دور حاضر میں تحصیل علم کی ضرورت و اہمیت


تحریر


دور حاضر میں تحصیل علم کی ضرورت و اہمیت
تحریر: سید بشارت حسین تھگسوی
عہد حاضر جسے علم و شعور و آگہی اور سائنس و ٹیکنالوجی کابرق رفتار دور کہا جاتا ہے اور اس بات میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں ۔ یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے آج روز بروز ہونے والی کوئی نہ کوئی علمی، سائنسی اور تحقیقی پیشرفت اور نئی نئی ایجادات و اختراعات اس بات کا واضح اور روشن ثبوت ہیں۔ آج میڈیکل سائنس کا میدان ہو یا ہو یا ٹیکنکل اور مکینکل کی دنیا ، علومی اسلامی کا سمندر ہو یا جدید بینکاری نظام ،ہر شعبہ ہائے زندگی میں تحقیقات و تجربات اپنے عروج پر ہیں ۔ مختلف علوم کی نئی نئی شاخیں وجود پارہی ہیں ، دنیا کی ہر قوم اور ملک و ملت علمی تحقیقی میدانوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ نئی نئی یونیورسٹیاں اور تحقیقاتی ادارے قائم کیے جارہے ہیں جن میں علوم عقلی ، نقلی اور انسانی کے مختلف شعبہ جات پر کام ہورہے ہیں ۔ جہاں دنیا میں علوم کی ترویج و ترقی پر ہمیں خوشی ہوتی ہے وہاں پر دو ارب کے قریب مسلم امہ اور بالخصوص ۵۶ اسلامی ممالک میں علوم و آگہی پر کام یورپ اور مغرب کے ممالک کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ تعلیم و تربیت کے حوالے سے جتنی اہمیت و فضلیت اسلامی تعلیمات میں بیان ہوئی ہیں اتنی اہمیت کسی دوسرے ادیان میں نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پروردگار نے اسلام کی ابتدا ء سے ہی علم و آگہی کی طرف متوجہ کیا جیسا کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی علم و تعلیم کے حوالے سے ہی تھی ۔ تحصیل علم ، غور و فکر اور تحقیق و آگہی کو اسلام نے دیگر عبادتوں کی طرح واجب اور لازم قرار دیا ہے ۔ حتی دین اسلام میں عمل و عبادت میں بھی اس کی زیادہ اہمیت ہے جو علم کے ساتھ ہو، بغیر علم کے اعمال میں غلطی اور کوتاہی کا امکان زیادہ رہتا ہے ۔ تاریخ اسلام میں کئی برسوں تک مسلمانوں نے کئی علمی و تحقیقی کارنامے انجام دئیے جو یقیناً قابل فخر و ستائش ہیں اور انہی ادوار میں مسلمانوں نے علمی میدان میں دنیا پر حکمرانی کی ہے جیسا کہ میڈیکل کی دنیا میں جسے ابوالکیمیا [father of chemistry] کہا جاتا ہے وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد و صحابی جابر بن حیان طوسی ہیں ، تا ہم مسلم امہ اور مسلم ممالک کے خلاف مغربی سازش اور بالخصوص محمد و آل محمد علیہم السلام کی تعلیمات سے دوری جیسے مسائل نے مسلمانوں کو علمی دنیا میں مغلوب ترین قوم بنا دیا ہے ۔
آج مسلمانوں کے جتنے بھی مسائل ہیں اگر ان کی تہہ میں جاکر دیکھاجائے تو وہی تعلیم کی کمی دکھائی دے گی ۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا دین و دنیا صحیح ہو، عبادات صحیح معنوں میں مقبولہ ہو، غربت و افلاس کا خاتمہ ہو، ذہنی ، جسمانی اور روحانی بیماریوں سے نجات ملے ، عدل و انصاف کا بول و بالا ہو ، آزادی و جمہوریت کو فروغ ملے اور معاشرہ بیدار اور ہوشیار ہوجائے تو اس کا واحد ذریعہ تحصیل علم ہی ہے ، تعلیم بھی ایسی جو عام ہو اور دین مقدس اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہو ۔
خدانخواستہ اگر اب بھی ہم تحصیل علم کی ضرورت و اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور اس کے حصول کے لئے مقدس جہاد شروع نہیں کریں گے تو اس کا فائدہ بھی وہی اٹھائیں گے جن کی سازش سے آج ہم اس گرداب میں پھنسے ہیں ،یعنی جہالت کے بھنور سے ہمیں نجات دلانے کے لئے بھی وہی آئیں گے جن کی سازش کی وجہ سے ہم جدید دنیا سے دور رہے ہیں ۔ مملکت خداداد پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقے کو علمی پسماندگی سے نکال کے دنیا وی ترقی کے راہ پر گامزن کرنے کے لئے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ، ہمیں علمی ایمرجنسی نافذ کرنا چاہیے۔اگر آج بھی ہم علم سے زیادہ ہوٹلوں اور دیگر اداروں میں معمولی نوکری کو اہمیت دیں گے تو ہم علم و تحقیق کی دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر پائیں گے ۔