عقائد و تعلیمات کا تحفظ – قسط ۲


تحریر مولانا محمد اسحاق ثاقب


یہ مسلمات میں سے ہیں کہ عقائد کا تحفظ کرنا ہو یا تعلیمات کا بچاو اس کے لئے بہت محنت، لگن، جدوجہد، کوشش، قربانی، یہاں تک کہ اولاد و نسل تک کی قربانی درکار ہوتی ہیں ۔اس دور میں دیکھا جائے تو عقائد و تعلیمات صوفیہ امامیہ نوربخشیہ پر سوچے سمجھے سازش کے تحت اندرونی و بیرونی دشمنوں کی جانب سے ظاہری و باطنی حملے بھرپور جاری و ساری ہیں ۔کہیں عقیدے پر حملہ ہے تو کہیں فروعی احکامات پر، کہیں تقاریر میں ہم کو کافر و مرتد و بے دین کہا جاتا ہے تو کہیں تحاریر کے ذریعے فیکٹریوں سے کفر و ارتداد کے فتاوے دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ایسے میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہر شعبہ سے بالعموم اور شعبہ نشرو اشاعت کے زریعے سے بالخصوص بھر پور ابلاغ اور تبلیغ کی جائے تاکہ لوگ حقیقت سے آگاہ ہو کر راہ راست پہ گامزن ہوسکے ۔اگر ہم پر ظلم و ستم اور آزمائش ظاہری آجاے تو پریشانی اور گبھراہٹ کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ ہمارے یقین میں اضافہ ہونا چاہیے کہ ہم حق پہ ہیں اور حق والوں کے خلاف سازش، الزام، بہتان، ظلم ہوتے آئےہیں اور ہوتے رہیں گے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ظلم الزام، بہتان اور فتوٰی پر خاموش رہے بلکہ واجب ہے کہ ان پر حقیقت پیش کر کے حجت تمام کرے۔
ہمیں ہمارے مرشد و پیشوا مجتہد اعظم حضرت شاہ سید محمد نوربخش قدس سرہ نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی کلمہ گو مسلم کو کافر کہنے کی جسارت ہرگز نہ کرے، بلکہ فرمایا: جو شخص قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھے تو وہ مسلمان ہے۔
یعنی خواہ ہاتھ کھول کے پڑھے یا باندھ کے جس انداز و کیفیت سے بھی نماز پڑھے وہ مسلمان ہے۔
اس ضمن میں ہمارے علماء و دانشور اہل نظر حضرات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں میں بیداری کی تحریک چلائی جائے، ان کے شعور، جذبات اور احساسات کو اس طرح تربیت دے کر مہار کرے کہ سب ایک نقطہ پر متحد و یکجان نظر آے تاکہ دشمن سازش کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچنے پہ مجبور ہو جائے کہ ایسی بیدار قوم و ملت سے محاذآرای ہمارے لیے خود موت و فنا کے مترادف ہے اور یوں سازشی سازش سے پہلے ہمت ہار جائے ۔
ایسا کب ممکن ہے؟ کیونکر ممکن ہے،؟ کس طرح ممکن ہے؟
ایسا صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم ہر چیز کو نظام اور تدبیر کے ساتھ تحریری طور پر محفوظ کرے۔
اس وقت ممکن ہے جب ہمیں نشر اشاعت کی طاقت اور اہمیت کا ادارک ہو جائے۔
اس وقت ممکن ہے جب ہماری نابالغ قوم بالغ بن جائے۔
اس وقت ممکن ہے جب ہماری پرنٹنگ پریس بنے اور ہماری نشرواشاعت ہمارے ادارے سے چھپ جائے۔
اس وقت ممکن ہے جب ہمارے یومیہ، ہفتہ وار، مہینہ وار اور سالانہ پروگریس رپورٹ رسالہ یا لٹریچر کی صورت میں شایع ہو کے ہر ہر گھر کی زینت بنے اور تمام احباب کے ہاتھوں میں ہو۔
یہ صرف نشراشاعت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس سلسلے میں تمام اہل علم، اہل نظر اور دین کے درد رکھنے والوں سے تفصیلی مشاورت کرکے معاونت کے بارے میں بھی گفتگو ضروری ہے۔
اگر ہم امن دشمن عناصر کی طرف سے غیرضروری باتوں کو پھیلانے سے پہلے لوگوں کو بیدار کرے، نشر و اشاعت کے ذریعے جہاد بالقلم کی اہمیت کو سمجھ کر کام شروع اور سلسلہ اشاعت وکتابت کے لیے کمر کس لے تو شاید اگلی نسل کے لیے کچھ بچ جائے، کچھ پہنچ جائے اور اگلی جہاں میں یہ صدقہ جاریہ کے طور پر مستقبل آمدنی ثواب کا سبب بھی۔
کسی بھی چیز شے، زہن، عقیدہ، تعمیرات ظاہری و باطنی کو بنانے کے لیے بہت وقت لگتا ہے، صدی لگتی ہے، سوچ و دماغ صرف ہوتاہے
جبکہ اس کو خراب کرنے کے لیے، برباد و منہدم کرنے کے لیے کچھ منٹ ہی کافی ہے ،اسی طرح ان دونوں کےنتائج بہت دور رس اور گہرے بھی
حقیقت سے دور جہالت پرستی اور ظاہر پرستی نے ہر دور میں امت کے لیے مشکلات پیدا کیں ہیں اور کافی نقصانات پہنچائی ہیں ۔
مومن نما باریش ظاہرپرست ساتھیوں کی جہالت و ہٹ دھرمی نے عام انسان تو کجا، مشکل کشا شیر خدامولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی کمر مبارک پہ بھی گہری ہری زخم لگائی ہیں ۔
مثلا:جب جنگ صفین میں لشکر حیدر کرار جیت و فتح کے قریب تھی اتنے میں مخالفین نے قرآن پاک نیزے پہ اٹھایا اور پھر کیا ہوا، مشکل کشا کی لشکر میں موجود کچھ جاہلوں نے مشکل کشا پہ تلوار اٹھائی، اور جنگ بندی پر زور دیا ۔مشکل کشا نے جتنی آیات و احادیث کی دلائل دی ،مگربے سود،افسوس کسی پر کوئی فرق نہیں۔کیوں؟ اس لیے کہ انہیں قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی حقیقی معنوں میں پہچان و معرفت نہیں تھی، انہیں کوئی اثر نہیں ہوا، یوں مشکل کشا مجبور ہو کر جیتی ہوئی جنگ سے صرف نادان، جاہلوں کی جہالت کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے، اور مصلحتاً جنگ روک دی گئی جس کے بہت سارے نقصانات اب تک مسلمان بھگت رہے ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام کو جنگ روکنے پر مجبور کرنے والے اپنی ہی لشکر والوں نے بعد میں مولا علی علیہ السلام پر کفر کا فتوی جاری کر دیا اور خوارج کے نام سے مشہور ہوئے اور بعد میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے خلاف جنگ نہروان میں یہی خشک اور جاہل لوگ نمودار ہوئے، اور مولائے متقیان علیہ السلام نے ان خوارج پہ حجت بھی تمام کیں مگر ان خوارج پر کوئی اثر نہ ہوا،کیونکہ وہ خوارج صرف خود کو مسلمان اور باقیوں کو یہاں تک کہ (نعوذ باللہ) حضرت علی علیہ السلام تک کو کافر سمجھتے اور سرے عام اعلان کرتے تھے، باقاعدہ تبلیغی مہم چلاتے تھے کہ علی ابن ابی طالب اور امیر معاویہ دونوں کافر ہیں، ان کے ماننے والے بھی کافر ہیں، انکی مدد کرنے والے بھی کافر ہیں(نعوز باللہ)
یوں مجبور ہو کر جنگ چھڑی اور تقریباً اکثرخوارج اپنی جہالت و نادانی و اکڑبازی کی وجہ سے ایمان کے دائرے سے نکل کر جہنم و اصل ہو گے،
اور تاریخ کی شہادت کے مطابق باقی کچھ فی صد خوارج بھاگ نکلے جن کی شر و شرارت سے امت محمدیہ تاقیام قیامت تکلیف ظاہری اور باطنی میں ہیں اور رہےگی۔
اللہ ہمیں خوارجی فکرسے دور رہ کر علم و حقیقت کی پیروری کرنے کی اور اپنی انا کے سر کچل کر حقیقت کو پروان چڑھانے کی توفیق دے۔
یوں تاریخ اسلام میں امت محمدی کے اندر مسلمانوں کے مسلمانوں پر کفر کا فتوی لگانے کا پہلا بھیانک ،شرمناک اور خطرناک فعل کی بنیاد خوارج نے رکھی، جب نہروان کے مقام پر دونوں لشکر، لشکر شیر خدا اور لشکر خوارج نے پڑاو ڈالا تو مشکل کشا کے قریبی ساتھی بھی کچھ شش و پنج میں پڑگئے، کیونکہ ان کے چہرے پہ داڑھی، ان کی پیشانی پہ سجدہ کی واضح نشانی، ان کے خیمو ں سے قرآن پاک کی تلاوت کی آوازیں آتی تھیں، ان کی تمام ظاہری حرکات و سکنات سب اسلامی تھیں، مگر وہ خود کو مسلمان اور مشکل کشا کو کافر سمجھتے تھے، حقیقت سے دور تھے۔
جب سے خوارج نے اس تکفیری نظام کی بنیاد رکھی تب سے ان کی ذہنیت رکھنے والوں نے ان کی سیرت پر چلتے ہوے مسلمانوں پر کفر کے فتویٰ جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس کی کوئی پرواہ نہیں مگر ہم بیدار رہے، لوگوں تک حقایق پہنچاتے رہے، خصوصاً نشرو اشاعت کے ذریعے۔
[جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔]