سیرت علی علیہ السلام تاریخ کے آئینے میں دوسری قسط


تحریر سیدہ کنیز زہرا موسوی


گزشتہ قسط میں مولائے کائنات علی علیہ اسلام کی ولادت،آپ کی تربیت، شجاعت اور جانشینی کا مختصر جائزہ لیا۔ اس قسط میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحلت کے بعد پیش آنے والے واقعات کا مختصراً جائزہ لینگے۔
رسول اکرم ؐ کی رحلت کے بعد سب سے پہلا واقعہ جو رونما ہوا وہ حضرت عمر کی جانب سے رونما ہوا۔ انہوں نے رسول خداؐ کے گھر کے سامنے بلند آواز میں کہا : جو شخص یہ کہے گا کہ رسولؐ کی رحلت ہو ئی ہے تو میں اِسی تلوار سے اس کا سرقلم کر دوں گا اگر چہ حضرت ابن عباسؒ و دیگر نے وہ آیت بھی سنائی جس کا مفہوم یہ ہے :موت سے پیغمبر کو بھی مفر نہیں1۔ بوقت وفات رسولؐ حضرت ابو بکر مدینہ سے باہر تھے کچھ وقت بعد آپ بھی پہنچ گئے اور مسجد میں اعلان کیا کہ رسولؐ وفات پا چکے ہیں اور اسی آیت کی تلاوت کی تو حضرت عمر نے کہا: ’’ایسا لگتاہے کہ میں نے آج تک گویا یہ آیت سنی ہی نہیں تھی۔‘‘ 2
جس وقت حضرت علی علیہ سلام رسول اکرمؐ کو غسل دینے میں مشغول اور مسلما ن تکمیل غسل و کفن کا انتظار کرر ہے تھے تاکہ نماز جنازہ میں شرکت کر سکیں ، خبر آئی کہ کچھ لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں اورخلیفہ منتخب کئے جا نے کے بارے میں بحث کر رہے ہیں اور قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کا نام خلافت کے لئے پیش کیا گیا ہے، تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے جیسے ہی یہ خبر سنی فوراً سقیفہ کی جانب روانہ ہوئے اور راستے میں ابو عبیدہ بن جراح کو بھی مطلع کیا اور تینوں افراد سقیفہ کی جانب روانہ ہوئے۔اس وقت تک معاملہ انصار کے ہاتھ میں تھا لیکن ان تینوں مہاجرین کے آنے کے بعد تنازع شروع ہوا اور ہر شخص اپنی اہلیت و شایستگی کی تعریف کرنے لگا۔بلآخر حضرت ابو بکر کو پانچ رائے کے ذریعے سقیفہ میں خلیفہ چن لیا گیا اور اجماع مسلمین کا نام دے کر اسے تسلیم کروایا۔ بہر حال خلفائے ثلاثہ مقرر ہونے کے طرز پہ بعد میں لکھوں گی۔ لیکن یہاں اصل سمجھنے کا نقطہ یہ ہے کہ خلیفہ کے بارے میں اسلام کا اصل تعلیمات کیا ہے؟
تو یہاں تین طریقوں پہ تجزیہ کرونگی:۱۔ لا تعلقی، ۲۔ شوریٰ، ۳۔ جانشینی کے بارے میں وصیت
لاتعلقی:
لاتعلقی سے مراد یہ ہے کہ ہم یہ بات مان لے کہ رسول خدا ؐ جس مقصد کے لئے مبعوث ہوئے اور عمر بھر محنت و مشقت اٹھانے کے بعد رحلت فرماتے ہوئے اسلام کے مستقبل سے کوئی سروکار نہ تھابلکہ رسول ؐ نے اسے آئندہ حالات اور نومولود مسلمانوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ جبکہ حضور ؐ جیسی شخصیت کے بارے میں ایسی بے سرو پا باتوں کا فرض کر لینا کسی طرح بھی حقائق و واقعات کے موافق نہیں ہے۔کیوں کہ جب بھی کوئی ہادی و رہنما نہ ہو تو معاشرہ بے سرپرست رہ جاتا ہے اور خصوصاً اسلام جیسی انقلاب میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ جس وجہ سے اس کو مختلف قسم کے خطرات لاحق ہو جائیں گے مثلاً لوگوں کا دور جاہلیت کی جانب واپس جانے کا خطرہ وغیرہ۔ اسی لئے آپ ؐ نے مہاجر، انصار، قریش، مکی و مدنی یعنی ہر قسم کے لوگوں کو یک جان کیا اور دور جاہلیت کے تعصبات و نظریات کا خاتمہ کیا اور آپ ؐ نے آخر الوقت فرمایا : قلم دوات لے آو تاکہ میں تمہارے لئے ایسا نوشتہ (تحریر) لکھ دوں کہ جس سے تم میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو۔ [صحیح بخاری ۳۰۳۵]
رسول ؐ کا یہ فرمانا اور قلم دوات کا تقاضا کرنا اس بات کی واضح و روشن دلیل ہے کہ آئندہ رونما ہونے والے خطرات کے بارے میں آپ کو تشویش تھی اور ان کا سدِ باب کرنے کے لئے آپ کوشاں تھے۔
شوریٰ:
شوریٰ سے مراد ہے کہ گویا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےاپنے بعد مسلمانوں کی رہبری کو انہی کے دست اختیار میں دے دیا تھا کہ جس کو چاہے منتخب کر لیں ۔ اگرچہ اسلام نے قانون اورمشاورت کا احترام کیا ہے لیکن ایسےمخصوص واقعات جو مسلم معاشرہ میں رونما ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی نص صریح موجود نہ ہو۔ کیوں کہ اسلام کے قوانین و احکام مشوروں سے طے نہیں ہوتے یہی وجہ تھی کہ وہ ذمہ داریاں جو وحی کے ذریعے معین کی گئی تھیں ان کے بارے میں پیغمبرؐ نے کسی سے مشورہ نہیں کیا چنانچہ ،مسئلہ ولایت و امامت کا شمار بھی ایسے ہی مسائل میں ہوتا ہے جو امور مشاورت کی حدود میں نہیں آتا۔یہی نہیں بلکہ حضور ؐ بھی اپنی رائے کا اظہار نہیں فرما سکتے تھے۔
اس کا بہترین مثال کہ جب قبیلہ بنی عامر کی ایک جماعت رسول ؐ سے ملاقات کرنے کے لئے آئی اور اس نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم اس شرط پر ایمان لانے کو تیار ہے کہ آپ اپنے بعد خلافت ہماری تحویل میں دے دیں ۔ اگر چہ اس وقت رسول انتہائی پر آشوب دور سے دو چار تھے نیز قریش کی جانب سے آپ پر سخت دباو بھی تھا اور آپ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی تھی مگر اس کے باوجود آپؐ نے فرمایا یہ کام خدا وند کریم کا ہے وہ جسے بھی مناسب سمجھے گا اسے ہی میرے بعد میرا جانشین مقرر کرے گا۔[سیرہ ابن ہشام، ج، ۲ ص۶۶]
اگر خلفاء کی تقرری کے عمل کا بغور جائزہ لے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب حضرت ابو بکر خلیفہ بن رہا تھا تو اس مجلس میں امت کے چند ایک قبیلوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا جس میں سے انصار خود مخالفت کر رہے تھے جبکہ حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو اپنا کاجانشین مقرر کیا تو یہ عمل خود شوریٰ کی نفی ہو گئی۔ یہی نہیں بلکہ حضرت عمر بھی خلیفہ مقرر کرنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اسے انہوں نے چھ افراد کے درمیان محدود کر دیا تھا اور ان افراد کے علاوہ تمام امت مسلمہ کو اس حق سے محروم کر دیا تھا۔
وصی اور جانشین کا تقرر:
وصایت و جانشینی ہی ایک تنہا راستہ بچ جاتا ہے جس کے ذریعے رسول خدا ؐ نے اسلام کی آئندہ فلاح و بہبود کی خاطر یہ مثبت اقدام اٹھایا تھا اور خدا وند عالم کے حکم سے ایک شخص کو جانشین کی حیثیت سے مقرر کر دیا تھا ۔ چنانچہ صرف یہی ایک ایسا مثبت اقدام تھا جو مستقبل میں اسلام کی خیر و صلاح اور رسالت کو خطرات سے محفوظ رکھنے کا ضامن ہو سکتا تھا۔
قرآن و حدیث اور خود رسول ؐ کی زندگی میں ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جو اس بات پہ دلالت کرتے ہیں کہ رسول ؐ اس منصب کے لئے مولا علیؑ کی تربیت فرما رہے تھے کہ آئندہ علیؑ ہی قائد و رہبر ہوں گے ۔ اس موضوع پہ تفصیل سے گزشتہ قسط میں جائزہ لیا جا چکا ہے ۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر کے خطبے کے اہم نکات
حضرت ابو بکر نے جو تقریر کی اس اس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت ابو بکر نے پہلے مہاجرین کی تعریف کی تاکہ ان کی عظمت انصار کے ذہنوں میں نقش ہو جائے۔ اس کے بعد کسی حد تک انصار کی بھی تعریف و توصیف بیان کی اور خود کو منصف کے طور پر پیش کیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انصار کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ حضرت ابو بکر نے یقین کے ساتھ کہا: مہاجرین کی خلافت جو خدا کی مرضی کے مطابق ہے اور یہی خدا کا حتمی فیصلہ ہے اور حضرت ابو بکر نے خلافت کو مہاجرین کا مسلَم حق ثابت کرنے کے بعد اس سلسلہ میں انصار کی کسی بھی مخالفت کو خدا سے عہد شکنی اور دین کو برباد کرنے کے مترادف قرار دیا ۔ اپنی تقریر کے آخر میں حضرت ابو بکر نے حضرت عمر و عبیدہ کی بیعت کی دعوت دی وہ طبیعی طور پر حضرت ابو بکر کو مقدم سمجھتے تھے گویا پہلے ہی خلیفہ کی تعین کے سلسلے میں منصوبہ بنا چکے تھے۔[ طرح ہای رسالت ج ۱ ص ۲۵۵۔۲۵۷]
خطبہ کی تفصیل کتاب الامامہ والسیاسۃ ج۱ ص۱۴ ـ۳۱ میں ملاحظہ فرمائے۔
اس خطبہ کے رد عمل میں حباب بن منذر انصار کھڑے ہو کر یہ دھمکی دی کہ اگر مہاجرین انصار سے مصالحت نہیں کرتے تو ہم علیحدہ مستقل حکومت قائم کر لیں گے لیکن حضرت عمر نے فورا ً کہا: افسوس دو تلواریں ایک نیام میں نہیں سما سکتیں خدا کہ قسم عرب اس بات پر ہرگز راضی نہیں ہونگے کہ حکومت تمہارے حوالے کر دی جائے اس کی وجہ یہ تھے کہ رسول ؐ تم میں سے نہیں تھے۔[ الامامہ السیاسۃ ،ج ۱، ص ۱۶۔۲۱]، [تاریخ طبری ،ج۳ ، ص ۲۱۸۔۲۲۰]، [تاریخ کامل ابن اثیر، ج ۲ ،ص ۲۲۸]
مہاجرین اور انصار کے درمیان حصو ل اقتدار کی خاطر بہت سخت کشمکش ہونے لگی چنانچہ انصار کے دو قبیلو ں اوس اور خزرج کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گیا ۔ قبیلہ اوس کے سردار اسید بن حضیر کا جھکاو مہاجرین کی طرف تھا، ان کی پیروی کرتے ہوئے بشیر بن سعدخزرجی نے لوگوں کو مہاجرین کی بیعت کی جانب رغبت دلانا شروع کی بالاخر اس کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کا فیصلہ حضرت ابو بکر کے حق میں ہو گیا اور انہیں پانچ رائے کے ذریعے خلیفہ منتخب کر لیا گیا۔
یہ انتخاب اصول و ضوابط کے منافی تھا کیوں کہ فیصلہ اتنی عجلت و جلدی میں کیا گیا کہ کسی صاحب فکر شخص کو اتنا موقع نہیں دیا گیا کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں غور فکر کر سکے اور کسی مخالف کو بھی اتنی مہلت نہ ملی کہ وہ اپنے دعوے کے حق میں دلیل پیش کر سکے۔ اس عجلت و تندی کے باعث روح انتخابات کی اچھی طرح پائمالی کی گئی حتیٰ کہ ان لوگوں سے بھی جو سقیفہ میں موجود تھے حق رائے دہی سلب کر لیا گیا۔اور یہی نہیں بیشتر مسلمان اکابر و اصحاب قطعی لاعلم و بے خبر رہے اور جنہیں اطلاع بھی ہوئی تو وہ رسول ؐ کے غم فراق اور تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔
حضرت علی ؑ رسول ؐ کے تجہیز و تکفین میں مشغول و منہمک تھے کہ ابو سفیان جس میں سیاست فہمی بہت تیز تھی پیغمبر اکرمؐ کے گھر پہنچا اور حضرت علی ؐ کے سامنے یہ تجویز پیش کہ آپ کے دست مبارک پر بیعت کرے لیکن حضرت علی اس کی نیت جانتے تھے لہٰذا اس کی باتوں کو قطعی اہمیت نہیں دی اور فرمایا :تمہارا مقصد مسلمانوں کے درمیان فتنہ پھیلانا ہے۔ [تاریخ طبری ،ج ۳ص۲۰۹، کامل ابن اثیر ج ۴ص ۲۳۰]
اس کی پیشکش حسن نیت پر مبنی نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد اختلاف و فتنہ برپا کرنا تھا۔حضرت علیؑ نے ابو سفیان کی یہ باتیں سنی تو آپؑ فرمانے لگے :میں ایک طوفان دیکھ رہا ہوں کہ جس کی منہ زوریوں کو خون ہی روک سکتا ہے۔[ شرح ابن الحدید ج ۱۲ ص ۴۴، تاریخ طبری ج ۳ ص ۲۰۹]
حضرت علی ؑ کا رد عمل:
سقیفہ میں جو اجتماع ہوا وہ اس طرح اختتام پذیر ہوا کہ انصار و مہاجرین میں سے چند افراد نےحضرت ابو بکر کے ہاتھ بیعت کی اس کے بعد مجمع مسجد کی جانب روانہ ہوا تاکہ وہاں عام مسلمان بیعت کر سکے ۔ حضرت عمر اس مجمع میں پیش تھے اور راہ میں جو بھی ملتا اس سے کہتے : وہ حضرت ابو بکر کے ہاتھ پہ بیعت کرلے۔ [شرح ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۰۹]
حضرت علیؑ ابھی رسولؐ کے تجہیز و تکفین میں منہمک تھے کہ لوگوں کے شور غل کی صدائیں سنائی دیں اور صحیح واقعہ کا اس کے ذریعےعلم ہوا۔ خلافت کی اہلیت کے بارے میں جب مہاجرین کی حجت و دلیل آپ کو بتائی گئی کہ انہوں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ خلیفہ خاندان قریش اور شجر نبوت کی شاخ ہے تو آپؑ نے فرمایا : انہوں نے تکیہ تو درخت پر ہی کیا لیکن اس کے پھل کو تباہ کر ڈالا ۔ [ نہج البلاغہ،خطبہ ۶۶]
حضرت علیؑ کا دوسرا رد عمل رسول ؐ کے جسد مبارک کی تدفین کے بعد ظاہر ہوا۔ حضرت علیؑ مسجد میں تشریف فرما اس وقت بنی ہاشم کے کافی تعداد میں وہاں موجود تھے بعض وہ لوگ جو حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے،آپ کے اور افراد بنی ہاشم کے گرد جمع ہو گئے اور کہنے لگے ’’طایفہ انصار نیز دیگر افراد نے ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے آپ بھی بیعت کر لیجئے ورنہ تلوار آپکا فیصلہ کرے گی۔‘‘
حضرت علیؑ نے فرمایا :میں ان سے زیادہ بیعت کے لئے اہل و قابل ہوں تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو۔ تم نے رسول خداؐ سے قربت خلافت انصا ر سے لے لی انہوں نے بھی یہ حق تسلیم کر لیا خلافت کے لئے میرے پاس بھی دلائل موجود ہیں میں پیغمبرؐ کے زمانہ حیات ہی میں نہیں بلکہ رحلت کے وقت بھی ان کے سب سے زیادہ قریب و نزدیک تھا۔ میں کتاب خدا اور سنت رسول کے بارے میں سب سے زیادہ واقف و باخبر ہوں امور کے نتائج کے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، ثبات و پائداری میں تم سب سے بہترو محکم و ثابت ہوں۔ اس کے بعد اب تنازع کس بات کا؟3 اس پر حضرت عمر نے جواب دیا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں ہم آپ کو بیعت کئے بغیر جانے نہیں دیں دے۔ حضرت علی ؑ نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ دودھ کو اچھی طرح سے دھو لو اس میں تمہارا بھی حصہ ہے۔ آج خلافت کے کمر بند کو ابو بکر کے لئے مضبوط باندھ لو کل وہ تمہیں ہی لوٹا دیں گے۔
اس کے بعد وہاں موجود عبیدہ نے حضرت علی سے مزید کہا کہ اے میرے چچا زاد بھائی رسول خدا سے آپ کی قرابت داری، اسلام میں آپ کے سابق الاسلام اور آپ کی علمی فضیلت سے ہمیں انکار نہیں ہے لیکن ابو بکر معمر ہونے کی بنیاد پر اسکو خلافت سنبھالنے دیں۔ آپکی عمر دراز ہوئی تو خلافت آپ کو پیش کردی جائے گی لہٰذا آپ اس وقت فتنہ و آشوپ بپا نہ کیجئے ویسے بھی آپ جانتے ہیں کہ عربوں کے دلوں میں آپکی دشمنی کتنی ہے۔ [ احتجاج طبرسی ج۱ ص۹۶۔ الامامتہ والسیاسۃ ج۱ص۱۸۔ شرح ابن ابی الحدید ج۶ص۱۱]
حضرت علیؑ کا تیسرا رد عمل وہ تقریر تھی جو آپ نے مہاجرین و انصار کے سامنے فرمائی۔ اسی تقریر کے پہلے حصہ میں آپؑ نے فرمایا: اے مہاجرین و انصار خدا پر نظر رکھو اور میرے بارے میں تم نے جو رسول خدا سے عہد و پیمان کیا تھا اسے فراموش نہ کرو ۔ حکومت محمدیہ کو ان کے گھر سے اپنے گھر مت لے جاو۔ اس پر بشیر بن سعد نے انصار کی ایک جماعت کے ساتھ کہا: اے ابوالحسن اگر انصار نے آپ کی یہ تقریر ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے پہلے سن لی ہوتی تو وہ آدمی بھی ایسے نہ ہوتے جو آپ کے بارے میں اختلاف کرتے۔ [الامامۃ والسیاسۃ ج۱ ص۹۶۔ احتجاج طبرسی ج۱۹ص۱۸] رات کے وقت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا انصار کے گھروں پر جاتی اور امداد طلب کرتی تو انصار کا یہی جواب ہوتا کہ ہم ابو بکر کی بیعت کر چکے ہیں۔ اگر آپ کا شوہر ابو بکر کی بیعت سے پہلے ہمارے پاس آتا تو ہم انکار نہ کرتے۔ [الامامتہ والسیاسۃ ج۱ص۱]
(جاری ہے)
حوالہ جات:
1. آل عمران ۱۴۴
2. تاریخ طبری ج ۳ ص ۲۰۰، شرح ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۱۲۸
3. احتجاج طبری ج ۱ ص۹۵۔ الامتہ والسیاسۃ ض۱ ص۱۸۔
پہلی قسط یہاں ملاحظہ فرمائے:
پہلی قسط