رواداری اور بھائی چارگی کا پیغام


تحریر احسان علی دانش صاحب


بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوربخشیو!
خدا کو مانو۔
اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا پاس رکھو۔
مولاعلی علیہ السلام کی ولایت سے تمسک کی عزت تو رکھو۔
حضرت شاہ ہمدان ؒ اورحضرت شاہ سید محمد نوربخش کی ارواح کا احترام تو کرو۔
اب تم کہاں پہنچے ہو؟ یہ بات بات پہ کیوں جھگڑ رہے ہو؟
عرب کا زمانہ جاہلیت اِس سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ اُن کے بارے میں یہی تو مشہورہے کہ
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
لب ِجُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یہ کیا اخبارات اور سوشل میڈیا کو اپنی کرتوتوں سے گرم کئے رکھا ہے۔
اُدھر خانقاہ معلی میں کشتی لڑی گئی، اِدھر مسجد میں لاٹھی چارچ ۔ اُدھر جلسے میں نعرہ بازی، اِدھر محفل میں دھمکی۔
تمہارے آباء کو فضیلت صبر کی وجہ سے تھی، تحمل ا ن کا اثاثہ تھا اور برداشت جمع پونجی تھا۔
وہ چاہے کربلا کا عظیم سانحہ ہو
چاہے حضرت شاہ سید محمد نوربخش ؒ کی مصائب و آلام سے بھر پور زندگی ہو۔
تمہارے آباء نے خواہ وہ بدر ہو کہ اُحد، خندق ہو کہ خیبر یا کربلا ہو اپنے دشمنوں کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنوں میں بھائی چارگی کی ایسی مثال قائم کر دی ۔ بقول علامہ اقبال ؒ ۔
ہو حلقہِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم و حق وباطل ہو توفولاد ہے مومن
تمہار ا دل و دماغ نور کی بجائے تعصب سے اگر بھر پور ہے تو گلگت کے شاعر جمشید دکھی نے اپنے خون خرابے سے رنگین معاشرے کو دیکھ کر مجبوراً کہا تھا۔
تعصب سے بھرا پیغام یہ ہے
بہاوٗ خون درس عام یہ ہے
مسلمانوں کا جب انجام یہ ہے
میں کافر ہوں اگر اسلام یہ ہے
تمہارے لئے اب کافروں سے پنجہ آزمائی کا کوئی محل ہی نہیں۔ آڑوس پڑوس میں بھی بھیگی بلی بنے ہوئے ہو جبکہ اپنے اندر کرسی اور نمبرداری کے لئے آپس میں دست و گریباں ہو۔ تُم ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہو کہ کرسی اور نمبر داری کے شوقین لوگوں نے تمہیں اِس حال کو پہنچایا ہے اور تم اُن کے چال کے جال میں ایسے پھنس گئے ہو جیسے مکھی مکڑے کے جال میں پھنستی ہے۔بدبختی دیکھئے یہ دونوں منصب پڑھے لکھے لوگوں کے لئے مختص ہیں مگر ایک عرصے سے نیم پڑھے لکھے لوگ اِس منصب کو حاصل کرنے کی سعی رائگاں کر رہے ہیں۔اِ ن کی اِس سعی رائیگاں نے دنیا کے لئے نمونہ کے طور پر دکھائے جانے والے مذہبِ حقہ کو عبرت کا نشاں بنایا گیا ہے۔تم سادہ لوح عوام آپس میں نہ لگے رہیں تواُن نیم خواندہ لوگوں کی دال نہیں گلتی۔
خدا کے لئے ایک بار ٹھنڈے دماغ سے ذارا سوچیں آخر ہمارے جھگڑے کا اصل سبب کیا ہے۔
ہمارا خدا ایک، رسول ایک، امام ایک، کتاب ایک، فقہ ایک، اصول ایک، اوراد ایک ،تمام پیرانِ طریقت ایک، مرشدانِ حقیقت ایک، آذان ایک،وضو ایک، نماز ایک، احکامات ایک، اعتقادات ایک، عبادات ایک۔ فرق چندنیم خواندہ لوگوں کا ہے جو ہمارے اتحاد و ارتفاق کی راہ کی رکاوٹ ہے۔
تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ باہر کی دنیا میں اپنے اپنے مسالک کی تبلیغ و ترویج کے لئے سینکڑوں جرائد، و رسائل، اخبارات، ٹیلی ویژن چینلز دن رات کام کر رہے ہیں اور شاندار اور منظم انداز میں اپنی ا پنی منزلوں کی جانب رواں دواں ہیں ۔اور تم مکمل تہی داماں ہو۔۔۔اِس حالت میں مستقبل میں اُمید کی معمولی کرن بھی نظر نہیں آتی۔
نا اتفاقی خدا کو ہرگز پسند نہیں۔میں نے کہیں پڑھا ہے کہ کسی پیغمبر ؑ کے دور میں جب وہ پیغمبر ؑ اپنے وقت کے لوگوں کو خدا کی باتیں بتانے لگے تو لوگ ماننے کو ہرگز تیار نہیں ہوئے۔ پیغمبر ؑکی جب ہزار کوششیں بے سود گئیں تو تنگ آکر خدا سے عرض کی۔ ر ب تعالی یہ لوگ میرا ایک بھی کہا نہیں مانتے آپ اِن پر آسمان سے عذاب نازل فرما۔خدا نے اپنے پیغمبر ؑ کی درخواست قبول فرمائی مگر یہ بھی فرمایا، بس دو چار دنوںکے اندر کیا ہوتا ہے تماشا دیکھو ۔پیغمبر ؑ نے منادی کرادی لوگو! اب تم عذاب کے لئے تیار ہو جا ،میری درخواست خدا نے منظور فرمائی ہے اور کسی بھی وقت آسمان سے عذاب نازل ہونے والا ہے۔پیغمبر ؑ کی بات سُنتے ہی لوگوں نے آسمانی عذاب سے بچنے کا طریقہ ایجاد کر لیا۔زمین کی کھدائی شروع کی اور اندر ہی اندر کالونیاں بنائیں جہاں آسمانی عذاب سے بچتے ہوئے جی سکیں۔انہوں نے عہد کیا کہ مریں گے بھی ساتھ مریں گے جئیں گے بھی ساتھ جئیں گے۔پیغمبر ؑعذاب کا تماشا دیکھنے کے منتظر رہے مگر ہفتوں گزر گئے عذاب نازل نہیں ہوا ۔پیغمبر ؑ ایک بار پھر خدا کے حضور پکارا۔ رب تعالیٰ آپ کی طرف سے وعدہ وفا نہ ہوا۔ کتنے دن گزر گئے عذاب ندارد۔رب نے جواب دیا میں عذاب نازل کرنے ہی والا تھا مگر لوگوں نے میرے عذاب سے بچنے کے لئے اتحاد و اتفاق کا وہ مظاہر کیا جو آپ کے فہم و ادراک سے ماوریٰ ہے۔ بس میرے عذاب سے بچنے کے لئے اتحاد و اتفاق کا یہ شاندار مظاہرہ دیکھا تو میں نے ارادہ کیا کہ مجھے مانے نہ مانے یہ آپس میں متحد رہیں۔
نوربخشیو! تمہاری یہ نا اتفاقی کسی بڑے عذاب کو دعوت دے رہی ہے۔ اُس عذاب کے نازل ہونے کے بعد تم ہاتھ مَلتے رہ جائیں گے اگر مَلنے کے لئے جسم پر ہاتھ سلامت رہیں تو!!!!!!!خدا کیلئے اب بھی ہوش کا ناخن لے، اب بھی ایک دوسرے کا احترام کریں، اب بھی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو در گزر کریں، اب بھی پیار محبت رواداری اور بھائی چارگی کو فروغ دیں۔چھوٹے موٹے اختلافات ہر مسلک میں ہے مگر ایسے اختلافات کو ملت کے نقصان کا سبب بننے نہیں دیتے۔دیکھو اکیلے تم مسلمان نہیں ہو۔تمہارے آڑوس پڑوس میں اور بھی مسلمان بستے ہیں۔ بعض حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث پر مکمل عمل پیرا ہونے کے دعویدار ہیں، بعض سُنت النبی کے سچ مچ پیروکار بننے کے تگ و دو میں ہیں ، بعض اہلبیت اطہار علیہم السلام کے اسوہ حسنہ پر چلنے کے درپے ہیں اور اپنے نیک اعمال سے جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات حاصل کرنے کو کوشاں ہیں۔اِن کے علاوہ بھی دنیا کی سات ارب میں سے ایک ارب کی آبادی مسلمان ہے ۔ اُن کے لئے بھی اُسی جنت میں گنجائش ہے۔اور تم ایک ڈیڑھ لاکھ مسلمان ایک دوسرے کی ٹانک کھینچ رہے ہو۔کہ میرے سوا دوسرا اِس میں داخل ہی نہ ہوں۔قرآن کی رو سے انہیں بھی کوئی خوف و حزن نہیں جنہوں نے خدا کومانا، آخرت پر یقین کیا اور نیک اعمال کئے۔یہ اعلان سورہ بقرہ کی آیت میں ہے۔ایسے میں وہ تمام اچھے اور نیک انسان بھی وہاں جائیں گے جنہوں نے اِس دنیا میں انسانوں کی بھلائی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔لہذا خدا نے جنت کو فقط ایک ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی گنجائش کے ساتھ نہیں بنائی ہوگی۔خدا جنت کو اپنی کائنات کے حجم کے حساب سے بنائی ہوگی اور خدا کی کائنات میں ہماری اِس دنیا سے بڑی دنیاوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے جتنی تعداد میں ہماری اِس دنیا کے تمام صحراوں میں زرات نہیں۔
تم شخصیت پرستی کو ترک کریں اور علماء سے رجوع کریں۔یہ نا دیکھیںکہ یہ نیم خواندہ لوگ کیا کہتے ہیں بلکہ یہ دیکھیں کہ قرآن کہا کہتا ہے، فقہ احوط کیا کہتا ہے، اصول اعتقادیہ کیاکہتا ہے، دعوات صوفیہ میں کیا کچھ موجود ہ ہے۔ایسا ہوگیا تو تُم سچ مچ مسلمان ہو، مومن ہو، صوفی ہو، امام کے اصلی پیروکار ہو، تم مرشد ہو، پیر ہو ، مرید ہو ،جنتی ہو۔۔۔ اگر ایسا نہ ہو سکا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی کلہاڑی سے اپنے بھائیوں کو دشمن جان کر جڑیں کاٹتے جائیں گے تو دوسرے کے جسم پر بھی ہاتھ ہیں ، ہاتھ میں کلہاڑی ہے اور وہ بھی ایک دن جشن منائیں گے کہ ہم نے اپنے دشمن کا صفایا کردیا۔گویا دونوں کے جشن لمحہ بھر میں سوگ میں تبدیل ہو جائیں گے جب دونوں کو احساس ہو گا کہ دونوں کی جڑیں کاٹی گئی ہیں۔