{۴۸} بَابُ السُّکْنٰی سکونت اختیار کرنے کا بیان


سکنیٰ کیا ہے؟
یہ ایک معاہدہ ہے جس میں قولاًیا فعلاً ایجاب و قبول اور قبضہ لازمی ہے۔اس کا فائدہ یہہے کہ ملکیت مالک کے پاس رہے ، منفعت سے فائدہ اٹھانے کا اختیار کسی اورکو دیا جائے۔ اس چیز کی نسبت میں اختلاف کے باعث نام بھی مختلف ہیں۔ اگر عمر کے ساتھ قید کرے تو اُسے عمر یٰ کہتے ہیں۔ اگر سکونت کیساتھ جڑا ہو اُسے سکنیٰ کہتے ہیں ۔ اگر مدت کیساتھ نسبت دی جائے تواسے انتظارکی وجہ سے رقبیٰ کہاجاتاہے ۔
ایجاب یہ ہے کہ مالک یہ کہے کہ میں نے تمہیں سکونت دیدی ،یا عمری کا معاملہ کیا،تمہیں گھر یا زمین میری عمر یا سال یا اتنی مدت کیلئے رقبیٰ کا معاملہ کیا ۔اگرکہے کہ اس گھر میں سکونت میری بقا یا میری زندگی تک ہے تو یہ درست ہے ،اگر وہ کہے کہ تیری عمرتک ، تو مقیم شخص کی موت پر گھر مالک کو لوٹے گا اگر کہے کہ میری زندگی تک،تو مالک کی مو ت کے بعد وارثین کو لوٹے گا اگر کہے میں نے تیری اور تیرے بعد والے کی عمر تک گھر میں رہنے دیا تو بعد والے کی مدت ختم ہوتے ہی گھر مالک کو واپس ہوجائیگا۔اگر مدت معین نہ کرے تو مالک کیلئے جب چاہے نکال دینے کا اختیار ہوگا۔
زمین، حیوان اور اثاثوں وغیرہ میںجس کا وقف صحیح ہو اسے عمر ی کا معاملہ کرنا درست ہے۔ اگر مالک سکنی کا وقت معین کرے تو مقررہ مدت سے پہلے رجوع کرنا جائز نہیں۔ اگر مالک وقت معین کرے یا مطلق سکونت دیدے تو ساکن خود، اہلخانہ اور اولاد کو مقیم ہونا جائز ہے۔کسی اور کو مقیم کرنا جائز نہیں، تاہم معاہدہ کے وقت شرط ہو تو جائز ہے۔مالک کی اجازت کے بغیر کسی اور کومکان اجرت پر دینا جائز نہیں ۔ اگر کوئی اپنے گھوڑے کو راہ خدا یا غلا م کو اللہ کے گھر مثلاًکعبہ یا دیگر مساجد یا متبرک مزاروں کی خدمت کیلئے وقف کردے تو لازمی کرنا ہوگا اور جب تک اصل چیز باقی ہو اس میں تبدیلی جائز نہیں۔ اگر فقراء یا علماء میں سے کسی کیلئے کوئی چیز وقف کرے اور وقت معین کردے تو اسے وقت سے پہلے رجوع کرناجائز نہیں اور اگر وقت معین نہ ہو تو اس کیلئے جب چاہے رجوع کا اختیار ہوگا ۔