نہج البلاغہ کی روشنی میں امت مسلمہ کے تنزلی کی وجوہات


تحریر سکندر اعظم شگری


نہج البلاغہ روشنی میں امت مسلمہ کے تنزلی کی وجوہات
خلاصہ
قدرتی آفرنیش کے مطابق انسان اور معاشرے کے دوسری مخلوق جذب ودفع کی وجوہات سے خالی نہیں ہوتی ہیں۔ امت مسلمہ کی تنزلی معاشرتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ چند مخصوص وجوہات کی بناء پر معاشرے کی عملیات کے رخ سے گزرتی ہے ، نہج البلاغہ میں ان کے اسباب وعوامل کے بارے میں اچھے مطالب ملتے ہیں ۔ دنیا کے بڑے مشہور ماہرین سماجیات نے اس کے اسباب وجوہات کے بارے میں بڑی تحقیق کی ہے۔ فلسفہ تاریخ میں ان وجوہات پر سیر حاصل کیا ہے۔ مختلف ادوار میں امت مسلمہ بھی ان اسباب سے خالی نہیں رہی ہے۔
مخصوص الفاظ:میلاد علی ،تنزلی کی وجوہات، امت مسلمہ ، نہج البلاغہ۔
مقدمہ
کسی قوم کے ترقی و تنزلی ،بالائی اورانچائی وپستی، مادی ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی بھی ہوتی ہے اور ان میں مرور ایام سے متعلقہ نکات حکمرانوں اور معاشرے مؤثر شخصیات اور عام معاشرے کے کردار برعکس ہوتے ہیں ، اور تاریخی حصہ ہیں ۔لیکن ہمیں ان رابطوں اور باہمی تعلقات کے نکات کو معلوم کرنے کی احتیاج ہے جو کہ وجود میں آنے کا سبب ہیں ۔ علوم انسانی کی اس معلومات تاریخ میں اس کام کوقرآن ونہج البلاغہ کے بعد سب سے پہلے ابن خلدون نے کیاجبکہ نزول قرآن اور تدوین نہج البلاغہ سے پہلے یونانی فیلسوف سقراط، ارسطور،لاؤذی ، فیثآغورث اور لیز وغیرہ کے تحقیقی کا م نظر آتے ہیں ۔
ابن خلدون کے بعد اور دوسرے مفکرین نے اس مسئلہ پر سوچ بچار کی ، ان میں سے علامہ اقبال اور امام محمد غزالی سامنے آتے ہیں استاد شہید مرتضیٰ مطہری نے بھی اس پر قلم اٹھایا ان کے نزدیک قوموں کے زوال کے چار بنیادی اسباب ہیں: بے عدالتی(ظلم وجور) ،انتشار(تفرقہ )، ترک امر بالمعروف ونہی عن المنکراور فسق وفجور واخلاقی مفاسد ہیں۔
استاد مصباح یزدی نے بھی اپنی کتاب جامعہ وتاریخ از دیدگاہ قرآن میں ایک باب سنت ہائے الٰہی در تدبیری جوامع میں مادی نعمتوں کی تقسیم کے حوالے سے قوموں کے رد عمل کی بنیاد قرار دیا ہے۔
پر ان تمام فلاسفر و مفکرین کی تحقیقی کام سے زیادہ جمالیت و خوب تر جامع افراد ومانع اغیار کے ساتھ فلسفہ اورعلم کلام پر جو کتاب صاحب فکر کے لئے اصول ا لاعتقادیہ مؤلف سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ ہیں۔امتوں کے عرو ج زوال کے عمل کوسمجھنے کے لئےان تمام فلاسفروںکو پس پشت رکھ کرنہج البلاغہ سے مآئید ومعاوین لینا ہو گا ، تاکہ انسانی تاریخ کی کی پیچیدگی اور الجھائی کے لئے معصوم کا قول راہنما ہو سکے۔ ہم ان قوانین کا اطلاق تمام تہذیبوں پہ نہیں کرسکتے ہیں عام طور پر ان پر جو اعتراضات کیا جاتاہے وہ یہ ہے کہ پہلے ایک فریم بناتے ہیں اور پھر اس میں تاریخ سے واقعات کو چن کر اس میں جڑ دیتے ہیں ، اس لئے ان کی دریافت شدہ قوانین پوری طرح سے تمام تہذیبوں اور امتوں کی تاریخ پر پورے نہیں اترتے ہیں ۔
امتوں کے زوال کے اسباب :
۱۔رجعت پسندی ، آئین سے انحراف اور رہبر کی نافرمانی
اللہ رب العزت نے ہر امت کے لئے ایک ہادی ورہبر کا انتظام کیا ہے ۔ کوئی بھی معاشرہ رہبر کے وجود سے خالی نہیں ہے چاہے وہ رہبر نیک ہو یا فاسق وفاجرإنه لابد لِلناس مِن امیر برٍّ او فاجرٍ[نظام انسانیت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہر حال ضروری ہے )3
اور جس چیز سے امام اورامت کے درمیان رابطہ پیدا ہوتاہے اس کواطاعت کہتے ہیں ۔ رہبر اور امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم سے تفرقہ واختلاف کو ختم کر ے اور یہ اختلاف رہبر وامام کی اطاعت ہی کے ذریعے ختم ہوسکتاہے۔
زمانہ غیبت امام معصوم علیہ السلام میں کامل مرشد ہمارے لئے حجت ہے جیسا کہ فرمایا: وہ تمہارے اوپر حجت اور ہم حجت خدا ہیں ” لہٰذا ولی اللہ ، مرشد کامل زمانہ غیبت کبریٰ میں نمائندہ معصوم علیہ السلام ہیں اور فرامین الٰہی کا اجراء انہی سے ہی ممکن ہے۔
رہبر و معاشرے کی اتنی اہمیت ہے کہ ہمارے دینی متون میں ان کی توضیحات کے سلسلے میں بڑی تاکید آئی ہے۔ امامت نظام امت اور رہبر کی اطاعت ہے، حفظ امامت ہے ” یعنی اگر امت بے امام ہوجائے تو وہ اپنے انجام سے ہم آہنگ نہیں رہے گی۔
’’كنتم جند المراۃ واتباع البھیمة ؛ رغا فأجبتم ،وعقر فھربتم ۔ اخلاقكم دقاق ، وعھدکم شقاق، ودینکم نفاق ، وماؤکم زعاق ۔ والمقیم بین اظھرکم مرتھن بذنبه ، والشاخص عنکم متدارك برحمة من ربه ‘‘۔
افسوس! تم لوگ ایک عورت کے سپاہی اور ایک جانور کے پیچھے چلنے والے تھے جس نے بلبلانہ شروع کیا تو تم لبیک کہنے لگے اور وہ زخمی ہوگیا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے ۔ تمہارے اخلاقیات پست ، تمہارا عہد ناقابلِ اعتاب۔
اسلامی معاشرے کے حاکم کی مثال تسبیح کے دانوں کی سی ہے جنہیں وہ اپنی حفاظت میں رکھتاہے : رہبر کا مقام تسبیح کی رسی کی مانند ہے جو ان دانوں کو منظم رکھتی ہے ، اگر یہ تعلق اس سے ٹوٹ جائے تو تسبیح کے تمام دانے بکھر جائیں گے اور ہر ایک اِدھر اُدھر ہو جائے گا اور ہر گز جمع نہیں ہوپائے گا۔اسی لئے جس قوم میں امام ورہبر کی اطاعت نہیں ہوتی اس قوم کے زوال اور تنزلی کو کوئی بھی نہیں روک سکتا بلکہ بسا اوقات اس قوم کی نافرمانی کو دیکھ کر خود اس قوم کا رہبر ہی اپنی قوم کی نابودی اور زوال کی پیشین گوئی کرتاہے۔ جیساکہ مولا علی علیہ السلام نے فرمایا:
وانی واللہ لاَظن ان ھؤلآء القوم سیُدالون منکم باجتماعھم علیٰ باطلھم وتفرقکم عن حقکم وبمعصیتکم امامکم فی الحق وطاعتھم امامھُم فی الباطل۔
خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار کو چھین لیں گے اس لئے اپنے باطل پیشواء کی اطاعت کرتے ہیں جب کہ تم اپنے امام برحق کی نافرمانی کرتے ہو۔
۲۔ظلم وجور
امتوں کی تباہی میں ظلم کا اہم کردار رہاہے چنانچہ کہاجاتاہے کہ حکومت کی حیات کفر کےساتھ ممکن ہے لیکن ظلم کے ساتھ اس کی بقاء ناممکن ہے ۔ امیر المؤمنین مولا علی علیہ السلام کی نظر میں حکومتوں اور امتوں کے زوال میں سب سے اہم کردار ظلم کا ہے جس کی طرف مولا علی علیہ السلام نے بارہا ارشارہ کیا جیسا کہ آپ ؑ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :
’’ ایهاالناس ! انا قد اصبحنا فی دھر عنود وزمن کنود (شدید)یعد فیه المحسن مسیئاویزداد الظالم فیه عتواً لاننتفع بما علمنا ولا نسئال عماجھلنا ولا نتخوف قارعة حتیٰ تحل بنا۔‘‘
’’اے لوگو! ہم ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں جو سرکش اور ناشکرا ہے یہاں نیک کردار کوبرا سمجھا جاتا ہے اورظالم اپنے ظلم میں بڑھتا ہی جارہا ہے نہ ہم علم سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ جن چیزوں سے ناواقف ہیں ان کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور نہ کسی مصیبت کا اس وقت تک احساس کرتے ہیں جب تک وہ نازل نہ ہو جائے ۔‘‘
والله لو وجدتُه قد تزوج به النساءُ ومُلك به الاماءُلرددتُه فاِن فی العدل سعة ومن ضاق علیه العدلُ فالجورُ علیه اضیقُ
خدا کی قسم ! اگر مجھے ایسا مال بھی کہیں نظر آتا جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیاجا چکا ہوتا تو اسے بھی واپس پلٹا لیتاچونکہ عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اُسے ظلم کی صورت میں اور زیادہ تنگی محسوس ہوگی ۔
قرآن کا بھی صاف اعلان ہے :وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ ۔
ترجمہ: ہم کسی بستی کا تباہ کرنے والے نہیں ہیں مگر یہ کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں ۔
گویا قرآن کی نگاہ میں بھی امتوں کی ہلاکت کا اہم سبب ظلم وجور ہے اور ظلم کے ذریعے حاصل ہونے والی کسی بھی چیز میں دوام نہیں ہوتا۔
۳۔ تفرقہ واختلاف
تفرقہ واختلاف کے مقابل لفظ ہے وہ وحدت کا لفظ ہے وحدت یعنی افراد کا کسی ایک نکتہ پر جمع ہوجانا۔قرآن نے شدت سے مسلمانوں کو تفرقہ واختلاف سے منع کیا ہے اور اس کے آثارشوم کی طرف انسانوں کو متوجہ بھی کیاہے:
وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ:
راغب اصفہانی نے کلمہ ریح کوغلبہ کے معنی ٰ میں استعمال کیاہے ۔
گویا اگر آپس میں نزاع کیا تو اس کانقصان یہ ہوگا کہ تم ہرمیدان میں مغلوب ہوتے نظر آؤ گے ۔ مولا علی علیہ السلام نے بھی اپنے اصحاب کرام کو اسی اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے:
والله لاظن ان ھؤلآء القومَ سیپدالون منکم باجتماعھم علیٰ باطلھم وتفرقکم عن حقکم
بخدامیں تو اب اُن لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد ویکجا ہیں اورتم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ ومنتشر ۔
مولا کے اس کلام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تفرقہ واختلاف کا نقصان کفر وایمان کی سرحدوں سے ماوراء ہے اسی لئے مولا علی علیہ السلام نے فرمایا:
وہ باطل پر بھی رہ کے کامیاب ہیں کیونکہ وہ متحد ہیں اور تم لوگ حق پر رہ کر بھی شکست سے دو چار ہو کیوں کہ تم لوگ اختلاف وتفرقہ کا شکار ہو۔
آپ ؑ اسی نکتہ کو دوسرے خطبہ میں یوں بیان فرماتے ہیں ۔مِن اجتماع ھؤلاء القوم علیٰ باطلھم وتفرقکم عن حقکم فقُبُحا
ان لوگوں کا باطل پرایکا کر لینا اورتمہارے جمعیت کا حق سے منتشر ہوجانا ۔
اسپین میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی لیکن جب ان کے اندر تفرقہ کا مرض پیدا ہوا تو آہستہ آہستہ ان کی حکومت جاتی رہی ۔ذرا سوچئے جس ملک میں مسلمانوں کا طوطی بولتا ہو آج اسی اسپین میں مسلمان خوف وہراس کی زندگی گزار رہاہے؟
۴۔فتنہ وفساد
“فتنہ برپا کرو، نفرت پھیلاؤ اور لڑاؤ ، تقسیم کرو اور حکومت کرو ” کی پالیسی کسی تعریف کامحتاج نہیں ہے اس سلسلے میں مولا امام علی ؑ فرماتاہے:
ایھا الناس شُقُّوا امواج الفتن بسفُنِ النجاۃ وعرِّجُوا عن طریق المنافرۃ۔
اے لوگو! فتنوں کی موجوں کونجات کی کشتی سے چیر کرنکل جاؤ اور منافرت کے راستوں سے الگ رہو۔
اور اسی کو مد نظر رکھ کر دشمن یہی چاہتاہے کہ ضعیف امت کواپنے تسلط میں رکھے اور جب تک کوئی قوم یا امت اتحاد کی نعمت سے مالا مال ہے کوئی دشمن اس پر پنجہ نہیں گاڑ سکتا، لہٰذا دشمن کی اولین کوشش یہی ہے کہ وہ تفرقہ ایجاد کیاجائے آپس میں لڑائے اور معاشرے ،قوم یا امت کی وحدت کو پارہ پارہ کیاجائے تاکہ لقمہ نگلنے میں آسانی ہو آج کے دور کا مطالعہ کرے تو ذرا واضح پر معلوم ہوگا کہ:
ہر دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
۵۔اسلام کامقصود فقط ملت آدم
کس قدر حیرت انگیز بات ہے اور میں کس طرح تعجب نہ کروں کہ یہ تمام فرقے اپنے اپنے دین کے بارے میں مختلف دلائل رکھنے کے باوجود سب غلطی پر ہیں کہ نہ نبی کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور نہ ان کے اعمال کی پیروی کرتے ہیں نہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ عیب سے پرہیز کرتے ہیں شبہات پر عمل کرتے ہیں اور خواہشات کے راستوں پر قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے نزدیک معروف وہی ہے جس کو یہ نیکی سمجھیں اور منکر وہی ہے جس کا یہ انکار کردیں
’’ واعلموا- رحمکم اللہ -انکم فی زمان القائل فیه باالحق قلیل ، واللسان عن الصدق کلیل واللازم للحق ذلیل اھله معتکفون علی العصیان مصطلحون علی الادھان فتاھم عارم وشائبھم آثم عالمھم منافق وقارئھم مماذق لا یعظم صغیرھم کبیرھم ولا یعول غنیم فقیرھم ‘‘
( خدا تم پر رحم کرے ) یہ یاد رکھو کہ تم اس زمانے میں زندگی گزار رہے ہو جس میں حق کہنے والوں کی قلت ہے اور زبانیں صدق بیانی سے کند ہو گئی ہیں ۔حق سے وابستہ رہنے والا ذلیل شمار ہوتا ہے اور اہل زمانہ گناہ ونافرمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری پر متحد ہوگئے ہیں ۔ جوان بد خو ہیں ،بوڑھے گنہگار ہیں ،عالم منافق ہیں اور قاری چاپلوس ہیں ، نہ چھوٹے بڑوں کی تعظیم کرتے ہیں اور نہ دولت مند فقیروں کی دستگیری کرتے ہیں۔
جب تک دشمن کی ان چالبازیوں سے ہوشیار ہوکر امن وسلامتی کے لئے کوشش نہ کیاجائے تو زمانے میں عروج وصعود ممکن نہیں ہےفتنہ وفساد اصلا کامیابی کا رمز ہی نہیں ہے بلکہ یہ پستی اور زوال کی کلید ہے ،کتنا اچھا ہوتا کہ ساری امتیں آپس میں متحد ہوجاتیں معاشرے میں امن قائم کرتیں خصوصا وہ قوم جس کی:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہے سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ایک اللہ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آج جو امتیں ترقی کی راہوں کو طے کر رہی ہیں اور عروج کے منازل میں سفر کررہی ہیں وہ اتحاد کے زینہ سے ہی بلندی کا سفر کررہی ہیں اختلاف وانتشارچاہے قومیت کی بنیاد پر ہویا رنگ ونسل کے اعتبار سے مکتب ومشرب کے نام پرہو یا مذھب وفرقہ کی بنیادپر ،تمام قسم کے اختلاف وانتشار دشمن کی درینہ خواہش ہونے کے علاوہ ان کی سازش بھی ہے ۔
لہٰذا اس سے ہوشیار رہناچاہئے اور اختلاف کو جڑسے اکھاڑ پھینکنا چاہئے ۔ اقبال کی روح بھی یہی کہہ رہی ہے۔
ای کہ نشناسی خفی را از جلی ہوشیار باش
ای گرفتار ابوبکر و علی ؑ ہوشیار باش
۶۔ترک جہاد
جہاد کا ترک کرنا بھی امتوں کے زوال کا ایک اہم سبب ہے نہج البلاغہ میں متعدد مقامات پر مولا علیہ السلام نے مسلمانوں کی سرزنش صرف اس بات پر کی کہ تم نے جہاد جیسے عظیم فریضہ کوترک کردیاہے جس کے چند نمونہ بطور شواہد پیش کر رہے ہیں۔
فمن ترکهُ رغبة عنهُ البسة اللہ ثوب الذل وشملهُ البلاءُ
جو اس (جہاد) سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتاہے خدا اسے ذلت وخواری کا لباس پہناتا اور مصیبت وابتلاء کی ردا اوڑھا دیتاہے ۔
اشباہ الراجل ولا رجال،! حلوم الاطفال، وعقول ربات الحجال، لوددتُ انی لم ارکم ولم اعرفکم معرفة جرت ندمًا۔واعقبت سدمًا(ذمّآ) قاتلکم اللہُ
ترجمہ: اے مردوں کی شکل صورت میں نامردو!تمہاری عقلیں بچوں کی سی،اور تمہادی سمجھ حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے میں تو یہی چاہتاتھا کہ نہ تم کو دیکھتا، نہ تم سے جان پہچان ہوتی ۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اوررنج واندوہ کا باعث بنی ہے ۔ اللہ تمہیں مارے گا!
۷۔خیانت
انسان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ امانت دار ہو۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے :سورۃ احزاب آیت 76
قرآن کریم نے امانت قبول کرنے کو ایک مثبت صفت کے طور پر بیان کیاہے اس کے برعکس خیانت ایک بُری صفت ہے خیانت کا اثر صرف ایک فرد پر نہیں بلکہ پوری امت یا معاشرہ پر پڑتاہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے بارے میں فرماتے ہیں :
بِادائھم الامانة الیٰ صاحبھم وخیانتکم
وہ اپنے ساتھی (معاویہ ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے ۔
شاہ ولایت علیہ السلام بعض لوگوں کی خیانت کے بارے میں یوں فرماتےہیں :
فلو ائتمننتَ احدکم علیٰ قعب لخشیبتُ ان یذھب بعلاقته
میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں ، تو یہ ڈر رہتاہے کہ وہ اس کے کنڈے کوتوڑ کر لے جائے گا۔
جس امت کی خیانت اس حد تک پہنچ جائے اس کا زوال یقینی ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک فرد کی خیانت پوری امت پر اثرانداز ہوتی ہے ۔ جس کی واضح مثال اشعث ابن قیس ہے جس نے اپنی قوم کے ساتھ خیانت کی اور قلعہ کا دروازہ کھول کر پوری امت کودشمن فوج کے حوالے کردیا اسی بناء پر اس کا لقب عرف النار پڑگیا۔
’’ وقد ترون عھود اللّٰہ منقوضة فلا تغضبون وانتم لنقض ذمم آبائکم وتانفون وکانت امور اللہ علیکم ترد وعنکم تصدر والیکم ترجع فمکنتم الظلمة من منزلتکم والقیتم الیھم ازمتکم واسلمتم اموراللہ فی ایدیھم یعملون بالشبھات ویسیرون فی الشھوات وایم اللہ لو فرقوکم تحت کل کوکب لجمعکم اللہ لشر یوم لھم ‘‘۔
’’افسوس کہ تم عہد الٰہی کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تمہیں غصہ بھی نہیں آتا جبکہ تمہارے باپ دادا کے عہد کو توڑاجاتا ہے تو تمہیں غیرت آجاتی ہے ایک زمانہ تھا کہ اللہ کے امور تم ہی پر وارد ہوتے تھے اور تمہارے ہی پاس سے باہر نکلتے تھے اور پھر تمہاری ہی طرف پلٹ کر آتے تھے لیکن تم نے ظالموں کو اپنی منزلوں پر قضہ دیدیا اور ان کی طرف اپنی زمام امر بڑھادی اور انھیں سارے امور سپرد کردئے کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور خواہشات میں چکر لگاتے رہتے ہیں خدا گواہ ہے کہ اگر یہ تمہیں ہر ستارے کے نیچے منتشر کردیں گے تو بھی خدا تمہیں اس دن جمع کر دے گا جو ظالموں کیلئے بد ترین دن ہوگا ۔‘‘
۸۔حق اور باطل میں فرق کرنے میں زبان کند ہوجانا
امیرالمومنین ؑ نے قوموں اور ملتوں کی شکست اور پیروزی کے معیار کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’’ ایھا الناس لو لم تتخاذلواعن نصر الحق ولم تھنوا عن توہین الباطل لم یطمع فیکم من لیس ملتکم ولم یقو من قوی علیکم لکنکم تھتم متاہ بنی اسرائیل ولعمری لیضعفن لکم التیه من بعدی اضعافا بما خلفتم الحق ورأ ظهورکم وقطعتم الادنیٰ و وصلتم الابعد واعلموا انکم ان اتبعتم الداعی لکم ، سلك بکم منھاج الرسول وکفیتم مؤنة الاعتساف ، ونبذتم الثقل الفادح عن الاعناق ‘‘
اے لوگو! اگر تم حق کی مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرتے اور باطل کو کمزور بنانے میں سستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو تمہارے بارے میں وہ قوم طمع نہ کرتی جو تم جیسی نہیں ہے اور تم پر یہ لوگ قوی نہ ہو جاتے، لیکن افسوس کہ تم بنی اسرائیل کی طرح گمراہ ہو گئے اور میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سرگردانی دو چند ہو جائے گی کہ تم نے حق کو پسِ پشت ڈال دیا ہے ،قریب ترین سے قطع تعلق کر لیا ہے اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے ، یاد رکھو کہ اگر تم داعیِ حق کا اتباع کر لیتے تو وہ تمہیں کج روی کی زحمتوں سے بچا لیتا اور تم اس سنگین بوجھ کو اپنی گردنوں سے اتار کر پھنک دیتے ۔
۹۔ہوائے نفس کا تابع ہونا
’’قد اصطلحتم علیٰ الغل فیمابینکم ونبت المرعیٰ علیٰ دمنکم و تصافیتم علیٰ حب الامال وتعادیتم فی کتب الاموال لقد استھام بکم الخبیثو تاہ بکم الغرور واللّٰہ المستعان علیٰ نفسی وانفسکم ‘‘۔
’’مگر تم نے آپس میں کینہ و حسد پر اتفاق کر لیا ہے اور اسی گھورے پر سبزہ اگ آیا ہے اور امیدوں کی محبت میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو اور مال جمع کرنے میں ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ شیطان نے تمہیں بہکادیا ہے اب اللہ ہی میرے اور تمہارے نفسوں کے مقابلہ میں ایک سہارا ہے ‘‘
یہاں پر بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس قوم کے دلوں میں کینہ و حسد نے جگہ بنالی ہو ، اگر لوگوں کو ایک دوسرے سے امیدیں نہ ہوتیں تو ایک دوسرے سے ہم آہنگی نہ کرتے ،اور مال کی لالچ میں جس قوم کے افراد ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں وہ قوم کیا پنپ سکتی ہے ؟کیا اسکی ترقی کا بھی کوئی راستہ ہے ۔
یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے امتوں پر زوال آتاہے اس کے علاوہ دوسرے اسباب بھی ہیں جیسے دنیا پرستی، فقر وتنگ دستی اور جہالت وغیرہ مگر ان کا تذکرہ اس مختصر مقالہ میں ممکن نہیں ہے۔
نتائج وخلاصہ
رہبر الٰہی کی نافرمانی ،فرقہ بندی ،ترک امر بالمعروف او ر جہاد ، جہالت، خیانت ، ظلم وجور ، معاشی بدحالی اوربیش بینی سے نابلد وغیرہ وہ چند عوامل و اسباب ہیں جن کی وجہ سے امتیں زوال کا شکار ہوتی ہیں ۔
اس زوال سے نکلنے کے لئے صرف بیداری ملت اسلامیہ ، اسلامی رہبر کی فرمانبرداری ، باہمی اتفاق اتحاد، جہالت کا مکمل خاتمہ اور اپنے اپنے عہد کو پورا کرنے میں مضمر ہیں۔
قارئین اس مضمون کے حوالے سے اپنی علمی اختلاف واتفاق سے نہ بھولئے گا۔ دروازہ علمی مباحث کھلا ہے۔

مراجع ومآخذ