ہماری بعض کتابوں میں خلفاء کا تذکرہ موجود ہے کیا یہ ہمارے عقیدے کے خلاف نہیں ؟


پہلی بات شاہ سید محمد نوربخش کی کتاب “انسان نامہ” کے حوالے سے ہے جن کے بہت سارے نسخے بلتستان اور ایران کے کتابخانوں اور لوگوں کے پاس محفوظ ہیں ۔پیر طریقت سید عون علی مرحوم کے پاس موجود نسخہ اور آخوند ابراہیم کریس والے دونوں نسخوں کسی خلیفہ کا نام ہی نہیں ۔ اسی طرح ایران میں موجود اکثر نسخوں میں بھی یہ نام نہیں ہے ۔ موجودہ پیر طریقت صاحب نے فرمایا ہے : ہ مولانا حسنو آکر میرے پاس موجود نسخہ دیکھ کر گیا تھا جس میں خلفاء کا نام نہیں تھا مگر انہوں اپنی کتاب میں اس کا ذکر تک نہیں کیا اور ایک دو نسخوں کو سند بنا کر اس کا ترجمہ پیش کیا جس میں خلفا کے نام موجود ہیں ۔باقی پھر بھی ان نسخوں کو مان بھی لیں اس میں بھی ابوبکر کی خلافت اور امامت کی کوئی بات نہیں ہے۔
دوسری بات شیخ ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللہ کی کتاب “اداب المریدین ” کے حوالے سے ہیں اس کے بھی مختلف نسخے موجود ہیں ان پر تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا مترجم کا تعلق اہل سنت سے ہے۔ اگر تحقیق میں یہ بات ثابت ہوبھی جائے کہ ان کا نام موجود ہیں وتو اس کی عبارت سے ان کی افضلیت ثابت ہے نہ کہ خلافت ۔
تیسری بات امیر کبیر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ” ذخیرۃ الملوک ” کے بارے میں ہے ۔ یہ کتاب امیر کبیر نے اس زمانے کے ایک بادشاہ کی درخواست پر ان کو حکومتی نظام چلانے کے لئے لکھا تھا ۔کتاب کا نام ہی واضح ہے “ذخیرۃ الملوک یعنی بادشاہوں کے لئے ذخیرہ “۔ بادشاہ کا مذہب اہل سنت تھا تو انہی کی تعلیمات کی روشنی میں تصنیف فرمائی ہے ۔ اس کتاب میں بھی اگر خلفا کا تذکرہ موجود ہے تب بھی وہ ان کی خلافت کی حقانیت کے حوالے سے نہیں ہے جبکہ ہمارا عقیدہ امامت ہے نہ خلافت ۔