عقائد و تعلیمات کا تحفظ (تیسری قسط)


تحریر مولانا محمد اسحاق ثاقب


عقائد و تعلیمات کا تحفظ

عقائد و تعلیمات کے تحفظ و بقاء کے حوالے مختصر سی سعی کی توفیق ہوئی اور اسی ضمن میں دو قسطیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے تمہیدی طور پر ان لوازمات کی اہمیت بیان کررہا ہوں، جو عقائد و عملیات کی بقا کے لیے لازم و ملزوم ہے یعنی نشرواشاعت ۔
الحمدللہ ملت صوفیہ امامیہ نوربخشیہ میں وہ علمی ہیرے اور ہیروز موجود ہیں جن کو رب متعال نے نعمت حقیقی یعنی علم و ادب سے خوب نوازا ہے۔اب ہم سب یعنی تمام ملت کی ذمہ داری ہےکہ ان علمی شخصیات کے علوم کی فیوضات کو من وعن اگلی نسل کے لیے پہنچائی جائے، تاکہ بعد المرگ بھی لوگ ان نورانی تعلیمات کے نور سے مستفید ہوتے رہے ۔
ہمارے کتنے قد آور علمی وادبی شخصیات و ہستیاں اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئی ہیں مگر افسوس ان ہستیوں کی کوئی علمی آثار ہمارے پاس نہیں کیوں؟ اس لیے کہ اس زمانے میں اولاً: نشرواشاعت کے وسائل کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ ثانیاً: شاید اس دور کے لوگوں کو ہماری فکر، ہمارے خیال نہیں آیا اور نشرواشاعت جیسی عظیم شعبہ کی طرف توجہ نہیں دی جس کا نقصان ہم اٹھا رہے ہیں۔
اس لئے بندہ حقیر کی ملت صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے ہر ہر فرد، علمائے کرام، سادات عظام، نوجوان، طالبہ، طالبات، مرد و زن ہر ایک سے دلی اپیل و التجا ہے کہ خدا را خدا را شعبہ نشرو اشاعت کے لیے کچھ کیجیے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس کو معمولی اور حقیر سمجھ کر چھوڑ کے مت رکھیے۔ مرنے سے پہلے آ ئیے کہ ہم نشرواشاعت کی بنیاد رکھ کر زاد راہ کے ساتھ ساتھ عقائد و عملیات کے تحفظ وبقا ء کا سامان پیدا کرے۔اس سلسلے میں ایک بھر پور تحریک چلائی جانی چاہیے جس کی قیادت کے لئے بے لوث، ولولہ انگیز، بےباک، نڈر، مستقل مزاج ،شب و روز دین وملت کے لئے وقف کرنے کا جذبہ رکھنے والےغیرت مند نوجوانان، اور افراد در کار ہیں ۔ماشاءاللہ سوشل میڈیا پر ہمارے علماء ،نوجوانان ، خواتین وحضرات فعال ہیں کافی ایکٹیو ہوچکے ہیں، علماء کرام نے علمی انقلاب لاکر ذہن سازی و کردار سازی میں نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں، اور لوگوں کو ذہنی طور پر آمادہ کیا ہوا ہے،
ایسے میں اب وقت کی ضرورت ہے اور عقائد عملیات کی بقاء کے لئےضروری ہے کہ نوجوانوں پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس علم و ادب کمیٹی کو پوری پوری اختیارات کے ساتھ مخصوص ذمہ داری دی جائے، اور یہ کمیٹی شعبہ نشرو اشاعت کو پوری دنیاوی سطح پر چلانے تاکہ ہم عقیدہ ہم مسلک بھائیوں بہنوں کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے تمام محققین کے لئے بھی مواد و معلومات مہیا ہوسکے۔
وہ کونسا عقدہ ہے جو وا ہونہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکتا
یہ کام اگر کرنا چاہئے تو کر سکتا ہے،کوئی بھی کام مشکل ضرور ہومگر ناممکن ہرگز نہیں، اس لئے ہم کام کرتے جائیں اور اپنی کتابوں کا ترجمہ، تشریح،اپنے پلیٹ فارم سے کرنا شروع کرے، علمائے کرام کے دروس، تقاریر اور مواعظ کو کتابی شکل دے، مہینہ وار رسالہ کا اہتمام کیا جائے، ہر شہر ہر گاوں اور محلے کی سطح پر باقاعدہ نمائندگی دے کرعید، ماتم، ذکر واذکار، اور دیگر گاوں و شہروں کی سماجی و فلاحی ،علمی رپورٹ کو شائع کرے تو یقیناً یہ کمیٹی کامیاب ہوگی۔
کامیابی کے لیے خوب محنت اور ہر ایک کی طرف سےمحبت اور تعاون بہت ضروری ہے، اس خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہم سب کو مٹھی بن کر، یکجان، اور ایک بن کر عظیم طاقت بن کر ابھرنا اور چھاجانا وقت حاضر کی ضرورت اور پکار ہیں ۔
اب اس زبان بےزبانی وقت کی اس پر سوز پکار اور آواز کس کس کے دل چیرتی ہے اور کون کون لبیک کہہ کر میدان عمل میں اترتا ہے اور اس ظاہری و معنوی منفعت و ثواب سے بھرپور شعبہ میں حصہ ڈالنے میں پہل کرتا ہے وہ ہماری حمیت و غیرت پر منحصر ہے ،کیونکہ اس تحریک کا حصہ بننے کا مقصد صرف اور صرف عقائد وعملیات کو ہو بہو بچانا، پہنچانا، پھیلانا اور ملاوٹ و دخل اندازی سے پاک رکھنا ہے۔
لہذاایک دفعہ پھر اس عاجز و حقیر کی تمام اہل شعور سے گزارش اور دل سے درخواست ہے کہ ایک دفعہ پھر سوچیں اور اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہ کریں بلکہ اس کے دور رس نتائج پر نظر رکھ کر دامے، درمے، سخنے، تعاون کے لیے ذہنی طور پر آمادہ اور اپنے آپ کو تیار رکھیں ،جہاد کی بہت ساری اقسام ہیں: ان میں سے علمی، قلمی، مالی اور دیگر کچھ اقسام جہاد میں ہم بھی اپنا حصہ لگاسکتے ہیں ۔
جہاد صرف تلوار و بندوق اٹھا کر میدان جنگ میں جاکےصرف ظاہری دشمن کے ظاہری فتنوں اور حملوں کو روکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جہاد کا اصل مفہوم اندررونی و حقیقی دشمنوں سے لڑنے، نمٹنے ،ان کی سازش اور منصوبہ جات کو ناکام بنانا ہے، جس کے لئے اہل قلم قلم کے ذریعے، اہل ثروت مال کے ذریعے، اہل علم علم کی ترویج کے ذریعے اپنا حق جہاد ادا کر سکتے ہیں ۔ حدیث مبارکہ کے رو سےسب سے بڑی جہاد جہاد بالنفس ہے یعنی اپنی نفس امارہ، اندرکے انسان یعنی انا سے لڑنا، کیونکہ نفس انسانی پر شیطان کا بھی قبضہ ہے اور یہ نفس انسان کے ہر اچھی سو چ اور نیت کےسامنے حائل ہوجاتی ہے کوئی بھی اچھے کام اور اقدام اٹھانے نہیں دیتا، اگر اپ کہیں خرچہ کرنا چاہئے تو آپ کے ذہن میں اس کے حوالے سے منفی فطور پیدا کرتی ہے، یعنی کوئی بھی اچھے کام میں رکاٹ ڈالنے کی حرکت صرف اور صرف نفس امارہ کی طرف سے ہے، ممکن ہے اس تحریر کے پڑھتے ہی آپ سو قسم کے سوچ میں مبتلا ہوجائیں اور نشر اشاعت کے خلاف سوچنے لگ جائے تو سمجھو یہی نفس امارہ ہے ۔
اب اس سے کیسے نمٹ لی جائے تو اس کا سیدھا اور آسان جواب عقائد و عملیات کی درستگی اور اس کاتحفظ و بقا ہیں ۔اگر ہمارا عقیدہ مستحکم اور غیر متزلزل ہو جائے، معمولی معمولی ہوا کی جھونکوں سے ڈگمگا نہ جائے، عملیات میں ہم اس حد تک آگے نکل جائے کہ ہم شیطان اور نفس کی پہنچ سے دور ہو جائےاور شیطان دور سے ہمیں نظارہ کرنے پر ہی اکتفا کرکے کف افسوس ملتا رہ جائے ،اس مقام اورمنزل پہ پہنچنے کے لیے بھی بہت ساری قربانی کی ضرورت نہیں ہیں کیا؟کیوں نہیں اس منزل تک پہنچنے کے لیے قربانیاں درکار ہیں، یہ رتبہ یعنی محافظ تعلیمات محمد و آل محمد بنناآسان کام نہیں اس کے لئے لازوال قربانیوں کی ضرورت ہے، سب سے پہلے انا، نفس امارہ اور شیطان کے وساوس کو ختم کر کے انا کی قربانی لازمی ہے، اب اس انا کے اندر بہت ساری چیزیں شامل ہیں جو کہ ترتیب وار ہم بیان کرنے کی کوشش کریں گے ،کیونکہ نفس امارہ ہی کی وجہ سے انسان، پستی وذلت اور قابل شکست اور ناکام ہو جاتا ہے، انسان کے عروج میں نفس امارہ کی ناکامی جبکہ زوال میں نفس امارہ کی کامیابی کا راز پنہاں ہے، مقصد کلام قرآن پاک کی وہ آیت کریمہ ہیں جس میں رب متعال قادر مطلق نے فرمایا:قد افلح من ذکها. (سورۃ شمس آیت 9)جس نے اسے(نفس کو) پاک کیا وہ کامیاب ہوگیا، یعنی نفس کو پاک کر کے ہر قسم کی لغزش، کوتاہی اور گناہان صغیرہ کبیرہ سے بچنے والا، وساوس شیطان کی چنگل سے نجات ملنے والا، اور ہر کار خیر میں پیش پیش آنے والا ہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں ۔اس کے لیےایمان کامل، توکل، بھروسہ اور ایقان شرط ہے، اسی لئے مشکل کشا نے فرمایا:لا يرجون احد منکم الا ربه. (نہج البلاغہ کلمات قصار)صرف اللہ پاک پر مکمل یقین اور ایمان رکھو، کہ وہ قادر علی کل شی ہیں، وہ ذات بیک وقت سمیع یعنی سننے والے، بصیر دیکھنے والا ،علیم ہر چیز جاننے والا، بصیر ہر چیز دیکھنے والا، اور رحمان یعنی کل مخلوقات پر مہربانی کرکے رزق ووسائل دینے والا اوررحیم یعنی مسلمانوں پر رحم وبخشش کرنے والا ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔)