{۴۶} بَابُ الْوُقُوْفِ وَالصَّدَقَاتِ وقوف اور صدقات کا بیان


رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے ’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس سے اس کے اعمال جداہوجاتے ہیںسوائے تین کے۔ اس کیلئے دعا کرنےوالی نیک اولاد، وہ علم جس سے لوگ اسکی موت کے بعد فائدہ اٹھائیں اور صدقہ جاریہ۔

وقف کے ارکان:
کوئی شک نہیںکہ وقف صدقات جاریہ میں سے ہے۔ وقف ایسا عقد ہے کہ جس کا نتیجہ اصل مال کو محفوظ کرتے ہوئے منفعت کا عام کرناہے۔ اس کے چار ارکان ہیں۔

۱۔ معاہدہ
پہلا رکن معاہدہ ہے ۔اسکی صورت یہ ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں نے وقف کیا ‘میری زمین وقف ہے ‘ میںنے اس کو قید کیا ‘ میںنے اس کو لٹکا دیا ‘ میںنے اس زمین کو صدقہ کردیا کہ اس کا بیچنا اور ہبہ کرنا حرام ہے یا دوسری ایسی عبارتیںجو صریحاً وقف پر دلالت کریں۔ اگر ایسی صریح عبارت نہ ہو تواسکی نیت پر عمل کیا جائیگا اور اسکی تصدیق کی جائیگی ۔

۲۔ مال وقف
دوسرا رکن وقف کی ہوئی چیز ہے۔ اس کی چار شرائط ہیں: (۱)یہ کہ وہ کوئی معین چیز ہو۔ ( ۲) یہ کہ وہ اس کی ملکیت ہو۔ (۳)یہ کہ وہ نفع بخش ہو۔ (۴)یہ کہ منفعت کے حصول کے ساتھ یہ باقی رہنے والی چیز ہو ۔
ان شرائط کی روشنی میں قرض یا کسی غیر معین چیز ‘ فائدہ اٹھانے کیساتھ ختم ہونیوالی کسی خوراک ‘ کسی اور کی ملکیت کو وقف کرنا درست نہیں نہ ایسی ضائع چیز کا وقف درست ہے جو قابل انتفاع نہ ہو ‘ مثلاً خنزیر ۔ مشترکہ چیز کا وقف درست ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے معین چیز ہے۔ شکار،چاردیواری اورکھیتی کے محافظ کتے کو وقف کرنا بھی درست ہے ۔

۳۔ وقف کنندہ
تیسرا رکن وقف کنندہ ہے۔ اس کیلئے تین شرائط ہیں: (۱)بالغ ہونا۔(۲)عاقل ہونا۔(۳)معاملات میں تصرف کامجازہو یعنی یہ کہ وکسی پابندی کا شکار نہ ہو۔

۴۔ رکن موقوف علیہ
چوتھارکن موقوف علیہ ہے (یعنی جس کیلئے وقف کیا جائے) اس کی چارشرائط ہیں:(۱)یہ کہ وہ موجود ہو۔(۲)یہ کہ وہ کسی بھی اعتبار سے معین ہو ۔(۳)یہ کہ وقف کی چیز اس کے لئے حرام نہ ہو ۔(۴ )یہ کہ وہ کسی کا غلام نہ ہو، لہٰذ ا اس شخص کیلئے وقف کرنا درست نہیںجوابھی پیدا ہواہی نہ ہو مگر تبعیت (بعد میں آنے والی اولاد ) کی صورت میں جائزہے مثلاًاگر کوئی کسی کی موجود ہ اولاد پر پھر اولاد کی اولاد پر اس کے بعد اس کی اولاد کی اولاد پر وقف کرے ۔چنانچہ نسب کی بنیاد پر وقف کرنادرست ہے۔ مثلاً اولاد، اسی طرح فقراء علماء، مسلمانوں، مومنین، نیکوکاروں، مسافروں، پردیسی یا اجنبی، مریضوں کے علاوہ نیک کاموںمثلاًپُل، مساجد، مسافرخانوں، تالابوں کی تعمیر کیلئے بھی وقف کرناجائز ہے ۔
چنانچہ کافروں، ظالموں، علی الاعلان گناہ کرنے والے فاسقوں پر وقف کرنا صحیح ہے نہ ہی واضح طور پر بے دین اور بدعتیوں پر وقف کرنا جائز ہے اور جو بھی ان ملعون گروہوں کو وقف کرےگا وہ ظالمین میں سے ہوگا۔ ان پر وقف کرنا درست نہیں
نہ ہی ان کے گھروں، عبادتگاہوں مثلا یہودی عبادت گاہوں، گرجائوں پر وقف جائز ہے۔ اسی طرح ان اہل بدعت کے مقامات کیلئے وقف جائز نہیں جو فسق و فجور، ترک نماز و روزہ میں غرق رہتے ہیں اور اس کیساتھ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ فقیروں میں سے ہیں مگر یہ کہ ان میں سے جو تنگدست ہوں۔ پس حقیقی فقر وہ ہے جس پر نبی رحمت ﷺ نے فخر کیا ہے اور یوں فرمایا کہ فقر تو میرا فخر ہے۔ یہ وہ حقیقی فقر ہے جس کا ظاہر دنیاوی مال و متاع سے دور رہنا اور باطن غیر اللہ کو چھوڑ کر اللہ کی وحدانیت سے منسلک رہنا ہے۔ اہل بدعت اس فقر سے محروم ہیں چنانچہ ان کی اکثریت کیلئے نہ دنیا میں کوئی حصہ ہے اور نہ آخرت میں ۔ انہوں نے دنیا میں نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ یہی تو کھلا خسارا ہے۔