کرونا وائرس کیا ہے اور اس سے کیسے بچا جائے؟


تحریر علامہ اعجاز حسین غریبی


کرونا کیا ہے

کرونا ، کرونا ،کرونا، یہ بیماری کیا ہے، کیسے پیدا ہوئی۔ کیسے اس سے بچا جائے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل زبان زد عام ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ذرائَع ابلاغ نے بھی اس بیماری کے حوالے سے خبروں کی تشہیرمیں خوف اور ڈر کے عنصر کو بھی شامل کرکے معاشرے کو خوف زدہ و لرزاں کر رکھا ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے جہاں ہرنیم حکیم اور نیم ملا اپنے تجربات اور نسخہ جات دینے میں مصروف ہیں۔
بیماری ایک حقیقت ہے۔ اس طرح کے کئی وائرس اس معاشرے میں پہلے سے موجود ہیں لیکن صرف اس بیماری کو بنیاد بنا کر لوگوں میں اتنا خوف و ہراس پیدا کرنا ہمارے معاشرے کا المیہ ہی ہے۔ صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس وبا کو آرام سے شکست دی جاسکتی ہے ۔
کرونا کی پیدائش کے بارے میں سائنسدانوں کے مطابق اس وائرس کے پیدا کرنے اور پھیلانے میں چمگاڈر نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جنگل میں کئی جانوروں میں یہ وائرس موجود ہوسکتا ہے جبکہ چمگادڑمیں کئی طرح کے کرونا وائرس پائے جاتے ہیں۔مریضوں کی تشخیص کے دوران سائنسدانوں نے ایک وائرس کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے منتقل ہوا ہے چونکہ چمگادڑیں لمبی پرواز کرتی ہیں اور اس کی اڑان ہر براعظم میں ہوتی ہے ممکن ہے کہ اس کی لمبی اڑان کے دوران یہ پرندہ کہیں سے اس وائرس کا شکار ہو گیا ہو چونکہ اس جانور کے اندر بیماریوں سے لڑنے کی بھرپور صلاھیت ہوتی ہے اس لئے وہ خود اس سے اتنا متاثر نہیں ہوتا لیکن اس پرندے نے بڑے پیمانے پر وائرس پھیلانے میں کردار ادا کیا ہے۔ چین میں چونکہ چمگاڈر کا گوشت کھایا جاتا ہے ،اس لئے ممکن ہے کہ کسی وائرس والے چمگاڈر سے یہ بیماری انسان میں منتقل ہوئی اور اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
کرونا وائرس جسے میڈیکل زبان میں کووڈ 19نام رکھا گیا ہے، اب تک 157ممالک میں میں پھیل چکا ہے اور 182000سے زائد افراد کو یہ بیماری لاحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں سے 7000ہلاک جبکہ 79000افراد صحتیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اب تک 184افراد میں یہ بیماری تشخیص ہو چکی ہے جن میں سندھ میں سب سے زیادہ 150جبکہ کے پی میں 15بلوچستان مین 10، گلگت بلتستان میں 5جبکہ اسلام آباد اور پنجاب میں 2,2مریض شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار میں مسلسل اضافہ بھی دکھائی دے رہا ہے ۔

علامات

اس بیماری کی علامات کیا ہیں؟ اس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدا میں بخار پھر خشک کھانسی ہوتی ہے۔ ایک ہفتے سے چودہ دنوں کے درمیان سانس لینے میں دشواری کا مسئلہ پیش آسکتا ہے۔ بیماری لگنے کے بعد علامات ظاہر ہونے میں 14 دنوں کا وقت لگ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر بروقت تشخیص ہو جائے اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائے تو یہ بیماری قابل علاج ہے اور شرح اموات نہ ہونے کے برابر ہے۔

احتیاطی تدابیر

اس بیماری کے لاحق ہونے سے بچنے کیلئے مندرجہ ذیل تدابیر پر عمل کیا جائے۔
٭…… اپنے ہاتھوں کو گھنٹہ یا دو گھنٹے بعد صابن سے دھو لیا جائے یا سینی ٹائزر استعمال کیا جائے۔
٭…… کھانستے یا چھینکتے وقت اپنے منہ کو ٹشو یا کسی کپڑ ے سے ڈھانپ لیا جائے اور پھر فورا ضائع کیا جائے اور ہاتھ کو دھولیا جائے۔
٭……ہاتھوں پر وائرس کی ممکنہ موجودگی کے پیش نظر ہاتھ آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کیا جائے۔ اگر ہاتھ متاثر ہو تو یہ وائرس جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
٭……چھینکنے یا کھانسنے والے لوگوں سے کم از کم ایک میٹر یا تین فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔
٭……اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو گھر میں رہا جائے۔ بخار یا کھانسی یا سانس لینے میں دشواری کی صورت میں فوری طبی مدد حاصل کی جائے۔
٭…… اگر کوئی خدانخواستہ اس بیماری سے متاثر ہو تو اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اس وبا سے بچانے کیلئے ماسک کا استعمال کیا جائے۔ خود کو وائرس کے خاتمے تک تنہا رکھنے کی کوشش کی جائے۔
٭…… اسلام میں سلام کرنا سنت عمل ہے ہاتھ ملانا اور معانقہ کرنا بھی صحتمند ہونے کی صورت میں باعث ثواب ہے۔ تاہم اگر ہاتھ ملانے، مصافحہ کرنے اور گلے ملنے سے کسی کو جسمانی طور پر بیماری منتقل ہونے کا خطرہ ہو تو ایسے عمل سے اجتناب کرنا بھی شرعا واجب ہے۔
٭…… جہاں دینی اجتماعات ہوتے ہیں وہاں بھی احتیاطی تدابیر کا لحاظ رکھنا دوسرے لوگوں کو اس بیماری سے بچانے کیلئے ضروری ہے۔

کیا ماسک کا استعمال ضروری ہے

ماہرین کے مطابق ہر کسی کو ماسک کا استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بازار، دفاتر اور عوامی مقامات پر مسلسل ماسک کا استعمال ایک طرف غیر ضروری ہے دوسری طرف ماسک کا بلاوجہ اور غیر ضروری استعمال مارکیٹ میں اس کی قلت کا سبب بھی بن سکتا ہے جس کے باعث جن کو ماسک کی ضرورت ہوتی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ساتھ ہی کسی مریض کو فائدہ ہو نہ ہو ماسک کے کاروباری افراد کا کاروبار چمک سکتا ہے۔ تاہم ماسک کا استعمال ان لوگوں کیلئے ضروری ہے جو ایسے ملک کے سفر سے واپس آئے ہوں جہاں یہ وائرس موجود ہو۔ یا اس وائرس سے متاثرہ شخص سے ملاقات ہوئی ہو۔ ہاتھ ملایا ہو، یا اس کی تیمارداری کر رہے ہوں۔ ایسے لوگوں کو کیلئے ماسک کا استعمال بہت ضروری ہے۔ ساتھ اس وائرس کا شکار افراد بھی ماسک استعمال کریں تاکہ مزید لوگوں کو یہ بیماری پھیلنے سے روکا جاسکے۔

علاج و معالجہ

جس شخص کے اندر مدافعتی نظام مضبوط ہو اسے اس وائرس کو شکست دینا مشکل نہیں ہے۔ اب اس بیماری کا علاج بنیادی طریقوں سے کیا جا رہا ہے، مریض کے جسم کو فعال رکھ کر، سانس میں مدد فراہم کر کے، تاوقتکہ ان کا مدافعتی نظام اس وائرس سے لڑنے کے قابل ہو جائے۔
یہاں یہ بات کرنا انتہائی ضروری ہے کہ وبا سمیت تمام بیماریوں کا علاج کرانا شرعی اعتبار سے لازمی ہے۔ حیات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضوؐر نے فرمایا کہ بیماریوں کیلئے دوا کر لیا کرو اے اللہ کے بندو! اس لئے کہ اللہ نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ساتھ ہی ان کی دوا بھی پیدا کی ہے۔ اس لئے اس وبا کا بھی جتنا ممکن ہو سکے معاشرے میں دستیاب دواوں سے علاج کرانا لازمی ہے۔ تاہم قدرتی آفات میں ہمیں اللہ کے حضور بھی عبادات اور توبہ گزاری کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ اللہ کی ذات ہی آفات کو ٹال سکتی ہے اور مشکلات ختم کرسکتی ہے۔ دوا اور دعا کی اثر انگیزی بھی اس ذات کے بغیر ناممکن ہے۔ چنانچہ بیماریوں کے ظاہری علاج و معالجے کے ساتھ ساتھ روحانی علاج یعنی دعا، عبادات، توبہ وغیرہ پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ہمیں قرآن پاک کی آیات شفا اور دیگر دعائیں بھی پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ اس وبا کا خاتمہ ہو اور ہم سب سکھ کا سانس لے سکیں۔