اہل بیت علیہم السلام اور عزاداری


تحریر سید بشارت حسین الموسوی تھگسوی


حضرت سید الشہداء ،خامس آ ل عبا امام حسین ابن علی علیہما السلام پر کئے گئے مظالم و مصائب کی یاد میں رونا اور غمگین ہونا کبھی بے اختیار ہوتا ہے ،چنانچہ اکثر اوقات اتفاق ہوتا ہے کہ انسان مصائب امام حسین علیہ السلام سن کر یا ذہن میں ویسے تصور آنے سے غمگین ہوتا ہے اور گریہ کی کیفیت پیش آتی ہے اور عام طور پر ایسے غم و گریہ کو روک نہیں سکتا۔ خصوصا ایسے افراد کے لئے جن کے دل میں محبت اہل بیت علیہم السلام ہو ۔
تحریک عاشورا اور واقعہ کربلا سے مربوط اہم موضوعات میں سے ایک امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثار ساتھیوں پر رونا اور ان کے لئے مجالس عزاء برپا کرنا ہے ۔یہ موضوع اپنی اہمیت کی وجہ سے تمام تاریخی ادوار میں اہل تحقیق، محدثین ،علماء، متفکرین اور عام لوگوں کے نزدیک مورد بحث رہا ہے اور مختلف شکلوں میں لکھا گیا ہے ۔اس اہم موضوع پر سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں اور مقالے لکھے جاچکے ہیں تا ہم اس مختصر مضمون میں اس حوالے سے معصومین علیہم السلام کی سیرت اور ان کے فرامین کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
وفات نبی ؐ پر حضرت فاطمہ زہرا ؑ کا گریہ
پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت کرگئے تو جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے جس ردعمل کا اظہار کیا اس حوالے سے مورخین و محدثین رقمطراز ہیں :
ثم رجعت فاطمة الی بیتها واجمعت اليها النساء فقالت فاطمة اناﷲ وانا اليه راجعون، انقطع عناخبر السماء ثم قالت فی مرثية النبی.
اغبرافاق البلاد وکورت
شمس النهار واظلم العصران
والارض بعد النبی خریبه
اسفا عليه کثیرۃ الرجفان
فلیبکه شرق البلاد و غربها
ولیبکه مصر و کل یمان(۱)
ترجمہ: بعد ازاں حضرت فاطمۃؑ الزہرا ؑ اپنے گھر میں تشریف لے آئیں عورتیں تعزیت کے لئے آپ ؑ کی خدمت میں جمع ہوئیں، تب فاطمہ ؑ نے کلمۂ ’’اِنَّا لِلّه وَاِنَّا اِلَيه رَاجِعُوْنَ‘‘ زبان پر جاری کیا اور فرمایا اب آسمان کی خبریں ہم سے منقطع ہوگئیں، پھر حضور ؐ کے مرثیہ میں یہ اشعار پڑھے:
اطراف عالم غبار آلود ہوگئے اور دن کا آفتاب سیاہ ہوگیا، اور تمام زمانہ تیرہ و تاریک ہوگیا اور زمین آپ ؐ کے بعد ویران ہوگئی اور حضرت پر افسوس کرنے کے سبب ان کو بہت زلزلہ آرہے ہیں پس ضروری ہے کہ جہاں کے مشرق و مغرب آپ ؐ پر گریہ کریں اور مصر اور تمام اہل یمن ان پر روئیں۔
اہل سنت علمائے کرام اس حوالے سے یوں کہتے ہیں:
’’فاطمه زهرا چون اين آواز شنید دست بر سر زنان از خانه بیرون آمد و می گریست و هم زنان هاشميه می نالیدند‘‘ (۲)
ترجمہ: کہ جب رسول اللہ ؐ کی موت کی خبر میدان احد سے مدینہ پہنچی اور جناب سیدۃ النساء حضرت فاطمہ ؑ نے یہ خبر سنی تو سر پیٹتی ہوئی گھر سے باہر آگئیں اور وہ زار و قطار رو رہی تھی اور دیگر ہاشمی عورتیں بھی رو رہی تھی۔
امام حسین ؑ کا قبر رسول ؐ پر رونا
اٹھائیس صفر کی رات جب امام عالی مقام علیہ السلام مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف سفر کا ارادہ کرچکے تو روضہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گئے وہاں پر آپ نے گریہ کیا جیسے کہ مورخین لکھتے ہیں :
ثم اتی الحسین الی قبر جده وبکی و قال یا جدی انی اخرج من جوارک کرها لانی لم ابایع یزید شارب الخمور ومرتکب الفجور۔(۳)
ترجمہ: پھر امام حسین ؑ اپنے جد امجد حضور اکرم ؐ کی قبر پر آئے اور گریہ کیا اور کہا :اے میرے جد ؐ ! میں آپ ؐ کے جوار سے دور ہونے پر مجبور ہوگیا ہوں کیونکہ میں نے یزید ملعون جیسے شرابی اور فاسق و فاجر کی بیعت نہیں کی۔
سید الشہداء پر حضرت سجاد ؑ کا گریہ
روایت کے مطابق حضرت امام زین العابدین سید الساجدین ؑ چالیس سال تک کربلا کے غم انگیز واقعہ اور اپنے والد بزرگوار کی یاد میں روتے رہے۔(۴)
حضرت امام محمد باقر ؑ اور ماتم حسین ؑ
امام محمد باقر نے فرمایا کہ عاشورا کے دن سید الشہداء پر رونا چاہئے۔ ہر شخص اپنے گھر والوں کو امام حسین ؑ پر رونے کا حکم دے، گھروں میں اس طرح سید الشہداء پر گریہ کرے کہ مظلوم کربلا ؑ کی یاد تازہ ہوجائے گھر کے افراد ایک دوسرے سے روتے ہوئے ملیں اور ایک دوسرے کو مصیبت حسین ؑ پر تسلیت اور تعزیت پیش کریں۔ اگر کوئی یہ عمل بجالائے تو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو دو ہزار حج و عمرہ اور انبیاء ؑ اور ائمہ ؑ کے ساتھ جہاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا۔[۵]
حضرت امام جعفر صادق ؑ اور عزاداری حسین ؑ
امام صادق ؑ نے فرمایا:
انه قال للفضل تجلسون وتتحدثون ؟ فقال : نعم ، قال : ان تلک المجالس احبها فاحیوا امرتا فرحم الله من احیی امرنا۔ (۶)
ترجمہ: اے فضیل ! تم کیا ہماری مجالس میں بیٹھتے اور ہمارے بارے میں گفتگو کرتے ہو؟ عرض کیا :جي ہاں ، آپ ؑ نے فرمایا ہم ان مجالس کو پسند کرتے ہیں ان مجالس سے ہمارے حکم کو زندہ کرو۔ اے فضیل ! خدا کی رحمت اس پر ہو جو ہمارے امر کو زندہ رکھتا ہے۔
دوسری جگہ مولا ؑ کا دوسرا فرمان ملتا ہے۔
من جلس مجلساً یحیی فيه امرنا لم یمت قلبه القلوب۔ (۷)
ترجمہ: جو کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جہاں ہمارے امر کو زندہ رکھا جاتا ہو، ایک دل تمام دل مردہ ہوجائیں گے لیکن وہ دل نہیں مرے گا۔
ایک اور مقام پر امام ؑ فرماتے ہیں:
من بکی او ابکی ثلاثین فله الجنة و من تباکي فله الجنة۔ [۸]
ترجمہ: حضرت امام صادق ؑ نے فرمایا :جو ہماری مصیبت میں روئے یا تیس افراد کو رلائے اس کے لئے بھی جنت ہے اور جو رونے کی شکل بنائے اس کے لئے جنت ہے۔
بعض کتب ميں یہ حدیث پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ السلام سے بھی منقول ہے۔جبکہ یہ حدیث امام صادق علیہ السلام سے ہی ان عبارت کے ساتھ بھی منقول ہے :
مامن احد قال فی الحسین شعراً فبکی وابکی به الا اوجب الله له الجنة وغفر له۔ [۹]
ترجمہ: امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا جس کسی نے حسین ؑ کے لئے ایک شعر پڑھا رویا اور (دوسروں کو) رلایا خدا تعالیٰ نے اس کے لئے جنت واجب کیا اور اسے بخش دیا۔
کتاب علل الشرائع میں شیخ صدوق ؒ ، عبد اللہ ابن فضل کے حوالے سے روایت نقل کرتے ہیں کہ عبد اللہ نے حضرت امام جعفر صادق ؑ سے عرض کیا کہ یابن رسول اللہ ؐ عاشورہ کے دن جو بڑی مصیبت واقع ہوئی ہے کیا ہے اور کس وجہ سے دوسرے تمام ایام مصیبت جیسے روز وفات رسول ؐ روز شہادت حضرت علی ؑ، روز شہادت فاطمہ ؑ، روز شہادت حضرت امام حسن ؑ سے یہ روز افضل ہوگیا؟ حضرت امام جعفر صادق ؑ نے جواب دیا یقیناً روز شہادت حسین ؑ دوسرے تمام ایام سے زیادہ غم انگیز ہے کیونکہ اصحاب کساء جو تمام مخلوقات سے افضل ہیں پانچ تھے جب حضور ؐ اس دار فانی سے چلے گئے تو چار باقی رہ گئے ان چاروں کی لوگ عزت وتکریم کرتے تھے یہاں تک کہ صرف ابو الاحرار سید الشہداء حضرت امام حسین ؑ باقی رہ گئے۔
جب امام حسین ؑ میدان کربلا میں شہید کئے گئے تو اصحاب کساء میں سے کوئی باقی نہ رہا پس ان کی شہادت سے اصحاب کساء کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اگر وہ باقی ہوتے تو اس طرح تھا کہ تمام اصحاب کساء باقی ہیں اس لئے روز شہادت حسین ؑ دوسرے ایام سے زیادہ غم آور ہے۔ [۱۰]
عزاداری امام حسین ؑ اور حضرت امام علی رضا ؑ
امام علیہ السلام نے اپنے صحابی ابن شبیب سے سے فرمایا:
یابن شبیب ان کنت باکیاً فابک للحسین فانه ذبح کما یذبح الکبش وقتل معه من اهل بیته ثمانية عشر رجلاً ۔ (۱۱)
ترجمہ: اے شبیب کے فرزند! اگر کسی چیز پر گریہ کرنا چاہتے ہو تو حسین ؑ کی مصیبت پر گریہ کرو کیونکہ آپ ؑ کو اس طرح ذبح کیا گیا جس طرح گوسفند کا سر جدا کیا جاتا ہے اور آپ ؑ کے اہلبیت ؑ کے اٹھارہ افراد کو شہید کیا گیا کہ روئے زمین پر اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے آپ ؑ کی شہادت پر سات آسمان اور زمین نے گریہ کیا۔
حضرت مولا امام رضا علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں :
قال امام علی رضا: مَنْ تَذَکَّرَ مَصَائِبَنَا وَبَکی لَمَا اِرْتَکَبَ مِنَّا کَانَ مَعَنَا فِیْ دَرَجَتِنَا یَوْمَ الْقِیَامة.[۱۲]
ترجمہ: حضرت امام علی رضاؑ نے فرمایا کہ جو ہمارے مصائب کا ذکر کرے گا اور مصیبتوں پر روئے گا وہ روز محشر ہمارے ساتھ ہی درجے میں ہوگا۔
بعض کتب میں امام علیہ السلام سے یہ حدیث بھی منقول ہے :
قال امام علی رضا : و مَنْ ذَکَرَ بِمَصَائِبِنَا فَبَکی وَ اَبْکی لَمْ تَبْکِ عَیْنَیهِ یَوْمَ تَبْکِیْ الْعُیُوْنُ۔ [۱۳]
ترجمہ: حضرت امام علی رضا ؑ فرماتے ہیں جو ہمارے مصائب کا ذکر کرے ہماری مصیبت پر جس کی آنکھیں روئیں تو اس کی آنکھیں قیامت کے دن کہ جب ہر آنکھ روتی ہوگی نہیں روئیں گی۔
حضرت امام حسن عسکری ؑ کا گریبان چاک کرنا
حضرت امام علی النقی ؑ نے انتقال سے قبل امام حسن العسکری ؑ کو مواریث انبیاء سپرد فرمائے تھے۔ وفات کے بعد جب امام حسن العسکری ؑ نے گریبان چاک کیا تو لوگ معترض ہوئے تو آپ ؑ نے فرمایا کہ یہ سنت انبیاء ؑ ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے وفات ہارون ؑ پر اپنا گریبان پھاڑا تھا۔[۱۴]
حضرت زینب ؑ کا ماتم
حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد کے واقعہ کو علامہ محمد بن جریر طبری ان الفاظ میں لکھتے ہیں:
’’عمر ابن سعد نے اس دن وہیں قیام کیا دوسرے دن صبح کو حمید بن بکیر کو حکم دیا کہ لوگو! کوفہ کی طرف جانے کی منادی کرو وہ اپنے ساتھ آپ ؑ کی بیٹیوں اور بہنوں اور بچوں کو سوار کرکے لے چلا اور علی بن حسین ؑ بیمار تھے۔ یہ بیبیاں جب آپ ؑ کی لاش اور آپ ؑ کے عزیزوں اور فرزندوں کی لاشوں کی طرف سے گزریں تو آہ و نالہ کرنے لگیں اور منہ پیٹنے لگیں”۔
خلاصہ بحث
عزاداری حسین ؑ عمل و انقلاب کی یادگار ہے۔ حیات انسانی کا گرانقدر سرمایہ ہے اور فروغ انسانیت کے لئے ایک ایسی مؤثر اور مقدس تحریک ہے جو اپنے اندر تاریخ کا پورا باب لئے ہوئے ہے۔ ایک ایسی درد بھری داستان کی یاد ہے جو افکار عالم کو دعوت فکر و عمل دیتی ہے اور تمام عالم انسانیت کے لئے ایک ایسے لازوال، غیر فانی اور حق پرور پیغام کی حیثیت رکھتی ہے جو بلاتخصیص مذہب و ملت دنیا کے تمام حریت پسندوں کے لئے مشعل ہدایت ہے۔ عزاداریٔ حسین ؑ ہر دور، ہر عہد اور ہر زمانہ میں یہ سبق دیتی رہے گی کہ حق و صداقت کی راہ میں کبھی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ عزاداری کا مقصد ایک ایسا انسانی معاشرہ قائم کرنا ہے جس میں طاقت اور اقتدار کو حق نہ سمجھا جائے بلکہ حق کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس کی جائے۔ ضمیر کے فیصلے کے مطابق عمل کرکے حریت نفس کو رواج دیا جائے۔
عزاداری حسین کو مختلف طریقوں اور اصولوں کی بنیاد پر برپا کی جاتی رہی اور انشاءاللہ تا قیام قیامت کی جاتی رہی گی اگر کوئی آج عزاداری حسین علیہ السلام منعقد کرتا ہے یا امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں پر رونے اور رلانے کا اہتمام کرتا ہے اور مجالس عزاء منعقد کرتا ہے تو یہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت اور ان کی سنت ہے ۔ پروردگار ہم سب اہل بیت علیہم السلام کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرما۔آمین
حوالہ جات و منابع
مودۃ القربیٰ سید علی ہمدانی ؒ مودۃ ۱۴ ص ۱۳۱،اردو ترجمہ آخوند تقی حسینی ،جامعہ باب العلم سکردو ۔
مدارج النبوۃ شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ ج ۲ ص ۶۳، معارج النبوۃ علامہ معین واعظ کاشفی ج ۳ ص ۵۰۷
ینابیع المودۃ ج ۲ ص ۱۵۹،شیخ سلمان قندوزی ،مطبوعہ قم ایران۔
کتاب زین العابدین عبد العزیز ص ۸۲
کتاب کامل الزیارۃ ابن قولویہ ص ۱۸۴
وسائل الشیعہ ج ۱۰ ص ۳۹۲
وسائل ج ۱۰ص ۳۹۲
کتاب نوربخشیہ مصائب عترۃ الطاہرہ سید محمد نوربخش ؒ ص ۱۶۰
وسائل الشیعہ ج ۱۰ ص ۴۶۴
علل الشرائع شیخ صدوق ص ۲۲۵ مطبوعۂ نجف اشرف عراق
بحار الانوار ج ۴۴ ص ۲۸۶، علامہ باقر مجلسی ،موسسہ الوفاء بیروت ۔
مصائب عترۃ الطاہرہ ؑ سید محمد نوربخش ؒ ص ۱۵۷،قلمی مملوکہ نذیر حسین بلتستان۔
نفس المہموم ص ۳۹۔ ۴۰
صواعق محرقہ ص ۱۲۴،علامہ ابن حجر عسقلانی مکی ،مطبوعہ ملتان پاکستان۔
تاریخ طبری ج ۴ ص ۳۰۱،ابو جعفر محمد ابن جریر طبری ،دارسویدان بیروت۔