(درس قرآنی (قسط ا


تحریر سید علی الموسوی خپلوی


بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کریم
بے انتہا حمدوثنا اس ذات اقدس لایزال کے لئے ہے جس نے انسانوں کی ہدایت وراہنمائی کے تمام اسباب فراہم کئے اور انسانوں کے دنیا وآخرت کے نظام سنوارنے کے لئے قرآن کی صورت میں ایک جامع ،کامل ،ابدی اورغیرقابل تحریف قانون مقررکیا۔قرآن نازل ہوا ہے تاکہ انسانوں کو ذاتی اوراجتماعی (سماجی)زندگی میں مطلوبہ مقصد یعنی سعادت تک پہنچائے۔ انسان کی سعادت قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے ۔آج انسانی معاشرہ مختلف مشکلات کا سامنا کررہا ہے تویہ قرآن سے دوری کی وجہ سے ہے ۔ قرآن اس لئے نازل نہیں ہوا ہے کہ صرف مردو ں کے ایصال ثواب کے لئے یا کسب ثواب کی خاطر اس کی تلاوت کی جائے بلکہ قرآن انسانوں کی تربیت کی خاطر نازل ہوا ہے ، انسانوں کے اندر انقلاب پیداکرنے کے لئے نازل ہوا ہے ۔
آسمانی مقدس کتابوں میں قرآن کریم کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔قرآن دین کا اصلی منبع اورتمام تعلیمات کا سرچشمہ ہے ۔یہ کتاب ہر قسم کی تحریف اورکم و بیشی سے منزہ ہے۔ انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون ( حجر٩) ہر باطل سے مبرا ہے۔ لایاتيه الباطل بین یديه ولا من خلفه. ( فصلت ٤٢ )اورہرقسم کے تناقض اوراختلاف سے پاک ہے۔ افلایتدبرون القرآن ولوکان من عندغیرالله لوجدوا فيه اختلافا کثیر (نساء ٨٢) قرآن، روایات اوراحادیث کوپرکھنے کا واحد معیار ہے۔قال رسول اللہ: ماوافق کتاب الله فخذوه وما خالف کتاب الله فدعوه (اصول کافی ج١باب الاخذ بالسنة والکتاب ،حدیث اول)
قرآن ایسا جامع کتاب ہے جس میں تمام حقائق موجود ہیں۔قرآن مجید میں ہر سوال کا جواب ،ہر درد کی دوا اورہر مشکل کا حل موجودہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: من اراد علم الاولین اوالآخرین فلیثور القرآن. جوشخص اولین وآخرین کے علم کا خواہاں ہو اسے چاہیے کہ قرآن میں غور کرے ۔ ناطق قرآن ،مولائے متقیان علی ابن ابی طالب علیہ السلام بھی فرماتے ہیں: الاان فيه علم ما یاتی، والحدیث عن الماضی،ودواء دائکم ،ونظم مابینکم (خطبہ ١٥٨)
یادرکھو کہ قرآن میں مستقبل کا علم اورماضی کی داستان موجودہے۔ قرآن تمہارے درد کی دوا اورتمہاری زندگی کی تنظیم کا سامان ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں: هو الدلیل علی السبیل،و هو کتاب تفصیل وبیان وتحصیله و الفصل لیس بالهزل،وله ظهور و بطن،فظاهره حکم الله وباطنه علم الله تعالی، فظاهره وثیق ،وباطنه عمیق،له تخوم، وعلی تخومه تخوم،لاتحصی عجائبه ولاتبلی غرائبه،فيه مصابیح الهدی ومنار الحکمة، ودلیل علی المعرفة لمن عرف النصفة. قرآن ایسا راہنما ہے جوراہ دکھاتاہے،قرآن تفصیل اوربیان کی کتاب ہے،حق وباطل میں فرق ڈالنے والاہے اوربے ہودہ نہیں ہے ۔اس کا ایک ظاہر ہے اورایک باطن۔اس کا ظاہر اللہ کا حکم ہے اوراس کا باطن اللہ کا علم ہے۔اس کاظاہر مضبوط ہے اوراس کاباطن بہت ہی گہراہے۔اس کی گہرائی کے لئے ایک اورگہرائی ہے۔اس کے عجائب اورغرائب بے شمارہیں اور پرانے ہونے والے نہیں ہیں ۔ اس میں ہدایت کا چراغ اورحکمت کا چراغدان ہے۔اورانصاف پسند انسان کے لئے معرفت کا راہنماہے ۔ (النوادررواندی ص ١٤٣ ح١٩٧)
قرآن ذات الہی کا مکمل جلوہ۔ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں: فتجلی لهم سبحانه فی کتابه من غیر ان یکونوا راوه (نہج البلاغہ خطبہ ١٤٧)
قرآن علم الہی کاکامل مظہر،ہدایت الہی کا خالص منبع اورضابطہ،معرفت الہی کا عظیم سرچشمہ ہے۔
قرآن کریم شاہکارِخدائے رحمت ،سرچشمہ ہدایت وسعادت ، خزینہ علم وحکمت ،معجزہ نبی رحمت ہے۔
قرآن کسی انسان کا کلام نہیں ہے بلکہ خدائے رحمان کا کلام اورسعادت دارین کا منبع ہے ۔
قرآن ایسے حقائق کا سرچشمہ ہے جس کے پرتو میں انسان سعادت دارین حاصل کرسکتا ہے۔
قرآن ایسی عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے اللہ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے ۔
قرآن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جاویدانی اوردائمی معجزہ ہے۔
قرآن وہ پاک وپاکیزہ کتا ب ہے جس کو اللہ نے اپنے صاحب عصمت اوربہترین انسان یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسم پرنازل فرمایا اورآئمہ اطہار علیہم السلام جیسے معصوم ہستیوں کو اسکا قرین قرار دیا۔
قرآن آسمانی کتابوں میں یہ وہ واحد کتاب ہے جو ہر قسم کی تحریف سے محفوظ اور مبرا ہے۔
قرآن فصاحت و بلاغت کا اعلی ترین خزینہ اورہدایت وسعادت کا عظیم دفینہ ہے ۔
قرآن قدیم ِبالذات کاایسا کلام ہے جس کی تازگی و طراوت ہمیشگی اوردائمی ہے لیکن باقی تحریریں کچھ مدت کے بعد اپنی تازگی وطراوت کھوبیٹھتی ہیں۔
ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا اے فرزند رسول: اس میں کیارازہے کہ کافی وقت گزرنے کے باوجود قرآن کی طراوت و تازگی میں اضافہ ہی ہوتاہے ؟ امام نے فرمایا: اس کا راز یہ ہے کہ اللہ نے قرآن کو کسی خاص زمانے اورخاص لوگوں کے لئے نازل نہیں کیا ہے بلکہ تمام زمانوں اورانسانوں کے لئے نازل کیا ہے اسی لئے ہروقت تازہ اورہر قوم کے لئے پرطراوت ہے ۔(بحار ج٢ص٢٨٠)
صدرالمتالہین لکھتے ہیں : قرآن ایک ہدایت کرنے والا نور ہے جب قرآن اپنے رخ سے حجاب ہٹاتاہے اوراپنے پوشیدہ خزانوں اورنوروں کو آشکار کرتاہے ،تو جہل ونادانی میں مبتلاانسانوں کو شفا عطاکرتاہے ۔ قرآن زذائل اخلاقی میں مبتلا دلوں کو شفا عنایت کرتاہے اوراسی قرآن کے ذریعے اہل دل کی آنکھیں بیناہوجاتی ہیں اوران کے دل اسراروحقائق کی معرفت سے لبریز ہوجاتے ہیں ۔ (تفسیر قرآن کریم ج٦ص٨ )
قرآن کی جاذبیت اورکشش
یہ کتاب اگرچہ ١٤٠٠ سوسال قبل نازل ہوئی ہے لیکن نہ اس کی جاذبیت وکشش میں کمی آئی ہے نہ اس کی عظمت ورفعت گھٹی ہے ۔قرآن ایسا کلام ہے جو انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اثر چھوڑتا ہے اورانہیں ظلمت سے نور کی طرف ،گمراہی سے ہدایت کی طرف ،جہنم سے جنت کی طرف غیر اللہ سے اللہ کی طرف ،شیطان کی بندگی سے اللہ کی بندگی کی طرف لے آتا ہے ۔کتاب انزلناه الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور(ابراہیم ١)
قرآن ایسی پرکشش کتاب ہے جو ہر انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ابن ہشام لکھتے ہیں : قرآن کی جاذبیت اورکشش اتنی تھی کہ بہت سے کفار قریش رات کے اندھیرے میں ناشناس طور پرخانہ خدا کے اردگرد جمع ہوکر طلوع صبح تک تلاوت قرآن کی دلنشین صدا کو سنتے تھےاور متواتر یہ کام کیا کرتے تھے ۔
فرانسس محقق اورمصنف جوزف ارنسٹ رینان لکھتے ہیں :
میری لائبریری میں سیاسی ،سماجی ،ادبی اور دوسرے موضوعات سے متعلق بہت سی کتابیں ہیں ان کا مجھے صرف ایک بار مطالعہ کرنے کاشرف حاصل ہوا ہے ۔ بہت سی کتابیں صرف لائبریری کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ لیکن ایک کتاب جو ہمیشہ میرے مطالعہ میں رہتی ہے اورجب بھی میں تھکن محسوس کرتاہوں اورمیں یه چاہوں که میرے لئے کمال کے مختلف ابواب کھل جائیں تو میں اس کتاب کا مطالعہ کرتاہوں اوراس کتاب کے مطالعہ سے ہرگز تھکتانہیں ہوں وہ ہے قرآن۔
ایک دفعہ نابغہ عالم سیاست نپولین نے مسلمانوں کے مرکزکے بارے میں پوچھا کہ ان کا مرکز کہاں ہے ؟لوگوں نے کہا مسلمانوں کا مرکزمصر ہے۔ وہ ایک مترجم کے ساتھ مصرچلاگیا اورمصرپہنچنے کے بعد انہوں نے وہاں کی لائبریری کا سراغ لگایا اوروہاں داخل ہوگئے اورمترجم سے کہا: ان میں سے ایک کتاب نکال کرمجھے پڑھ کر سناؤ مترجم نے کتابوں کے درمیان میں سے ایک کتاب نکالی اوراسے کھولا تومعلوم ہوا قرآن ہے ۔اس کی نظر (ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم …) کی آیت پر پڑی ۔مترجم نے آیت پڑھی اوراس کا ترجمہ نپولین کو سنایا۔رات سے صبح تک نپولین اس آیت کے بارے میں سوچتارہا دوسرے دن صبح دونوں دوبارہ لائبریری گئے نپولین نے کہا پھر اسی کتاب کے کچھ فقرات مجھے سناؤ مترجم نے کچھ آیات ترجمہ سمیت پڑھ کرسنایا رات کوگھر واپس آئے اور نپولین غوروفکر میں غرق ہوگیا تیسرے دن پھرسے گئے اوراس دن بھی مترجم نے کچھ آیات مع ترجمہ اس کے گوش گزار کئے ۔ نپولین نے پوچھا : یہ کس قوم کی کتاب ہے؟ مترجم نے کہا: یہ مسلمانوں کی کتاب ہے اوروہ اس بات کے معتقدہیں کہ یہ قرآن الله کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ پر نازل ہوا ہے۔تو نپولین نے دوجملے کہے ایک جملہ مسلمانوں کے حق میں تھا ایک جملہ مسلمانوں کے نقصان میں ۔ اس کا پہلا جملہ یہ تھا اگر مسلمان اس کتاب سے بخوبی استفادہ کرتے ہوئے اس پر عمل کرتے رہیں تووہ ہرگز ذلت کے شکار نہیں ہوں گے ۔ دوسرا جملہ یہ تھا جب تک مسلمان اس قرآن پر عمل پیرا رہیں گے اوراس کی تعلیمات سے بہرہ مند ہوتے رہیں گے وہ کبھی ہمارے آگے نہیں جھکیں گے مگر یہ کہ ہم مسلمانوں اوراس قرآن کے درمیان جدائی ڈال دیں۔
وہی شخص قرآن کی عظمت اوراس کے عالمی اورجامع ہونے کے حوالے سے لکھتے ہیں:قرآن تنها ا انسان کی سعادت کاضامن ہے۔امید ہے وہ وقت دور نہ ہو کہ ہم دنیا کے تمام دانشوروں اورتعلیم یافتہ انسانوں کو جمع کریں اورایک ایسا نظام تشکیل دیں جس کی بنیاد قرآن کے اصولوں کے مطابق ہواورلوگوں کو سعادت سے ہمکنار کرسکیں ۔(اعترافات دانشمندان بزرگ جہان ص ٤٣ )
قرآن کی عظمت
قرآن ایسا بے کراں سمندر ہے کہ علم وآگاہی کازبردست شناوربھی اس کے ساحل تک نہیں پہنچ سکتاہے ،ایسا بحر عمیق ہے کہ غواصان دانش و دانائی اس کی گہرائی تک نہیں جاسکتے ہیں۔قرآن وہ روشن ودرخشندہ آفتاب ہے جو وادی ضلالت و گمراہی میں سرگرداں وحیران انسانوں کو وادی نورو ہدایت کا راہی بنادیتاہے۔ اوروہ منبع شفاہے جو جہل ونادانی، کفر و طغیانی کے دلدل میں پھسے ہوئے بیمار انسانوں کوشفایاب بنادیتاہے۔
ملاصدرا رقمطراز ہیں : جود الہی کے سراپا محتاج ،بندہ ضعیف ومسکین کہتاہے : میں نے علم وشریعت کے ماہر تمام فلاسفہ اورحکماکی کتابوں کا مطالعہ کیا لیکن کشف ویقین کی طلب میں میری تشنگی دور نہیں ہوئی اوردینی حقائق تک رسائی پانے کی حرارت خاموش نہیں ہوئی بلکہ میں نے ان تمام کتابوں کو مقصد تک پہنچانے میں قاصر پایا۔ان میں سے اکثر ظن و گمان پر مشتمل تھیں اورکسی درد کی دوا نہیں تھیں۔ لہذا میں نے قرآنی حقائق اورمعانی میں غور کرنے کی طرف رخ کیا اورسارے حقائق کو اس میں پایا اورمیرا شوق طلب اس کے ذریعے پورا ہوگیا ۔پس میں نے اس میں تدبرکی اوراس کے اصول وقواعد میں جستجوکی اوراس کے بحر عمیق میں غوروخوض کیا اورقرآن کے بحر عمیق سے میں نے اسرار کے مختلف گوہر نکالے اوراس کے پوشیدہ خزانے پردسترسی حاصل کی ۔ (تفسیر القرآن الکریم ج٦ص٥،صدرالمتالہین)
مفسر قرآن ابن کثیر لکھتے ہیں : قرآن کو نہ پڑھنا ،قرآن کے علاوہ دوسری کتاب کو قرآن پر ترجیح دینا،قرآن کو معیار اورمحور قرار نہ دینا،اس میں تدبر نہ کرنا، دوسروں کواس کی تعلیم نہ دینااوراس پر عمل نہ کرنا قرآن کومہجورقرار دینے کے مترادف ہے ، کوئی قرآن کوسیکھے لیکن اس کے بعد اسے چھوڑدے ،اس کی طرف نظر وتوجه نہ کرے تو اس نے بھی قرآن کو مہجور قرار دیاہے ۔ (تفسیر القرآن العظیم ج ٦ص ١٧)
[جاری ہے ۔۔۔۔۔۔]