پیر طریقت حضرت میر سید محمد شاہ زین الاخیارؒ


تحریر سید اکبر علی ابن حسن


آپؒ ایک عالم دین، صوفی بزرگ اور وقت کے پیر تھے۔آپ ۱۸۹۰ء کے لگ بھگ کریس میں پیدا ہوئے۔ والد بزرگوار میر محمد اکبرؒ کی وفات کے وقت آپ کم سن تھے۔ چناچہ آپ کی پرورش کی زمہ داری آپ کے چچا میر عون علی نے سنبھالی۔ خاندانی بزرگوں سے ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد آپ مولانا ضیا الحق کریس کی شاگردی اختیار کی۔ اُن دنوں کریس میں ایک طبقے کی مخصوص تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے تناو کی کیفیت پیدا ہوئی اور نوبت سماجی بائیکاٹ تک جا پہنچی۔ اس صورت حال میں سید محمد شاہ کا بھی مولانا ضیا الحق کے پاس جانے پہ اعتراض کرنے لگے۔
چناچہ مولانا موصوف نے کہلا بھیجا کہ اگر آپ مجھے پسند نہیں کرتے تو نہ سہی مگر میرے علم سے اسستفادہ کرنا مت چھوڑیں۔ دوسری طرف خود مولانا کے بعض احباب انہیں نوربخشی پیر کو پڑھانے سے منع کرتے تھے۔ بہر حال آپ نے اپنے استاد سے تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھا اور ان سے تفسیر، فقہ اور حدیث وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آپ کے ساتھ آپ کے چچا ذاد بھائی سید علی بھی شاملِ درس تھے۔
پیر طریقت سید محمد شاہؒ کی کم سنی اور طالب علمی کے دوران خانقاہ معلی کریس میں امامت و خطابت کی ذمہ داری سید مختار حسین ابن میر عون علی نے سنبھالے رکھی۔ جب سید مختار اہلیان خپلو کی دعوت پر بطور میر واعظ وہاں چلے گئے تو آپ نے باقاعدہ محراب و منبر سنبھال لیا اور لوگوں کی دینی رہنمائی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کام میں سید علی آپ کے معاون تھے۔ تاہم بعد میں موصوف کا خفیہ طور پر تبدیل مسلک اور نوربخشی مفادات کے خلاف کام کرنے پر دونوں میں فکری لحاظ سے دوریاں پیدا ہوگئے۔
ملی و دینی خدمات:
حضرت پیر سید محمد شاہ زین الخیارؒ کا دور تاریخی و مذہبی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس زمانے میں بلتستان اور پوریگ میں دیگر مسالک کی تبلیغ و اشاعت زوروں پر تھی جس کی وجہ سے نوربخشی آبادی میں تیزی سے کمی آرہی تھی۔ خصوصاً ابولحسن اور سید علی کی سرگرمیوں نے آپ کو بہت زیادہ پریشان کئے رکھا۔ مگر آپ نے جراءت اور ثابت قدمی کے ساتھ نوربخشی تشخص اور بقا کے لئے حتی الامکان جدوجہد کیں۔ ذیل میں ہم مذکورہ بالا دونوں علماء کی سرگرمیوں کے تناظر میں آپ کی مذہبی اور قومی خدمات کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔
خانقاہ معلی کریس کا دفاع:
خانقاہ معلی کریس کی تعمیر ۱۱۱۸ ھ بمطابق ۱۷۰۶ء میں پیر طریقت حضرت میر مختار اخیارؒ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ حضرت میر سید محمد شاہ مرحومؒ کے خانقاہ کی امامت و خطابت سنبھالنے سے قبل ہی کریس میں ایک مسلک کے لوگوں نے سید ابولحسن المعروف بوا ابولو کی قیادت میں خانقاہ معلیٰ کے ایک حصہ پر قابض ہو کر الگ جمعہ و جماعت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ یہ صورت حال اس نہج پر پہنچ گئے کہ فریقین کے مابین ۱۹۷۳ بکرمی سے لے کر ۱۹۸۲ بکرمی بمطابق ۱۹۱۶ تا ۲۵ تک عدالت سلطان محمد خان وزارت لداخ، وزیر فیروز چن وزیر وزارات لداخ اور ہائی کورٹ جمو وکشمیر میں یکِ بعد دیگر مقدمات چلے تا ہم ڈوگرہ عدالتوں نے نوربخشی عبادت گاہوں کو تقسیم کر کے دوسروں کو دینا ہی قرین انصاف سمجھا۔ ان واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے جرمن محقق ڈاکٹر اینڈریز ریک لکھتے ہیں:
Another example of aggressive ahl e hades behavior to words the nurbakhshis was displayed in keris where Syed abbul Hassan in 1931 tried to take possession of the historic khanqah w mualla as a jamia masjid for his yet small group of followers in the village by filling a legal cause when after laps of 14 years the Kashmir government decided that the khanqah belong to the but that thay had no right to prevent other muslim from prying their ,the ahle hades resorted to perfom their Friday sermons every week simultaneously with the nurbakhshis ,in one corner of the khanqah unti they build
their on jamia masjid in 1972
یہی نہیں بلکہ اسی دور میں کریس ہی میں مسجد اوڑوا اور بلغار کی مسجد گونما یار کے بھی غیر منصفانہ طریقے سے حصے کئے گئے۔ شاید ڈوگرا سرکار کی یہی پالیسی تھی کہ مسلمان مکاتب فکر کو آپس میں ہی الجھائے رکھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی اسی طرح کے صورت حال خانقاہ معلیٰ شگر کے سلسلے میں پیش آئے۔ الغرض حضرت میر محمد شاہؒ کو مذکورہ مقدمات کے سلسلے میں سکردو، لیہ، اور سری نگر کے دشوار گزار صفر اختیار کرنے پڑے۔ تاہم آپ کے پایہ استقامت میں لغزش نہ آئی اور اہل تصوف کے دینی قیادت جاری رکھی۔
بقائے ملت کی جدوجہد
بیسوی صدی کی دوسری دہائی کے دوران آپ کے چچازاد بھائی اور ممتاز عالم دین سید علی کریس بوجہ خفیہ طور پر اپنا مسلک تبدیل کر چکے تھے۔ تاہم ایک عرصہ تک موصوف تقیہ کرتے ہوئے خود کو نوربخشی ظاہر کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے غیر محسوس انداز میں اپنے عقائد و عملیات کو لوگوں میں رواج دینے کے لئے شد و مد سے تبلیغ جاری رکھی۔ اس کے نتیجہ میں بعض مسائل کے حوالے سے نوربخشی علماء آپس میں اختلافات کا شکار ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ سید موصوف کے معاملے میں ابتداء میں نرم رویہ اپنانے کی وجہ سے بعض علماء خود پیر سید محمد شاہ زین الاخیارؒ سے بھی شکایت پیدا ہوئی۔ بحر حال سید علی کی تبدیل مسلک زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی تھی۔ چنانچہ ہر جگہ ان کے حوالے سے چہ میگویوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ در اصل یہ راز فاش ہو چکا تھا۔ سید زاہد حسین سینو کے مطابق پیر سید محمد شاہ غالبا ۱۳۳۵ھ ۱۹۱۷ء کے دوران مرضی گوند دورے پر آئے تو ان کے والد سید جمال الدین کو بتایا کہ:
بوا جمال! ہمارے سید علی کو اس وقت سخت مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ دریا میں پیدل چل رہا ہے، اب اتنے گہرے خطرناک بھنور کے بھیج میں پہنچا ہے نہ آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے پلٹ سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں خطرہ ہے۔ (تحقیقی مقالہ از زاہد حسین سینو)
اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق جب موصوف کی سرگرمیاں ناقابل برداشت ہو گئے تو چند بزرگ علما سادات بشمول سید قاسم شاہ چھوربٹ، سید قاسم شاہ کھرکوہ اور غالباً آغا شاہ عباس غورسے اس بات کی درخواست لے کر پیر سید محمد شاہؒ کے پاس گئے کہ وہ سید علی سے اظہار براءت کرتے ہوئے ان کے غیر نوربخشی ہونے کا اعلان کرے۔ مزکورہ شخصیات کی آمد سے قبل ہی آپ کو ایک خواب میں غیبی اشارہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی آپ نے کہا کہ میں آپ حضرات کی آمد کا مطلب سمجھ گیا ہوں۔ آپ لوگ مطمئن ہو کر تشریف لے جائے میں مناسب اقدام کر لونگا۔ چنانچہ اگلے جمعہ کو آپ نے کریس کے ایک اخوند کو نماز جمعہ کی ذمہ داری سونپ کر خود موضع کورو چلے گئے۔ ان دنوں دستور یہ تھا کہ پیر صاحب کے غیر موجودگی میں سید علی جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ اور خانقاہ معلیٰ میں نمازیوں کی معقول تعداد جمع ہونے پر چند لوگ انکو بلانے گھر آتے تھے۔ اس جمعہ کوحیرت انگیز طور پر کوئی بلانے نہیں آیا اور جمعہ کا وقت گزر گیا تو موصوف خوب سمجھ گیا چنانچہ اگلے دن اپنے شیعہ ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی جگہ جگہ طوفانی دورہ شروع کیا اور اپنے اثر و نفوز کے علاقوں میں لوگوں کو تقلید حئی اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اسی دوران وہ کھرمنگ اور پوریگ کے علاقوں میں بھی گئے جہاں بڑی تعداد میں پیروکاران تصوف کا مسلک تبدیل کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان واقعات کے چند سال بعد موصوف عراق چلے گئے اور نجف اشرف میں مجتہد وقت سید ابولحسن اسفہانی کے ہاں قیام پزیر ہوگئے۔ ان واقعات کا تزکرہ کرتے ہوئے ان کے فرزند سید عباس کتاب ’کاشف الحق‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ ’’میرے والد (یعنی سید علی) نقل کرتے ہیں کہ ایک دن میں نجف کے مدرسہ بخارا میں مشغول مطالعہ تھا کہ آیت اللہ سید ابوالحسن اسفہانی پریشانی کے عالم مین میرے حجرے میں تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں ایک خط بھی تھا۔ آتے ہی انہوں نے متفکرانہ انداز میں فرمایا: سید علی برای شما ماندن در نجف حرام است و تو خدمتی برای مذھب امامیہ در کشمیر انجام دادہ ای‘‘۔
بعد میں معلوم ہوا کہ خط اہلیان کرگل کی طرف سے تھا اور انہوں نے لکھا تھا کہ سید علی کے یہاں سے جانے کے بعد کرگل والوں نے کریس میں نوربخشیوں کے پیر اور ان کے پیشوا (پیر طریقت سید محمد شاہؒ) کو تبلیغ و ارشاد کے لئے بلایا تھا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے بعض دنیا پرستوں نے اس پیر کو یہ کہنے پر باور کیا کہ جو لوگ سید علی کی تبلیغ سے شیعہ ہوگئے ہیں وہ استفغار کر کے دوبارہ نوربخشیہ منسلک ہوجائیں۔‘‘
ہوا یوں کہ سید علی کی عراق موجودگی کے دوران پیر طریقت سید محمد شاہؒ تبلیغی دورے پر پوریگ علاقے شکر شکتن گئے۔ وہاں ایک عالم شیخ عبدالرحیم نے آپ کو چیلنج کیا کہ اگر آپ کا مسلک برحق ہے تو کوئی کرامات دکھائیں۔
اس پر آپ نے خشک زمین میں جو کے بھیج ڈال دیئے اور کھیت تھوڑی ہی دیر میں سرسبز ہوگئے۔ چناچہ موقع پر موجود سینکڑوں لوگ مرحبا کہتے ہوئے دوبارہ نوربخشی مسلک میں داخل ہوگئے۔ ایک آدمی نے خوش ہوکر اعلی نسل کا ایک گھوڑا آپ کو تحفہ میں دیا جو آپ کے وفات کے وقت بھی موجود تھا۔ الغرض آپ نے ان علاقوں میں نوربخشی احیائے نو کیلئے حتی المقدر کوششیں کیں۔ پوریگ سے تعلق رکھنے والے آپ کے ایک شاگرد سید جعفر شاہ زندگی بھر علاقہ دراس کارگل میں دینی خدمات سر انجام دیتے ہوئے ۱۹۹۹ میں وفات پا گئے۔
علمی وروحانی مقام:
آپ ایک عالم باعمل تھے۔ مناظرہ میں بھی خوب دسترس رکھتے تھے۔ طبعاً صلح اور روادار تھے۔ مذہبی معاملات میں ہمیشہ دفاعی حکمت عملی اپناتے تھے۔ اخوند مہدی کریس کا کہنا ہے کہ اپ اکثر اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ دوسرے مذاہب کو کچھ نہ کہو صرف اپنا دفاع کرو۔ آپ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے۔ تہجد کی نماز پابندی سے ادا کرتے۔ آپ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز کے بعد اوراوراد وظائف سے فارغ ہو کر قرآن کی تلاوت کرتے پھر ناشتہ تناول فرماتے۔
آپ کو کئی مواقع پر مخالفین کی طرف سے مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں مقدمات، مقتدر حلقوں کی طرف سے دباو، مناظرے وغیرہ شامل تھے۔ آپ نے جس طرح انکا مردانہ وار مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئے اس سے آپ کی علمی صلاحیتوں کے علاوہ روحانی مقام کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کتاب براہین قاطعہ کے مولف کا کہنا ہے کہ مولانا محمد کثیر خپلو نے ایک دفعہ پیر سید محمد شاہؒ کے خلاف ڈوگرہ عدالت میں کیس دائر کیا۔ جب آپ عدالت میں داخل ہوئے تو جج نے پوچھا آپ کلمہ طیبہ کے زریعے مخالفین پر لعن طعن کیوں کرتے ہیں تو آپؒ نے فرمایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر اس کے معنیٰ بیان کرتے ہوئے مولانا کثیر سے پوچھا کہ آپ اہل بیت رسولؑ سے محبت رکھتے ہے یا نہیں؟ موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر آپؒ نے دریافت کیا کہ اہلبیتؑ سے بغض رکھنے والوں پر اللہ کا غضب ہے یا نہیں؟ جواب ملا ہاں۔ پھر آپؒ نے فرمیا دیکھو کلمہ طیبہ کا اقرار خود مولانا صاحب بھی کر رہے ہیں صرف میں ہی نہیں۔ اس پر جج نے پیر سید محمد شاہؒ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
اسی طرح آپ کے شاگرد رشید سید علی شاہؒ گلشن کبیر کی روایت ہے کہ سید علی کریسی کی انتقال مسلک کے بعد پیر طریقت سید محمد شاہؒ اور ان کے درمیان اکثر بحث و مناظرہ ہوتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ راجہ کریس نے آپ کو اپنے محل میں بلایا۔ سید علی شاہؒ بھی ہمراہ تھے۔ جب وہاں پہنچے تو سید علی کریسی اور بعض دیگر علما پہلے سے موجود تھے۔ جوں ہی بیٹھے راجہ نے کوئی اختلافی مسئلہ چیڑ دیا۔ جس پر دوسرے علماء ایک طرف ہو گئے۔ اور آپ اکیلے ایک طرف بہت دیر تک بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ استاد محترم اکیلے ان سب کا مقابلہ اور مناظرہ کرتے رہے۔ جب دوسرے فریق کے پاس پیر سید محمد شاہؒ کے مقابلے میں کوئی جواب نہ پایا تو بحث ختم کرنے کی درخواست کی جس پر آپ نے انکو کھری کھری سنا دیں۔ میں (راوی) چھوٹا تھا اس حالت کو دیکھ کر بہت رویا کہ کاش استاد محترم کے ساتھ کچھ عوام یا کوئی علماء ہوتے تو ان کی علمی صلاحیتوں کو دیکھ لیتے مگر یہ ایک سازش تھی جس میں راجہ ناکام رہا۔
ایک دفعہ مولوی ابراہیم کھرکوہ جو ہندوستان سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے اور سنی مذہب اختیار کر چکے تھے، کے ساتھ کسی مسئلے پر بحث ہوئی تو وہ عین موقع پر کوئی جواب نہ دے سکا بعد میں لوگوں کے پوچھنے پر بتایا کہ پیر سید محمد شاہؒ کی پیشانی میں مجھے ایسا نور نظر آیا جس سے مرعوب ہو کر میں سب کچھ بھول گیا۔ اس قسم کے باتیں موضع تلیس کے میر واعظ مولوی غلام اللہ بھی کرتے تھے جن کا کہنا تھا کہ پیر سید محمد شاہ کے پیشانی میں ایک طرح کا نور تھا۔ جس سے سامنے موجود آدمی کے دل میں ان کے لئے خود بخود احترام پیدا ہو جاتی تھی۔ سید زاہد حسین سینو کے روایت کے مطابق ایک دفعہ کریس میں آغا سید علی کے ساتھ کسی نکتے پر بحث ہوئی۔ آخر آپ نے جو گندم اور خشک لکڑی کو سرسبز کرنے کی کرامت دکھائی تو موصوف یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ سید محمد شاہ پیغمبری کا دعوی کرتا ہے اسی طرح آپ کی کامیابی سے موقع پر موجود لوگوں کہ بڑی حوصلہ افزائی ہوئی اور نعرہ صلوۃ بلند کیا گیا۔ اخوند ابراہیم ڈنس آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں بحیثیت شاگرد اور خدمت گار آپ کے ہم رکاب رہے، انہوں نے چشم دید واقعات راقم کو بیان کیا۔ ان کے مطابق قریبا ۱۹۴۴ میں سالانہ دورے پر چھوربٹ گئے جب کواس پہنچے تو ایک شخص مولوی عبد اللہ نے یہ کہہ کر چیلنچ کیا کہ نوربخشیہ مذہب شمر کا ایجاد کردہ ہے۔ اس پر بحث ہونی تھی۔ مناظرہ دیکھنے کے لئے آس پاس کے کئی گاوں سے لوگوں کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ پیر سید محمد شاہؒ نے موصوف سے ثبوت پیش کرنے کے لئے کہا تو اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔ بلکہ کہنے لگے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے۔ اس موقع پر وہ حاضرین کی غم و غصہ کے نشانہ بنتے رہ گئے۔ آپ کے صاحب طریقت ہونے کے حوالے سے کئی روایات پائی جاتی ہیں۔ اخوند ابراہیم ڈنس کے مطابق زندگی کے آخری سالوں میں آپکا یہ معمول بن چکا تھا کہ اکثر و بیشتر کسی کام سے پہلے استخارہ کیا کرتے تھے۔ جب آخری بار چھوربٹ گئے اور سیاری گاوں پہنچے تو کسی گھر میں طعام سے پہلے استخارہ کیا۔ پھر آپ نے پیش کردہ کھانا تباول کرنے کے بجائے کوئی اور چیز لانے کو کہا بعد میں جب لوگوں نے صاحب خانہ سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ جو بکرا ذبح کیا تھا وہ کسی اور کے ساتھ حصہ دار تھا اور ان سے اجازت نہیں لی گئی تھی۔ آپ کی بعض کرامات کا زکر کرتے ہوئے سید زاہد سینو لکھتے ہے ’’تیسری: پیر محمد شاہؒ کی کرامت میں سے یہ ہے کہ آپ پوریگ والوں کو انعام میں دئیے ہوئے توکنانی گھوڑے پر سوار ہو کر قبرستان میں فاتحہ پڑھنے جاتے تھے۔ اسی عادت کے مطابق پیر صاحب کی وفات کے بعد وہ گھوڑا ان کے مقبرے پر جاتا اور آنسو بہاتا جسے بہت سے لوگوں نے دیکھا تھا۔ اسی طرح دوسری قبروں پر جہاں پیر مرحوم فاتحہ پڑھنے جاتے ان جگہوں پر بھی جاتا تھا‘‘۔
درس و تدریس اور شاگرد
آپ کی پوری زندگی تبلیغ دین اور بقائے ملت کے لئے جد و جہد سے بھرپور تھی۔ اس قدر مصروفیات کے باوجود آپؒ نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا آپ کے بعض شاگرد آپ کے ہاں قیام کرتے اور ضرورت کے موقعوں پر گھر اور زمینوں کے کام میں ہاتھ بھی بٹاتے تھے۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں پیر سید عون علیؒ، سید علی شاہؒ پھڑاوا، اخوند ابراہیم ڈنس، مولوی مہدی علی کریس، اخوند مہدی شگر، اخوند حسین پنداہ، اخوند رینوس کورو، اخوند مرزا ہری کون، سید جعفر شاہ ہمباف دراس، وغیرہ شامل تھے۔ کہتے ہے آپ تدریس کے سلسلے میں بہت محنت سے کام کرتے تھے۔
کلام در شان امیر المومنینؑ:
آپ شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ امیر المومنین علیؑ کی شان میں آپکا ایک خوبصورت کلاام ’’مجموعہ قصائد نوربخشیہ‘‘ میں آیا ہے جس کے چند ابتدائی اشعار درج ذیل ہیں:
اے سفائے گوہر ایمان امیر المومنینؑ
شہسوار عرصہ ایقان امیر المومنینؑ
راز دار سر اسرار کاشف انوار غیب
صاحب تاویل بر قرآن امیر المومنینؑ
نفس پاک مصطفےٰ و بدر برج اوصیا
مخزن آن لوٗلوومرجان امیر المومنین
شہر علم حق شناسی ذات پاک مصطفیٰ
باب شہر و منبع عرفان امیر المومنین
آخری دو اشعار جن میں آپ نے اپنا بطور تخلص استعمال کیا ہے ملاحظہ کریں:
کیست در ملک بقا از رحمت و فضل خدا
جز محمد شاہ آں سلطان امیر المومنینؑ
روی رحمت سوی ایں راجی بکن یوم الجزا
اے قسیم الخلد والنیران امیر المومنین
وفات
۱۹۴۸ کے موسم بہار میں آپ شگر کے دورے پر تھے۔ اس دوران طبیعت بہت ناساز ہو گئی تو آپؒ نے اپنے رفیق اخوند ابراہیم ڈنس کو قرآن شریف سے فال نکالنے کو کہا۔ فال میں ان الذلذلت شیی عظیم نکلا۔ اسکو شاید اپنے انجام کا اشارہ سمجھا چنانچہ آپ نے اخوند موصوف اور دیگر مقربین کو ضروری وصیتیں اور ہدایات فرما دیں۔ کچھ دنوں کے بعد آپکی حالت بہت نازک ہو گئی تو شاگردوں اور عقیدت مندوں نے آپؒ کو پالکی میں بٹھایا اور رات کی وقت کریس کی طرف روانہ ہو گئے۔ دن کو سفر نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ ان دنوں جنگ آزادی زوروں پر تھی۔ نر کے مقام پر پہنچے تو مقامی کشتی (ذق) کے زریعے دریائے سندھ عبور کیا۔ قافلہ موضع گول کے زریعے کریس پہنچ گیا۔ الغرض اس بیماری سے آپ جانبر نہ ہو سکے اور ۱۷ محرم الحرام ۱۹۴۸ کو اس دار فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ آپ کا آستانہ کریس میں واقع ہے۔