مآخذ فقہ کا اجمالی جائزہ


تحریر علامہ اعجاز حسین غریبی



اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی کَرَّمَ بَنِیْ اٰدَمَ بِالنَّفْسِ النَّاطِقَۃِ لِلْکُلِّیَّاتِ وَفَضَّلَھُمْ بِا لْعُلُوْمِ النَّافِعَۃِ وَالْاَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ الْحَاکِیَۃِ مِنَ الْاَخْلَاقِ الْحَمِیدَۃِ عَلٰی سَائِرِ الْکَائِنَاتِ وَالصَّلٰوۃُ عَلَی الَّذِیْنَ شَرَّفَھُمْ بالْعُقُوْلِ الْکَامِلَۃِ وَالنُّفُوْسِ الزَّاکِیَۃِ وَالْقُلُوْبِ الصَّافِیَۃِ الْقَابِلَۃِ لِعُکُوْسِ التَّجَلِّیَاتِ وَاصْطَفَاھُمْ مِنْ نَوْعِ الْاِنْسَانِ بِالتَّائِیْدَاتِ السَّمَاوِیَّۃِ کَالْوَحْیِ وَالْاِلْھَامِ وَمُشَاھَدَاتِ الْمُغِیْبَاتِ خُصُوْصًا عَلٰی مُکَمِّلِ الشَّرَائِعِ وَخَاتَمِ النُّبُوَّۃِ وَ مُفَصِّلِ الْحَقَائِقِ وَجَامِعِ الْوِلَایَاتِ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَعلٰی اٰلِہِ الطَّاہِرِیْنَ۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ۔
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ
(۱) سورۂ التوبہ آیہ ۱۲۲
ترجمہ: اور (ہمیشہ کیلئے) مسلمانوں کو یہ (بھی) نہ چاہئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر ہر جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور جب اپنی قوم کے پاس واپس آئیں تو انہیں ڈرائیں تاکہ وہ (برے کاموں سے) بچے رہیں۔

فقہ کی تعریف
لغوی اعتبار سے فقہ ، تفقہ ، فقاہت سمجھ بوجھ ہے اور اصطلاحاً فقہ شریعت کے مسائل کے جاننے کو کہتے ہیں۔
ابتداء میں علم فقہ اکبر جو تمام اسلامی علوم یعنی اصول و فروع کا احاطہ کرتا تھا۔ اب جوں جوں اس علم نے ترقی کی ہےنئے علوم دریافت ہوتے گئے اور اب فقہ کا موضوع صرف فروعات رہ گیا ہے جسے فقہ اصغر کہاجاتا ہے ۔

شریعت محمدیہ ؐ
شریعت محمدیہؐ اصول و فروع کا مجموعہ ہے۔ اصول سے مراد عقائد ہے۔ اس عنوان کے ذیل میں عقائد و نظریات یعنی اللہ، محمدؐ کی ختم نبوت و رسالت سمیت انبیا و مرسلینؑ کی نبوت و رسالت، فرشتوں، قرآن پاک سمیت آسمانی کتابوں،یوم آخرت اور ان کے متعلقات کو ماننے سے متعلق بحث کی جاتی ہے ۔ جبکہ فروعات میں عبادات و معاملات یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اورمناکحات،مبایعات وغیرہ پر عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ عمل کرنے کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ قرآن ، حدیث ،اجماع ، عقل اور کشف و شہود مآخذ فقہ ہیںاور فقہ فقیہ و مجتہد کا ان مآخذ فقہی کی روشنی میں حاصل کردہ احکام شرعی کا مجموعہ ہے۔

مآخذ فقہ کا اجمالی جائزہ
کسی بھی حکم کا بنیادی مرجع قرآن و سنت ہی ہے کیونکہ یہ دونوں اسلامی احکامات کا اصل سرچشمہ و بنیاد ہیں۔ جو حکم قرآن و سنت کی تعلیمات سے متصادم ہووہ حکم شرعی نہیں۔ چنانچہ اسلامی احکامات کو قرآن و سنت نبویؐ سےمطابقت کو یقینی بنانے کیلئے جو علم وجود میں آیا اسے علم اصول فقہ کہا جاتا ہے اس علم میں ایسے قواعد و ضوابط کو ترتیب دئیے گئے کہ قرآن و سنت سے اصل حکم شرعی کو حاصل کیا جاسکے۔ یہ علم ہر دور میں ترقی کے منازل طے کرتا رہا۔ اسلام میں فقہ کے ماٰخذ مندرجۂ ذیل ہیں۔

۱۔قرآن پاک
قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمدؐ پر نازل کی۔ چونکہ یہ سلسلہٴ ہدایت کی آخری کتاب ہے اس لیے اس کی جملہ تعلیمات و تفہیمات کا ہر زمانہ میں یکسانیت کے ساتھ پایاجانا لازمی تھا اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے خطوط متعین کردیے جائیں اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق واضح احکامات موجود ہیں۔ قرآن مجید اللہ کا کلام اور دلائل اجتہادی میں سے ہے ۔اس ماٰخذسے جو حکم حاصل ہوتا ہے وہ قطعی اور یقینی ہے۔ قرآن مجید امت اسلامیہ کے اتفاقی منبع احکام ہیں ۔اصولاًو فر و عاًاور باقی ماٰخذ کو بھی اسی کتاب کے احکامات سے مطا بقت کے بغیر کو ئی حکم قابل عمل نہیں۔ اسی نکتہ کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں واضح کردیاہے۔
یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوْا اللہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُولَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ (۱)
سورہ نساء،آیت ۵۹
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولؐ اور صاحبان امر کی بھی اطاعت کرو۔

۲۔ احادیث مبارکہ
فقہ اسلامی کا دوسرا ماٰخذ سنت ہے۔ سنت کے لغوی معنی راستہ اور طریقہٴ عمل کے ہیں۔ اصطلاح میں سنت رسول اللہؐ کے اقوال، افعال اور تقریرات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح حضور پاکؐ کے بعد آنیوالے ان کے جانشین ائمہ معصومینؑ کے فرامین بھی اسی سنت کا حصہ ہیں کیونکہ رسول اللہؐ نے ان کی اطاعت کو بھی لازمی قرار دیاہے۔
حضورؐ کی احادیث مبارکہ درحقیقت احکام الٰہیہ پر مشتمل آخری آسمانی کتاب قرآن پاک ہی کی تفسیر ہیں۔ سنت رسولؐ کی حجیت بھی قرآن مجید کی متعدد آیا ت سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ نے گفتار پیغمبرؐ کو اپنا کلام قرار دیدیا۔
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُّوْحیٰ۔
سورۂ نجم، آیت ۳،۴
ترجمہ: وہ (نبیؐ) اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، مگر وہ تو وحی ہے جو ان پر کی جاتی ہے ۔
وَمَآاٰ تَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۔
سورۂ حشر آیت ۷
ترجمہ: رسول اللہؐ جو کچھ تمہیں دیدے انہیں لے لو اور جس سے منع کرے اس سے اجتناب کرو۔
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
ترجمہ:تو کہہ اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ سے تو میری راہ چلو کہ اللہ تم کو چاہے۔
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ
ترجمہ: جس نے رسول ؐکی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ۔
تائید و حمایت ایزدی نے سنت رسولؐ پر عمل کرنے کی ضرورت اور اسکی اہمیت کو واضح کر دیا۔ چنانچہ قرآن مجید وحی متلو اور حدیث رسولؐ وحی غیر متلو قرار پائے۔ قرآن ضابطہ کلیہ ہے جو ناقابل تبدیل اور ناقابل تحریف ہے جبکہ احادیث نبی ختمی المرتبتؐ اور ان کے بعد آنیوالے ائمہ معصومین ؑ کے فرامین اس کی تشریح اور عملی شکل ہیں۔ چنانچہ حضورؐ سے ائمہ معصومینؑ، اہل بیت اطہارؑ، صحابہ کرامؓ، صحابیاتؓ نے جو احادیث مبارکہ روایت کی ہیں یہ احادیث پیامبر سے صدور کی قطعیت اور معنی روشن ہونے کے بعد حجت ہیں اور ان میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ حضرت امام علی مرتضیٰ ؑ سے لے کر حجت حق حضرت امام محمد مہدی علیہ التحیۃ و السلام تک کے فرامین بھی حجت ہیں کیونکہ یہ ہستیاں رسول اللہؐ کے علمی وارث ہیں اور ان کے اقوال و کردار قرآن و حدیث نبویؐ کی قولی و عملی تشریح ہیں۔یہ تمام ائمہؑ معصوم من اللہ ہیں اور ان کی امامت نبوت کا لازم بین ہے۔ چنانچہ علامہ بشیر مرحوم کتاب الاعتقادیہ کے آغاز سخن میں لکھتے ہیں کہ امامت کو نبوت کے لازم بین ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ دیکھئے۔ ص ۱۴۔
مزید لکھتے ہیں کہ علوم نبوت کی وراثت لینے و الی امامت یقینی طور پر نبوت کی لازم بین کی حیثیت رکھتی ہے۔ دیکھئے۔ ص ۱۵۔
مزید لکھتے ہیں کہ ائمہ کرام علیہم السلام علی الترتیب یہ ہیں۔ آدم الاولیا علی علیہ السلام۔۔۔۔۔ مہدی آخر الزمان۔ دیکھئے ص ۱۷۔

۳۔اجماع
فقہ اسلامی کا تیسرا مآخذ اجماع ہے۔ اجماع کے لغوی معنی کسی بات پر متفق ہوجاناکے ہیں۔ اجماع کا محل یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل قطعیہ نہ ملے تو علمائے کرام اس مسئلے پر اپنی علمی بساط کے مطابق بالاتفاق کوئی حکم قائم کرلیتے ہیں۔ اسے اجماع کہا جاتا ہے۔
حضرت شاہ سید محمد نوربخش ؒ کے نظریہ کے مطابق وہی اجماع حجت ہے جس پر پوری امت اسلامیہ کا اتفاق ہو اور اختلاف سے بری ہو۔ کسی خاص گروہ یا فرقے کی اتفاق رائے کو اجماع نہیں کہا جاسکتا۔ جیسا کہ آپ ؒنے نکاح متعہ کی بحث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
وَالْاِجْمَاعُ حَقِیْقَۃً مَاکَانَ بَرِیْئًامِنَ الْخِلَافِ فَاِذَا حَکَمَ حَاکِمٌ ذُوْ شَوْکَۃٍ بِاَمْرٍ وَلَمْ یَقْدِرْ اَحَدٌ عَلٰی خِلَافِہٖ خَوْفًا مِّنَ الْقَتْلِ اَوِ الْعِرْضِ لَمْ یَکُنْ اِجْمَاعًا۔ وَاَنَا مَامُوْرٌ بِرَفْعِ الْبِدَعِ عَنِ الشَّرِیْعَۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَاِحْیَائِ مَا فِیْ زَمَانِہٖ
فقہ الاحوط باب النکاح ص ۱۷۸
حقیقی اجماع وہ ہے جو اختلاف سے بری ہو۔ تاہم اگر کوئی رعب ودبدبہ والاحاکم کسی چیز کا حکم دے جبکہ دوسرے لوگ قتل یا ہتک عزت کے خوف سے مخالفت نہ کر پائیں تواسے اجماع نہیںکہا جاسکتا ۔ میںشریعت محمدؐیہ سے بدعتو ں کے خاتمے اور ان احکام کی احیاء پرمامور ہوںجوآپ ؐکے زمانے میں رائج تھی ۔

۴۔ عقل
عقل و شعور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسان و حیوان کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔دیگر مخلوقات سے انسان کو جو چیز افضل اور ممتاز بناتی ہے وہ یہی عقل ہے۔ اسی کے ذریعے سے انسان بڑے چھوٹے ،صحیح و غلط اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ اسی عقل کی بنیاد پر انسان کوشرعی احکام کا مکلف بنایاگیا ہے ۔ چنانچہ غیر ذوی العقول جیسے جمادات و نباتات ،چرندو پرند، احجار و اشجار یہ سب شریعت کے مکلف نہیں۔بلکہ یوں کہئے کہ اگر انسان کی بھی عقل زائل ہوجائے تو وہ بھی شرعی احکامات کا مکلف نہیں رہتا ،جیسا کہ جنون ،غشی ،بے ہوشی وغیرہ ۔ قرآن مجید میں عقل کے استعمال اور اس کے فوائد کے حوالے سے متعدد آیات مبارکہ موجود ہیں۔ چنانچہ قرآنی آیات صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ سمجھنے اور ادراک کے لیے نازل ہوا ہے۔ آیات کی تلاوت انہیں سمجھنے کی تمہید ہے ۔ عقل سلیم کے ذریعے تذکر و تدبر کرکے ہی انسان اللہ کی ذات کے وجود کو تسلیم کرتا ہے اسی عقل کے ذریعے ہی وہ حدیث رسولؐ پر غور کرتا ہے۔ حدیث ائمہ معصومین ؊کے بارے میں جانکاری حاصل کرتا ہے۔ احکام کے استنباط میں بنیادی کردار عقل ہی کا ہے۔چنانچہ عقل قرآن مجید اور سنت نبویؐ کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتی بلکہ عقل کا حکم قرآن اور سنت صحیحہ کے عین مطابق ہوتا ہے اور عقل سلیم کا حتمی حکم، شرعی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔

۵۔ کشف و شہود
اس میں کوئی شک نہیں کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ تاہم اسے اپنے بندگان خاص کو اس علم سے سرفراز فرمانا ناممکن نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیا ؑو ائمہ کرامؑ ،اولیاء عظام ؒکے علاوہ اپنے بندوں میںسے جسے چاہے اپنے اسرار سے مطلع کیا ہے اسی اطلاع کو کشف وشہود کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے بھی خاصان خدا آیات واحادیث میں اختلاف درپیش ہو تو کشف و شہود سے صحیح حکم تک پہنچ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کشف و شہود ہر وقت اور ہر ایک کیلئے ماٰخذ فقہ نہیں ہے۔ چنانچہ جہاں قرآن، سنت ، اجماع اور عقل کے ذریعے حکم کے حصول کا امکان موجود ہو وہاں کشف و شہود کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں۔ اسی طرح ہر فقہ کا علم رکھنے والاکشف و شہود سے احکامات کا اجرا ءنہیں کرسکتا۔ یہ صرف انبیاؑ، ائمہ اطہارؑ اورسلسلۂ طریقت کے روحانی پیشوائوں سمیت اولیاء عظامؒ کیساتھ خاص ہے۔ کشف وشہود اسی بندے کے لئے خاص ہے جس طرح قطاع کا قطع صرف اسی کیلئے حجت ہے۔

اسلامی فقہی مکاتب
بدقسمتی سے مسلمان استنباط حکم کے حوالے سے اختلافات کا شکار ہے ۔ انہی فقہی استنباط کے طریقہ میں اختلاف کے باعث اسلام چھ مختلف مکاتب فکر میں تقسیم ہے۔ اگرچہ اکثر معاملات میں طریقہ استنباط اور حکم مشترک ہے تاہم سینکڑوں مسائل میں ہر مکتب فکر کی اپنی اپنی رائے موجود ہے۔
۱۔ فقہ حنفی: اس فقہ کے بانی امام ابو حنیفہؒ ہیں اور پیروکار حنفی کہلاتے ہیں۔۸۰ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۵۰ھ میں وفات پائی۔
۲۔فقہ مالکی : امام مالکؒ سے منسوب ہے۔ آپ۹۳ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۷۹ھ میں وفات پائی۔
۳۔ فقہ حنبلی : امام احمد بن حنبل ؒکا مسلک ‘پیروکار حنبلی کہلاتے ہیں۔ ۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۴۱ھ میں وفات پائی۔
۴ ۔ فقہ شافعی : امام شافعی ؒکا مکتب فکر پیروکار شافعی کے نام سے مشہورہے، آپ ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۰۴ھ میں وفات پائی۔
۵۔ فقہ جعفریہ: ، یہ مکتب فکر شیعہ اثنا ءعشریہ کے نام سےمشہور ہے۔
۶۔ فقہ نوربخشیہ: امام سید محمد نوربخشؒ کے پیروکار اور فقہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ سے منسلک ہے ، یہ عمومی طور پر فقہ نوربخشیہ کے نام سے مشہور ہے۔ امام سید محمد نوربخشؒ۷۹۵ھ میں قائن مشہد میں پیدا ہوئے اور ۸۶۹ھ میں رے میں انتقال فرماگئے۔
حضرت شاہ سید محمد نوربخشؒ آخر الذکر مکتب فکر کے فقہی امام ہیں اسلئے انہیں ’’امام نوربخشؒ ‘‘کہنا اور لکھنا زیادہ مناسب ہے تاکہ فقہ سے متعلق ان کی عظمت و قدر کو واضح کیا جاسکے۔ اسی وجہ سے کتاب تحفۃ الاحباب کے مصنف کا کہنا ہے کہ حضرت میر محمد عراقی بت شکن ؒ ہمیشہ شاہ سید محمد نوربخشؒ کو ’’امام نوربخشؒ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
(جاری ہے)