امامت پر اعتقاد کا بیان


نبوت اور امامت ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ چونکہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم ہو چکا ہے اب امامت و ولایت کا سلسلہ تاقیام قیامت جاری رہے گا اور جو تعلیمات نبوت و رسالت کے ذریعے اللہ تعالی نے مسلمانوں کے حوالے کیا ہے اس کی قیامت تک محافظت کی ذمہ داری حضور پاک کے علمی، ایمانی اور منصبی وارث کرینگے۔ یہ ہستیاں اول علی اور آخر مہدی علیہم السلام ہیں۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعداد بارہ جبکہ ائمہ اضافی کا سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ اولیاء کی تعداد کی کہیں تصریح ہیں۔
اس تعلق کی بناء پر یہاں امامت اور ولایت پر اعتقاد کی تفصیل میں نبوت ہی کی ذیل میں دی جارہی ہے

ویجب ان تعتقد ان الامامۃ علی نوعین حقیقیۃ و اضافیۃ و الحقیقیۃ الاتصاف بجمیع صفات الامامۃ صوریۃ کانت او معنویۃ وشرائطھا و ارکانھا اما شرائط الامامۃ فالذکورۃ والحریۃ والبلوغ والعقل
اس بات پر اعتقا د رکھنا واجب ہے کہ امامت کی دو قسمیں ہیں (۱) حقیقی (۲) اور اضافی حقیقی امامت وہ اما مت ہے جس میںامامت کی تمام صفات پائی جا تی ہو ں چایئے وہ صفات صوری ہو ںیا معنوی مع اس کے تمام شرالط اور ارکان بھی پائے جا تے ہیں شرائط امامت : امامت کی شرائط یہ ہیں ۱)مرد ہو نا ۔ ۲) آزاد ہو نا ۔۳) بالغ ہو ۔۴) عاقل ہو

امامت کی بنیاد
واصل الامامۃ الشجاعۃ والقریشیۃ وصفاتھا الصوریۃ السیادۃ المنصوصۃ والفاطمیۃ و العلم والتقوی والشجاعۃ والسخاوۃ
امامت کی بنیا د شجاعت اور قریشی النسب ہو نا ہے ۔ امامت کی صفات صوریہ ہیں۔ ۱) نص صریح کے ذریعے سید ہونا ثابت ہو ۔ ۲)اولافاطمہ سے ہو ۔ ۳)علم والا ہو ۔ ۴) پرہیز گار ہو (۵) شجاعت والا ہو (۶) سخاوت والاہو ۔

امامت کے ارکان
وارکانھا العلم الکامل لما قال علیہ الصلوۃ والسلام ’’الامام الضعیف ملعون ‘‘ یعنی من یحتاج الی غیر ہ فی امورالدین والسیادۃ الصحیحۃ والمملکۃ الفسیحۃ والولایۃ الصریحۃ
امامت کے ارکان یہ ہیں۔ ۱) علم کامل رکھتا ہو جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’دینی امور میں کسی اور کا محتاج مند امام اللہ کی رحمت ومعاونت سے دور ہے‘‘ (۲) سیادت صحیحہ کا مالک ہو (۳) وسیع مملکت کا مالک ہو (۴) صریحی طور پر ولایت کا مالک ہو۔

جناب مولا علی ؑکی امامت کی جامعیت کا بیان
ولم تجتمع تلک الصفات بعد علی علیہ السلام الی یومنا ھذا فی احد من الائمۃ فالامام الکامل الحقیقی من اتصف بھذہ الصفات ومن اتصف ببعض ھذہ الصفات فھو امام بقدر الذی اتصف بہ فکانت امامتہ اضافیۃ ولی علی ذکائک وثوق فتامل واعرف الا ئمۃ الماضین والباقین وفز فوزا عظیما۔
یہ تمام صفات جناب علی علیہ السلام کے بعدائمہ میں سے کسی امام میں جمع نہیں ہو ئیں پس مکمل اور حقیقی امام وہ ہے جو مذکو ر ہ صفات سے متصف ہو اور جو کوئی ان میں سے بعض صفات کا مل ہو وہ اسی مقدار کی مناسبت سے حقیقی امام ہوگا ا س کی امامت (علی علیہ السلام کی امامت کے مقابلے میں)اضافی ہوگی مجھے تمہاری ذہا نت پر مکمل بھروسہ ہے پس توخو د غور وفکر کر اور ماضی کے ائمہ اور آئند ہ کے ائمہ کی معرفت حاصل کر اور عظیم کامیابی کے حقداربن جا ۔