{۵۱} بَابُ الْفَرَائِضِ وراثت کا بیان


اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ ’’اللہ تمہیں اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کیلئے دوعورتوں کا حصہ جتنا ملے گا۔ اگر خواتین دو سے زیادہ ہوں توانہیں ترکہ کا دو تہائی ، اگر ایک ہوتو اسکوترکہ کا نصف جبکہ والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ میت کی کوئی اولاد ہو۔ اگراس کی کوئی اولاد نہ ہو اور والدین ہی وارث ہوں تو ماں کیلئے ایک تہائی حصہ ملے گا۔ اگر اس کا کوئی بھائی ہوتو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔یہ حصے وصیت یا قرضوں کی ادائیگی کے بعد ملیں گے۔تم نہیں جانتے کہ آباء اور اولاد میں سے کون نفع پہنچانے میں تمہارے زیادہ قریب ہے یہ اللہ کے مقرر کردہ حصے ہیں، بے شک اللہ خوب جاننے والا حکمت والاہے۔
تمہیں اپنی بیویوں کے ترکے کا نصف حصہ ملے گابشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو۔اگر کوئی اولاد ہوتو تمہیں وصیت اورقرض چکانے کے بعد ایک چوتھائی حصہ، تمہا رے ترکے سے ان کوایک چوتھائی حصہ ملے گا بشرطیکہ تمہا ری کوئی اولاد نہ ہو۔ اگر تمہاری کوئی اولاد ہوتوتمہا ری وصیت اورقرضے اداکرنے کے بعد ترکے سے ان کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ اگرکسی مرد کا وارث کلالہ(۱) کی صورت میں ہو یا عورت اور اس کاکوئی بھائی یابہن ہوتو ان میںسے ہر ایک کوچھٹا حصہ ، اگروہ اس سے زیادہ ہوں تووہ سب وصیت اور قرضے کی ادائیگی کے بعد کسی کو نقصان پہنچائے بغیر تہائی حصے میں شریک ہونگے یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ علیم اور برد بار ہے۔یہ اللہ کی حدود ہیں جو اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرے تواس جنت میں داخل کیا جائیگا جہاں نہریںبہتی ہیں وہ ہمیشہ اس میں رہینگے اور یہ تو بڑی کامیابی ہے اورجو اللہ اور اسکے رسول ﷺکی نافرمانی کرے اور حدودسے تجاو ز کرے تواسے آگ میں ڈالا جائیگا ‘وہ ہمیشہ رہے گا اور اسکے لئے درد والا عذاب ہے ۔

میت کا کفن دفن مقدم رکھا جائے
جب کوئی دنیا سے آخرت کی طرف انتقال کرجائے اور وہ مالدار ہوتو اسی کے مال سے کفن کا انتظام مقدم رکھاجائیگا۔پھر مقروض ہو توقرض ادا کیا جائے پھر اسکی وصیت کے مطابق اس کے مال کا تہائی یا اس سے کم حصہ ادا کیا جائے گا ۔اس کی تکفین یا تجہیز ،قرضوں کی ادائیگی اور وصیتوں کو پورا کرنے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ اسکے ورثا کا حق ہے ‘ اگر اس کا وارث نہ ہو تو مال کا تعلق مسلمانوں کے بیت المال سے ہو جاتاہے۔

کون حصہ سے محروم رہےگا؟
اگروارث کافر ہو،ضرر رساں ہو،جان بوجھ کر قتل کرنے والا ہو یا اسکا کوئی مستقل غلام ہو یا مدبر ( ۲ ) ، مکاتب( ۳) یا ام ولد (۴) ہو تو اس کے ترکے سے ان کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
اگر مرنےوالا کافر ہو تو کافر ہی وارث ہونگے بشرطیکہ ان میں کوئی مسلمان وارث نہ ہو،اگر کوئی مسلمان وارث ہو تو وہی کل ترکہ کا وارث ہوگا اور کوئی کافر شریک نہیں ہوگا۔

وراثت میں ملت کا عمل دخل
اگر کافر وارثین مختلف ملتوں سے ہو ں تو کسی بھی ملت والے کو دوسری ملت کی میت سے وارثت نہیںملے گی۔جیساکہ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ دو ملتوں میں وراثت نہیںچلتی ‘آتش پرست ہو‘ یہودی ہو یا نصرانی ‘ ستارہ پرست بھی شرعی احکام کے حوالے سے نصاریٰ کی طرح ہے ۔ تاہم مسلمانوں کو کافروں سے وراثت ملے گی لیکن وہ مسلمانوں سے وراثت نہیں پا سکتے۔