دونوں کے قبضے میں ہو تو ثبو ت کےبغیر وہ کسی کی ملکیت ثابت نہیں ہو گی اگر کسی کے پا س ثبوت نہ ہو تو دیو ار اس شخص کی ہو گی جس کا گھر اس دیو ار سے متصل ہو اور وہ قسم بھی کھا ئے اگر دیوار دونو ں کی ملکیتوں سے متصل ہو یا الگ ہو اور کسی نے بھی اس پر اختصاص ثابت کرنیوالی کو ئی چیز نہ رکھی ہو تو اگر ایک قسم کھائے اور دوسرا انکا ر کرے تو دیو ار قسم کھا نیوالے کی ہوگی اور اگر دونو ں قسم کھا ئے یا انکار کرے تو فیصلہ دونوں کے حق میں ہو گا ۔ جس گھر کے اوپر کوئی کمر ہ ہو تو مکا ن کی چھت مشترکہ ہو گی کیو نکہ یہ اوپر والے کیلئے زمین اور نیچے والے کیلئے آسمان کی مانند ہے ‘گواہی یا قسم کے بغیر کسی کی ملکیت نہیں ہوگی ۔