(Mothers Day) ماں کی عظمت


تحریر محمد علی ہریکون


چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

ماں سینہِ گیتی پر احساس کی ایک حسین جھیل کا نام ہے, رحمتِ خداوند کی دلیل اور خلوص و ایثار کی ایک فصیل کا نام ہے. اس کا مزاج محبت کی گفتگو,اس کی اُلفت اُلفتِ خالق کی جستجو اور اس کی ذات مروت کی ایک آبجو ہے. وہی اس جہاں میں اولاد کی آبرو ‘ قوتِ نمو اور متاعِ سروخرو ہے-ماں زینت ہستی کا ناز’ محبت کا راز اورصبحِ ازل کی نماز ہے.دنیا میں ہر بچے کے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ ماں ہوتا ہے اور اسی لفظ کے سایے میں بچہ زندگی بھر اماں ڈھونڈتا ہے۔
اس کارخانہِ سود و زیاں کی تمام زینتیں اور زیبائیاں وجودِ مادر ہی کی بدولت ہیں.ماں کی آہِ نیم شبی عرشِ بریں کو ہلا دیتی ہےاور اس کی دعائیں خداوندِ متعال کے درِ اجابت پہ دستک دیتی ہیں خدا اگر دیدہ بینا دے تو ماں کے گارے میں لُتھرے ہوئے کپڑے خلعتِ شاہی سے زیادہ قیمتی نظر آتے ہیں، ماں آٹا گوندھ رہی ہو تو اُس کے وہ ہاتھ تقدیر مبرم کو ٹالنے کی قدرت رکھتے ہیں‘ ماں لوریاں دے رہی ہو تو اس کے لہجے میں ملائک محوِ گفتار نظر آتے ہیں ، ماں کا دل اداس ہو توجنت کے شگوفے مرجھانے لگتے ہیں، ماں دامن پھییلا دے تو خدا اپنی جنت کی ساری نعمتیں اُس میں انڈیل دیتا ہے، ماں اپنے بچے پر میلا آنچل ڈال دے تو رحمت خداوندی گھٹا بن کر چھاجاتی ہے اور اﷲ نہ کرے ماں کی نگاہ غضب آلودہ ہو جائے تو عرش الٰہی تھر تھر کانپنے لگتا ہے، ماں کے آبگینہِ محبت کی لطافت اور دل کی شفافیت کے آگےگلاب کی پنکھڑی اورکنول کے پھول کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
دنیا کے ہر مذہب’ہر تہذیب اور ہر قوم نے ماں کے سر پر عزت و توقیر کا وہ تاج سجا دیا جو اسکا حق بنتا تھا. تا ہم ماں ک عظمت کے حوالے سے اسلام کا جو نظریہ ہے وہ آپنی مثال آپ ہے۔
☆ اللہ تعلٰی نے اپنی سب سے قیمتی شے یعنی جنت کو ماں کے پیروں تلے رکھہ کر ھم سب کو اس کا احترام کرنے کی تلقین کی ھے۔
قرآن مجید میں ارشاد_ الہی ہے
~وَ قَضى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَ لا تَنْهَرْهُما وَ قُلْ لَهُما قَوْلاً كَريماً ♡وَ اخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّياني‏ صَغيراً﴾

*ترجمہ* ” اور تمھارے پرودگار کا فیصلہ ہے کہ تم اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچّھا برتائو کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی مت اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا۔اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینااور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پرودگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما کہ جس طرح انہوں نے بچپنے مجھے پالا ہے”
☆ حضور اکرم ﷺنے بھی اپنی تعلیمات میں جا بہ جا والدین بالخصوص ماں کی عظمت شان اور رفعت کو ظاہر کیا. آپْ کا ارشاد ہے.
☆َ فَوَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ نَبِيّاً لَأُنْسُهَا بِكَ لَيْلَةً خَيْرٌ مِنْ جِهَادِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سَنَةً.☆
ترجمہ: “قسم اس خدا کی کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا، ایک رات ماں کی خدمت میں رہنا راہ خدا میں ایک سال جہاد کرنے سے بہتر ہے ۔ ”

انبیائے ما سبق اور اولیائے ما سلف نے بھی اپنے اپنے الفاظ میں ماں کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کئے۔
☆ امام زین العابدینؑ کا قول ہے کہ “ماں کے احسانات اتنے ہیں کہ ممکن نہیں کہ تم بغیر اللہ کی مدد کے اس کے احسانات کا بدلہ دے سکو یا اس کا شکریہ ادا کر سکو۔”
☆ امام جعفر الصادقؑ والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے ہوئےفرماتے ہیں: “والدین کے ساتھ نیکی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ نے اپنے معبود کی معرفت حاصل کی ہے”
☆ حضرت رابعہ بصریؒ نے کہاکہ “جب میں دنیا کے ہنگاموں سے تھک جاتی ہوں ،اپنے اندر کے شور سے ڈر جاتی ہوں تو پھر میں اللہ کے آگے جھک جاتی ہوںیا پھر اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کے جی بھر کے رو لیتی ہوں”۔
☆ حضرت شیخ سعدیؒ نے کہا ”محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے ”۔’
اس کے علاوہ بھی بہت سے دانشوروں اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات نے ماں کی عظمت اور بڑائی کا اعتراف کیا ہے ۔
☆مشہور مغربی دانشور جان ملٹن نے کہا ”آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے ” ۔
☆اسی طرح شیلے نے کہا ”دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں”۔
☆بوعلی سینا نے کہا: اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلی مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ تب میری ماں نے کہا مجھے سیب پسند ہی نہیں ہیں۔
☆ نادر شاہ جیسا تیروتفنگ سے کھیلنے والا جرنیل اپنی ساری خشونت اور صلابت بھلا کر کہتا ہے ’’ماں اور پھولوں میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا‘‘
☆ معروف فرانسسی مہم جو نیپولین بونا پارٹ بھی درِ امومت پر یہ کہہ کر دستِ دراز ہوا۔
’’تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں ایک عظیم قوم دوں گا‘‘

مئی کے دوسرے اتوار کو دنیا کے اکثر ممالک میں عالمی یومِ مادر منایا جاتا ہے. اس دن کی اگر ہم تاریخ کھنگال کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم یونانی تہذیب کے خداؤں کی ماں کا درجہ رکھنے والی Rhea نامی دیوی کے اعزاز میں ایک خصوصی دن کا اہتمام کرتے تھے…اس کے بعد سولہویں صدی عیسوی سےانگلینڈ میں”Mothering Sunday” پھر ہندوستانی تہذیب میں “درگا پوجا تہوار” کے نام سے ماؤں کا خصوصی دن منانے جانے لگا…
اور اٹھارویں صدی کے اواخر میں فرانس اور جرمنی کے درمیان ہوئی جنگ کی تباہیوں سے دل برداشتہJulia Ward Howe نامی خاتون نے “یومِ مادر برائے امن” (Mothers Day For Peace) منانے کا تصور دیا.
بعدازاں 1877کو امریکہ میں پہلامدر ڈے منایا گیا تھااور 1908میںامریکی ریاست فلاڈیفیا میں انا میری جاروس(Anna Marie Jarvis) نامی اسکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو مدڈے کے نام پر منانے کاآغاز کیااور اس نے اپنی ماں این ریویس جاروس (Ann Reeves Jarvis)کی یاد میں اس دن کو قومی سطح پر منانے کی تحریک قائم کی اس وقت کے امریکی صدروڈرولس نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طورپر منانے کااعلان کردیا اور اس دن سے آج تک ہپاکستان سمیت دنیا بھر کے 46 سے زائد ممالک میں یہ روایت برقرار ہے۔

اسلام میں اولاد کی پوری زندگی ماں کے تقدس ‘ اس کی عظمت کا اظہار اور خدمت اور اطاعت کے لئے مخصوص ہے.. اس کے لئے کسی خاص دن کا اختصاص کرنا اس کی روح کے منافی ہیں.. شاعر ِمشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ ”اسرارِ خودی “ میں اسلام میں ماں کی عظمت کے حوالے سے اپنی مشہور فارسی نظم ”درمعنی ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است “ میں لکھتے ہیں کہ
نيک اگر بيني امومت رحمت است
زانکه او را با نبوت نسبت است
شفقت او شفقت پيغمبر است
سيرت اقوام را صورتگر است
از امومت پخته تر تعمير ما
در خط سيماي او تقدير ما
هست اگر فرهنگ تو معني رسي
حرف امت نکته ها دارد بسي
گفت آن مقصود حرف کن فکان
زير. پاي امهات آمد جنان
ملت از تکريم ارحام است و بس
ورنه کارزندگي خام است و بس
از امومت. گرم رفتار حيات
از. امومت کشف اسرار حيات
ماں محبت و شفقت کا وہ حسین شاہکار ہے جو اولاد کے تئیں بے غرض ہمدردیوں اور بے لوث اُلفتوں کا ایک روشن مینار ہے. لا ریب ہماری ملت کی ندی میں ہر پیچ و تاب ”ماں “ سے ہے ۔اس ندی میں موج ، گرداب اور بُلبلے اسی وجود کے باعث ہیں۔ ماں کے پیار کا شمار حدِ امکاں سے باہر ہے. ماں کی محبت و ممتا عالم میں ایک مثال ہے،ماں کی محبت وہ گہرا سمندر ہے،جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکانہ ناپ سکے گا۔ماں کی محبت وہ ہمالیہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلند یوں کو کوئی آج تک چھو نہ سکانہ چھو سکے گا۔ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی مگر افسوس اس بات کا ہےکہ آج پُر آسائش زندگی، مادیت کی دوڑ دھوپ اور خوب سے خوب تر طرز زندگی کی تلاش نے ہم سے اپنی ماؤں کا احساس چھین لیا ہے نا جانے آج بھی کتنی مائیں اپنے لاڈلوں کی خاطر نیندیں حرام کر رہی ہونگی اور کتنی مائیں بچوں کے منہ سے لفظ “ماں” سننے کے لئے تڑپ رہی ہوں گی..لہذاء ہمیں ماں کی عظمت کا بھولا ہوا سبق ایک بار پھر عمیق قلب سے دہرانے کی ضرورت ہے.. اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے.
اللہ ہم سب کی ماؤں کو سلامت رکھے اور انہیں مصداقِ “مادراں را اسوہ کامل بتول ” سیرت زہرا سلام اللہ علیہا پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور جن کی مائیں اس دنیا سے چلی گئی ہیں ان کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ہم سب کو کما حقہ اپنی ماں کی اطاعت اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے…آمین

گر ماں کے عوض ارض و سماوات کے مالک
دے ساری خدائی بھی تو میں لے نہیں سکتا