حضرت شيخ محمد اسیری لاہیجی کی زندگي پر اجمالي نظر


تحریر سيد علي الموسوي خپلوي


حضرت شيخ محمد اسیری لاہیجی کی زندگي پر اجمالي نظر
محمد بن یحیی بن علی جیلانی لاہیجی ،ملقب بہ شمس الدین اورمتخلص بہ اسیری،عالم عرفان وتصوف کا ایک درخشندہ ستارہ ،طریقت نوربخشیہ کے عظیم اہل طریقت اور نویں صدی کے اکابر عرفا وصوفیا میں سے ہیں۔ آپ ٨٤٩ ہجری قمری میں حضرت شاہ سیدمحمد نوربخش قدس سرہ کے حلقہ ارادت میں آئے اورتقریبا ١٦سے ٢٠ سال تک آپ کی خدمت میں رہے اورآپ کی رحلت کے بعد شیراز میں نوربخشیوں کی ہدایت وراہنمائی کے فرائض سرانجام دینے میں مشغول ہوگئے اوروہاں پر آپ نے خانقاہ نوریہ تعمیر کی ۔
ولادت
آپ کی ولادت کی دقیق اورصحیح تاریخ،ضبط تاریخ نہیں ہوئی ہے۔ بعض محققین نے آپ کی ولادت ٨٤٠ہجری بتائی ہے اوربعض نے ٨٣٣ ہجری کی تاریخ ذکر کی ہے ۔یعنی آپ اسی تاریخ کو ایران کے شہر لاہیجان یا اس کے نواحی گاؤں میں پیداہوئے۔
علمی مقام اورراه سلوک کی تلاش
آپ نے اپنے نواحی گاؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اوعين جواني میں ہی عشق ومعرفت کی آگ ان کے دل میں روشن ہوگئی اورراہ سلوک طے کرنے لئے کسی ابدال کی تلاش شروع کی یہاں تک ٨٤٩ ہجری میں اسی نواحی علاقہ کے ایک ابدال سے آشنائی ہوئی اوران کی راہنمائی کے تحت حضرت شاہ سید محمد نوربخش نوراللہ مرقدہ کے حضور میں شرفیاب ہوئے۔ اس وقت شاہ سید نوربخش قدس سرہ گیلان کے ایک نواحی گاؤں “شفت” میں رہتے تھے ۔شاہ سید محمد نوربخش نے اسیری لاہیجی اور شیخ طریق اورخضرراہ کی تلاش کرنے والے دواورسالکانِ راہ کوبڑے احترام سے اپنے حضور میں حاضر ہونے کی اجازت فرمائی اوراس طرح اسیری لاہیجی نے دوسرے ہی دن شاہ سید محمد نوربخش کے ہاتھوں توبہ وبیعت کی اوران سے ذکر خفی کی تعلیم حاصل کی اورنوافل ومستحبات میں سعی وکوشش کرنے کے بعد چار ضرب کا ذکرحاصل کیا۔ شاہ سید کے حلقہ ارادت میں آنے کے بعد آپ کے اپنے قول کے تحت سولہ سال تک خانقاہ کی خدمت میں مشغول رہے اوراسی عرصے میں علم ومعرفت اورکشف وشہود کے اعلی مقامات طے کئے ، نيز اس سولہ سال کے عرصے سے پہلے ہی سلوک ومعرفت میں وه مقام ومرتبہ تک حاصل کیا کہ شاہ سید نے دوبارآپ کواذن ارشاد وہدایت عنایت فرمایا۔
سیروسفر اورتعمیرخانقاه
شاہ سید کے حلقہ ارادت میں آنے کے بعد کبھی کبھی سیروسفر بھی کرتے تھے اوراسی دوران تبریز کی طرف سفر کیا اورکچھ مہینے اس دیار میں رہے ،چونکہ وہاں بھی حضرت شاہ سید محمد نوربخش کے پیروکار موجود تھے اس لئے آپ نے وہاں سفر کیا اورکچھ عرصے کے بعد دوبارہ شیراز میں قیام پذیر ہوئے اوروہاں آپ نے لبِ آب کے محلہ میں باب السلام کے کنارے ایک خانقاہ تعمیر کی اوراسے خانقاہ نوریہ کے نام سے موسوم کیا اوراس میں اپنے مریدوں کی ہدایت ورہنمائی کرتے رہے ۔
شاہ اسماعیل صفوی اورلاہیجی
شاہ اسماعیل صفوی نے اسیر ی لاہیجی کی محفل علم سے قرآن اوردیگر عربی اورفارسی کتابیں پڑھیں اورانہوں نے ٩٠٦ ھ میں کرسی حکومت پر بیٹھنے کے بعد منصب صدارت شمس الدین لاہیجی کے سپرد کیا ۔تین سال تک اس منصب پر رہنے کے بعد ٩٠٩ ھ میں قاضی محمد کاشی بھی ان کے ساتھ ملحق ہوگئے اور٩١٠ ھ ق میں عثمانی حکومت کے سفیر کے استقبال کیلئے شمس الدین لاہیجی بھی قاضی محمد کاشانی کے ساتھ موجود تھے ۔
لاہیجی اورسیاہ لباس
سالارکربلا سید الشہدا امام حسین علیہ السلام اوران کے باوفا اصحاب کے غم میں آپ ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن فرماتے تھے اوران کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھتے اور اس سیاہ لباس کو اسی غم کی نشانی سمجھتے تھے ۔صاحب مجالس المومنین لکھتے ہیں : شاہ اسماعیل صفوی نے شیراز اور دیار فارس کي نظامت سنبھالنے کے بعدشیخ لاہیجی کی زیارت اوردیدار سے شرفیاب ہونے کا ارادہ کیا اورجب شیخ سے ملاقات ہوئی تو شیخ سے سوال کیا کہ آپ نے سیاہ لباس کیوں اختیارفرمایاہے ؟توآپ نے فرمایا :میں نے امام حسین علیہ السلام کے غم اورسوگواری کی خاطر اس لباس کا انتخاب کیاہے تو شاہ اسماعیل نے کہا: امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اورسوگواری تو دس دن سے زیادہ نہیں ہے ۔ آپ تو سارا سال یہ سیاہ لباس زیب تن کئے رہتے ہیں ۔توشیخ نے فرمایا:لوگوں نے غلط سمجھا ہے ،امام حسین علیہ السلام کی سوگواری اورعزاداری قیام قیامت تک باقی ہے ۔
بیت الحرام کی زیارت
آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں حج کی سعادت بھی حاصل کی اوربیت اللہ الحرام کی زیارت کے لئے اس دیار کی طرف سفر کیا ۔ ٨٨٢ھ میں حج کے ارادہ سے مکہ مکرمہ گئے اورواپسی پر یمن کے شہر زبید میں ایک سال قیام فرمایا ۔اسی مدت میں یمن کے بعض اہل تصوف جیسے معروف حیرتی ہاشمی نے آپ سے تصوف کے بعض علوم حاصل کئے اور٨٨٣ھ میں آپ کے ہاتھوں خرقہ تصوف زیب تن کیا اوراذن ِارشاد دریافت حاصل کیا۔
عالم متبحر
آپ مختلف علوم میں یدطولارکھتے تھے ،خصوصا کلام(عقائد)، حکمت(فلسفہ)اور عرفان وتصوف (نظری وعملی) جیسے علوم کے ماہرتھے کہ شرح گلشن راز اسی حقیقت کی کماحقہ عکاسی کرتی ہے۔عرفان وتصوف کے علوم سے بہرہ مند ہونے کے علاوہ فقہ وحدیث اورتفسیر میں بھی یدطولا رکھتے تھے ۔اپنی خانقاہ میں درس وتدریس کی محفل سجائے رکھتے تھے اوروہ محفل حوزہ علمیہ کی طرح درس وتدریس کی صدا سے گونجتی رہتی تھی اورسالکان ِراہِ الہی کے علاوہ بہت سے متکلمین،فلاسفرز جیسے جلال الدین دوانی اورمیر صدرالدین محمد دشتکی شیرازی بھی آپ کے علم سے استفادہ کرنے کے لئے اس خانقاہ میں آتے تھے ۔عرفانی اورتصوف کے ذوقی علوم جو کہ انسانوں کے ادارک اورفہم سے بالاودور تھے ان کو آپ نے استدلال کے سانچے میں ڈال کر قابل فہم اورلائق ادراک بنایا ۔
آپ کے زمانے کے عظیم علماء اوردانشورآپ کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے۔چنانچہ قاضی نوراللہ شوشتری مجالس المومنین میں لکھتے ہیں: علامہ دوانی جب شیخ لاہیجی کی آستاں بوسی اورزیارت کو جاتے تھے اورآستانہ باب پر جب آپ کی نعلین کو دیکھتے تھے تو پہلے آپ کی نعلین کو بوسہ دیتے تھے اوراپنی آنکھوں سے لگاتے تھے اس کے بعد شیخ لاہیجی کی زیارت سے شرفیاب ہوتے تھے ۔
آپ کی تصنیفات
آپ نے اپنے دست مبارک سے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ جیسے دیوان اسیری لاہیجی ،اسرارالشہود،معاش السالکین،شرح رباعی منسوب بہ شہاب الدین عمر سہروردی ،مفاتیح الاعجاز فی شرح گلشن راز،شرح دوبیت ازمثنوی ،شرح بیتی ازعطار،شرحی بریک رباعی عرفانی اورشرح بیتی ازسنائی۔ان میں سے آخرالذکر چاررسالے؛ بردالیقین ہفدہ رسالہ عرفانی نامی کتاب میں چھپ چکے ہیں ۔
شرح گلشن راز آپ کا عظیم علمی شاہکار اورعرفان وتصوف کی وادی کی ایک عظیم تصنیف ہے ۔آپ کی شہرت بھی اسی کتاب کی وجہ سے ہے اورگلشن راز کی مختلف شرحوں میں سے آپ کی تصنیف کردہ شرح زیادہ مشہور ومعروف ہے ۔چنانچہ تاریخ ادبیات درایران کے مؤلف اس حوالہ سے لکھتے ہیں : مفاتیح الاعجاز فی شرح گلشن راز اسیری لاہیجی کے مشہورعلمی آثار میں سے ہے کہ یہ کتاب درحقیقت عرفان وتصوف کے اصول پر مشتمل ایک کامل دورہ ہے اوریہ شرح باقی تمام شروح پر برتری رکھتی ہے ۔
عصر صفویہ کے عارف محمد دہدار نے شرح گلشن رازکا ایجازمفاتیح الاعجاز کے نام سے خلاصہ کیا اوریہ خلاصہ ١٣١٢ ھ ق میں بمبئی میں چھپ چکا ہے اور جام دلنواز کے نام سے ترکی زبان میں بھی اس کی اشاعت ہوئی ہے ۔اس خلاصہ کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے ۔
آپ کی وفات
شیراز میں نوربخشیوں کی ہدایت وراہنمائی کرتے رہے اوروہاں سے بیت اللہ الحرام کا حج کرنے مکہ مکرمہ گئے اورحج سے واپسی کے بعد دوبارہ شیراز میں ہی قیام پذیر ہوئے اوروہاںسکونت اختیار کی اور٩١٢ ہجری قمری ،١٥٠٦عیسوی میں شیراز میں ہی وفات پاگئے اورآپ کی تعمیر کردہ خانقاہ میں ہی مدفون ہوئے ۔ آپ کی وفات کے بعد یہ بیت کہا گیا :
حسب حالش گشت تاریخ وفات– قطب عالم سید ارباب فقر
ماخذ
1) اسرارالشہود بہ کوشش برات زنجانی
2) بزرگان نامی پارس میر محمد تقی
3) تاریخ ادبیات درایران ذبیح اللہ صفا
4) تاریخ شاہ اسماعیل وشاہ طہماسب
5) جہانگشای خاقان
6) خلاصة التواریخ
7) دائرة المعارف بزرگ اسلامی اسیری لاہیجی
8) الذریعہ آقای تهرانی
9) رسائل ضمیمہ دیوان اسیری
10) زبدة التواریخ
11) شرح گلشن راز بہ کوشش خالقی وکرباسی
12) طرائق الحقائق معصوم علیشاه
13) مجالس المومنین قاضی نورالله شوشتری