آزاد مرد؛ حضرت حُر ابن یزید ریاحی


تحریر سید بشارت حسین تھگسوی


بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام حسین علیہ السلام نے ایک عظیم مقصد اور ایک عظیم ترین نصب العین کے لئے شہادت کو گلے لگایا اور مقصد کی عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام عالی مقام نے اپنے آبائی وطن مدینہ کو چھوڑا، تین دن کی بھوک و پیاس برداشت کی ،خود اپنی اور اپنے رفقاء کی قربانی دی یہاں تک کہ اہل حرم کی بے پردگی و اسیری برداشت کرنے کے لئے بھی آمادہ ہوئے۔آپ کے پیش نظر خدا کی خوشنودی ، دین و شریعت کی بقا اور انسانیت کا تحفظ جیسے اہم مقاصد تھے۔ بظاہر آپ کی شمع حیات بجھ گئی اور ظاہری حیات کا خاتمہ ہوگیا لیکن کربلا والوں کے مقدس لہو نے جہان بشریت کو عرفان کی منزل کا پتہ دیا اور ایک نئی زندگی کا آغاز کیا، دین کی بالادستی قائم کی، انسانیت کو حیات جاودانی بخشی، تہذیبی و اخلاقی اقدار کو تباہی سے بچایا، شرافت کو موت کے گھاٹ اتارنے سے بچالیا، ظلم و ستم کے سامنے قیام کرنے کی ہمت عطا کی، حق و باطل کے درمیان حد فاصل قائم کی اور ظالم اور ستمگر کو ہمیشہ کے لئے رسوا کردیا۔ امام علیہ السلام کی اس عظیم قربانی میں آپ کے خاندان کے ساتھ آپ کے ساتھیوں کا کردار یقیناً نمایاں ہے ۔ امام علیہ السلام ان ساتھیوں پر فخر کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے : فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ أَصْحَاباً أَوْفَى وَ لَا خَيْراً مِنْ أَصْحَابِي‏۔ میں اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر کسی کو نہیں جانتا ۔ (1)
امام کے ان وفادار ساتھیوں میں سے ایک حضرت حر ابن یزید ریاحی تھے ۔ حضرت حر علیہ السلام کے بارے میں ہمارے ہاں ایک غلط نظریہ پایا جا تا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جب ہم کسی گنہگار اور بدکرادر کے تائب ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو حر کی مثال پیش کرتے ہیں جبکہ تاریخی حقائق اس کے بر خلاف ہیں ۔ حر ابن یزید ریاحی کربلا آنے سے پہلے بھی ایک بہادراور شجاع شخص ہونے کے علاوہ اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں میں سے تھے لیکن یہ دنیا داری اور نفسی خواہشات کی غلامی کا نتیجہ تھاکہ حر کو امام عالی مقام علیہ السلام کے مقابل میں لا کھڑا کیا ۔لیکن حر کا ضمیر زندہ اور طینت پاک تھی جس وجہ سے وہ اپنی اصلیت کی طرف پلٹ آیا۔ ذیل میں ہم جناب حر علیہ السلام کے بارے میں مختصر تذکرہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔
نسب: حر ابن یزید ابن ناجیہ ابن قعنب ابین عتاب ابن ہرمی ابن ریاح ابن یربوع۔(2)
حر کا کوفے سے خروج
شیخ ابن نما لکھتے ہیں : جب حر کوفے سے ابن زیاد کے محل سے نکل رہا تھا تو اس نے ایک آواز سنی کہ کہہ رہا تھا:اے حر جنت کی خوشخبری ہو ۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا تو اپنے آپ سے کہا:خدا کی قسم یہ خوشخبری تو نہیں ہو سکتی کیونکہ میں حسین سے جنگ پر مامور ہوں ۔ یہ بات اس کے ذہن میں موجود رہی یہاں تک کہ جب امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر اس نے بیان کیا تو امام نے فرمایا:تم بے شک نیک راستے پر نکلے تھے۔(3)
امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنے ایک مختصر خطبے میں حر سے مخاطب ہو کر فرمایا: “الا حر يدع هذه اللماظة من دنياکم” کوئی آزاد انسان نہیں جوکھانے کے ٹکڑوں کو اس کے اہل کے منہ میں ڈالے ۔ (4)شاید امام حسین علیہ السلام کی اس بات نے حر میں انقلاب کا طوفان برپا کیا اور اس کی فکر کو تبدیل کیا ۔
امام حسین علیہ السلام کی حر سے ملاقات
ابو مخنف نے عبداللہ ابن سلیم اور مرزی ابن مشمعل سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:ہم نے امام کے ہمراہ حجاز سے عراق تک راستہ طے کیا جب منزل اشراف پر پہنچے تو آپ نے جوانوں سے کہا: جتنا ممکن ہو یہاں سے پانی جمع کرو اور اپنے قافلے کے ہمراہ لے چلو ۔ صبح سویرے قافلہ نکل پڑا ۔ تقریباً دو پہر کے وقت قافلے میں سے ایک شخص نے بلند آواز میں تکبیر پڑھی۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:اللہ اکبر۔ لیکن اچانک تکبیر کیوں پڑھی؟اس نے کہا:ایک نخلستان کو دیکھا جو اس سے پہلے اس جگہ نہیں تھا۔ امام نے فرمایا: جو تم نے دیکھاہے میں نہیں دیکھ رہا ۔ اتنے میں بعض نے کہا:ہم گھوڑوں کے گردو غبار دیکھ رہے ہیں ۔ پس امام نے فرمایا: خدا کی قسم میں بھی یہی دیکھ رہا ہوں ۔ پھر فرمایا: کوئی پناہ گاہ نہیں جہاں پر چھپ سکے اور اس گردو غبار سے بچ سکے؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں ۔ آپ کے بائیں جانب ذوحسم ہے ۔ امام علیہ السلام بائیں جانب مڑے اور وہ گھوڑے بھی اسی طرف آئے ۔ ہم ان سے پہلے ذوحسم کے مقام پر پہنچے اور خیموں کو وہاں نصب کیا۔ وہ قافلہ بھی وہاں پہنچا ۔ وہ حر تھا جو ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ تھا ۔ امام نے فرمایا: ان سپاہیوں اور ان کے سواروں کو پانی پلادو ۔ ان کے سپاہی اور گھوڑے سیراب ہوئے ۔ (5)جب نماز کا وقت ہوا تو امام حسین علیہ السلام نے اپنے ساتھی حجاج ابن مسروق جعفی کو آذان پڑھنے کا حکم دیا۔آذان کے بعد امام علیہ السلام ایک عباء بدن پر اوڑھ کر خیمے سے باہر آئے اور خدا کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا:أَيُّهَا النَّاسُ مَعْذِرَةً إِلَى اللَّهِ وَ إِلَيْكُمْ إِنِّي‏ لَمْ‏ آتِكُمْ‏ حَتَّى‏ أَتَتْنِي‏ كُتُبُكُمْ‏ .اے لوگو میں تم لوگوں کے بارے میں خدا کے ہاں معذور ہوں ۔ میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تک تمہارے خطوط نہیں ملے۔اس کے بعد امام علیہ السلام نے خطبہ ختم کیا اور موذن[ حجاج ابن مسروق جعفی ] سے اقامت پڑھنے کو کہا۔ پھر حر سے فرمانے لگے :تم اپنے لوگوں کی نماز کی امامت کروگے ؟ حر نے کہا:نہیں بلکہ آپ کی اقتداء میں نماز اداکروں گا ۔ نماز کے بعد امام خیمے میں چلے گئے اور حر اپنے میں خیمہ میں گیا ۔ جب عصر کی نماز کا وقت ہوا تو نماز کے بعد امام نے حمد خدا کے بعد فرمایا: ايهاالناس انکم ان تتقوا….. اس وقت حر نے کہا:خدا کی قسم ان خطوط کے بارے میں کچھ نہیں جانتا جو آپ کو لکھے گئے ہیں ۔ وہ خطوط کونسے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے عقبہ ابن سمعان اس تھیلے سے ان خطوط کو نکال لاو۔ عقبہ خطوط سے بھرے ہوئے دو تھیلے لے آئے اور ان کے سامنے ان کو کھول دیا ۔ حر نے کہا: میں ان خطوط لکھنے والوں میں سے نہیں ہوں لیکن مجھے حکم ہوا ہے کہ جہاں پر آپ سے ملاقات ہو وہیں اس وقت تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں کہ آپ کو عبیداللہ ابن زیاد کے پاس لے چلوں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے کہا: “ارکبوا” یعنی سوار ہو جاو ۔ جب سب لوگ سوار ہوگئے اور قافلہ نکلنے لگا تو وہ گروہ امام کے قافلے کے سامنے آگیا ۔ امام علیہ السلام نے حر سے کہا: ثكلتك امّك! ما تريد؟ تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے تو کیا چاہتا ہے ؟اس وقت حر نے کہا: خدا کی قسم اگر عرب میں آپ کے سوا کوئی اور میری ماں کی نسبت مجھے کچھ کہتا تو میں اسے یہی جواب دیتا لیکن آپ کی ماں کا تذکرہ نیکی کے سوا نہیں کرسکتا ۔ (6)
حر کا توبہ
جب حر نے امام حسین علیہ السلام کی مدد طلب کرنے والی فریاد سنی تو عمر ابن سعد کے پاس جاکر پوچھا:کیا تو ان سے جنگ کرو گے ؟ عمر نے کہا: ہاں خدا کی قسم ایسی جنگ ہوگی کہ ان سب کے سروں کوبدن سے جدا کیا جائے گا ۔ حر نے کہا: تم چاہتا کیا ہے ان کی باتیں تمہاری پسند کی نہیں ؟ابن سعد نے کہا: اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں ہاتھ کھینچ لیتا لیکن تیرا امیر [ابن زیاد] اس کام سے ہاتھ نہیں اٹھا رہا ۔ حر وہاں سے چلا آیا اور قرہ ابن قیس کے پاس آکر پوچھا :کیا تو نے آج اپنے گھوڑے کو پانی پلایا؟قرہ نے کہا: نہیں ۔ قرہ سمجھ گیا کہ حر ابن سعد کی فوج سے جدا ہونا چاہتا ہے لہذا وہ وہاں سے چلا گیا ۔ حر امام حسین علیہ االسلام کے لشکر سے مزید قریب ہوا ۔ مہاجر ابن اوس نے حر سے کہا: کیا تو چاہتا ہے کہ یہاں سے حملہ کرے ؟ حر اس کے جواب میں خاموش رہا لیکن اس کا جسم کانپنے لگا۔ مہاجر نے حر سے مخاطب ہو کر کہا: اگر کوئی مجھ سے کوفہ کے بہادر ترین شخص کے بارے میں پوچھتا تو میں تجھے دیکھاتا تھا لیکن یہ کیسی حالت ہے جو میں دیکھ رہا ہوں ؟حر نے کہا: خدا کی قسم اس وقت اپنے آپ کو جنت اور جہنم کے درمیان دیکھ رہاہو ں اور میں جنت کا انتخاب کروں گا ۔ اس کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو حرکت دی اور امام حسین علیہ السلام کی طرف روانہ ہوا۔ اہل سنت کے مشہور مورخ ابن جریر طبری نے اپنی کتاب تاریخ الامم و الملوک میں اس واقعے کو یوں نقل کی ہیں: المهاجر بن أوس: ما تريد يا ابن يزيد؟ أ تريد ان تحمل؟ فسكت و اخذه مثل العرواء فقال له: يا ابن يزيد؟ و اللّه إنّ أمرك لمريب، و اللّه‏ ما رأيت‏ منك‏ في‏ موقف‏ قط مثل‏ شي‏ء أراه‏ الآن‏، و لو قيل لي: من أشجع أهل الكوفة رجلا ما عدوتك، فما هذا الذي أرى منك!؟فقال الحر اني اخير نفسي بين الجنة و النار ووالله لا اختار علي الجنة شيئا ولو قطعت و حرقت ،ثم ضرب جواده نحو الحسين.(7)
امام سے ملاقات کے لمحات
حر کو اس بات کا احساس تھا کہ انہوں نے آل رسول کو بہت تکالیف پہنچائی ہے ۔بے آب و گیاہ میدان میں ان راستہ روکا ہے لہذا وہ انتہائی شرمندگی کے ساتھ اپنا سر جھکائے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا ۔ سید ابن طاووس یوں گویا ہے :منکسا برائسه حياء من آل الرسول بما اتي اليهم و جعجع بهم في هذا المکان علي غير ماء ولا کلاء رافعا صوته . اللهم اليک انيب فتب علي ، فقد ارعبت قلوب اوليائک و اولاد نبيک . يا ابا عبدالله اني تائب فهل لي من توبة ؟حر کہنے لگے : پروردگار میں تیر طرف پلٹ آیا ہوں ۔پس میرا توبہ قبول کر ۔ میں نے اولیاء اور تیرے پیغمبر کی اولاد کے دل دکھایا ہے ۔ اے ابو عبداللہ میں پلٹ آیا ہوں کیا میرا توبہ قبول ہے ؟ امام علیہ السلام نے حر کے جواب میں فرمایا:نعم يتوب الله عليک .ہاں خدا نے تیرا توبہ قبول کرے گا ۔ (8)امام علیہ السلام کے اس فرمان نے حر کو خوشحال کیا ۔ اسے یقین ہوگیا کہ جاویدانی زندگی اور نعمت خداوندی پالیا ہے ۔ حر نے اس داستان کو امام علیہ السلام کی خدمت میں بیان کیا جب وہ کوفے سے نکل رہے تھے تو ایک ہاتف نے اس کے کانوں میں ندا دی تھی : میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ مجھے بشارت دی جارہی تھی کہ تجھے جنت مبارک ہو ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا تھا: افسوس یہ کیسی خوشخبری ہے کہ میں پیغمبر خدا کی لخت جگر کے بیٹے کا راستہ روکنے جارہا ہوں ۔ تو امام نے فرمایا:لقد اصبت خيرا و اجرا.تم نے خیر اور نیکی پالیا ہے ۔ (9)
حر کی شہادت
حبیب ابن مظاہر کی شہادت کے بعد حر میدان میں آئے اس وقت زہیر ابن قین پیچھے سے اس کی حمایت کررہے تھے ۔امام حسین علیہ السلام کے ان دو ساتھیوں کی وجہ سے دشمن کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عمر ابن سعد کی فوج سے حر کی جنگ طول پکڑ لی ۔ یہاں تک کہ حر کا گھوڑا زخمی ہوا اور اس کے کانوں سے خون بہنے لگا ۔ حصین نے یزید ابن سفیان سے کہا: یہ وہی حر ہے جس کے قتل کی تم تمنا کررہا تھا۔ یزید نے کہا :ہاں ۔ وہ ابن سعد کی فوج کے درمیان سے مقابلے کے لئے باہر نکلا۔اس نے ایوب ابن مشرح الخیوانی کی مدد سے ایک تیر حر کی طرف پھینکا جو حر کے گھوڑے کے پیروں میں لگا اور گھوڑا زمین پر گر پڑا۔ حر زمین پر گرنے سے پہلے ہی گھوڑے سے اتر آئے ۔(10)وہ تلوار ہاتھ میں لیے دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور بہادری کے ساتھ مسلسل جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ مزید چالیس لوگوں کو واصل جہنم کیا ۔ (11)ایسے میں شامی پیدل فوجیوں نے حر پر حملہ کیا اوروہ زمین پر گر پڑا ۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں نے انہیں دوسرے شہداء کے ساتھ رکھ دیا ۔امام علیہ السلام نے فرمایا:قتله مثل قتلتة النبيين و آل النبيين .یعنی اس کی شہادت انبیاء اور ان کے خاندان کی شہادت جیسی ہے ۔ (12)پھر امام علیہ السلام حر کی طرف متوجہ ہوئے۔ ابھی جان اس کے جسم میں باقی تھی امام نے ان کے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرمایا:أَنْتَ‏ الْحُرُّ كَمَا سَمَّتْكَ أُمُّكَ حُرّاً فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ. تم آزاد ہو جس طرح تمہاری ماں نے تیرا نام رکھا ہے ، تم دنیا اور آخرت دونوں میں آزاد ہو ۔ (13)اس آزاد مرد کے غم میں جس نے اشعار پڑھے وہ علی ابن الحسین علیہ السلام تھے ۔(14)بعض نے کہا ہے کہ خود ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام نے ان کے لئے یہ اشعار پڑھے:
لَنِعْمَ الْحُرُّ حُرُّ بَنِي رِيَاحٍ وَ نِعْمَ الْحُرُّ عِنْدَ مُخْتَلَفِ الرِّمَاحِ‏
وَ نِعْمَ الْحُرُّ إِذْ نَادَى حُسَيْناً فَجَادَ بِنَفْسِهِ عِنْدَ الصَّبَاح‏
کیسا آزاد مرد ہے ریاح کا بیٹا ۔ جب وہ نیچے آرہے تھے تو سارے تیر برباد ہوچکے تھے ۔ ہاں وہ آزاد تھے جب اس کی جان نکل رہی تھی حسین کی فریاد بلند ہوئی ۔(15)
حر کی زندگی میں ہمارے لئے سبق
حر ابن یزید ریاحی علیہ السلام نے دنیا کو بتا دیا کہ انسان فطرتاً ایک آزاد مخلوق ہے وہ اپنی اس آزادی کا اظہار کسی بھی صورت میں کرسکتا ہے ۔ اگر اس کو اپنی آزادی کے اظہار کے لئے جتنے بھی مصائب جھیلنا پڑے وہ اس کو برداشت کرتا ہے لیکن آزادی رائے سے پیچھے نہیں ہٹتا ۔ اگر اس آزادی کے اظہار کے لئے دنیا کی تخت و تاج کو ٹھکرانا بھی پڑے تب بھی وہ باز نہیں آتا ۔ اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے آزاد انسان کی تعریف کی ہے : إِنَّ الْحُرَّ حُرٌّ عَلَى جَمِيعِ أَحْوَالِهِ إِنْ نَابَتْهُ نَائِبَةٌ صَبَرَ لَهَا وَ إِنْ تَدَاكَّتْ عَلَيْهِ الْمَصَائِبُ لَمْ تَكْسِرْهُ وَ إِنْ أُسِرَ وَ قُهِر۔آزاد ہر حالت میں آزاد ہے ۔یہاں تک کہ سخت سے سخت مصیبت بھی اس پر آئے ۔ اگر مصیبتیں اس پر ٹوٹ پڑے تو وہ اسے برباد کردیتا ہے لیکن خود نہیں ٹوٹتا اگر اسے اسیر اور مہقور ہی کیوں نہ کیا جائے ۔ (16)
حوالہ جات
(1)تاریخ الامم و الملوک ، ج۵، ص ۴۱۸۔
(2)جمہرۃ الانساب العرب، ص ۲۲۷
(3)مقتل الحسین مقرم ، ص ۲۲۷تا ۲۲۹
(4)تحف العقول ، ص ۲۹۲
(5)تایخ الامم و الملوک ، طبری، ج۵، ص ۴۰۰، متقل الحسین مقرم، ص ۲۱۴۔
(6)مقتل الحسین ، خوارزمی ، ج۱ ،ص ۲۳۲۔
(7)تاریخ الامم و الملوک ، ج۵، ص ۴۲۷۔
(8)اللہوف ، ص ۴۵/ امالی الصدوق ، مجلس ۳۰، ص ۱۴۱۔
(9)مقتل الحسین مقرم ، ص ۲۹۰۔
(10)تاریخ الامم و الملوک ، ج ۵، ص ۴۳۷۔
(11)مناقب آل ابی طالب ، ج۴، ص ۱۰۰۔
(12)بحار الانوار ج۱۰، ص ۱۱۷
(13)مقتل الحسین ، خوارزمی ، ص ۳۰۳۔
(14)مقتل العوالم ، ص ۸۵
(15)امالی الصدوق ،مجلس ۳۰، ص ۴۱۴/ مقتل الحسین خوارزمی ، ج۲، ص ۱۱
(16)اصول کافی، ج۲ ، ص ۸۹
منابع
اصول کافی،محمد ابن یعقوب کلینی ، درالکتب الاسلامیہ ، تہران۔
امالی الصدوق ،محمد ابن علی صدوق، مطبعہ الحیدریہ ، نجف ، ۱۳۸۹ھ۔
بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،داراحیاءالتراث العربی، بیروت ، ۱۴۰۳ھ۔
تاریخ الامم و الملوک ، محمد ابن جریر طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، روائع التثراث العربی ، بیروت ۔
تحف العقول ،حسن ابن علی ابن شعبہ ، مطبعہ الحیدریہ ، نجف ، ۱۳۸۵ھ۔
جمہرۃ الانساب العرب، علی محمد ابن حزم اندلسی، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، ۱۴۰۳ھ۔
اللہوف فی قتل الطفوف، سید ابن طاووس ، مطبعہ الحیدریہ، نجف ، ۱۳۶۹ھ۔
مقتل الحسین ، عبدالرزاق مقرم، بصیرتی ،قم، ۱۳۹۴ھ۔
مقتل الحسین للخوارزمی ،موفق ابن احمد مکی خوارزمی، تحقیق شیخ سماوی، مکتبہ المفید قم۔
مناقب آل ابی طالب ،احمد ابن علی ابن عنبہ ، انتشارات الرضی قم، ۱۳۶۲ش۔