صفات باری تعالی پر اعتقاد


وَیَجِبُ اَنْ تَعْتَقِدَاَنَّ الصِّفَۃَ مِنَ الذَّاتِ کَالْوَاحِدِ مِنَ الْعَشَرَۃِ فَمَنْ قَالَ الْوَاحِدُ عَیْنُ الْعَشَرَۃِ صَدَقَ بِمَعَنَیْ اَنَّ الْعَشَرَۃِعَشَرَۃُ اَحَادٍ وَاِنْ خَرَجَتِ الْاٰحَادِ بِتَمَامِھَا مِنَ الْعَشَرَۃِلَمْ یَبْقَ مِنَ الَعَشَرَۃِ شَیْ ٌٔ فَیُعْلَمَ اَنَّ الْوَاحِدَ عَیْنُ الْعَشَرَۃِوَمَنْ قَالَ اَنَّ الْوَاحِدَ غَیْرُ الْعَشَرَۃِ صَدَقَ بِمَعَنَیْ اَنَّ مَفْھُوْمَ الْوَاحِدُ غَیْرَ مَفْھَُوْمُ الْعَشَرَۃِ وَمَنْ قَالَ الْوَاحِدُ لَاعَیْنُ الْعَشَرَۃِ مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ وَ لَاغَیْرُالْعَشَرَۃِ مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ صَدَقَ لِاَنَّہُ غَیْرُخَارِجِ مِنَ الْعَشَرَۃِ فَلاَ یَکُوْ نُ غَیْرُہُ وَلاَ یَکُوْنُ تَمَامَ الْعَشَرَۃِ فَلَا یَکَُوْنُ عَیْنَہ‘ فَیُعْلَمَ اَنَّ الصِّفَاتَ الزَّاتِیَۃَ مِنْ حَیْثُ مَجْمُوْعِھَا عَیْنُ الذَّاتِ حَقِیْقَۃً یَعْنِیْ اٰحِادُ الْعَشَرَۃَ مِنْ حَیْثُ مَجْمُوْعِھَا عَیْنُ الْعَشَرَۃِ لاَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھَا ۔
یہ اعتقاد بھی واجب ہے کہ اللہ کی صفات کی ذات سے نسبت اس طرح ہے جس طرح ایک کی نسبت دس سے ہے پس اگر کوئی کہے کہ ایک ہی دس کا اصل ہے تو وہ صحیح کہتا ہے اس طرح کہ دس تو دس مختلف اکائیو ں کا مجموعہ ہے، اگر یہی دس اکائیا ں مکمل دس سے نکل جائیں تو دس میں کوئی چیز نہ بچے گی پس ثابت ہو اکہ ایک دس کااصل ہے اگر کوئی کہے کہ ایک دس کاغیر ہے توبھی صحیح ہے اس طرح کہ ایک کا مفہوم وہ نہیں جودس کامفہوم ہے اگر کوئی کہ ایک ہر جہت سے دس کا اصل نہیں نہ ہی ہر جہت سے دس کا غیر ہے یہ بھی سچا ہے کیونکہ ایک دس کی تعداد سے خارج نہیں ہے پس وہ دس کا غیر نہ ہوا ۔اسی طرح صرف ایک سے دس مکمل بھی نہیں ہوتااس لئے ایک دس کا اصل بھی نہ ہو ا پس (اس مثال کے ذریعے )ثابت ہو ا کہ اللہ کی ذاتی صفات مجموعی طور پر حقیقت میں ذات ہی ہیں یعنی مجموعی طور پر دس کے اکائیو ں کی طرح ہیں نہ ہی ان میں سے ہر ایک ایسا نہیں ہے ۔