عظیم بھائی کی یا دمیں


تحریر


عظیم بھائی کی یا دمیں
تحریر: سید لیاقت علی شاہ الموسوی براہ
میرے بڑے بھائی میر سیّد جمال الدّین کے انتقال پر ملک بھر سے بذریعہ خط ، بذریعہ ٹیلی فون لاتعداد تعزیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں اور بہت سے لوگوں نے باالمشافہ ملاقات کر کے اظہارِ تعزیت کیا ہے ۔ میں دل کی گہرائی سے ان تمام خواتین و حضرات کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمارے غم میں شرکت کی اور میرے بھائی کے لئے دعائے مغفر ت فرمائی۔ میں اُن تما م علمائے کرام اور قلم کاروں کا بھی تہہ دل سے ممنونِ احسان ہوں کہ جنہوں نے مضامین لکھ کر میرے مرحوم بھائی کی روح پر خراجِ عقیدت کے انمول پھول نچھاور کیے۔ میں ان سب کے لئے دعا گوہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمتوں اور برکتوں کاسایہ قائم رکھے اور دنیا سے رخصت ہو جانے والے اُن کے پیارو ں کی مغفرت فرمائے (آمین)
ربّ ذوالجلال نے جہاں انسان کو اس عالمِ آب و گِل میں اپنی اطاعت و بندگی کیلئے خَلق کیا ہے تو وہیں اُسے بیش بہا ذہنی ، عقلی اور فکری صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان بھی ہے اورکریم بھی ہے ۔ انسان اس اٹل حقیقت کو ذہن نشین رکھے کہ “کّل نفس ذائقة الموت” کے مصداق ہر نفس نے ہر ذی روح نے ایک نہ ایک دن موت کا مزا چکھنا ہے کیونکہ موت برحق اور اٹل ہے اور اس سے کسی صورت مفر نہیں ہے کسی بھی چھیڑِ خوباں سے ، دفاعی حَربوں اور حکمتوں کی آڑ لے کر اسے کسی صورت بھی ٹالا نہیں جاسکتا ہے ۔ انسان اِس حقیقت کو بھی مدِنظر رکھے کہ “الدّنیا مزرعة الاخرةِ” یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے جو آج اس میں بوئے گا کل کو وہی کاٹے گا جو اس میں اعلیٰ سے اعلیٰ معیاری بیج بو کر پُوری تندہی کے ساتھ آبیاری کرتا رہے گا اُتنا ہی بہترین اور معیار ی فصل کاٹنے کی اُمید رکھ سکے گا۔ انسانی تخلیق کا مقصدِ حیات بھی عبادت و بندگی اور معرفت الٰہی کا حصو ل ہے تو گویا میرے بڑے بھائی مفتی سید جمال الدّین الموسوی (مرحوم) نے بھی مندرجہ بالا مقاصدِ تخلیقِ انسانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو مذہبِ حقّہ کی ترقی ، ترویج و اشاعت ، مذہبی ہم اہنگی اور فروعی اختلافات کے سدِ باب کے لئے وقف کیے رکھا اور ان مقاصد کے حصول کے لئے عمر بھر سر گرمِ عمل رہے اور مذہبِ حقّہ کے خلاف اُٹھنے والے فتنوں اور نا دیدہ سازشی عناصر کی بیخ کنی کے لئے اپنی خُداداد ذہنی صلاحیتوں کو خوب استعمال کیا اور ہر فتنے کے سامنے سینہ سپر رہے۔ آپ کی میر واعظی کے دور میں سلسلہ نور بخشیہ میں اغیار کی مداخلت ِ بے جا کا سلسلہ بامِ عروج پر تھا ۔ انہی مذموم ارادوں کو پر وان چڑھانے کے لئے نِت نئے سوالات تخلیق کر کے ذہنوں کو اُلجھانے اور دین و مذہب میں اختلافات پیدا کرنے اور سادہ لوح لوگوں کو سَراب کے پیچھے لگانے کی شعوری کاوشیں ہوتی رہیں۔ اغیار مختلف حیلے ، بہانوں اور سازشی تھیوریوں کے ذریعے سائنٹفک طریقے سے مسلکِ نور بخشیاں کو کمزور کرنے کی مقدور بھر جستجو کرتے رہے لیکن آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اغیار کے ان تمام ہتھکنڈوں کو خا ک میں ملا کر دم لیا ۔ شرعی معاملا ت میں پیچیدہ مسئلوں کو کسی ڈر خوف ، لالچ اور دبائو کے بغیر عین شرعی تقاضوں کے مطابق غیرجانبداری کے ساتھ حل کرنے کے سلسلے میں آ پ کا کوئی ثانی نہ تھا۔اپنے ہوں یا غیر ہر مکتبہ فکر کے لوگ آپ کے شرعی فیصلوں کو بلا تامُّل من و عن تسلیم کرتے تھے اور ان فیصلوں کا تہہ دل سے احترا م بھی کرتے تھے ۔ اسی بنا پر ہر مکتبہ فکر کے لوگ اپنے شرعی مسائل کے منصفانہ حل کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ کا ہر شرعی فیصلہ ہمیشہ قرآن و حدیث اور فقّہ اَحوط کے احکامات کے عین مطابق ہو تا تھا ۔ شرعی معاملات میں آپ نہ کسی کے دباو میں آتے تھے اور نہ ہی کسی کا لحاظ کرتے تھے ۔ انہی بے باک جرات مندانہ شرعی فیصلوں کی بدولت تمام مکاتب ِ فکر کی نگاہ میں آپ کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا اور حاصل رہے گا ۔ آپ کا اسمِ گرامی سیّد جمال الدّین الموسوی ابن سیّد محمد شاہ الموسوی ہے ۔ آپ کا تعلق براہ بالا کے واحد نامی گرامی سادات خاندان سے تھا آپ کے والدِ گرامی سیّد محمدشاہ الموسوی (مرحوم) کو اعلیٰ نسب و حسب ، تقویٰ ، با رعب شخصیت اور اپنے دور کا بلند پایہ عالمِ دین ہونے کی بنا پر پورے خطے میں ممتاز مقام حاصل تھا ۔ آپ کے دور میں براہ بالا میں ایک بھی شیعہ ، سُنّی نہ تھا ۔ ساری کی ساری آبادی مذہب ِ نور بخشیہ سے تعلق رکھتی تھی اور ماشاء اللہ اب بھی یہی پوزیشن برقرار ہے ۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گائوں براہ بالا کے پرائمری سکول سے اور مڈل کی تعلیم مڈل سکول خپلو سے حاصل کی ۔ طالبِ علمی کے ابتدائی دور سے ہی آپ کی ذہانت و فطانت او رخداداد صلاحیتیں ظاہر ہونے لگیں ۔ آپ کے کلاس فیلوز کے بقول آپ کاشمار کلاس کے ہونہار طلباء میں ہوتا تھا او رہمیشہ امتیازی نمبروں کے ساتھ پوزیشن حاصل کرتے تھے۔ براہ او ر خپلوسے ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید اعلیٰ دینی علوم کے حصول کیلئے آپ نے سرگودھا پنجاب کا رُخ کیا ۔ جہاں دارالعلوم محمدیہ سرگودھا سے فارغ التحصیل ہوئے ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے آبائی گائوں براہ بالا واپس آئے جہاں اپنی بقیہ زندگی ایک بلند پایہ عالمِ دین ، داعی ، دانشور ، مصلح اور شرعی قاضی کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے ۔
موصوف دینی و دنیوی اور شخصی حوالے سے جاذب نظر ، مثالی شخصیت کے مالک تھے۔ تعلیماتِ اسلامی کے فروغ ، نشرواشاعت اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور تبلیغِ دین کے لئے زندگی کی آخری سانس تک کوشاں و مُضطرب رہے ۔ 1971ء سے پہلے کے زمانے میں خدمتِ دین اور فروغِ دین کے حوالے سے آپ کے والدِ گرامی میر سیّد محمد شاہ الموسوی (مرحوم) اور دادا جان میر سید جعفر شاہ الموسوی( مرحوم )کاکردار ناقابلِ فراموش تھا لیکن موصوف کی دینی و ملی خدمات بھی سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ آپ نے دینی تعلیمات کی درس و تدریس خاص کر بچوںکی تعلیم و تربیت اور عام لوگوں کے اذھان و قلوب کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے لئے انوار العلوم کے نام سے ایک دینی درس گاہ کا قیام عمل میں لایا ۔ ذاتی کاوشوں اور مخیرحضرات کے تعاون سے درس گاہ کے لئے شاندار عمارت تعمیر کروائی ۔ جب تک یہ عمارت قائم ہے میر سیّد جمال الدّین کی یاد تازہ کرتی رہے گی۔ ذاتی طور پر میری تجویز ہے کہ مدرسہ انوار العلوم کو یا براہ میں موجود کسی مسجد کو یا ہسپتال اور سکول کو میر سیّد جمال الدّین کے نام سے منسوب کیا جانا چاہیے ۔
آپ کی شخصیت میں چھوٹے بڑے سب کے ساتھ یکساںسلوک ، شفقتِ پدری کے تقاضوں کے تحت اپنی اولاد کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیے رکھتے تھے اور غیر ضروری ڈانٹ ڈپٹ اور پندو نصیحت سے پرہیز کرتے تھے ۔ بہن ، بھائیوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بڑی چاہ و چاہت اور اپنائیت کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ اس طرح آپ کی شخصیت میں اُنس و محبت ، شفقت وہمدری کے جذبات کُوٹ کوُٹ کر بھر ے ہوئے تھے۔ میر سیّد جمال الدّین الموسوی نہایت باکمال عالم فاضل بزرگ تھے اپنی زندگی کے ھشت پہلو شخصیت کے مالک تھے ۔
علم و فضل ، جاہ و جلال ، خُوداری و بیباکی میں یکتائے روزگار تھے ۔ عوام و خواص میں برابر مقبول و معروف رہبر و راہنما تھے ۔ معاشرے میں ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ آپ کے اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے آپ کی بے حد تکریم و عزت کرتے تھے اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کا بے حد ادب و احترام کر تے تھے یہی اُن کا بیش بہا قیمتی اثاثہ تھا ۔
سیّد جمال الدّین الموسوی اور اُن کے بزرگوں نے دین و مذہب اور قوم و ملت کی یکجائی و توانائی کے لئے تن ، من ، دَھن کی بازی لگا کر ، اپنا خونِ جگر دے کر، اپنا لہو جلا کر ان چراغوں کی حفاظت کی ہے ۔ انشاء اللہ ان چراغو ں سے مذہب و ملت کوتادیر روشنی فراہم ہوتی رہے گی ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو میر سیّد جمال الدّین کے دستِ مبارک سے جلائے ہوئے ان چراغوں کو روشن رکھنے اور ان کے لگائے ہوئے پودوں کی خوب آبیاری کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمارے مذہب کو اغیار کی یلغاروں اور اپنے اندر چُھپے ہوئے نادانوں کی نادانیوں سے محفوظ و مامون رکھے ۔ (آمین یا رب العالمین )