توبہ کیوں اور کیسے؟


تحریر سید اذلان شاہ شگری


توبہ کیوں اور کیسے؟
تحریر: سید اذلان شاہ شگری
اسلامی تعلیمات یعنی قرآن مجید ، احادیث پیغمبر، ائمہ طاہرین علیہم السلام کی روایات اور بزرگان دین کے اقوال و فرامین میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک “توبہ” ہے جس کے معنی بندے کا خدا کی طرف لوٹ آنا ہے۔ قرآن کریم میں 69 آیات میں توبہ کے موضوع پر بحث ہوئی ہے، جن میں توبہ کرنے والے کے ساتھ خدا کی مہربانی اور رحمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بندوں کو “توبہ نصوح” یعنی سچے دل سے خالص توبہ کرنے کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ احادیث و روایات میں بھی توبہ کی بہت زیادہ اہمیت اور اس کی فضیلت بیان ہونے کے ساتھ توبہ کرنے میں تأخیر سے منع کیا گیا ہے۔
توبہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی
توبہ کے معنی “واپسی” اور “لوٹ آنے” کے ہیں۔
قرآن مجید میں یہ لفظ کبھی انسان اور کبھی پروردگار عالم کے لئے مختلف حروف اضافت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ یہ فعل جب انسان کی طرف نسبت دے کر جب کہا جاتا ہے “تابَ إلَی اللہ” تو اس کے معنی بندے کا گناہ سے ہاتھ اٹھاکر خدا کی طرف واپس آنے کے ہیں اور جب اس فعل کو خدا کی طرف نسبت دے کر کہا جاتا ہے کہ “تابَ اللہ عَلَیہ” تو اس کے معنی بندے کی نسبت خدا کی مغفرت اور بخشش کے ہیں یا بندے کو خدا کی طرف سے توبہ کی توفیق عطا کرنے کے ہیں۔
توبہ نصوح(خالص توبہ)
قرآن مجید کی ایک آیت میں اہل ایمان سے خدا کی طرف “سچے دل سے خالص توبہ” کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے: یا أَیها الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللَّه تَوْبَةً نَصُوحا ۔ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی بارگاہ میں (سچے دل سے) خالص توبہ کرو۔[سورہ تحریم، آیت ۸]
مفسرین کے مطابق لفظ نصوح کا اصلی مادہ “نصح” اور آیت کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ لفظ “نصوح” کے معنی “پاک اور خالص”، یا “دائمی” یا “مستحکم” کے ہیں۔ اس بنا پر “توبہ نصوح” سے مراد ایسی توبہ ہے جو خلوص نیت کے ساتھ ہو یا ایسی توبہ ہے جو ہمیشہ کے لئے ہو اور اسے کبھی بھی نہ توڑے۔ یہی دوسرا معنی زیادہ مشہور ہے۔ اسی وجہ سے توبہ نصوح کو ایسی توبہ قرار دیا گیا ہے کہ جس میں توبہ کرنے والا ہمیشگی اور استقامت کا قصد رکھتا ہو۔
احادیث کی روشنی میں توبہ نصوح کی بنیادی شرط یہ ہے کہ توبہ کرنے والا اس گناہ کی طرف دوبارہ نہ لوٹے اور اس قسم کے توبہ کا نتیجہ اور فائدہ توبہ کرنے والے کے گناہوں کا اس طرح معاف ہونا ہے کہ اس کا کوئی اثر کسی بھی گواہ کے یہاں باقی نہ رہے، نہ انسان کے اعمال پر نظارت کرنے والے فرشتوں کے یہاں اور نہ انسان کے اعضاء و جوارح کے یہاں اور نہ اس گناہ کے مرتکب ہونے والی جگہ پر۔
توبہ کے درجات و مراتب
توبہ کے کئی درجات ہیں:
کفر سے توبہ، گناہان کبیرہ سے توبہ، گناہان صغیرہ سے توبہ، فکر گناہ سے توبہ، ترک اولی سے توبہ، غفلت سے توبہ، غیر خدا سے توبہ۔
توبہ کے مراتب بیان کرتے ہوئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
التَّوْبَةُ حَبْلُ اللَّہ وَ مَدَدُ عِنَایتِہ وَ لابُدَّ لِلْعَبْدِ مِنْ مُدَاوَمَةِ التَّوْبَةِ عَلَی كُلِّ حَالٍ وَ كُلُّ فِرْقَةٍ مِنَ الْعِبَادِ لَہمْ تَوْبَةٌ فَتَوْبَةُ الْأَنْبِیاءِ مِنِ اضْطِرَابِ السِّرِّ وَ تَوْبَةُ الْأَوْلِیاءِ مِنْ تَلْوِینِ الْخَطَرَاتِ وَ تَوْبَةُ الْأَصْفِیاءِ مِنَ التَّنْفِیسِ وَ تَوْبَةُ الْخَاصِّ مِنَ الِاشْتِغَالِ بِغَیرِ اللَّہ تَعَالَی وَ تَوْبَةُ الْعَامِّ مِنَ الذُّنُوب ۔
ترجمہ:توبہ خدا کی رسی، خدا کی مدد اور بندوں پر خدا کے لطف و کرم کی وسعت کی نشانی ہے اور بندوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں توبہ کرنا چاہئے۔ ہر گروہ کی ایک خاص توبہ ہوا کرتی ہے؛ انبیاء الہی کی توبہ باطنی اضطراب اور اطمینان کی حالت کے دگرگون ہونے سے، اولیائے الہی کی توبہ تصورات کی رنگینی سے، خدا کے برگزیدہ افراد کی توبہ غفلت، فراغت اور استراحت سے، خدا کے مخصوص افراد کی توبہ غیر خدا کے ساتھ مشغول ہونے سے اور عوام الناس کی توبہ گناہ، معصیت اور خلاف ورزی سے ہے۔
توبہ کا طریقہ
ہمارے ہاں ایک مغالطہ پایا جاتا ہے کہ بندہ کسی محفل میں یا کسی شخص کے پاس عربی یا فارسی کے کچھ کلمات توبہ کے صیغے کے عنوان سے زبان پر جاری ہو تو یہی اس کی توبہ ہے ۔[بعد میں وہ بندہ پھر اپنی پہلی والی حالت پر واپس آجاتا ہے] جبکہ حقیقت میں توبہ مکمل طور پر انسان اور خدا کے درمیان ایک معاملہ اور معاہدہ ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام گناہوں سے سچے دل کے ساتھ نادم ہوکر اللہ سے ان تمام گناہوں کی معافی مانگے اور خدا کے ساتھ کے وعدہ کرےکہ وہ اپنی بقیہ زندگی میں کبھی بھی کوئی گناہ انجام نہیں دے گا، یہ توبہ ہے ۔ باقی کتابوں میں توبہ کے صیغے اور کلمات کتابوں میں اس لیے ہے کہ عام لوگوں کو اس کی اہمیت کے علم ہونے کے ساتھ اس کی صحیح ادائیگی ہو ۔
مختلف گناہوں سے توبہ
گناہوں کی دو قسمیں ہیں : ایک بندہ اور خدا کے درمیان مربوط کام ہے یعنی انسان خدا کے اوامر الہٰی کی مخالف کرکے گناہ میں مرتکب ہوتا ہے ۔ جبکہ دوسرا یہ ہے کہ انسان کا معاملات لوگوں سے ہیں ۔
حق اللہ
اگر کسی ایسے گناہ اور معصیت سے توبہ کر رہا ہو جس میں صرف حق‌اللّہ کا پہلو پایا جاتا ہو یعنی ایسی واجب عبادات میں سے ہو جسے جبران کیا جا سکتا ہو مثلا نماز یا روزہ‌ کی قضا، اس صورت میں ندامت اور گناہ کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ واجب کو جبران کرنا بھی ضروری ہے اور اگر توبہ کے وقت اسے جبران کرنا ممکن نہ ہو تو جب بھی ممکن ہو اسے جبران کرنے کی نیت کرنا ضروری ہے ۔ اگر ترک کرنے والے واجبات کی تعداد معلوم نہ ہو تو اتنی مقدار میں اس واجب کو جبران کرنا ضروری ہے جس مقدار کے بارے میں یقین ہو۔
حق الناس
ہر وہ گناہ جس میں حق اللہ کا پہلو پایا جاتا ہے اگر ان میں حق الناس کا پہلو بھی پایا جاتا ہو تو ان گناہوں میں پشیمانی اور گناہ کو ترک کرنے کے ارادے کے ساتھ خدا کے حق کو جبران کیا جا سکتا ہے لیکن حق الناس کے حوالے سے ان گناہوں کی کئی حالتیں ہو سکتی ہیں:
اگر گناہ زبان سے متعلق ہو :جیسے قَذْفْ(کسی پر زنا کی تہمت لگانا، تہمت اور غیبت‌ وغیرہ) تو جس شخص کے حوالے سے وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے اس سے معافی مانگنا ضروری ہے۔ یہاں پر بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر جس کے اوپر تہمت یا جس کے اوپر قذف یا جس کی غیبت کی ہے اسے اس چیز کا علم نہ ہو تو اس سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں بلکہ بہتر ہے کہ اس کے حق میں استغفار کیا جائے اور خدا کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت اور قیامت کے دن اس گناہ کے سزا سے نجات پانے کی دعا کی جائے۔
ایسے گناہ جس میں کسی کو جسمانی طور پر کوئی نقصان پہچایا گیا ہو (مثلا تھپڑ مارنا یا قتل کرنا) تو اس صورت میں قصاص اور دیہ جیسے احکام جاری ہونگے مگر یہ کہ متعلقہ شخص معاف کر دے۔
ایسے گناہ جن میں کسی کو کوئی مالی نقصان پہنچایا ہو (مثلا چوری، کم‌فروشی اور ربا وغیرہ) تو اس صورت میں مالی نقصان کو جبران کرنا واجب ہے اس تفصیل کے مطابق جو فقہی کتابوں میں درج ہیں۔
کن لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوگی ؟
وہ لوگ جو موت کے آثار نمایاں ہونے تک جان بوجھ کے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور جب موت کے آثار نمودار ہوتے ہیں تو توبہ کرتے ہیں، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی ہے، جیسا کہ پروردگار عالم نے فرمایا:
وَ لَیسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذینَ یعْمَلُونَ السَّیئاتِ حَتَّی إِذا حَضَرَ أَحَدَهمُ الْمَوْتُ قالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ وَ لاالَّذینَ یمُوتُونَ وَ همْ کفَّارٌ أُولئِک أَعْتَدْنا لَهمْ عَذاباً أَلیماً [سورہ نساء ، آیت ۱۸]
ترجمہ: ان لوگوں کی توبہ (قبول) نہیں ہے۔ جو (زندگی بھر) برائیاں کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، تو وہ کہتا ہے، اس وقت میں توبہ کرتا ہوں۔ اور نہ ہی ان کے لیے توبہ ہے۔ جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔
توبہ کیوں ضروری ہے ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب پروردگار عالم کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف ہم سب نے لوٹ کر جانا ہے ۔ جب ہم اس دنیا میں آئے تو معصوم تھے ، گناہوں سے پاک تھے اور کسی بھی قسم کا داغ دھبہ ہم پر نہیں تھا ۔ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظام زندگی گزرانے کے راہنما اصول بھی بتائے ہیں ساتھ ان پر عمل کرنے کے بھی تاکید کی ہے ۔ ان تمام امور کے باجود انسان خطا کر پتلا ہے اور اس سے غلطی سرزد ہوتی رہتی ہے اس کے کیے ہوئے ہر برے کام کا قیامت کے دن مواخذہ ہوگا اور انسان اس کا جواب دہ ہے ۔ اگر انسان اپنے حساب و کتاب میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا میں ہی “توبہ ” کے نام سے ایک موقع دے رکھا ہے ۔ حقیقی اور سچے دل دے تائب ہوکر پروردگار کے حضور رجوع کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے یوں انسان جس طرح پروردگار کی طرف سے آیا تھا اسی حالت میں روحانی طور پر صحیح و سالم جب خدواند متعال کے پاس جائے گا تو اس کا تمام حساب وکتاب آسان ہوگا۔
خدا ہم سب کو اپنے تمام گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہوئے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔