{۴۴} بَابُ اِحْیَائِ الْمَوَاتِ بنجر کی آبادکاری کا بیان


رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’جس نے کسی بنجر زمین کو آباد کیا وہ اسکی ملکیت ہو گئی‘‘ ؂

(۱) مسند احمد ابن حنبل ج۹ص۴۷۲)
بنجر کی اقسام : ۱۔ زمین
بنجر کی چار اقسام ہیں ۔پہلی قسم زمینیں ‘ بنجر زمین وہ ہے جو کسی کیساتھ مختص نہ ہو نہ ہی لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوں اور وہ زمین پانی کے منقطع ہوجانے یا اس پر پانی زیادہ چڑھ آنے یاسیم زدہ ہونے یا کسی اور وجہ سے بے کارپڑی ہوئی ہوتو ایسی زمین امام کیساتھ خاص ہے ۔ اگر کوئی مسلمان اُس زمین کو آباد کرے تو وہ اس زمین کامالک بن جاتاہے چاہے اُس نے امام سے اجازت لی ہو یا نہ لی ہو۔

جن چیزوں سے اختصاص لازم آتا ہے
چھے چیزوں سے اختصاص لازم آتا ہے۔
۱۔ تعمیر کرنا
پہلا آباد کرنا، ہر آباد چیز اسکے مالک کی ہے اگر پرانی ہو تو بھی اسکی ملکیت سے نکل نہیں جاتی مگر یہ کہ وہ زمانہ جاہلیت کی آباد چیزہو اور مسلمانوں نے غنیمت میں حاصل نہ کی ہو کیونکہ دوبارہ آبادکاری پر ملکیت آجاتی ہے۔ اگر بنجر دار حرب (کافر کی سرزمین)میں ہوتو کفار کو آباد کاری کاحق ہے۔ مسلمانوں کا حکم بھی یہی ہے بشرطیکہ مسلمانوں کووہاں سے بے دخل نہ کیا گیا ہو ایسی زمین آباد کاری سے ملکیت میں آجاتی ہے۔ آباد کار مسلمان ہویا کافر اسکا مالک بن جاتا ہے۔ داراسلام میں صرف مسلمان ہی اسکا مالک بن سکتا ہے اور جس چیز کا کوئی مالک نہ ہو تو اسکا مالک امام ہے۔ گھر کی قریبی زمینوں  کو آباد کرنا جائز ہےبشرطیکہ وہ لوازمات خانہ نہ ہوں۔ لوازمات خانہ میں پانی گرانے کی جگہ وغیرہہیں۔نہ ہی وہ اسکا حریم ہو اور کسی چیز سے مکمل استفادہ کیلئے ضروری مقامات کو حریم کہاجاتا ہے۔

۲۔ قبضہ کرنا
اختصاص کی دوسری صورت قبضہ کرناہے ۔پس ہروہ بنجر زمین جس پرکسی مسلمان کا قبضہ ہو اس کو آباد کرنا صاحب قبضہ کے سوا کسی دوسرے کے لئے صحیح نہیں ہے۔

۳۔ آبادی کا حریم
تیسری صورت آبادی کا حریم ہونا ہے ۔وہ یہ ہیں۔لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ،گھوڑے دوڑانے کی جگہ ‘ اونٹ رکھنے کی جگہ کوڑا کرکٹ اور راکھ پھینکنے کی جگہ ‘ مٹی پھینکنے کی جگہ ‘ جانوروں کی چراگاہ ‘راستے اور ہر وہ جگہ جو ان کے مضافات شمار ہوتی ہے۔ پانی، کنواں اور چشمے کا حریم ۔

حریم کا تعین
جوکوئی اپنی ضرورت کے مطابق کسی مباح زمین پر نیا راستہ بنائے تو اس کی حد حریم سات گزہے ۔ پس اس کے ساتھ والے کوچاہئے کہ اس قدر اس کی حدودسے دوررہے ۔ جس نہر سے پانی پیا جاتا ہو اس کا حریم مٹی پھینکنے کی حدوداور دونوں اطراف کی گزرگاہ ہے۔اونٹوں کے کنویں کا حریم چالیس گز رہٹ والے کنویں کی حریم ساٹھ گز ، نرم زمین کے چشمے کا حریم ایک ہزار گز اور سخت زمین کے چشمے کا حریم پانچ سوگز ہے۔
دیوار اگرٹوٹ جائے اور گر جائے تو اس کا حریم اسکی مٹی گرانے کی جگہ کی مقدارہے ۔گھر کو گرادیا جائے تواسکا حریم مٹی پھینکنے کی جگہ ‘ پر نالوں سے پانی اور چھت سے ہٹائی جانیوالی برف گرانے کے مقامات اور دروازے کی جانب سے گزرنے والی گزرگاہیں ہیں ۔یعنی اگر کوئی بنجر زمین کو آباد کرنا چاہے تو کسی حریم سے تعرض جائز نہیں۔حریم کے علاوہ دیگر مقامات آبادکاری کی قابل ہوتی ہیں ۔
تنگ مقامات پرتعمیر شدہ املاک جس طرح اکثر شہروں میں ہیں ان کاحکم عمارتوں کی کثرت کی وجہ سے ایسا نہیں۔ چنانچہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے گھر کا کوئی حریم نہیں۔ سب کو ملکیتی جگہ پر مرضی سے تصرف کاحق ہے ۔اگر وہ گھر کو معمول سے ہٹ کرلوہار خانہ ،دھوبی گھر ، دھوبی گھاٹ یاغسلخانہ بنادے تو اس کے پڑوسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسے باز رکھے۔ اگر کوئی اپنی آباد کردہ زمین پر پودالگائے اور شاخیں اور جڑیںمباح زمین کی طرف بڑھ جائے تو کسی کو اسے آباد کرنا جائز نہیںاور پودا لگانیوالااس کام سے روکنے کا حق رکھتا ہے۔

۴۔ مقامات مقدسہ
چوتھی صورت عبادات کیلئے معین مقدس مقامات مثلاً میدان عرفات اور دیگر مقدس مقامات ان کی نہ کم مقدار قابل آباد کاری ہے اور نہ زیادہ۔

۵۔ چار دیواری
پانچویں صورت چار دیواری ہے یعنی مٹی یاپتھر کی دیوار یااطراف کا احاطہ کرنیوالی چھوٹی نہر یا چاروں طرف خندق کھود کریا اس کے اطراف میں مٹی کا دائرہ بنا کر اس مقام پر نشان لگائے ۔ان صورتوںسے اختصاص ثابت ہوجاتاہے۔
انہیں آبادکئے بغیر ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔اگرامام اسے کسی کو منتقل کردے تودوسراشخص اس کازیادہ حقدار ہوگا۔ اگر وہ اسکو بیچنا چاہے تودرست نہیں کیونکہ ابھی وہ مالک نہیں بنا (۱؎)اگرنشان لگانیوالااسے بیکار چھوڑ رکھے تو امام اسے آبادکرنے یا خالی کرنے پرمجبور کرے۔ اگر وہ ان میں سے کوئی بھی نہ کرے توامام اس کو بے دخل کردے اگرکوئی شخص ا نکو آباد کرناچاہے تواذن امام کے بغیر جائز نہیں۔

۶۔ امام کے مختصات
چھٹی وہ زمینیں جوامام نے اپنے لئے مختص کر رکھی ہیں۔(۲) اگر چہ ایسی بنجر زمین نشان سے خالی ہی کیو ں نہ ہو۔مثلاً نبی ﷺ نے بلال ابن حارث عتیق کے باڑے کو اپنے لئے مختص فرمایاتھا۔ امام کیلئے ان مقامات کو اپنے لیے مختص کرنا جائز نہیں جن کی آبادکاری جائز نہ ہو مثلاً ظاہری معدنیات۔ تاہم امام کیلئے ایسے مقامات کو محفوظ قرار دینا جائز ہے۔
یعنی لوگوں کو اس محفوظ شدہ مباح زمین پر چرانے سے روکنا تاکہ وہ جگہ دیگر مسلمانوں کے سواصرف امام کیساتھ مختص ہوجائے جس طرح رسول ﷺنے بقیع کے مقام کو محفوظ قرار دیا تھا ۔ امام کیلئے کسی زمین کو اپنے لئے یاصدقے کے جانوروں یاگمشدہ چوپایو ں کیلئے مختص کرنا جائزہے ۔امام کے علاوہ کسی اور کیلئے مباح زمین کواپنے لئے مختص کرنا جائز نہیں نہ ہی امام کی مختص شدہ زمین توڑنا جائز ہے۔ اگرمحفوظ قرار دینے کی صورت کسی مخصوص مدت کیلئے ہوتو مدت گزر جانے کے بعد مسلمانوں کوا س جگہ کی آباد کاری جائز ہے۔