اتفاق و اتحاد کے عوامل و اسباب


تحریر تحریر: فدا حسین فیضی مچلوی


دین مبین اسلام کو جوکامیابی وحدت اور اتفاق سے حاصل ہوئی ہے وہ کسی اور چیز سے نہیں ہوئی ،وحدت کی معنی مختلف گروہوں کا کسی مقصد کے لئے ایک ہو جانا ہے قرآن مجید اور آحادیث مبارکہ اس بات کی کافی تاکید ہوئی ہے ۔ خداوند تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر اس چیز کی تاکید کر رہا ہے کہ تم سب ایک ہی ماں باپ سے ہو ،تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں ،سب جمع ہو کر اللہ کی رسی کو تھام لو اور تفرقہ نہ کرو ۔ رسول خداؐ نے فرمایا :
الاجتماع الامة رحمة والتفرقة عذاب .( نہج الفصاحہ حدیث ۱۳۲۳)
ترجمہ : امت کا جمع ہو جانا رحمت اور متفرق ہو جانا باعث عذاب ہے ۔
اسی طرح کی بہت ساری روایات ہیں جن میں وحد ت پر زور دیا گیا ہے۔ اصل موضوع کی طرف جانے سے پہلے وحدت کی لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ پوری مضمون میں جہاں لفظ وحدت استعمال ہو تو اس کی معنی سمجھنا آسان ہو ۔
وحدت : لغت میں مادہ (و ح د) سے ہے اس کا معنی ایک ہوجانا ، مل جانا ،متحد ہونا اور یکتائی وغیرہ کے ہیں۔
اصطلاح میں امت مسلمہ کے تمام فرقوں کا آپس کے تمام جزوی اختلافات (چاہیے اعتقادی ہو یافروعی ) کو بالا طاق رکھ کر جو چیز سب کے درمیان مشترک ہیں ان پر جمع ہو جانا ہے۔ مثلاً: خدا ،رسول،قرآن ، قبلہ، فرشتے ،قیامت ،پاک ، نجس اور حلال و حرام وغیرہ ۔ یعنی ان میں سے کسی بھی ایک کے خلاف آواز اٹھے تو اس آوازکے خلاف تمام مسلمانوں کا آپس میں متحد ہو جانا ،اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ کوئی بھی شخص چاہیے جس دین سے تعلق رکھتا ہو عیسائی ہو یا یہودی ، مجوسی ہو یا بت پرست یا کوئی ملک چاہیے امریکہ ہو یا اسرائیل جو بھی امت مسلمہ کو سیاسی یا اقتصادی طور پر کمزر کرنا چاہے اور ہمارے ان مشترکات کے ساتھ کچھ کرنا چاہے تو سمجھ لینا کہ وہ تمام امت مسلمہ کا دشمن ہے ، لہذا ان کے مقابلے میں تمام اسلامی فرقوں کا جمع ہوجانا ہے۔ پس وحدت سے مرا د دشمن اسلام کے مقابلے میں یک جان و یک صدا ہو جانا ہے تاکہ دوسرا کوئی آپ کے دین وعقائد کے خلاف کچھ بولنے کی ہمت نہ کرئے اور ان کے تمام ناپاک سازشیں ناکام ہو جائیں ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سب سنی یا شیعہ یا نوربخشی ہوجائیں بلکہ اپنی شناخت اور پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے دین اسلام کا دفاع کریں۔
اس مختصر مضمون میں وحدت اسلامی سے میری مراد نوربخشی ،شیعہ و سنی اور اہل الحدیث میں سے ہر ایک اپنے عقیدے کے ساتھ آپس میں متحد ہو جانا ہے، آپس میں تفرقہ اور نفرت نہ پھیلانا اور سب کا مرکز کتاب الہی اور سنت نبویؐ ہونی چاہیے اور یہ بات ہر صاحب عقل شخص بغیر کسی غرض کے قبول کر یں گے ۔
وحدت کی اہمیت قرآن و حدیث سے واضح ہیں جس کو حقیر نے اپنے ایک فارسی مقالہ میں بیان کیا ہے لہذا اس تحقیق میں وحدت کے کچھ عوامل ذکر کرنے کی کوشش کریں گے ۔اس بات کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر شہر، ملک یا ملت میں اتفاق اور اتحادکے لئے کچھ عوامل و اسباب کے محتاج ہو تے ہیں۔ ان عوامل کے ذریعے تسبیح کےبکھرے ہوئے دانوں کی طرح ایک دوسرے کو جوڑا دوں اور اس موضوع میں ہرگز عوامل ظاہری مثلا قوم ، ملک ،زبان یا سرحد مراد نہیں کیونکہ یہ عوامل ہمارے اس موضوع میں اتحاد پیدا نہیں کرسکتے ، اگر کہیں پر اتفاقی طور پر اتحاد کر بھی لیا تو اس کا کوئی دوام و استمرار نہیں ہے اور مخصوصاً وہ تفرقہ و اختلافات جو انتخابات کے دوران مذہب اور قوم میں پھیل جاتے ہیں اسی لیے خداوند عالم نے اپنے رسولؐ سے ارشاد فرمایا:
و الّفت بین قلوبهم ،لو انفقت ما فی الارض جمیعاً مّا الّفت بین قلوبهم ولکنّ الله الّف بينهم انه عزیز حکیم۔ (سورہ انفال ،آیت ۶۳)
اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کیا اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں ) کو جوڑ دیا۔
اس آیت سے واضح ہوتی ہے کہ دنیاوی کوئی عامل مسلمانوں کو آپس میں متحد نہیں کرسکتا لیکن عوامل معنوی ہی ہیں جس کے ذریعے یقیناً مسلمانوں کے مختلف فرقوں خصوصاً ہم نوربخشیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر سکتے ہیں انہی عوامل میں سے کچھ عوامل بیان کرنے کی کوشش کریں گے :
۱۔توحید
اس بات پر تمام مسلمانوں کااتفاق ہے کہ خدا ایک ہے وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے”قل هو الله احد ،الله الصمد”[سورہ اخلاص ،آیات ۱ و۲]
اور اس کا کوئی شریک نہیں اور ہر چیز کے بارے میں جاننے والا اور حکیم ذات ہے۔ اس کا کوئی بھی کام مصلحت سے خالی نہیں ہے اسی ایک خدا کے حکم پر یہ سارے کائنات کا نظام چل رہا ہے اور کائنات باقی ہے ، اگر کائنات میں اللہ کے علاوہ کوئی اور پروردگار ہوتا توضرور فساد ( نظام کائنات درہم برہم) برپا ہو تا ۔ جیسا کہ خود باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
لوکان فيهما آلهة الا الله لفسدتا. ( سورہ انبیاء ،آیت ۲۲)
اگرآسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی معبود ہوتا تو دونوں (کے نظام )درہم برہم ہو جاتے ۔
پس اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہی اتفاق و و حدت کا عامل ہے جیسا کہ نقل ہوا ہے : زمان رسول اللہؐ میں شاس بن قیس نامی شخص جو دور جاہلیت میں بڑا ہو اتھا ، اس کے دل میں مسلمانوں کے بارے میں بغض وعداوت وحسد کے آگ جل رہی تھی۔وہ ایک بار راستے سے گزر رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اسلام نےکس طرح اوس اور خزرج کے درمیان اختلافات کو دور کر کے محبت و خلوص کے رنگ میں رنگ دیا ہے ۔اس نے ایک یہودی جوان کو وہ نظمیں یاد کرایا جو بعاث کے جنگ کے بارے میں اوس اور خزرج کے شاعروں نے کہی تھیں، نظم یاد کرانے کےبعد اس نے اس نوجوان کو حکم دیا کہ تم جاؤ اور جا کر اوس و خزرج کے مجمع میں بیٹھ کر انہیں یہ نظم سناؤ۔ اس نے جا کے ان متاثرانہ نظموں کو سنایا تو اوس و خزرج کے اندرقبائلی جذبات بھڑک اٹھے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف بول پڑے ، پھر ہاتھا پائی ہوئی، یہاں تک کہ اسلحہ لے کر دونوں جن کی نیت سے میدان میں پہنچ گئے۔ جب حضورؐ کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ جلدی سے میدان جنگ پہنچ گئے، فریقین کو روکا اور آپؐ نے فرمایا: تم سب اللہ کے بندے ہو اور سب کا خدا ایک ہے اور میں ابھی تمہارے درمیان میں موجود ہوں اور تم جاہلیت کی طرح جنگ کرنے جا رہے ہو۔
آپؐ کی نصیحت پر فریقین نے سمجھ لیا کہ یہ شیطانی نزعہ اور یہودیوں کی سازش تھی ،چنانچہ ان دونوں قبائل نے توبہ کی اور ایک دوسرے سے گلے ملے اور محبت کے ساتھ حضورؐ کی قیادت میں توحید کے پرچم تلے جمع ہو گئے۔
امیر المومنین ؑ نے فرمایا: الهکم واحد.تم سب کا پروردگار ایک ہی ہے ، سب کا معبود ایک ہے، پس اس پر سب جمع ہو جائیں۔
۲۔نبوت
اس بات پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ خداوند عالم نے ہر دور ، ہر زمانے میں اپنے احکامات کو انبیاءعلیہم السلام کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا رہا اور یہ سلسلہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐ کے بعد ختم ہوا اور آپ ؐ کی شریعت کو قیامت تک کے لئے جاری رکھا۔ جو چیز پیغمبرؐ نے حلال کہا قیامت تک کے لئے حلال اور جس چیز کو پیغمبرؐ نے حرام کہا قیامت تک کے لئے حرام ہوگا۔
حلال محمد حلال الی یوم القیامة و حرام محمد حرام الی یوم القیامة.
جب تک سب امت مل کر اسی زمانے کے نبی و رسول کے حکم کےپیروی کرتے رہے اس وقت تک کسی بھی ادیان الہٰی میں کوئی اختلاف نہیں ہوا لیکن جب سے لوگوں نے انبیا کوجھٹلایا تب سے امتوں میں اختلاف وتفرقہ شروع ہوئے یہاں تک کہ حضرت موسی ؑ کے دور میں ۷۲ بہتر فرقہ ہو چکے تھے جیسے کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا:سَيَأْتِي عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ مِثْلٌ بِمِثْلٍ وَ إِنَّهُمْ تَفَرَّقُوا عَلَى اثْنَتَيْنِ وَ سَبْعِينَ مِلَّةً وَ سَتَفَرَّقُ‏ أُمَّتِي‏ عَلَى ثَلَاثٍ وَ سَبْعِينَ مِلَّة۔[بحار الانوار، ج۲۸، ص ۴]
اسی طرح زمان رسول ؐ میں بھی تمام مسلمان ایک تھے جب رسولؐ اس دنیا سے چلے گے تو لوگوں نے آپؐ کی بات نہیں مانی اور جس کو آپؐ نے اپنے جانشین بنایا تھا اس پر عمل نہیں کیا اور اپنی طرف سے اپنی چاہت کے مطابق کسی کو رسول اللہؐ کا جانشین مقرر کیا۔ اس وقت سے دین اسلام میں بھی تفرقہ و اختلافات ہونا شروع ہو ا۔
خداوندہ قدس نے قرآن مجید میں ہمیشہ اپنی اطاعت سے ساتھ رسولؐ کی اطاعت و اتباع کرنے کا حکم دیا ہے :
اطيعو الله و اطيعوا الرسول واوالامر منکم . ( سورہ نساء آیہ ۵۹)
اطيعوالله و رسول لعلکم ترحمون. (آل عمران آیہ ۱۳۲)
قل ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببکم الله . ( سورہ آل عمران آیہ ۳۱)
اتنی ساری تاکید کے باوجود ہم نے رسولؐ کی پیروی چھوڑ دیا تو اسلام میں تہتر فرقے وجود میں آئے ہیں۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا :نبيکم واحد. یعنی تم سب کا نبی ایک ہے ۔
خداوندہ ارشاد فرماتا ہے :
ما اتاکم الرسول فخذوه و ما نهاکم عنه فنتهو. ( سور ہ حشر آیہ ۷)
رسولؐ نے جو دیا اسی کو تھام لو اور جس چیز سے رسول نے روک کے رکھا روک جاو ۔
پس اس آیت مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوا کہ رسول خداؐ کی ذات مبارکہ مسلمانوں کے لئے وحدت کا مرکز ہے، اگر مسلمان اپنے ہر حکم میں رسولؐ کو مرجع و مبنع قرار دیں تو کوئی اختلاف پیدا نہیں ہو سکتا۔
۳۔دین اسلام
دین اسلام کے وہ تمام اعمال جن کو انجام دینا سارے مسلمان مکلفین پر فرض ہے ان میں سے پانچ وقت کی نماز، ماہ مبارک رمضان کا روزہ ،بیت اللہ شریف کا حج ،ذکوۃ اور باقی تمام اعمال کو وحدت کے عوامل میں سے قرار دیا جاسکتا ہے اور ہر وہ شخص جو ان اعمال کو انجام دیتا ہو وہ مسلمان اور اسلام کے جھنڈے تلے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
من شهد ان لا اله الّا الله و استقبل قبلتنا وصلی صلاتنا ،اکل ذبیحتنا فذلم المسلم له ما للمسلم و عليه ما علی المسلم۔
جو شخص خدا کی وحدانیت کی گواہی دے اور ہمارے مسلمانوں کے قبلہ کی طرف روخ کر کے نماز پڑھے ، ہماری طرح جانوروں کو ذبح کرئے پس وہ مسلمان شمار ہوتا ہے وہ مسلمان ہے۔ اس کے لیے وہی کچھ ہیں جو مسلمانوں کے لئے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
الاسلام هو الظاهر الذّی عليه النّاس شهادۃ ان لا اله الّا الله وحده لا شریک له و انّ محمّد عبدہ و رسوله و اقام الصّلاۃ و ایتاء الذکات و حج البیت و صیام شهر الرمضان ( نسائی ۷۶ ، بخاری ۷۵ ، مسلم ۲۱ ، )
اسلام سے مراد وہی ظاہری چیز ہے جس پر لوگ عمل کرتے ہیں، خدا کی وحدانیت کی گواہی محمدؐ کی رسالت کی گواہی و نماز کا پڑھنا ،ذکوۃ ادا کرنا ، بیت اللہ کا حج کرنا اور ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا ۔
امام علیہ السلام کی اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے ہے اسلام خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی گواہی دینے، نماز، روزہ ،ذکوۃ اور حج کی بجاوری سے عبارت ہے ۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
امّا دین یجمعکم۔ ( نہج البلاغہ خطبہ ۳۹) اور فرمایا: انّما انتم اخوان علی دین الله.( نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۲)
امیر المومنین علی علیہ السلام دین کو اجتماع مسلمان کا سبب اور مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ اسی بات کو پروردگار نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے : انما المومنون اخوة.مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، اس وجہ سے دین اسلام اس حد تک مسلمانوں کو آپس میں نزدیک کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے بھائی قرار دیتے ہیں .
۴۔قرآن و اہلبیت
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت جسے آپ نے بہت ہی سنگین اور قیمتی قرار دیا وہ قرآن و اہلبیت علیہم السلام ہیں ۔
جیسا کی قرآن حکیم میں بھی اشارہ ہوا ہے کہ پیغمبراکرم ؐ اپنے پورے ۲۳ سالہ تبلیغی زحمتوں کے عوض و بدلے میں صرف اہلبیت کی محبت کا تقاضا کیا ہے :قل لا اسئلکم عليه اجرا الاّ المودۃ فی القربی۔( سورہ شوریٰ ایت ۲۳)
جب ہم عالم اسلام کے تمام کتب کا مطالعہ کرئے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر خداؐ نے تمام مسلمانوں کو قرآن کے بعد اہلبیتؑ کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور قرآن و عترت کو بہترین وحدت کے عوامل میں سے شمار کیا گیا ہے آپؐ کی وہ حدیث جو عالم اسلام کے تمام مذاہب کے کتابوں میں متواتر اور صحیح سند کے ساتھ وارد ہو ئی ہے وہ حدیث ثقلین ہے :
انّی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی، احدهما اعظم من الاخر کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی۔( مودۃ القربیٰ امیر کبیر سید علی ہمدانی ، رسالہ معراجیہ ازمیر سید محمد نوربخش)
میں تم لوگوں کے درمیان دو گران قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جو کوئی میرے بعد ان دونوں سے تمسک کرئے وہ ہرگز گمراہ نہیں ہو گا ان میں سے ایک درسرے سے زیادہ عظیم ہے اللہ کی کتاب جو ایسارسی ہے کہ آسمان سے زمین تک پھیلا ہوا ہے دوسرا میرا اہلبیتؑ ۔
اور بعض منابع میں اس عبارت کو بھی اسی حدیث کے ساتھ لائی ہے :
فلا تقدموهما و لا تقصروعنهما فتهلکوا، ولا تعلموهم فانهم اعلم منکم۔ ( ابن حجر مکی الصوعق المحرقہ صفہ ۱۴۸)
ان دونوں سے آگے بھی نہیں جانا اور ان سے پیچھے بھی نہیں رہنا ہلاک ہو جایں گے ۔تم لوگ ان کو کچھ تعلیم نہیں دینا وہ تم سے زیادہ جاننے والا ہے ۔ اس روایت میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ قرآن اور اہلبیت ؑ کو دو گران چیزوں سے تعبیر کیا ہے یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے ، ان کے آپس میں تا قیام قیامت تک وحدت باقی رہے گی اسی وجہ سے پیغمبر خدا ؐ نے تمام مسلمانوں کو ان دو گوہر گران بہا کی پیروی کرنے اور قرآنی اوامر و نواہی کی تفسیر اور توضیح کے لئے اہلبیت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ یہی ہستیاں حقیقی مفسر قرآن ہیں ، اس روایت کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ نے افتراق و اختلاف کے تمام دروازہ بن کر دیے ہیں۔ اسی لئے امام علیؑ قرآن کو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا محور قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: واحیائه الاجتماع عليه و اماتته الافتراق عنه.قرآن کا احیا اس پر سب جمع ہو جاتے ہیں اور قرآن کی موت اس سے سب کی جدائی اور افتراق ہوتے ہیں ۔
۵۔قومی تعصب کا چھوڑ دینا
پیغمبر اکرمؐ نے مسلمان کے درمیان وحدت پیدا کرنے اور ان کے آپس میں حس برادری قائم کرنے کے لئے ایک اہم ترین راہ اقوام پرستی اور ایک قوم دوسرے قوم پر فضیلت و برتری دینےکو ترک کرنے کو قرار دیا ہے چونکہ ابتداء تاریخ اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت لوگ ایک دوسرے پر قومیت کے اعتبار سے فخر کیا کرتے تھے کہ میں عرب ہوں تم عجم ہو یا نسب کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی کوشش کرتے تھے میں فلان شخص کا بیٹا ہو فلان قبیلہ سے میرا تعلق ہے وغیرہ وغیرہ
لیکن قرآن مجید پیغمبر ؐ پر نازل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ غلط تفکر آہستہ آہستہ تنزل کی طرف گیا قرآن مجید میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :
یاايهاالنّاس اناخلقناکم من ذکر وانسا وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔( سووہ حجرات ایہ۱۳)
اس طرح اگر ہم رسول اللہؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں کہ آپؐ نے بلال حبشی جوکہ حبش سے تھا اور سیاہ پوست تھا، آپؐ نے ان کو اپنا موزن بنادیا۔ زید بن حارث کو لشکر کا سربراہ بنا دیا اور سلمان فارسی جو کہ ایرانی تھا عرب انہیں عجم کہہ کر حقیر اور پس شمار کرتے تھے لیکن آپؐ نے سلمان کو ایسا مقام دیا کہ سلمان میرے اہلبیت میں سے ہے ۔اسی طرح آپؐ نے انصار اور مہاجرین کے آپس میں برادری قائم کیا۔ ان تمام کا مقصد زمان جاہلیت کے رسم و رواج کو ختم کرنا اور اس بات کو روشن کرناتھا کہ قوم وقبیلہ ،زبان ورنگ و پوست برتری کا معیار نہیں ۔ہے اس تفکر کے ساتھ جو اختلافات و تفرقہ موجود تھے ان سب کو ختم کر کے سب کو ایک ہی خدا کے بندہ ہونے اور سب آپس میں برابر ہونے کو ثابت کرنا تھا ۔
۶۔تعامل و گفتگو
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ مکاتب اسلامی کے درمیان اصولی اور فروعی اختلافات موجود ہیں اگر چہ خود اہل سنت وشیعہ کے اندر بہت سارے فرقہ ہیں مثلاً سنیوں کے ہاں فقہی لحاظ سے چہار بڑے فرقے ہیں: حنفی ، شافعی، حنبلی و مالکی اور شیعہ کے درمیان بھی اسماعلیہ، زیدیہ واقفیہ وغیرہ موجود ہیں لیکن ہم اہل نوربخشیہ الحمد للہ سب ایک ہی مجتہد اور ایک ہی فقہ کے ماننے والے ہیں باقی کچھ اختلافات تو ہر عالم کے درمیان ہوتے ہیں اس چیز کو اگر مدنظر رکھے تو باقی مذاہب میں درجنوں فرقے نکل آئیں گے ۔لہذا ہم اپنی گفتگو کے ذریعے تقریروں ،واعظ ونصیحت اور اشعار میں غور و فکر کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں محبت وامن پیدا کر سکتے ہیں۔ بطور مثال ایک اشتباہ جو کی صوفیہ امامیہ نوربخشیہ والوں کے بارے پیدا کیا ہے کہ نعوذ باللہ یہ لوگ قرآن کے منکر ہیں یہ لوگ کسی اور قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اگر ہم اس میں تعصب کے عینک اتار کرتعامل و غور فکر کے ساتھ تحقیق کرئے تو ہمیں بلا شک وشبہ کے معلوم ہو جائے گا کہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے پیروکار بھی اسی قرآن پر ایمان رکھتے ہیں جس پر تمام مسلمان ایمان رکھتے ہیں جو کہ خدا وندہ عالم نے جبرائیل آمین کے ذریعے حضرت محمد مصطفیؐ پر نازل کیا اور یہ لا ریب حقیقت ہے اس کتاب میں کسی قسم کے شک نہیں ہے اسی طرح باقی مسایل کےلئے بھی طرفین کے علماء مل بیٹھ کر اگر غور فکر کے ساتھ تحقیق کرئے تو کوئی ایسا مسلہ نہیں ہے جو حل نہ ہو سکےاس کیلے علماء کا آپس میں متحد ہونا ضروری ہے ۔
۷۔ائمہ اطہارعلیہم سلام

رسول خداؐ کے بعد جو وحدت و اتحاد کا عامل و سبب بن سکتاہے وہ ائمہ علیہم سلام کی ذوات مقدسہ ہیں، چونکہ اسلام میں سب سے پہلے اختلاف بعد از رسولؐ اسی امامت و خلافت میں ہوا ہے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ رسول اللہ ؐ نے کس کو اپنا جانشین و امت کے لئے امام قرار دیا تو عالم اسلام کے بہت سارے کتابوں میں غدیر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ پیغمبر خداؐ نے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر کے مقام تمام حجاج کو جمع کر کے فرمایا: من کنت مولاه فهذا علي مولاه.جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔
لہذا ہم رسول کے فرمان کے مطابق اس کے جانشین کی پیروی کرئےتو یہ بھی اتفاق و اتحاد کا ایک اہم سبب ہے ۔
۸۔سلسلۃ الذھب
مسلک نوربخشیہ کو یہ خصوصیات و امتیاز حاصل ہے کہ اس کے پیروکاران اس سلسلہ کے ساتھ متمسک ہیں جویداً بید بغیر کسی انفصال کے آئمہ علیہم السلام سے ہوتے ہوئے رسول خداؐ تک پہنچتاہے اور تصوف میں یہی سلسلہ ذہب کے نام سے مشہور ہےخدا وندہ عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا ( سورہ آل عمران ایہ ۱۰۳)
تم سب اللہ کے رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو۔ اس حکم کی تکمیل کرتے ہوئے امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ نےارشاد فرمایا :
واعتصمنا بحبل الله المتین۔( دعوت صوفیہ امامیہ ترجمہ سید خورشید عالم/ دعوات صوفیہ ترجمہ علامہ محمد بشیر] یعنی ہم نے اللہ کے رسی کو تھام لیا۔اس کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام جو کہ نوربخشی تعلیمات کے مطابق ائمہ حقیقی ہیں ،کے نام ذکر کرنے کے بعد سلسلہ ذہب کے اقطاب و پیران پیر کے اسما ذکر کرکے فرماتے ہیں:
صلوات الله وسلامه عليه و عليهم اجمعین لان هم ائمتنا فی الدین و علی طریق الحق و الیقین و هذا حبل الله المتین لا ینقطع الی یوم الدین وهو صراط المستقیم للمومنین۔ [دعوت صوفیہ امامیہ ترجمہ سید خورشید عالم/ دعوات صوفیہ ترجمہ علامہ محمد بشیر ]خدا کادورد و سلام ہو محمدؐ کی ذات پر اور ان تمام پر ۔ کیونکہ یہی ہستیاں ہمارے دین کے رہبر و رہنما ہیں حق و یقین کے راستے ہیں اور اللہ کے مضبوط رسی ہیں جو قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور مومن کیلے سیدا راستہ ہے آگے دعا کرتے فرمایا
پس اگر ہم سلسلہ ذھب کے پیران پیر کی تعلمات پر عمل کرئے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم سب ایک ہی پرچم کے سایہ تلے جمع ہو جائیں گے۔
اس دعا کے ساتھ کہ ہمیں اسلامی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے قرآن و اہلبیت سے متمسک رہ کر اتحاد و اتفاق کے لئے عملی کوشش کرنے کی توفیق عنایت۔