مشکل کہاں پر ہے ؟


تحریر سید بشارت حسین تھگسوی thagasvi1992@gmail.com


بسم اللہ الرحمن الرحیم
کوئی بھی ادارہ خواہ وہ سرکاری ہو یا نجی اس وقت بہترین انداز میں چلتا ہے جب اس کے ملازمین اپنے عہدے اور منصب کے لحاظ سے ذمہ داری پوری کریں اور اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں، نیز دوسروں کے کاموں میں غیر ضروری دخل اندازی سے پرہیز کریں ۔ یہ قانون اور اصول یقیناً کسی بھی ادارے کی کامیابی کے لئے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ اصول کامیاب اداروں سے مربوط ہے لیکن اگر ہم اپنے معاشرے یا اپنی ملت حتی کہ مسلک کے اندر بھی یہ قانون جاری کریں تو وہ معاشرہ یا وہ مسلک بہترین انداز میں ترقی کی منزلیں طے کرسکتا ہے ۔ دین مبین اسلام نے بھی ہمیں یہی درس دیا ہے کہ ہر کوئی اپنی ذمہ داری پوری کرے لیکن دوسروں کے کاموں میں بے جا ٹانگ اڑانے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان کو اپنی حیثیت کا علم نہ ہو یعنی جب انسان اپنے آپ کو پہچانے بغیر بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے تو اکثر اوقات نہ صرف خوداس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ دوسرے بھی اس کی وجہ سے مشکل میں پڑ جاتے ہیں ۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے اور اپنی علمی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرے ۔ اسی لئے کائنات کے مولا علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو پہچانا یقیناً اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا ۔
اس وقت مسلک نوربخشیہ کے اہم مسائل میں سے ایک یہی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کی پہچان اور شناخت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے وہ نہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ کبھی تو ہمارے جانے انجانے میں انجام دینے والے کاموں کی وجہ سے دوسرے کی دنیا اور آخرت بھی مشکل میں نظر آتی ہے ۔ اس وقت دنیا میں رائج کسی بھی دین، فرقہ ، مسلک یا مذہب کے بارے میں تحقیق کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین و ملت کے پیروکار اس شخص کو اپنا رہنما ،لیڈر یا پیشوا مانتے ہیں جو کم از کم اسی ملت و مذہب کے بارے میں جاننے والا ہو اور دین کی تعلیمات سے آگاہ ہو، مگر ہمارے ہاں ایک عجیب سلسلہ چل پڑا ہے کبھی ایک ڈاکٹر دین کا عالم و محقق بن کر مسلک کے عقیدے کا ایک تصور پیش کرتا ہے تو کبھی ایک انجنئیر دین کی تفسیر و تشریح میں مصروف ہے یہاں تک کہ میں اس وقت حیران و پریشان ہوگیا جب کسی یورپی ملک میں رہنے والا شاید پیشے کے لحاظ سے خانساماں[Chef] ہے ، اس نے دینی مسائل اور ان کے حل کے عنوان سے سوشل میڈِیا پر ایک لیٹریچر [بروشر] بنا کر دیا تھا جس میں محترم نے احکام اسلامی حلال و حرام کے حوالے سے مختلف فتاویٰ اپنی طرف سے جاری کیا تھا ۔ مزے کی بات اس بندہ خدا کو اردو کی لکھائی بھی نہیں آتی تھی اور “ح” سے شروع ہونے والے کلمہ کو “ہ” سے جبکہ بہت سارے مقامات پر “س” سے شروع ہونے والے الفاظ کو “ص ” سے بھی لکھا تھا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس بندے کو اپنی قومی زبان اردو بھی نہیں آتی اورجو کسی مدرسے یا دینی ادار ے کے قریب سے بھی نہیں گزراہو ، وہ اپنی مرضی سے دین کی تشریح کیسے کررہا ہے اور حلال و حرام کے حوالے سے کہاں سے فتاویٰ جاری کرتا ہے ؟یہ مثال کے طور پر صرف ایک مورد کی طرف اشارہ ہے ورنہ آجکل سوشل میڈِیا پر ہر ایک محقق اور ہر ایک مفتی بنا بیٹھا ہے ۔
اسلامی تعلیمات عقائد ، احکام اور اخلاقیات پر مشتمل ہیں ۔ ان میں سے سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ عقائد کے مسائل ہیں ۔ اس اہم مسئلے کو سمجھنے اور ان کی اصطلاحات سے آگاہی کے لئے علم کلام کا ماہر ہونا ضروری ہے ۔ اسی لئے عالم اسلام کے تمام مدارس میں علم کلام یعنی عقائد کے شعبے کو خاص اہمیت دیا جاتا ہے تا کہ عقائد کے حوالے سے جہاں تک ممکن ہو مسائل حل ہوں ۔حضرت شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس علم کی اہمیت کے پیش نظر رسالہ اعتقادیہ تصنیف کی اور اس میں عالم اسلام کے درمیان پائے جانے والے کلامی و اعتقادی اختلافات کے حل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ۔ یہاں افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس اہم اور پیچیدہ ترین مسئلے پر ہمارے ہاں ہر کوئی صاحب نظر بنا بیٹھا ہے، کبھی ایک انجنیئر یا ڈاکٹر خلافت کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی دوسرا عام بندہ امامت کے حوالے سے بے شمار دلائل لانے میں مصروف ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں کے پاس نہ علم کلام و عقائد کے حوالے سے علم ہے اور نہ اس علم کی اصطلات سے آگاہی ۔
دوسرا اہم مسئلہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ نہ ہونا ہے بلکہ یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ آگاہی کے باجود ذمہ داری سے جان چھڑا کر تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کا ملبہ دوسرے کے اوپر ڈالنا ہے ۔ مثلاً آج کل ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمارے علماء نے کچھ کام نہیں کیا ، ہمارے پیر صاحب تبلیغ نہیں کرتے اور سارے مسائل ہمارے ذمہ دار افراد کی عدم توجہی کی وجہ سے ہے ۔ یعنی تمام مشکلات اور مسائل کا ذمہ دار دوسرے کو ٹھہرا کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینا۔ اس کے جواب میں دو باتیں عرض کی جاسکتی ہیں :پہلی یہ کہ تھوڑی دیر کے لئے بات مان لیتے ہیں کہ تمام غلطیاں علماء اور دوسرے ذمہ دار افراد کی ہیں لیکن آپ خود تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ آپ اس مسلک کے لئے کیا کررہے ہیں ؟جو آپ سے ہوسکتے ہیں وہ کیوں نہیں کرتے ؟ مثلاً بچوں کی تربیت کے لئے کوشاں کسی مکتب یا کسی ادارے کے لئے ہر ماہ کتنا عطیہ دے رہے ہیں ؟ چوبیس گھنٹے میں سے کم از کم دو گھنٹے سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں تو دن میں مسلک اور مذہب سے مربوط کتنے مواد اپلوڈ کرتے ہیں ؟ اگر آپ کے پاس خود معلومات نہ ہو تو کتنی بار اپنی ویب سائٹ کا وزٹ کرتے ہیں اور وہاں سے اب تک کتنی نوربخشی کتابوں کا مطالعہ کرچکے ہیں نیز اب تک سائٹ سے کتنے مضامین پڑھ چکے ہیں ؟ میرے محترم بھائیو! ہر کام علما ء اور بڑوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ کچھ کام ہمیں خود بھی کرنا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت نوربخشیوں میں “شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ” والی بات بنی ہوئی ہے ، علما ء کے کاموں کو دوسرے افراد انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں ہر دوسرا آدمی فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا کے ذرائع پر عالم دین بنا بیٹھا ہے ، ہر بندہ ایک دوسرے کو غیر نوربخشی و غیر مسلمان ہونے کے فتاویٰ صادر کررہے ہیں ۔ لہذا ہمیں پہلے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے پھر ہر کوئی اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق اس پر عمل کرے ۔ جب وہ کام جو اپنی بس سے باہر ہو اسے انجام دینے کی ناکام کوشش کریں گے تو نتیجہ وہی ہوگا جو آج ہمارے سامنے ہے ۔ اس کائنات میں معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی انسان ایسا نہیں جس سے غلطی سرزد نہ ہوتی ہو ، ہمارے موجودہ مشکلات اور مسائل میں علما و بزرگان کی کوتاہیاں بھی ہونگی کیونکہ آخر وہ انسان ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سارے مسائل کا ذمہ دار وہی ہیں اور ہم سب بری الذمہ ہیں۔ بلکہ ہمارے موجودہ حالات کے ہم سب ذمہ دار ہیں ، ہم سب کی غلطیاں اور کوتاہیاں شامل ہیں ۔ہمیں اپنی غلطیوں کو ماننا پڑے گا اور ان کی اصلاح کے لئے کوشش کرنی ہوگی ورنہ ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے رہیں گے تو حالات نہیں بدلیں گے ۔
ایک اور اہم بات ہمارے ہاں مطالعہ کی کمی ہے ۔ یعنی ہم اپنی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے بلکہ ایک کتاب کے کچھ مطالب پڑھ کر اپنے آپ کو سب سے بڑا اسکالر سمجھنے لگتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سلسلہ ذہب کے بزرگان مثلاًشیخ علاءالدولہ سمنانی، شیخ نجم الدین کبریٰ، امیر کبیر سید علی ہمدانی اور حضرت شاہ سید محمد نوربخش رحمۃ اللہ علیہم نے ہر موضوع پر قلم فرسائی کی ہیں۔ ہم صرف دعوات اور فقہ کے ترجمے پڑھ کر مسلک نوربخشیہ کی تمام تعلیمات کے ماہر سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ایک دن کسی بندے سے فیس بک پر بات ہوئی وہ کہہ رہا تھا: شاہ سید رح کی نظر میں خلافت کا نظریہ درست ہے ۔ میں نے عرض کیا : آپ نے شاہ سید کی اب تک کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ؟ تو کہنے لگا :فقہ احوط باب طہارت اور صلواۃ کا اردو ترجمہ پڑھ چکا ہوں ۔ میں نے ان سے کہا: آپ کو معلوم ہے شاہ سید کی تصنیفات کی تعداد کتنی ہے؟ کہنے لگے :ہمارے لئے صرف فقہ ہی کافی ہے ۔ سوشل میڈیا مفتی بنے بیٹھے تقریباً سب کا حال ان سے مختلف نہیں ہے ۔
لہذا جوانوں ،پڑھے لکھے افراد اور مسلک نوربخشیہ کے غیور پیروکاروں سے التماس و التجا یہی ہے کہ پہلے اپنے بزرگان کی تعلیمات کا مطالعہ کریں پھر ان تعلیمات کو دنیا تک پہنچانے کے لئے اور مسلک کی خدمت کے لئے ہر کوئی اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق کام کرے ، ہر ایک اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو کر ان کو پوری کرے ، ایک دوسرے پر بے جا کیچڑ اچھالنے کی بجائے ہر کوئی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔